The #Charing Cross landmark in #Lahore has remained the centre point of the city since the #British era and continues to be the better-known venue for political mobilization. In 1904, a grand statue of #Queen Victoria was placed under a canopy and the #monument stood (1/7)
at the crossing until 1951.
The statue was moved to the Lahore #Museum thereafter. In the 1980s, during the ‘Islamist’ regime of #General Zia, a wooden model of the Holy Quran was placed where the statue once stood. Earlier, under the civilian Prime Minister Zulfikar (2/7)
Ali #Bhutto, another modernist tower was erected to mark the 1974-summit conference of the Organisation of Islamic Countries (OIC). The summit monument – as a cultural space – commemorates the ideal of Unity of all Muslims and that of the Ummah – the Muslim Brotherhood (3/7)
– and denotes a new acquired role by post-1971 Pakistan. These design innovations and reworking of the colonial landscape also indicate Pakistan’s official aspirations to be a pure, unifying Muslim nation that follows religious commandments in both its public and (4/7)
international life.
It is not an isolated event that Pakistan’s nuclear bomb has been officially termed the Islamic bomb. Its architects, #Bhutto and General Zia, considered it a means to enhance Pakistan’s place in the world and make it into a leader of the Ummah. (5/7)
Despite its nuclear capability, it is unclear whether Pakistan has ever acquired that mythical position. Internally, the Muslims of Pakistan have been a victim of sectarian militias and since 1979, Pakistan is anything but a symbol of Muslim ‘unity’.
Being Pakistani: (6/7)
Society, Culture and the Arts:
Raza Rumi (7/7)
• • •
Missing some Tweet in this thread? You can try to
force a refresh
تخلیقی ذہن پہ تبلیغی اثرات ۔۔۔۔
ڈاکٹر خالد سہیل...
وہ پاکستان کے ایک کھاتے پیتے گھرانے کا خوبصورت جوان تھا۔ ایک پاپ سنگر کے طور پہ وہ بہت چاہا جاتا تھا۔ اس کے گانے ہر وقت ریڈیو اور ٹی وی پہ بجائے جاتے تھے اور سیڈیز دھڑا دھڑ فروخت ہوتی تھیں۔ اس کا بینڈ ”وائیٹل سائینز“ (1/23)
بے حد پسند کیا جا رہا تھا۔ لیکن کچھ ایسی کمی تھی جس کی وجہ سے اسے اپنی زندگی بہت خالی لگتی تھی۔ اور وہ تھی اس کے دل کی بے سکونی۔
جب میں دنیا کے ان نامور آدمیوں کی زندگی کا تجزیہ کرتا ہوں جو دنیاوی دولت سے مالا مال ہیں۔ شاندار گھروں میں رہتے ہیں۔ بڑی بڑی گاڑیوں میں (2/23)
گھومتے پھرتے ہیں۔ بھاری بھرکم بینک بیلنس کے مالک ہیں۔ ذاتی جہاز اور کشتیاں تو ہیں مگر دلچسپ بات یہ ہے کہ کہ وہ اکثر ذہنی سکون جیسی نعمت سے محروم ہی رہتے ہیں۔
یہی حال جنید جمشید کا تھا۔ وہ دنیاوی نعمتوں سے مالا مال تھا۔ مگر راتوں کو سکون کی نیند نہ سو سکتا تھا۔ وہ بس (3/23)
قومیت کے سوال پر فکری تضاد دیکھیں:
ڈاکٹر اسرار احمد کے مضمون اقبال ،قائد اعظم اور نظریہ پاکستان سے لیے گے اس اقتباس کو دیکھیں :- اقبال نے ایک اور بہت بڑا کام جو کیا وہ ان کی طرف سے وطنی قومیت کی شدید ترین نفی ہے۔ اس لیے کہ اس وقت وطنی قومیت مسلمانوں کو اپنے اندر ہڑپ (1/11)
کرنے کے لئے پوری قوت کے ساتھ زور لگا رہی تھی۔ ہندوؤں نے وہ ترانہ بنایا جس میں زمین کی بندگی کا تصور ہے کہ بھارت ماتا ہم تیرے بندے ہیں ۔ بھارت میں آج بھی مسلمانوں کو مجبور کیا جا رہا ہے کہ وہ سکولوں کے اندر یہ ترانہ پڑھیں اور مسلمان ابھی تک اس کے خلاف مزاحمت کر رہے ہیں (2/11)
۔“ اقبال نے وطنیت کی شدید ترین نفی کی لیکن چند پیرا گراف کے بعد فرماتے ہیں اس وقت کے لئے ان (علامہ اقبال) کی تجویز یہ تھی کہ ہندوستان میں ایک صوبہ بنا دیا جائے جیسے آج کا پاکستان ہے یا کچھ عرصہ ون یونٹ کے طور پر مغربی پاکستان تھا۔ برٹش انڈیا میں بھی ون یونٹ کی حیثیت سے (3/11)
Even when one of the army’s own describes the past in less than glorious terms, efforts are made to limit the circulation of the damaging material. It is almost as if the institution’s frailties and failings must be hidden not only from the world and Pakistani (1/5)
civilians but from itself. For instance, the army’s general headquarters reportedly purchased all 22,000 copies of a detailed evaluation of the 1965 war, written by Lt Gen. Mahmud Ahmed, a former ISI chief.
