ولی خان بتایا کرتے تھے کہ ایک دفعہ ایک انگریز میرا انٹرویو کرنے آیا، چونکہ میرا پنجاب جانے کا پروگرام پہلے سے طے تھا اور میں پنجاب بذریعہ ریل گاڈی جا رہا تھا اور میرے پاس وقت نہیں تھا۔ گورے نے کہا کہ میں بھی ایک ساتھ ریل گاڑی میں بیٹھ کر دوران سفر آپ کا انٹرویو ریکارڈ کرونگا۔
👇
میں نے کہا ٹھیک ہے۔ ھم دونوں ایک ساتھ ایک ڈبے میں سوار ہوکر روانہ ہوئے۔
راستے میں ایک مال گاڑی ماربل کے پتھروں سے لدی اسٹیشن پر کھڑی تھی تو گورے نے پوچھا کہ اسکو کدھر لے جایا جا رھا ہے ؟؟
میں نے کہا کہ یہ پشاور سے پنجاب لے جا رہے ہیں کیونکہ کارخانے ادھر ہے۔ گورے نے کہا کیا
👇
بجلی وھاں زیادہ پیدا ھوتی ھے ؟
میں نے کہا نہیں بجلی بھی یہاں سے جاتی ھے
گورہے نے کہا کہ اتنا دور کیوں ؟ کیا وہاں لیبر کی فراوانی ھے؟؟
میں نے کہا کہ لیبر بھی یہیں سے (پشتون) جاتا ھے۔
تو گورے نے کہا کہ عجیب لوگ ہو، کارخانے یہاں پشاور میں کیوں نہیں بناتے ؟؟؟ ماربل یہاں کی
👇
بجلی ادھر کی لیبر ادھر کا
تو میں نے کہا کہ جب یہی بات میں کرتا ہوں تو پھر یہ ریاست مجھے غدار کہتی ہیں۔
گورے نے کہا یہ بات اپ اپنی قوم کو سمجھاو
تو میں نے کہا کہ
میری قوم ریاست کا "ٹومی" ھے۔ ریاست مجھے غدار کہتی ھے یہ میرے لئے معمولی بات ھے، میری قوم تو مجھے
👇
چین کے کسی گاؤں میں ایک بوڑھی عورت رہتی تھی
ہر روز وہ اپنے گھر سے مٹی کے دو برتنوں میں پانی لینے قریبی نہر پر جاتی اور پانی گھر لے آتی۔دونوں برتنوں کو وہ لکڑی کے ایک لٹھ کے ساتھ لٹکا کر اس لکڑی کو کندھے پر دھر لیتی،یوں اس کے لیے پانی تھامنے میں آسانی ہو جاتی
👇
اس بوڑھی عورت کا ایک برتن تو صحیح سلامت تھا لیکن دوسرے برتن کو سوراخ تھا لہذا؛ ایک برتن سے تو پورا پانی گھر آ جاتا لیکن دوسرے برتن کے سوراخ سے پانی کی دھار پورے رستے بہتی رہتی اور نہر سے گھر آتے آتے وہ آدھا رہ جاتا
یہ سلسلہ دو برس تک یوں ہی چلتا رہا؛ ایک برتن بھرا ہوا آتا اور
👇
دوسرا آدھا ؛ بوڑھی عورت اتنی مشقت بھی اٹھاتی لیکن پھر بھی سوراخ سے آدھا برتن خالی ہو جاتا اور پانی رستے میں بہہ جاتا۔ جو برتن صحیح سلامت تھا وہ اپنے اندر تکبر اور رعونت کا احساس بنا بیٹھا اور ٹوٹا ہوا برتن احساس کمتری کا شکار ہو کر شرمندگی محسوس کرتا۔آخر دو سال مکمل ہونے کے
👇
ہماری ہاؤسنگ سوسائٹی میں ایک فیملی نے اپنے پیڑ کی کانٹے دار ٹہنیاں کٹوا کر ہمارے گھر کے سامنے والے خالی گھر کی دیوار کے ساتھ ڈال دیں
بہت ساری، اتنی کہ دو شہزور میں گئیں
دو دن، پانچ دن، ہفتہ، دس دن----
اٹھوا ہی نہیں رہے تھے
میاں کہیں سرکاری افسر ہیں تو زعم بھی بہت ہے
👇
یہ جو ہمارے ٹیکس پر پلنے والے "نوکر" ہوتے ہیں ناں
یہ خود کو ہمارا خدا سمجھتے ہیں
کیونکہ ہم ان کی پوجا کرتے ہیں
خیر پہلے تو میں نے اپنی سوسائٹی کے واٹس ایپ گروپ پر ان کو ملامت کی، کہ ہم ڈسٹ بن میں نہیں رہتے
برا مان گئے مگر ڈھٹائی اور رعونت - - -
خیر
دو دن اور انتظار کیا
👇
پھر دوپہر میں جب سورہے ہوتے ہیں میں نے کوئی پچاس کے قریب ٹہنیاں اٹھا کر ان کے دروازے کے سامنے رکھ دیں
انہیں اپنے گھر میں داخل ہونے کے لیے انہیں اٹھانا پڑا
کانٹے چبھے
بہت بکواس کی
مگر آج----
ماں نے اسے سمجھایا، جب ہم کسی سے کوئی سامان خریدتے ہیں یا کوئی کام کرواتے ہیں
تو وہ اس سامان یا کام کے بدلے میں ہم سے پیسے لیتا ہے
اور ہم کو اس سامان یا کام کی لسٹ بنا کر دیتا ہے، اسی کو ہم بل کہتے ہیں۔
👇
بچے کو ماں کی بات اچھی طرح سمجھ میں آگئی۔
