ٹوٹی والا گھر
وہ ایک رہائشی کالونی کا مکان تھا۔ مکان کی نشانی یہ تھی کہ اس کے باہر ایک نلکا لگا ہوا تھا۔ گھر کے دائیں جانب سے سڑک گزرتی تھی اور سڑک اور مکان درمیان تھوڑا سا کچا زمین کا ٹکڑا تھا جہاں پہ خود رو گھانس کا فرش بچھا رہتا اور مکان کی باہری سڑک کےبالمقابل کسی فصیل کی(۱)
مانند ساتھ ساتھ چلتی تھی اور درمیان میں خودرو گھانس کا میدان۔ پانی کا نلکا اسی دیوار سے منسلک تھا جو اس مکان کو دوسرے مکانوں سے ممتاز کرتا تھا۔ سڑک سے گذرنے والے راہگیر جنہیں پیاس محسوس ہوتی وہ اس نلکے سے اپنی پیاس بجھاتے اکثر جاتے ہوۓ اسے بند کر دیتے اور کچھ یہ تکلف نہ برتتے(۲)
عباس علی کا ٹال
بوا نے منے سے کہا کہ کبھی گڑ گاؤں جانا ہو تو اپنا تعارف نہ کروانا کسی کو جانے بغیر کیونکہ سب لوگ میر صاحب کے خیر مند نہیں تھے۔ میر صاحب سخت گیر انسان تھے اور اپنے علاقے میں صاحب حیثیت بھی۔ خود پسند اتنے کہ بیوی بچوں کو تو محلے والوں کے ساتھ قافلے میں بھجوا دیا(1)
اور خود ہوائی جہاز سے پاکستان تشریف لاۓ۔ اکڑ اتنی کہ بیس روپے رشوت نہ دی اور اپنی جائیداد سے بہت کم کلیم پہ ساری زندگی ایک چند کمروں کے مکان میں گذار دی۔ باقی ماندہ زندگی اپنی پیچھے چھوڑی پانچ بیل گاڑیوں کے ملال اور اپنے ساتھ زیور کی صورت میں لاۓ ہوۓ مال پہ گذار دی۔ (2)