ایک بحری جہاز پر ایک ڈریکولا انسانی روپ میں سوار تھا
رات ہوتے ہی وہ جہاز پر سوار کسی انسان کا خون پیتا اور یوں اپنی پیاس بجھاتا
ایک روز یہ بحری جہاز بیچ سمندر میں کسی چٹان سے ٹکراگیا
لوگ فوراً لائف بوٹس کی طرف بھاگے
یہ ڈریکولا بھی ایک آدمی کی مدد سے ایک لائف بوٹ پر سوار ہو گیا
👇
قسمت کی خرابی کہ اس کی لائف بوٹ پر صرف ایک ہی شخص تھا اور یہ ہی وہ شخص تھا جس نے اسے بچایا اور بوٹ یا کشتی میں آنے میں مدد کی
رات ہوئی توڈریکولا کو انسانی خون پینے کی پیاس ہوئی
ڈریکولا نے خود کو کہا کہ یہ بےشرمی ہو گی جو میں اپنے محسن کا خون پیوں
اس نیک بندے نے ہی تو مجھے
👇
ڈوبنے سے بچایا ہے، میں کس طرح احسان فراموشی کروں؟
ایک دن ۔۔دو دن ۔۔۔ تیں دن وہ اسی دلیل سے خود کو روکتا رہا
بلاخر ایک دن دلیل پر فطرت غالب آ گئی
اس کے نفس نے اسے دلیل دی کہ صرف دو گھونٹ ہی پیوں گا اور وہ بھی اس وقت جب محسن انسان نیند میں ہو گا تاکہ اس کی صحت پر کوئی واضع فرق
👇
بھی نہ پڑے اور میری پیاس بھی تنگ نہ کرے
یہ سوچ کر روزانہ اس نے دو دو گھونٹ خون پینا شروع کر دیا
ایک دن اس کا ضمیر پھر جاگا اور اس پر ملامت کرنے لگا، تو اس شخص کا خون پی رہا ہے جو تیرا دوست ہے، جس نے نہ صرف تجھے بچایا بلکہ جو مچھلی پکڑتا ہے، جو اوس کا پانی جمع کرتا ہے اس میں
👇
سے تجھے حصہ بھی دیتا ہے، یقیناً یہ بے شرمی کی انتہا ہے
یہ محسن کشی ہے
اس بے شرمی کی زندگی سے تو موت اچھی
ڈریکولا نے فیصلہ کیا کہ اب میں کبھی اپنے محسن کا خون نہیں پیوں گا
ایک رات گزری، دوسری رات گزری ، تیسری رات ڈریکولا کا محسن بے چینی سے اٹھا اور بولا
تم خون کیوں نہیں پیتے
👇
ڈریکولا حیرت سے بولا کہ تمھیں کیسے پتہ چلا کہ میں ڈریکولا ہوں اور تمھارا خون پیتا تھا
محسن بولا کہ جس دن میں نے تمھیں بچایا تھا اس دن تمھارے ہاتھ کی ٹھنڈک محسوس کر کے میں سمجھ گیا تھا کہ تم انسان نہیں ہو
ڈریکولا ندامت سے بولا
دوست میں شرمندہ ہوں جو میں نے کیا لیکن اب میرا وعدہ
👇
ہے، میں مر جاؤنگا لیکن تمھیں نقصان نہیں پہنچاؤں گا
محسن بولا کیوں مجھ سے دشمنی کا اظہار کر رہے ہو، پہلے پہل جب تم خون پیتے تھے تو مجھے تکلیف ہوتی تھی لیکن میں چپ رہتا کہ کہیں تمھیں پتہ نہ چل جائے اور میں مارا جاؤں، لیکن اب مجھے خون پلانے کی عادت ہو گئی ہے،
👇
اور پچھلے تیں دن سے عجیب بے چینی ہے، اگر تم نے خون نہ پیا تو میں مر جاؤں گا
کتنی حیرت کی بات ہے نا !! بحیثیت قوم ہمیں بھی خون پلانے کی عادت ہو چکی ہے، ہم اپنی خوشی سے اپنی مرضی سے خون پینے والوں کو منتخب کرتے ہیں اور پھر اپنا خون پلا پلا کر انہیں پالتے ہیں ،