The general had written the book after painstaking research (2/5)
and detailed cartography and thought publishing it forty years after the war would be useful for army officers and civilians. The GHQ, however, ‘found the book published by Oxford University Press “too sensitive”’, because it described the army’s previously publicized (3/5)
ڈاکٹر طاہرہ کاظمی کی کتاب "مجھے فیمینسٹ نہ کہو" کے بیک کور کو "سنگ ہانے دشنام" کے ٹائیٹل سے سجایا ہے۔ چونکہ طاہرہ صاحب کھل کر عورتوں کو جسمانی و ذہنی امراض کے بارے میں لکھتی اور بولتی ہیں لہذا ہمارے معاشرے کے لوگوں سے سچ برداشت نہیں ہو پاتا۔ پڑھیں اور سوچیں کہ ہمارے آس (1/5)
پاس کتنے باس مارتے سر گھوم رہے ہیں۔
ان خاتون پر ترس آتا ہے فیمنزم اور لبرلزم کے ریلے میں بہتی ہوئی وہ بے عقلی تعصب اور زہریلے پن کے گڑھے میں اوندھے منہ جا گری ہیں۔ عامر ہاشم خاکوانی
اگر آپ پیدانہ ہوتیں تو بہت اچھی بات تھی۔ آپ کے والد نے نس بندی کیوں نہیں کروائی تھی؟ (2/5)
قاسم صدیقی
متعہ کی پیداوار سے ایسی تحریر کی امید ہے، تیری سوچ پر لعنت ۔ قاضی احمد
کیا آپ کے والدہ بھائی اور بیٹاریپ کرتے ہیں؟ خواجہ ندیم اتنی تیس مارخان مت بنو تم اشفاق احمد کے جوتوں کے برابر بھی نہیں مان گھمن
انڈیا میں امرتسر سے تقریباً 35 کلو میٹر دور واہگہ باڈر کی جانب ایک "پُل کنجری" ہے۔ جو مہاراجہ رنجیت سنگھ کی محبوبہ، بیوی مہارانی موراں سرکار کے لیے بنایا تھا۔
کہانی کچھ یُوں ہے کہ موراں اپنے زمانے کی ایک مشہور مسلمان طوائف تھی۔ رقص کے چرچے دور دور تک تھے۔ ایک مرتبہ (1/9)
"شاہی برادری" میں ناچ کے لیے بلایا گیا، وہاں اکیس سالہ مہاراجہ رنجیت سنگھ نے اس کو دیکھا اور دل کے ہاتھوں مجبور ہوگیا۔
موراں، مہاراجہ رنجیت سنگھ کی فرمائش پر رقص کے لیے شاہی برادری، لاہور آنے جانے لگی۔ ایک مرتبہ شاہی برادری پر رقص کے لیے آ رہی تھی تو ہنسالی نہر میں (2/9)
موراں کا جوتا گِر گیا۔ جب ننگے پاؤں مہاراجہ رنجیت سنگھ کے دربار میں پہنچی، مہارجہ نے احوال سن کر بنسالی نہر پر فوراً "پل موراں" بنا دیا تا کہ آنے جانے میں آسانی رہے۔
دونوں کے درمیان ملاقاتیں ہونے لگیں، امرتسر یا لاہور میں ملتے تو روائتی و مذہبی سماج کے لیے یہ تعلق (3/9)
بیوی کو شادی کے چند سال بعد خیال آیا
کہ اگر وہ اپنے شوہر کو چھوڑ کے چلی جائے
تو شوہر کیسا محسوس کرے گا...
اس نے کاغذ پر لکھا
"اب میں تمہارے ساتھ اور نہیں رہ سکتی
میں اب بور ہو گئی ہوں تمہارے ساتھ
میں گھر چھوڑ کے جا رہی ہوں ہمیشہ کے لئے"
اس کاغذ کو اس نے میز پر (1/5)
رکھا
اور جب شوہر کے آنے کا وقت ہوا تو
اس کا رد عمل دیکھنے کے لئے بستر کے نیچے چھپ گئی
شوہر آیا اور اس نے میز پر رکھا کاغذ پڑھا
کچھ دیر کی خاموشی کے بعد اس نے اس کاغذ پر کچھ لکھا
پھر وہ خوشی کے مارے جھومنے لگا
گیت گانے لگا، رقص کرنے لگا اور کپڑے بدلنے لگا
پھر اس نے اپنے (2/5)
فون سے کسی سے بات کی....
"آج میں آزاد ہو گیا
شاید میری بیوقوف بیوی کو سمجھ آ گیا
کہ وہ میرے لائق ہی نہیں تھی
لہذا آج وہ گھر سے ہمیشہ کے لئے چلی گئی
اس لئے اب میں آزاد ہوں
اور تم سے ملنے کے لئے آ رہا ہوں
کپڑے بدل کر تم بھی تیار ہو کے
میرے گھر کے سامنے والے پارک میں ابھی (3/5)