#ancient #Punjab #HistoryBuff
راجہ پورس___316قبل مسیح
تارخ میں وقت اورمذہب کےتذبذب کا شکار ہیرو
علاقہ پورو(Puru) سے تعلق رکھنے والاپورس جوقدیم ھندوستانی مقدس کتاب "رگ وید" کی تحریروں کاعنوان رہا، اسکااصل نام "Purushotama" تھا۔
راجہ پورس"جنگ جہلم"(پنجاب/older name Hydaspes) کا شیر
اور ایک انتہائی بہترین جنگجو اور فوجی رہنما تھا۔
جہلم کے مہاراجہ پورس نے ٹیکسلا کے مہاراجہ آمبھی کےبرعکس یونانی اسکندر (Greek Alexander) کے خلاف مزاحمت کا انتخاب کیا۔
سکندر نے اپنا ایلچی پورس کے پاس بھیجا کہ وہ اسکی خودمختاری کوتسلیم کرتےھوئے خراج دینےپر راضی ھوجائے۔
تاہم پورس نے
ایسا کرنے سے انکار کر دیا اور ایلچی سے کہا کہ ”ہم میدانِ جنگ میں ملیں گے"۔ اگرچہ سکندر نےیہ جنگ جیت لی تاہم یہ اس کی زندگی کی آخری جنگ ثابت ھوئی۔
اسکندر اعظم کادنیا کوفتح کرنے کاخواب "جنگ جہلم" جیت جانے کےباوجود ادھورا رہا۔
پلوٹارک بتاتاھےکہ یونانیوں نےبادشاہ پورس کو”بڑی مشکل“ سے
شکست دی۔
راجہ پورس کی معلومات ہمیں یونانی ادب اور دیگر ذرائع سے ملتی ہیں۔
راجہ پورس کا مقامی ادب اوربحث و مباحثہ میں تذکرہ نہ ملنے کی سزا بالعموم وجہ اس کا عقیدہ، یعنی غیر مسلم ھونا بتائی جاتی ھے۔
جدیدیورپی سامراج اس پر درست سوال اٹھاتے ہیں اور یونانی ذرائع پر بھی شک کرتے
ہیں کہ ”سکندر غیر مسلم ھونے کے باوجود اتنی قدآور شخصیت تھا کہ سکندر کا نام سندھ کےمسلمان شہریوں نے بھی اپنایا جبکہ پورس اور اس کا نام بھی سندھ میں اسلام کی آمد سے پہلے تھا، لیکن مقامی ہیرو اور سر زمین پنجاب کے سپوت (پورس) کے نام پر کسی نےبھی اپنےبیٹے کانام نہیں رکھا"۔
صد افسوس کہ
اسکندر غیر ملکی ھونے کے باوجود تاریخ، عوام، میں وہ معتبر راجہ رکھتا ھے جو اس مٹی کا فرزند ھونے کے باوجود پورس کے حصے میں نہ آ سکا۔
Reference/Courtesy by @MazharGondal87
#Indology
#Fort
#architecture
ٹہلہ قلعہ (الور، راجھستان)
Tehla Fort (Alwar, #Rajhastan)
شکار گاہ سے سیاسی قیدیوں کی جیل تک سفر کرنے والا قلعہ
قلعوں کےگڑھ راجھستان میں سرسوا کےناہموار خطےکے درمیان واقع ٹہلا قلعہ جسے "کنکواری قلعہ" (Kankwari Fort) بھی کہاجاتا ھے، صدیوں کی تاریخ کے
خاموش گواہ کے طور پر کھڑا ھے جو بہادری، شہنشاہیت اور سازش کی داستانیں بنتا ھے۔
اونچے ٹیلے ہر بنائے جانے والی اس شکارگاہ کی یہی لوکیشن اس کے دفاعی اور سیاسی جیل بننے کی اھم وجہ بن گئی کیونکہ اس دور میں دفاعی مقاصد کیلئے قلعے ایسے ہی اونچے مقام پر تعمیر کیے جاتے تھے۔
امبر کےمہاراجہ
