ایک پاکستانی لڑکی کی کارگزاری اپنی عرب سہیلی کے بارے :
اسکا دو ماہ کا بچہ تھا وہ پیمپر تبدیل کروانے واش روم گئیں ۔ مدد کے لئے میں بھی ساتھ ہو لی ...
بچے کو دھلانے کے بعد انھوں نے اسے مکمل👇 #قومی_زبان
وضو کروایا ۔ میرے لئے یہ ایک نیا عمل تھا ۔ وضو عموماً بڑے ہی کرتے ہیں اتنے چھوٹے بچوں کو وضو کروانے کا تصور نہیں ۔اس کے بہت سے کام الگ سے تھے ۔
دو سالہ بیٹی کو کھانا کھلانے لگیں ہر نوالہ منہ میں ڈال کر کہتی الحمدللہ ، بچی بھی توتلی زبان میں دہراتی تب دوسرا نوالہ کھلاتیں👇
۔۔
وہ مکمل یکسوئی سے بچوں میں مگن تھیں ۔ اسی یکسوئی سے میں ان ماں بچوں کا مشاہدہ کیے جا رہی تھی ۔۔
وہ یمن کی رہنے والی تھیں کالج میں ساتھ ہی عربی پڑھاتی تھیں یہیں دوستی ہو گئی ۔
خلوص اور محبت کے ساتھ اس دوستی کی وجہ عربی زبان تھی ۔۔ انھیں ٹوٹی👇
پھوٹی اردو اور انگریزی آتی تھی ۔ دیار غیر میں ہم زبان کا مل جانا ایک نعمت ہوتی ہے ۔ وہ جیسے ہم زبان کی ترسی ہوئی تھیں ۔ کچھ ہی دنوں بعد میری دعوت پر گھر چلی آئیں ان کا ہر ہر انداز الگ سا تھا اور میں سیکھنے کی شائق ۔۔
بچوں پر خاص توجہ سے عرب ماؤں کی👇
فضیلت سمجھ آئی کہ وہ بچوں کا بہت خیال رکھنے والی ہوتی ہیں ۔
بچوں سے فارغ ہو کر عفوا (معذرت) کہتے ہوئے میری طرف متوجہ ہوئیں ۔۔
مشکل سے روکے ہوئے سوالات میں سے پہلا سوال پوچھا آپ اتنے چھوٹے بچے کو وضو کیوں کرواتی ہیں؟
ان کا جواب سوچ کی نئی جہت دینے والا👇
تھا.......
کہنے لگیں بچہ سب کچھ اسی عمر میں سیکھتا ہے اپنی شخصیت کی بنیادیں رکھتا ہے ۔ اس عمر میں دیا جانے والا ہر تصور پختگی کے ساتھ بچے کی شخصیت میں پیوست ہو جاتا ہے ۔۔
پہلی وجہ یہ ہے کہ پاکیزگی اسکی بنیادوں میں ڈالنا چاہتی ہوں اس لئے اسے پہلے دن سے وضو کی عادت ڈالی ہے👇
۔۔
امید ہے آخری دم تک پاکی کے ساتھ رہے گا اور اس کے اعضاء وضو روز قیامت روشن ہونگے ۔۔
دوسری وجہ یہ ہے کہ یہ معصوم ہے شیاطین کے حملے بھی ہوتے ہیں ان سے تحفظ ہو گا ۔۔
جھٹ دوسرا سوال کیا ۔۔ کھانے کے دوران ایک مرتبہ تو اللہ کا شکر ادا کرنا👇
سمجھ آتا ہے یہ ہر ہر نوالے پر بات سمجھ نہیں آئی؟
وہ مسکرائیں اور سمجھاتے ہوئے کہا ۔۔
میری پیاری سہیلی وہ رب جس نے ہمیں خاص طور پر بنایا تمام مخلوقات کو ہماری خدمت میں لگایا ۔ ہم تو شکر ادا کر ہی نہیں سکتے ۔ یہ نوالہ جو ہم منہ میں ڈالتے ہیں ۔ کتنے مراحل سے گزار کر👇
ہمارے ہاتھوں میں دیا جاتا ہے ۔ اس کا شکر تو ہر سانس کے ساتھ واجب ہے ۔ شکر کا احساس بچوں کی گھٹی میں ڈالنے کی کوشش کر رہی ہوں ۔
