غیر معمولی سرگرمی دیکھنے میں آئی اور اس دوران کچھ تاریخی فیصلے اور واقعات رونما ہوئے، کچھ کیمروں کے سامنے اور بیشتر بند کمروں میں۔
سنیچر کے روز تمام دن گہما گہمی کا مرکز پارلیمنٹ ہاؤس رہا جہاں کبھی تقاریر ہوتیں اور کبھی اجلاس ملتوی کر کے حکومتی اور اپوزیشن
ارکان سپیکر قومی اسمبلی کے درمیان مذاکرات کیے جاتے رہے۔
لیکن شام کے وقت جب قومی اسمبلی کا اجلاس روزہ افطار کرنے کے لیے ملتوی کیا گیا تو سرگرمی کا مرکز اچانک وزیراعظم ہاؤس بن گیا۔
وزیراعظم عمران خان نے وفاقی کابینہ کا ہنگامی اجلاس طلب کر**
لیا اور اس کے ساتھ ہی اپنے قانونی و سیاسی مشیروں، سپیکر و ڈپٹی سپیکر اور بعض بیوروکریٹس کو بھی طلب کر لیا گیا۔
کابینہ کے اجلاس میں اس مبینہ کیبل کو بعض عہدیداروں کو دکھانے کی منظوری دی گئی جس کے بارے میں سابق وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ اس مراسلے میں ان کی حکومت کے**
خاتمے کے لیے امریکی سازش کی تفصیل درج ہے۔
اس دوران قومی اسمبلی سپیکر اور ڈپٹی سپیکر بھی ایوانِ وزیراعظم پہنچے
لیکن انہیں وزیراعظم کے دفتر کے برابر والے لاؤنج میں انتظار کرنے کا کہا گیا..
اس دوران دو بن بلائے مہمان (جنرل باجوہ )
بھی بذریعہ ہیلی کاپٹر، غیر معمولی سکیورٹی
اور چاق و چوبند جوانوں کے حصار میں وزیراعظم ہاؤس پہنچے اور وزیراعظم سے تقریباً پونا گھنٹہ تنہائی میں ملاقات کی۔
اس ملاقات میں کیا بات ہوئی ظاہر ہے، اس بارے میں کوئی اطلاعات دستیاب نہیں ہیں تاہم باوثوق اور معتبر سرکاری ذرائع نے جنھیں اس ملاقات کے بارے**
میں بعد میں معلومات فراہم کی گئیں، انھوں نے بتایا کہ یہ ملاقات کچھ زیادہ خوشگوار نہیں رہی۔.
ملاقات میں موجود (جنرل باجوہ)
کو اس وقت کے وزیراعظم عمران خان نے ایک گھنٹہ قبل ہی ان کے عہدے سے برطرف کرنے کا حکم جاری کیا تھا۔
اس لیے وزیراعظم کے لیے ان مہمانوں کی
یوں بن بلائے اچانک آمد غیر متوقع تھی۔ عمران خان ہیلی کاپٹرز کے منتظر تو تھے لیکن اس ہیلی کاپٹر کے مسافروں کے بارے میں ان کا اندازہ اور توقعات بالکل غلط ثابت ہوئیں۔
ان ذرائع کا کہنا ہے کہ سابق وزیراعظم توقع کر رہے تھے کہ اس ہیلی کاپٹر میں
ان کے نو مقرر کردہ عہدیدار
(جنرل فیض) وزیراعظم ہاؤس پہنچیں گے اور اس کے بعد وہ شور و غوغا مدھم پڑ جائے گا جو سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد پارلیمنٹ ہاؤس سے شروع ہوا تھا۔
شاید ایسا ہو بھی جاتا لیکن مسئلہ یہ ہوا کہ اس جنرل باجوہ برطرفی اور ایک نئی تعیناتی جنرل فیض کے لیے جو **
قانونی دستاویز (نوٹیفیکیشن) وزارت دفاع سے جاری ہونی چاہیے تھیں وہ جاری نہ ہو سکیں یوں اس ’انقلابی‘ تبدیلی کی وزیراعظم ہاؤس کی کوشش ناکام ہو گئی۔
ویسے اگر وزیراعظم کے حکم پر برطرفی کا یہ عمل مکمل ہو بھی جاتا تو بھی اسے کالعدم قرار دینے کا بھی بندوبست کیا جا چکا تھا۔
سنیچر کی رات اسلام آباد کی ہائیکورٹ کے تالے کھولے گئے اور چیف جسٹس اطہر من اللہ کا عملہ ہائیکورٹ پہنچا۔
بتایا گیا کہ ہائیکورٹ ہنگامی طور پر ایک پٹیشن سماعت کے لیے مقرر کی جانے والی ہے جس میں ایک عام شہری کی حیثیت سے عدنان اقبال ایڈووکیٹ نے
وزیراعظم عمران خان کی جانب سے ⁰فوج کے سربراہ
جنرل باجوہ کی برطرفی کے ’ممکنہ‘ نوٹیفیکشن کو عدالت میں چیلنج کیا تھا۔
اس فوری درخواست میں کہا گیا تھا کہ عمران خان نے سیاسی اور ذاتی مقاصد کے حصول کے لیے اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے**
فوج کے سربراہ
جنرل باجوہ کو برطرف کرنے کی سفارش کی ہے لہٰذا عدالت اس حکم کو بہترین عوامی مفاد میں کالعدم قرار دے۔
یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ یہ درخواست تیار تو کر لی گئی..