👇
تاکہ اگلی دفعہ بھی انہیں خون پینے والوں کو منتخب کر سکیں ، کیونکہ ہمیں بھی خون پلانے کی عادت ہو چکی ہے ،
خون نہ پلائیں گے تو ہم بھی مر جائیں گے
کیا آپ کو معلوم ہے کہ جہاں پارلیمان واقع ہے عین اِسی جگہ کِسی زمانے میں مائی اللہ رکھی کی بکریوں کا باڑا ہوتاتھا؟ 1960 کے جاڑے تک تو مائی اللہ رکھی زندہ تھی اور اُس کا باڑا موجود تھا۔ اسلام آباد کا آغاز ہُوا تو مائی اللہ رکھی بھی
👇
ہِجرتی پٙتوں کی طرح بِکھر گئی
پاس سے ایک کٙس بہتی تھی۔ برسات میں جب مارگلہ پر مینہ برستا تھا تو اُس میں طُغیانی آ جاتی تھی۔ اُس کے کِنارے مائی اللہ رکھی نے باڑا بنا رکھا تھا۔ باڑے میں کُچھ بکریاں، ایک آدھ گائے اور حِفاظت کے لِیے دو کُتے رکھے ہُوئے تھے۔ مائی اللہ رکھی کی
👇
رہائش ”پارلیمانی لاجز“ میں تھی۔ سیکٹر جی فائیو میں، سپریم کورٹ اور پارلیمان کے عین سامنے، ریڈ زون میں
یہ مائی اللہ رکھی کا گاؤں تھا۔ ہٙنستا بٙستا گاؤں۔ اِس کا نا م کٙٹاریاں تھا۔ نور پور شاہاں، موچی موہڑا، سمبال کورک، بھڑیال، مل پور، تیال، لکھوال، راول، گھگھروٹ، چٹھہ بختاور،
👇
پھر مکہ شریف کی طرف منہ کرکے آگے بڑھانا چاہاوہیں بیٹھ گیا ، انہوں نے پھر اسے مارنا شروع کیا دیکھا کہ ایک گھٹا ٹوپ پرندوں کا جھرمٹ بادل کی طرح سمندر کے کنارے کی طرف سے امڈ ا چلا آرہا ہے ابھی پوری طرح دیکھ بھی نہیں پائے تھے کہ وہ جانور سر پر آگئے چاروں طرف سے سارے لشکر کو گھیر
👇
لیا اور ان میں ہر ایک کی چونچ میں ایک مسر یا ماش کے دانے برابر کنکری تھی ، اور دونوں پنجوں میں دو دو کنکریاں تھیں یہ ان پر پھینکنے لگے جس پر یہ کنکری آن پڑی وہ وہیں ہلاک ہو گیا ، اب تو اس لشکر میں بھاگڑ پڑ گئی ہر ایک نفیل نفیل کرنے لگا کیونکہ اسے ان لوگوں نے اپنا راہبر اور
👇
راستے بتانے والاسمجھ رکھا تھا نفیل تو ہاتھی کو کہہ کر پہاڑ پر چڑھ گیا اور دیگر اہل مکہ ان لوگوں کی یہ درگت اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے اور نفیل وہیں کھڑا یہ اشعار پڑھ رہا تھا ۔ این المفر والا لہ الطالب والاشرم المغلوب لیس الغالب اب جائے پناہ کہاں ہے ؟جبکہ اللہ خود تاک میں لگ
👇
سوشل میڈیا پہ نوے فیصد میریڈ مرد بیوی کے دییے دکھوں سے چور ہیں ،
کنوارے ۔۔۔۔ بیوی نہ ہونے کے دکھ سے رنجور ہیں
نوے فیصد میریڈ خواتین کے شوہر انھیں وقت اور توجہ نہیں دیتے ، کنواریاں بلند پایہ اعلی نسب اور امیر زادے کے رشتے تلاش کرنے آتی ہیں
آخر ہم وہ چیز وہاں
👇
