کیا ایسے لوگ اب بھی زندہ ہیں۔ قدرت الّہ شھاب جب جھنگ میں ڈی سی تھے تو ان کے اختیار میں تھا کہ جس کو چاہیں حکومت کی کچھ زمین الاٹ کردیں۔ کبھی اس اختیار کا فایدہ نہ اٹھایا۔ اک دن اک گورمنٹ کا رٹایرڈ پروفیسر ان کی خدمت میں حاظر ہوا اور ارض کی کے
کہ میں نے ساری عمر حلال کھایا اور کبھی کسی سے نہ مانگا۔ اب اپنی بیٹیوں کی شادی کی وجہ سے مجبور ہوں کہ آپ سے مدد مانگوں۔ قدرتالّہ شھاب نے کچھ رسمی تحقیق کرای تو پتہ چلا کہ پروفیسر واقعی مجبور ہے۔ اس کے نام پر ۱۶۰ کینال زمین کردی۔ کافی ارصے کے بعد جب آپ ایوب خان کے سیکریٹری تھے تو
اک دن ایک پارسل آتا ہے جس میں وہ زمین کے کاغزات اور اک خط تھا۔ جس میں لکھا ہوتا ہے کہ میں نے اس زمین پر بہت محنت کی اور اس سے اپنی بیٹیوں کی شادی کی اور پھر حج بھی کیا۔ اب مجھے اس کی ضرورت نہیں۔ شکریا کہ ساتھ یہ درخواست کی کہ اب اس کو کسی اور ضرورتمند کے نام کر دیں۔ میں اپنی
پینشن پر راضی ہوں۔ جس وقت قدرت الّہ شھاب یہ خط پڑھ رہے تھے تو ایوب خان کھڑکی سے چپ چاپ سب دیکھ رہا تھا۔ اس نے کمرے میں بلایا اور سارا واقعہ سن کر حیران ہوگیا۔ بولا ایسے بھی لوگ ہیں دنیا میں۔ زمین بھی کوی چھوڑتا ہے۔ پھر کچھ سوچ کر دوبارا مخاطب ہوا اور بولا کے ایسا کرو یہ زمین تم
رکھ لو۔ مجھے معلوم ہے کہ تمہارے پاس بھی کچھ نہیں۔ قدرت الّہ شہاب نے کہا کہ میں بھی اپنی کمای پر راضی ہوں۔ اور وہ کاغز واپس جھنگ آفس بھجوا دیے۔ آج اپنے آگے پیچھے دیکھیں اور سوچیں کہ نہ تو وہ لوگ ولی تھے نہ فرشتے بس ان کو کو حلال حرام کی تمیز تھی اور خواہش اور ضرورت کاُ فرق جانتے