جئے سنگھ نےاسے 1611 میں جنگل کےبیچ تعمیر کیا۔ یہ مضبوط قلعہ ابتدائی طور پرشکار کرنے کیلئے بنایا گیا تھا۔ چنانچہ صدیوں کے دوران یہ ایک اسٹریٹجک فوجی چوکی بن گیاجس نے متعدد لڑائیوں اورطاقت کی بدلتی ھوئی لہروں کی گواہی دی۔
کانکواری قلعہ کا تعلق ایک مغل بادشاہ سے جا ملتا ھے۔ اورنگزیب
#Indology
#architecture
ادلاج نی واو (ادلاج، ریاست گجرات)
Adlaj Ni Vav (Adlaj, #Gujrat State)__1498
حسن سےشروع ھوتی داستان کا المیہ پر اختتام
زیرزمین فن تعمیر (Stepwell Art)، کنڈوں اور باءولیوں کی سرزمین ھندوستان کےشہر احمدآباد کا ورنہ___ادلاج نی واو
بھارتی وزیراعظم نریندرمودی کی
ریاست گجرات کے شہر احمد آباد کے قریب ضلع گاندھی نگر میں سطح زمین کو تکتی 5 منزلہ گہرائی جسے 1498 میں ڈنڈائی دیش کے واگھیلا خاندان (Vaghela Dynasty) کے رانا ویر سنگھ نے اپنی ملکہ روپیا کی خوبصورتی سےمتاثر ھو کر بناناشروع کیا مگر پڑوسی ریاست کےراجہ بیگدا کیساتھ ایک جنگ میں مارےجانے
کیوجہ سے اسے بیگدا نے 1499 میں ہند-اسلامی طرز پر ریکارڈ وقت میں مکمل کیاکیونکہ وہ بھی ملکہ کی خوبصورتی کےاعزاز میں اس کنویں کی تجویز پر اتفاق کرتا تھا۔
بعد میں بیگدا نے رانی سے شادی کا فیصلہ کیا لیکن رانی نے اپنے شوہر سےعقیدت کےطور پر مذہبی دعاؤں کیساتھ کنویں کا طواف کیااور کنویں
#ancient
#Palace
#HistoryUnveiled
کنوسس محل (جزیرہ کریٹ، یونان)
Knossos Palace (Cretè Island, #Greece 🇬🇷)
3900 سالہ قدیم___منون تہذیب (Minoan Civilization) کا محل
ایک ایسی تہذیب جو دھات کے زمانے(Bronze Age/3000 BC - 1100 BC)میں یونان میں پروان چڑھی۔
یونان کےشہر کنوسس،جو اس تہذیب
کا دارالحکومت تھا، کے جزیرے کریٹ پر واقع کنوسس محل زندہ بچ جانے والے محلات میں سب سے بڑا ھے اور دنیا کے مشہور قدیم آثارقدیمہ میں سےایک ھے۔
کنوسس کےپہلے انسانی باشندے غالباً ساتویں صدی قبل مسیح میں اناطولیہ سےآئےتھے اور گندم اور مویشیوں کی پرورش پر مبنی ایک زرعی معاشرہ قائم کیاتھا
ہیروگلیفک رسم الخط ایجاد ھوا اور مصریوں کے ساتھ تجارت شروع کی گئی۔
اس محل نےپوری تاریخ میں بہت سی کہانیوں اور افسانوں کوہلا کر رکھ دیامحل تلاش کے دوران ماہرین آثار قدیمہ نے ایک Minoan آرٹ ورک دریافت کیاجس میں ایک مشہور دیوی کودکھایا گیاتھا جس میں دوشیرنی ہیں۔
محل کاایک پورا علاقہ
#ancient
#Pakistan
#HistoryBuff
(گزشتہ سے پیوستہ)
وادئ سوات__تاریخ سے چند اوراق
Vedic Origin Valley
وادئ سوات__کل کے "سناتن دھرم" کا مسکن اور آج ملالہ کا "Home Town"
سناتن دھرم سنسکرت معنوں میں "ابدی مذہب" یعنی کبھی نہ ختم ھونے والا دھرم ھے، درحقیقت ھندو دھرم کا ہی دوسرا نام تھا۔