کیوں تلاش کرتے ہیں جہاں پائے جانے کا کوئی امکان نہیں
جو انویسٹمنٹ نئی اور انجانی جگہ کی جاتی ہے وہی اگر آزمودہ اور حلال جگہ کی جائے تو اس کا نفع دونوں جہاں میں ہے
کسی کا پسند آ جانا ایک الگ بات ہے
محبت ہو جانا ایک الگ بات
لیکن اس محبت کے لیے اپنی اور اپنی فیملی کی اہمیت
👇
کو نظر انداز کر دینا بلکل ہی الگ بات ہے
آپ اپنے ساتھی کو تنہا چھوڑیں گے تو یہ تنہائی اسے دن بہ دن کھوکھلا کرتی جائے گی
کمزور دیواروں پہ نقب بہت آسانی سے لگ جاتی ہیں
بعد میں بے وفائی ،اور بدکرداری کا طعنہ دینے سے پہلے اپنے آج کے حالات درست کر لینے کی ضرورت ہے
اب وہ دور نہیں
👇
قبل از اسلام کا زکر ہے
بہت پرانا نہیں
بس اسلام سے کچھ دہائیوں قبل کا
مکے میں ایک گھر ہے
تم جانتے ہو کہ وہ گھر ہمیشہ سے عزت والا گھر ہے کہ اسے اللہ تعالیٰ سے نسبت ہے
اور نسبتیں یونہی مقام بلند کر دیا کرتی ہیں
ادھر عرب سے کچھ پرے
👇
یمن میں صنعا کے مقام پر ابرہہ نامی عیسائی بادشاہ نے ایک گرجہ تعمیر کیا کہ وہ عبادت کا مرکز و محور بن جائے مگر انسان کی خواہش کی اللہ کی مرضی کے سامنے کیا حقیقت
کعبہ بدستور عبادت کا مرکز رہا
بتوں کے نام پر ہی سہی مگر جو گھر اللہ کے نام پر تعمیر ہوا تھا اس کی حرمت برقرار رہی
👇
ابرہہ کو بڑا طیش آیا
اس نے ارادہ کیا کہ نعوذبالّلہ کعبۃ اللہ کو مسمار کردے کہ اس کی بنائی ہوئی عمارت بن جائے عبادت کا مرکز
سو چلا ایک بڑی فوج لے کر کعبہ کو مسمار کرنے
ہیبت کے لیے ہاتھیوں کی فوج ہمراہ تھی
مگر ایک تدبیر تم کرتے ہو اور ایک تدبیر اللہ کرتا ہے اور اللہ کی تدبیر ہر
👇
زندگی کو خوبصورت اور آسان ترین بنانےکے لیے "اہل مغرب" کی کل جد و جہد کا نچوڑ پیش خدمت ہے
Personality Development.
پرسنیلٹی ڈیولیپمنٹ کی فیلڈ میں ایک کانسپٹ بہت ہی معروف ہے جسے Minimalism،
کہا جاتا ہے یہ بڑا ہی دلچسپ ہے اس کا معانی و مقصد یہ ہے کہ انسان روز مرہ
👇
زندگی میں کم سے کم سامان حیات کے ساتھ جینے کی skill حاصل کرے،
*ماہرین کے مطابق ہر کامیاب انسان ذاتی زندگی میں Minimalist approach کے ساتھ ہی کوئی بڑا ہدف یا کارنامہ سرانجام دے سکتا ہے،
کپڑوں کے دس دس جوڑوں کے بجائے دو سے چار جوڑوں پر اکتفا کرنا،
رہائش کے لئے سادہ رہائش گاہ میں
👇
قیام کرنا
سفر و حضر میں عام سی سواری کو ترجیح دینا وغیرہ
ماہرین کے نزدیک با مقصد انسان کے لیے لگژری لائف ایک بہت بڑا بوجھ ہے جس کو Maintain یا برقرار رکھنے میں پیسہ اور وقت برباد کرنا صرف اس قیمت پر ہوتا ہے کہ وہ کسی برتر مقصد سے خود کو دور کر لے،
مزید یہ کہ انسان اپنی ذات پر
👇