رات کو سونے سے پہلے اس نے ماں کے تکیے کے نیچے ایک پیپر رکھا جس میں اسی دن کا حساب لکھا ہوا تھا:
دوکان سے سامان لا کر دیا
پانچ روپے
بابا کی بائیک صاف کر کے باہر نکالی
پانچ روپے
دادا جی کا سر دبایا
دس روپے
دادی امی کی چابیاں
👇
ڈھونڈ کر دی
دس روپے
ٹوٹل ہوا تیس روپے۔
یہ صرف آج کا بل ہے، اس کو آج ہی دے دیں تو نوازش ہوگی۔
صبح جب بچہ اٹھا تو اس کے تکیے کے نیچے تیس روپے رکھے ہوئے تھے۔
وہ انھیں دیکھ کر بہت خوش ہوا کہ یہ تو بہت اچھا کام ہوگیا۔
تبھی اس کی نظر ساتھ رکھے کاغذ پر پڑی۔
کہتے ہیں کسی جنگل میں دو بیل رہتے تھے، ایک لال اور ایک سفید۔ ان کی آپس میں گہری دوستی تھی، ایک ساتھ چرنے کے لیے جانا اور گھومنا پھرنا۔ ان کی اس مثالی دوستی کی وجہ سے اس جنگل کا شیر ان پر ہاتھ نہیں ڈال سکتا تھا۔ اس نے جب کبھی ان میں سے کسی ایک پر حملہ کیا تو دونوں نے مل کر اس
👇
کی وہ درگت بنائی کہ شیر کو اپنی جان کے لالے پڑ گئے اور ہر بار اس نے گرتے پڑتے ہی بھاگ نکلنے میں عافیت جانی۔ایک دن شیر نے ایک چال چلی۔ اس نے لال بیل کو چکنی چپڑی باتیں کر کے بہلایا اور اسے کچھ خواب دکھا کر اپنے ساتھ ملا لیا۔ لال بیل اس کی باتوں میں آ گیا۔ شیر نے باتیں ہی ایسی
👇
کی تھیں کہ اسے اپنے ساتھی سفید بیل کی دوستی کے مقابلے میں شیر سے راہ و رسم بڑھانا زیادہ ’محفوظ‘ نظر آ رہا تھا۔ لال بیل کے اپنے ساتھی سے دوری اختیار کر لینے سے سفید بیل شیر کے مقابلے میں کمزور پڑ گیا تھا۔ چند دنوں کے بعد شیر نے سفید بیل کے شکار کا پروگرام بنایا اور ایک روز موقع
👇
ایک طرف وارڈن والا کھڑا تو اور ایک طرف پولیس والا ، بنا نمبر پلیٹ والی بائیک تھی ، چُھٹی کے ٹائم سے پہلے گھر چھوڑنا تھا اُسے
میں نے تیزی سے بائیک گزارنا چاہی ، وہ پیچھے سے اُچھلی ، دھڑام سے نیچے ، میں نے غصے میں کہا جلدی اٹھو دیر ہو رہی ہے ، بائیک سے اُترنے کا نہ موقع تھا
👇
نہ وقت
پولیس اور وارڈن والے نے آگے بڑھنا چاہا لیکن تب تک میں وہاں سے نکل چُکا تھا
زیادہ چوٹیں تو نہیں آئیں ، بس تھوڑی بہت خراشیں تھیں
خیر بات آئی گئی ہو گئی ، لیکن وہ اکثر روائتی محبوباؤں کی طرح طعنہ مار دیا کرتی تھی
تم بہت بیوفا ہو ، ذرا محبت نہیں تمہیں مجھ سے
میں بائیک
👇
سے گری پڑی تھی اور تُم نے اُتر کے اٹھایا تک نہیں مُجھے
میں پیار سے سمجھانے کی کوشش کرتا کہ تب صورت حال ھی ایسی تھی کہ رکنا مناسب نہیں تھا ، لیکن ہر بار اسے قائل کرنے میں ناکام رہتا
ایک بار میرے فائنل پپر ہو رہے تھے کہ اس کا میسج آیا
جانو میں مارکیٹ آئی ہوں مجھے چوڑیاں لے
👇
وہ ایک یتیم بچہ تھا
اس کے چچا نے اس کی پرورش کی تھی
جب وہ بچہ جوان ہوا تو چچانے اونٹ ، بکریاں غلام دے کر اس کی حیثیت مستحکم کردی تھی
اس نے اسلام کے متعلق کچھ سنا اور دل میں توحید کا شوق پیدا ہوا
لیکن چچا سے اس قدر ڈرتا تھا کہ اظہار اسلام نہ کرسکا
👇
جب نبی کریم صلی اللہ علیہ واله وسلم فتح مکہ سے واپس گئے تو اس نے چچا سے کہا
"مجھے برسوں انتظار کرتے گزر گئے کہ کب آپ کے دل میں اسلام کی تحریک پیدا ہوتی ہے اور آپ کب مسلمان ہوتے ہیں لیکن آپ کا حال وہی پہلے کا سا چلا آرہا ہے میں اپنی عمر پر زیادہ اعتماد نہیں کرسکتا مجھے اجازت
👇
دیجئے کہ میں مسلمان ہوجاؤں"
چچا نے جواب دیا
" دیکھ ! اگر تو محمد (صلی اللہ علیہ واله وسلم) کا دین قبول کرنا چاہتا ہے تو میں سب کچھ تجھ سے چھین لوں گا تیرے بدن پر چادر اور تہبند تک باقی نہ رہنے دوں گا"
اس نے جواب دیا
" چچاجان ! میں مسلمان ضرور ہوں گا اور
👇