اس نے اللہ کی دی نعمتوں کا ایسا تذکرہ کیا کہ سر شرم سے جھک گیا ۔۔
ہم ایک شکائتی ماحول میں پلنے والے👇
لوگ ہیں ۔۔ آپس میں ایک دوسرے سے تو نالاں رہتے ہی ہیں رب سے بھی شکوے شکائتوں ہی کا تعلق ہے ۔۔ اولین تعلق شکر گزاری کا ہو یہ ان سے سیکھا ۔۔
ان کے سامنے بیٹھی زندگی کے کئی سبق لیتے وقت کا پتہ ہی نہ چلا ۔۔
* دفعہ 351 * = حملہ کرنا
* دفعہ 354 * = خواتین کی شرمندگی
* دفعہ 362 * = اغوا
*دفعہ 320* = بغیر لائسنس یا جعلی لائیسنس کے ساتھ ایکسڈنٹ میں کسی کی موت واقع ہونا(ناقابلِ ضمانت)
,*دفعہ 322 = ڈرائیونگ لائسنس کے ساتھ ایکسیڈنٹ میں کسی کی موت واقع ہونا (قابلِ ضمانت)👇
اس ٹوئٹ کو بغور پڑھیے اور اپنی عدلیہ کےنظام کو سمجھنے کی کوشش کیجئے
ایک وکیل صاحب نے ساری عمر وکالت کی اور جب بڑی عمر کے پیش نظر وکالت سے دستبرداری اختیار کی تو اپنے سارے مقدمات اپنے بیٹے کو دیئے جو کہ اب خود بھی ایک نامور وکیل بن چکا تھا۔👇
چند ماہ بعد بیٹے نے ایک مقدمے کی فائل والد کے سامنے پیش کی اور کہا کہ آپ ساری عمر یہ مقدمہ لڑتے رہے مگر مقدمہ نہ جیت سکے اور میں نے چھ ماہ میں ہی یہ مقدمہ جیت لیا۔ والد نے ایک اچٹتی ہوئی نظر فائل پر ڈالی اور دوبارہ اپنے کام میں مصروف ہوگئ👇
۔
بیٹے کو بہت غصہ آیا تو اس نے کہا اگر آپ اپنی ناکامی کا اعتراف نہیں کر سکتے تو کم از کم مجھے میری کامیابی پر مبارکباد تو دے ہی سکتے ہے۔
اندازہ نہین تھا کہ یہ نجاست ہماری درس گاہوں میں اک علیظ استاد کے ہاتھوں کمرہ امتحان میں پہنچے گی کئی برس پہلے ایک اسٹوری پر کام کرتے ہوئے انٹرنیٹ پر ایک ایسی واہیات ویب سائٹ پر جانے کا اتفاق ہوا جہاں مرد کے لئے عورت صرف جنسی لذت پہنچانے👇
والی مشین اور عورت کے لئے مرد جنسی تلمذ کے حصول کا ذریعہ ہوتا ہے سب سے خوفناک بات اس ویب سایٹ پر محرم رشتوں کے تقدس کی پامالی تھی اس ویب سایٹ پر لکھاریوں نے بہن بھائی یہاں تک کے ماں باپ کے کرداروں کو اس شیطانی کھیل کا حصہ بنایا ہوا تھا میں تو لرز گیا کہ معاشرے کی جڑوں👇
میں یہ کون بارودی سرنگیں بچھا رہا یے اور بھیانک سچ یہ ہے کہ اس قسم کی کہانیوں کو پڑھنے والوں کی تعداد ہزاروں میں نہیں لاکھوں میں تھی مقصد واضح طور پر جنسی تسکین نہیں بلکہ ہمارے گھروں میں سگے رشتوں کے احترام تار تار کرنا تھا اور پھر ایسا ہوا بھی جب مجھے اورنگی ٹاؤن سے ایک👇
خواجہ آصف کی تہلکہ خیز گفتگو
ملک ڈیفالٹ ہو چکا
گالف کلب پر قبضے سے لے کر گالف کلب کی قیمت اور کون ہیں جو اتنا مہنگا کھیل کھیلتے ہیں