وادئ سوات__کو305 قبل مسیح میں موریہ سلطنت (Mauryan Empire) نےقتل کرکے ساتھ ملایااور 187 قبل مسیح تک یہاں انکا قبضہ رہا۔
وادئ سوات__سےکشنوں (Kushans)، جس کاصف اول کا بادشاہ کنشک تھا، نےپارتھیئوں کو مار بھگایا۔
وادئ سوات__میں موریہ عہدمیں بدھ مت پروان چڑھا اور انکے زوال کے بعد یہاں
فارسی-پارتھیئن سلطنت سےقبل ان گنت ھندو-بودھی بادشاہوں نےجنم لیا۔
وادئ سوات__میں 403 عیسوی میں چینی سیاح فاہیان (Faxian) سفر کرتا ھے اور یہاں کےحالات قلمبند کرتا ھے۔
وادئ سوات__میں آٹھویں صدی عیسوی میں ایرانی-ہن کی یلغارشاہی ھند حکمرانوں کاعہد ختم کرتےہیں اور زیریں اودےگرام کواپنا
#Indology
#ancient
#Peshawar
#HistoryMatters
بادشاہ کنشک___تاریخ سے چند اوراق
(King Kanishka)___78 AD-102 AD
کنشک__ھندوستان پر ایک طویل عرصےتک شان سےحکومت کرنےوالی کشن سلطنت (Kushan Dynasty)کا سب سےکامیاب بادشاہ جوپشاور (موجودہ پاکستان)کی پیدائش ھے۔
کنشک__نےبدھ مت سکالر
اور راہب اسوا گوش (Aswagosh) کی تبلیغ سے بدھ مت اختیار کیا مگر یہ بات بہت کم لوگوں کے علم میں ھے کہ اس کے مذہب میں ھند-ایرانی پارسی مذہب (Ancient Persian/ Zoroastrianism) بھی شامل تھا۔
کنشک__کی عظمت کاانحصارمحض ان فتوحات پر نہیں جو اس نےکیں بلکہ یہ ھندوستانی حکمرانوں میں اس حوالے
سے منفرد تھا کہ اس نے فن اور مذہب کو بےپناہ ترقی دی جو کہ گندھارا سےمنسلک ھے۔
کنشک__نے سونے کے سکوں کی بنیاد ڈالی اور انہیں "دینارس" (Dinaras) کا نام دیا جو آج بھی بہت سے مڈل ایسٹ افریقی ممالک کی رائج العمل کرنسی ھے۔
کنشک__کا دربار ادبی سرگرمیوں کا گڑھ تھا۔ اس کے دارالحکومت پشاور
#Indology
#HistoryMatters
جسونت تھڈا (جودھ پور، راجھستان بھارت)
Jaswant Thada (Jodhpur, #India)
ء1899
ھندوستان میں جابجا بکھرے "تاج محل" کے نقش
جسونت تھڈا جسےجودھ پور کا تاج محل بھی کہاجاتا ھے اپنے ملکوتی اور سنگ مرمری حسن کے باعث ضرور زیرقلم آتا ھے۔
سفید سنگ مرمر سے بنی ایک خالص
راجھستانی اور راجپوت یادگار جسے جودھ پور کےمہاراجہ جسونت سنگھ جل (1873-1895) کی یاد میں ان کے بیٹےمہاراجہ سردار سنگھ جی (1895-1911) نے 1899 میں تعمیر کیا تھا۔
اس کی تعمیر پیچیدہ سنگ مرمر اور باریک ریت کےپتھر کے نقش ونگار سے بنی ھے۔
یہ آگرہ کے تاج محل سےحیرت انگیز مشابہت رکھتا ھے۔
مرکزی ہال کو ایک مندر کی طرح بنایا گیا تھا جسے 12 ستونوں سے سہارا دیا گیا تھا جہاں پوجا (رسم)کی جاتی تھی۔
تھڈا کی دیواریں پیچیدہ ڈیزائنوں اور مجسموں سےمزین ہیں۔ اس میں ایک سینوٹاف (Cenotoph, empty tomb) بھی ھےجس میں مہاراجہ جسونت سنگھ II اور ان کے آباؤ اجدادکی تصویریں ہیں۔ راجپوت