#Rawalpindi #Archives
سہگل حویلی
یعنی مشہور زمانہ لال حویلی
جہلم کے ہندو شہزادے اور مسلمان رقاصہ بدھن بائی کی محبت کی 100 سالہ پرانی وہ ادھوری داستان جس کی گواہی آج بھی اس کےمنقش درودیوار دیتےہیں۔
راولپنڈی (پاکستان) کے بوہڑ بازار میں واقع لال حویلی جہاں ایک زمانےمیں رقص وسرود اور
رقاصاءوں کی خوبصورتی کی تعریف کرنے والوں کا تانتا بندھا کرتا تھا، ڈانس پارٹیاں ھوا کرتی تھیں آج سیاسی گہما گہمی ھے۔
قیام پاکستان سے پہلے جہلم کے ایک خوشحال گھرانے سےتعلق رکھنے والے ممتاز بیرسٹر دھن راج سہگل شادی کی ایک تقریب میں شرکت کیلئےسیالکوٹ گئے جہاں انہوں نے مشہور زمانہ اور
حسین رقاصہ بدھن بائی سے شادی کر لی۔
ہندو ھو اسے مہاتما بدھ کی گھنٹیاں نہ بھائیں کیسے ممکن ھے!
بدھن بائی کے گھنگھروءوں نے راج کا دل موہ لیا۔
اسی محبت کی کہانی نےلال حویلی کی بنیادڈالی۔ دھن راج بدھن کو اپنےساتھ راولپنڈی لے آیا اور بوہڑبازار میں ایک شاندار حویلی تعمیر کروائی جو سہگل
کے نام سے جانی جانے لگی۔
یہ بات جان کر حیرت ھو گی کہ بدھن بائی ایک مسلمان رقاصہ تھی اورچونکہ وہ مسلمان تھی اس لئےسہگل نےحویلی کے صحن میں بدھن کیلئے مسجد اور اپنےلیےمندر بھی تعمیر کروایا۔
آج اس مسجد مندر کےدرمیان گھروں اورآبادی کے جگہ لے لینے سے فاصلہ بڑھ گیا ھے۔
اس حویلی میں بدھن
نماز، روزے کی پابند رہی جس کے باعث گانے سیکھنے اور دیکھنے والوں کی تعداد کم ھوتی گئی۔اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے بدھن سے لوگ اسلامی تعلیمات سیکھنے آنے لگے۔
یہ بھی کہاجاتاھے کہ بٹوارہ ھوا تو دھن راج نے حویلی بدھاں بائی کوسونپ دی تھی اور خود خاندان کےہمراہ انڈیا چلےگئے۔ بدھن بائی یہاں
اکیلی رہ گئیں تھیں۔
بدھن بھی اپنے آخری ایام میں یہ حویلی چھوڑ گئیں تھیں۔
کہاں گئیں تھیں؟
کیوں گئیں تھیں؟
کوئی نہیں جانتا۔
اگر ابھی بھی سہگل خاندان کا کوئی فرداپنےاجداد سے انس و عقیدت رکھتے تو پاکستان نہ تو اتنا دورھے اور نہ ہی یہاں آنے پر پابندی۔
وقت گزرنے کے ساتھ اس حویلی کو
ایک نئی پہچان ملی اس وقت ملی جب پاکستان کی سیاسی شخصیت شیخ رشید نے اسے 1985 میں خریدا اور اس کا نام لال حویلی رکھا گیا۔تقسیم کی لائن تاریخ میں ضرور لگی ھو گی مگر ماضی، یادوں اورتعلقات پرکبھی نہیں لگائی جا سکتی۔ @threadreaderapp compile. #Partition #architecture #Pakistan #History
• • •
Missing some Tweet in this thread? You can try to
force a refresh
#Indology
#architecture
البرٹ ہال میوزیم(جےپور، راجھستان)
Albert Hall Museum(Jaipur, Rajhastan)
البرٹ ہال ایک کمپلیکس نمامیوزیم جس کاسنگ بنیاد1876میں پرنس آف ویلز البرٹ ایڈورڈ نے رکھا۔میوزیم کو1887میں آرکیٹیکٹ سیموئل سوئٹن جیکب نےمکمل کیا۔
بات صرف یہیں ختم نہیں ھوتی!