لیکن اس میں فوج کے سربراہ کی برطرفی کے نوٹیفیکشن نمبر کی جگہ خالی چھوڑ**
دی گئی تھی۔
اس کی وجہ یہ رہی کہ وزیراعظم کی خواہش کے باوجود یہ نوٹیفیکشن جاری نہیں ہو سکا اور یوں اس پیٹشن پر سماعت کی نوبت ہی نہیں آئی۔
آئین پاکستان زندہ باد🇵🇰
پاکستان پائندہ باد🇵🇰 @threadreaderapp
Compile please
جنرل رانی کون تھی؟
اقلیم اختر کو جرنل رانی کا خطاب ذوالفقار علی بھٹو نے دیا تھا۔
اقلیم اختر 1931 کو گجرات میں ایک چھوٹے سے زمیندار گھرانے میں پیدا ہوئیں فرسودہ اور روایتی گھرانے میں پیدا ہونے کے باعث جرنل رانی میٹرک بھی نہیں کر پائ کہ کمسنی میں ہی ایک تھانیدار سے ان کی شادی
کر دی گئی۔پھر یکے بعد دیگرے ان کے چھ بچے ہوئے۔ اس دوران جرنل رانی کے تھانیدار شوہر کا تبادلہ مری میں ہوگیا یوں جرنل رانی بھی بچوں کے ہمراہ مری شفٹ ہو گئیں۔
ایک دن جرنل رانی برقعہ اوڑھے اپنے شوہر کے ہمراہ مری مال روڈ پر پیدل کہیں جا رہی تھی کہ اچانک تیز ہوا کا ایک جھونکا آیا اور
جرنل رانی کے چہرے کے سامنے سے برقعہ ہٹ گیا اور دوسرا جھونکا جرنل رانی کے چہرے پہ کیا لگا جرنل رانی کی زندگی ہی بدل کر چلا گیا تھانیدار نے غیرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے رانی کو ڈانٹا کہ اپنا چہرہ ڈھانپو مگر جرنل رانی کی زندگی ہوا کا وہ جھونکا بدل چکا تھا برسوں کی محرومیاں بغاوت کا
دیش کا المیہ یہی ہے کہ بہتر سال بعد بھی آمریت کے سائے سے نجات ممکن نہیں ہوسکی۔12اکتوبر کو آئین کی پامالی کا جو سلسلہ شروع ہوا۔وہ آج بھی جاری و ساری ہے۔جمہوریت **
ایک خواب کی طرح لگتی ہے۔پہلے آمریت سامنے آکر وار کرتی تھی۔اب کسی کی پشت پناہ بنی ہوئی ہے۔
12اکتوبرکی کہانی دن دس بجے شروع ہوتی ہے۔وزیراعظم نواز شریف شجاع آباد کیلئےروانہ ہوتے ہیں۔اس دوران وہ ہدایت کرتے ہیں کہ واپسی پروہ سیکرٹری دفاع جنرل ریٹائرڈ افتخارعلی سے ***
ملاقات کرینگے۔طیارےمیں انکے ساتھ حسین نواز،پرویزرشیدجو چیرمین قومی ٹیلی ويژن تھےاور نذیرناجی اکٹھےسوارہوتےہیں۔
طیارےمیں نذیرناجی کو حسین نوازکی لکھی انگریزی تقریر دکھائی جاتی ہے۔وہ اسکا اردو ترجمہ کرتےہیں۔اس مسودےمیں جنرل مشرف کوبرطرف کرنے کا کوئی **