چیتا کس کا تھا اور ایف آئی آر کیوں نہیں کٹی
صفدر اور خاقان و مفتاح کے گلے شکوے
یہ سب باتیں ظاہر کرتی ہیں کہ ارباب
اختیار مکمل طور پر پی پی کے قبضے میں ہیں اور ہر ممکن کوشش یہ ہیں ان کی کہ اقتدار کی مسند پر بلاول ہی براجمان ہوں کیونکہ امریکہ سے ڈیل بھی پی پی کی ہوئی ہے اور ہم نے دیکھا بھی یہی کہ رجیم چینج میں بھاگ دوڑ بھی زرداری کرتے رہے اور ان پر ملک کے طاقتور
لوگوں کا ہاتھ اور ساتھ بھی رہا اور ان کی سیاسی بصیرت کی داد بھی دینی پڑے گی کہ کس طرح انھوں نے اپنی مخالف پاڑٹی کو ملک کی گلی گلی میں رسوا کروایا اور ان کے ووٹ کو عزت دو کے بیانیے کو بے عزت کروا کر ان کو مقابلے سے ہی آؤٹ کروادیا اب میدان میں مقابلہ پی ٹی آئی کے ساتھ ہے
دنیا بھر کے ترقی پذیر ممالک قرض لے کر پہلے Industrialized ہوتے ہیں اور Tradeable Industry کے زریعے زرمبادلہ کماتے ہیں
اسکے بعد سرکاری خرچ کر کے انفراسٹرکچر اور دیگر Non Tradeable انڈسٹری لگاتے ہیں.
1990 تک کم و بیش پاکستان بھی ایسا تھا.👇
پھر نواز شریف پاکستان کا وزیراعظم بنا
اور پاکستان میں 2 لعنتیں بیک وقت مسلط ہوگئیں
تاجر برادری کی ٹیکس چوری
اور
سرکاری خرچ سے Non Tradeable انڈسٹری کا قیام، جسے Development کا نام دیا گیا.
ان میں موٹروے، انڈرپاس، پل، سڑک وغیرہ شامل تھی.👇
جبکہ صعنتی پیداوار پر لعنت بھیج دی گئی.ا
اسکا نتیجہ یہ نکلا کہ جب جب پاکستان میں نون لیگ کی حکومت آتی ہے تو برآمدات (Tradeable Output) کم ہو جاتی ہے جبکہ سرکاری خرچ(Development spending) بڑھ جاتا ہے.
ہمارے یہاں لڑکی والوں کی طرف سے اکثر یہ دکھڑے سنائے جاتے ہیں کہ
۔ وہ بہت مجبور ہیں۔ بے بس ہیں۔
۔لڑکیوں کے اچھے رشتے نہیں ملتے۔
۔لوگ آ کے بہت ڈیمانڈز کرتے ہیں۔
۔لڑکیوں میں عیب نکالتے ہیں۔
۔رشتہ طے ہو جائے تو ائے دن رشتے داروں سمیت آ دھمکتے ہیں👇 #قومی_زبان
۔
۔خرچہ کرواتے ہیں۔
۔شادی میں لڑکی کا باپ قرض میں جکڑ جاتا ہے۔
۔رسم و رواج، لینا دینا، بارات کا کھانا، پہناونیاں، شادی سے اگلے دن کا ناشتہ، بارات کے ساتھ کھانا ، چوتھی کی رسم، مکلاوے، بچوں کی پیدائش پہ خرچے وغیرہ وغیرہ وغیرہ۔
ان رونے دھونے کے بجائے کیوں نا ہم اس👇
کا حل تلاش کریں۔
1۔سب سے پہلے میں لڑکی والوں کو یہ کہنا چاہتا ہوں کہ آپ حقیقت پسندی سے اپنی مالی حیثیت اور استطاعت کو مد نظر رکھتے ہوئے لڑکیوں کے رشتے تلاش کریں۔
2۔اپنی استطاعت کو خود تسلیم کریں۔ اور اس پہ شرمندہ ہونا یا معذرت خواہانہ رویہ چھوڑیں۔👇