میوزیم کیاھے
گویا مشرق تا مغرب نوادرات کا مرکز ھے۔
میوزیم کثیر المنزلہ عمارت ھےجسے پندرہ زمروں میں تقسیم کیاگیا ھے جن میں دھاتی آرٹ، صدیوں پرانے قالین، مٹی کے برتن، زیورات، ملبوسات اور ٹیکسٹائل، اسلحہ اور آرمر، چھوٹی پینٹنگز، موسیقی کےآلات، مٹی کا فن، مجسمہ سازی، ماربل آرٹ، فرنیچر اور لکڑی کا
فن، قالین، بین الاقوامی فن، ہاتھی دانت، اور سکے یعنی میٹل آرٹ کلیکشن کی اشیاء شامل ہیں۔اسلحے اور زرہ بکتر کے ذخیرے میں تلواریں، ہلٹ، شیر چاقو، ہیلمٹ، برچھی، کمان اور تیر شامل ہیں۔
زیورات کی گیلری میں 19ویں صدی کے جے پوری کسانوں کے ساتھ ساتھ اشرافیہ کے پہننے والے زیورات بھی
#ancient
#Tomb
#architecture
ماماہتون کامقبرہ(شہر تکران، اناطولیہ، ترکیہ)
Tomb of Mama Hatun (Tecran, Anatilia,#Turkiye)
کچھ زمین کےاندر،چاروں اطراف گول محرابیں اور وسط میں کھڑا ٹاورنما__منفرد اورحیران کن مقبرہ
بارہویں صدی کی اناطولیہ پرحکومت کرنےوالی ایک نہایت جنگجو"سلتوک سلطنت"
کےحکمران عزالدین سلتوک II کی بیٹی "ماما ہتون" کا مقبرہ جو 1192 سے 1202 کے درمیان تعمیر کیا گیا، اپنے منفرد فن تعمیر سےاپنی جانب توجہ مبذول کرواتاھے۔
اس دور کےاناطولیہ میں مستطیل اور مربع طرزتعمیر کےمقبروں کےبرعکس یہ مقبرہ گول شکل میں ڈیزائن کیاگیا۔
مقبرہ اپنے وقت میں ماما ہتون کی
بیٹی کے کاروان سرائے کی غرض سے تعمیر کیا گیاتھا لیکن مقبرے میں کوئی ایسی تختی یا نوشتہ (Inscription) موجود نہیں ھے جس سے اس دور کی درست تاریخ اور تعمیر کا علم ھو سکے۔
اصل مقبرہ بیلناکار ٹاور پر مشتمل ھے جس کی لمبائی 4.60 میٹر اور قطر 17.35 میٹر ھے۔
کالم کے محراب والے فریم پر سورۃ
#Indology
#Mughal
#architecture
رومن کیتھولک قبرستان (آگرہ)
Roman Catholic #Cemetery (#Agra)
وہی چھتریاں،وہی گنبد،وہی محرابیں
پہلی نظرمیں اسےشایدہی کوئی عیسائی قبرستان مانےکیونکہ یہ مغل طرزکےمقبروں کی ایک صف بندی ھے۔
سولہویں صدی کاایک عیسائی قبرستان مگرمغلیہ طرزتعمیر لئے"تاج محل"
کےشہر آگرہ میں بھگوان ٹاکیز کےقریب واقع، 400سےزائد سال پرانا رومن کیتھولک ایک انوکھاقبرستان جہاں شمالی ھندوستان کے ابتدائی عیسائیوں کو مغلیہ طرزتعمیر کےمقبروں میں دفن کیا گیا تھا.
عہد اکبر سےمتعلق اس عیسائی قبرستان میں ایکسپلورر اور ایڈوینچرر جان ملڈن ہال (John Mildenhall) کی قبر
موجود ھےجو کوئی مشہورعیسائی شخصیت تو نہ تھامگر ھندوستان میں دفن ھونےوالا پہلا انگریز تھا۔ یہاں دفن ھونے سے یہ خاص اعزاز اسکے حصے میں آیا۔
قبرستان کی کچھ قبریں توعطیم تاج محل کی خام نقل کی مانندہیں۔ ولیم ڈیل ریمپل نےاپنی سب سے زیادہ فروخت ھونےوالی کتاب "White Mughals"میں ایشیاء کے
#Indology
#Rajhastan
#architecture
گلتاجی مندر(جےپور، راجھستان)
Galtaji Temple 🛕(Jaipur)
جہاں "Engineering"ختم ھوتی ھے،وھاں سے "فن تعمیر"شروع ھوتاھے۔
اس حقیقت کو15ویں صدی میں جےپورمیں گلابی ریت اورسرخ اینٹوں سےبنائےگئے "گلتاجی مندر" نےثابت کیاجوخالص راجھستانی تعمیراتی حسن اوڑھے
7مقدس تالابوں اورچشموں سےگھرا ایک قدیم دیوہیکل کمپلیکس ھےجسے بندروں کی بھرمار کیوجہ سے "گلوار باغ" کہاجاتاھے۔
مندر کاکمپلیکس گویاکئی مندروں کا ایک جھرمٹ ھےجنہیں اراولی کی پہاڑیوں میں ایک پہاڑی درے کی ایک تنگ شگاف کے اندر بنایاگیا ھے۔
درختوں اورپہاڑوں کےبیچ کسی عظیم الشان شاہی محل
کی مانند مندر اپنےعقیدت مند ھندوؤں کیلئے "اشنان" (نہانے/Showering) یعنی گناہ دھونے کا ذریعہ ھے۔7 مقدس تالابوں میں سے گلتاکنڈ سب سےمقدس ھےکیونکہ یہ حوض کبھی خشک نہیں ھوتا۔
بھگوان کرشنا، بھگوان رام اور بھگوان ہنومان کیلئےوقف مندر آج ایک اہم ھندو زیارت گاہ ھے۔
گلتاجی کمپلیکس کے اندر
#ancient
#geology
#Iran
زگروس پہاڑ (عراقی کردستان، #ایران)
Zagros Mountains ⛰️(Iraqi Kurdistan)
ایران، تاریخ اور ثقافت سے مالا مال ایک قدیم اور ان "زگروس پہاڑوں" کاملک جہاں 9000 قبل مسیح کی انسانی رہائش اور زراعت کےٹھوس ثبوت موجود ہیں۔
زگروس پہاڑوں کی تاریخ اتنی سادہ نہیں!
کیونکہ
ان پہاڑوں نےایران میں تہذیبوں کی ترقی میں نہایت اہم کردار اداکیا۔
وہ ایسےکہ پہاڑوں کیطرف سےفراہم کردہ قدرتی رکاوٹوں نےحملوں کیخلاف تحفظ کاکام کیااورمختلف ثقافتوں اوربرادریوں کی نشوونماکوفروغ دیا۔ایلمائٹ(Elamites Empire/3200 BC-539 BC) ایران کی قدیم ترین تہذیبوں میں سےایک زگروس کے
دامن میں ہی پروان چڑھی۔ بعد میں اچمینیڈ سلطنت (Achaemenid Empire/500 BC) جس کا دارالحکومت پرسیپولیس میں تھا، نے دفاع اور وسائل کیلئے زگروس پر انحصار کیا۔
زگروس پہاڑ جنوب مشرقی ایران میں واقع کرسٹل چٹانوں کی ایک پٹی پرمشتمل ھے۔
یہ پہاڑ ترکی سےخلیج عمان تک 1500 کلومیٹر سے زیادہ تک
#ancient
#HistoryBuff
کندوان کے غار نما گھر(کندوان، تبریز)
Kandovan Cave Houses 🏘(Tabriz, #Iran)
کیا کبھی انسان بھی مکھیوں کے چھتوں (Hives) میں رھے ہیں؟
کندوان___ایران کےمنجمد کر دینے والےپہاڑی سلسلےسہند میں واقع شہد کےچھتےکی مانند نوکیلے یعنی عجیب وغریب شکلوں والےگھروں پر مشتمل
ایک پرامن قدرتی گاؤں جو اپنےمنفرد پتھر سے کٹے خصوصا آتش فشانی چٹانوں سے تراشے فن تعمیر کےباعث مشہور ھےجو آج دنیامیں بچ جانےوالے چند دیہاتوں میں سے ایک ھے۔
آتش فشاں جو آج غیر فعال ھے 11 ملین سال سے زیادہ عرصے سےسرگرم تھا۔ کندوان گاؤں کو "Iranian cappadocia" کہاجائےتو بےجانہ ھو گا۔
ماہرین آثار قدیمہ (#Archeologists) کا کہنا ھے کہ لوگ 3000 سال پہلےبھی غاروں میں رہتے تھے۔ تاہم کندوان میں رہنےوالے لوگوں کے مطابق موجودہ گاؤں 800 سال پرانے گاؤں کے پہلے باشندے خوارزم کے پناہ گزین تھے، جو منگول فوج سے بھاگے تھے۔ وہ چھپنےکی غرض سے انہی غاروں میں ٹھہرے کیونکہ غار سے