بلاسفیمی: یورپ نے گردن کیسے بچائی؟
یکم جولائی 1766ء کوشمالی فرانس کےایک قصبے میں ایک نوجوان کو بلاسفیمی کامجرم قرار دیاگیا۔ اس وقت اس جرم پر سزائے موت کا تجویز ہونا بڑی بات نہیں تھی۔
مجرم کی زبان کاٹی گئی، سرقلم کیا گیا اور جسم جلا کر پانی میں بہا دیا گیا۔
یہ اپنی نوعیت کا کوئی واحد واقعہ نہیں تھا۔ اس دور میں نہ جانے کتنے افراد کو بلاسفیمی کے جرم میں پھانسیاں ہوئیں۔
یہ ان دنوں کی بات ہے جب یورپی سماج میں عمومی طور پر مذہب اور مذہبی پیشواؤں کا اثر غیر معمولی تھا۔
اس طرح ظالمانہ انداز میں جان لینا غیر انسانی نہیں سمجھا جاتا تھا بلکہ اس پر فخر کیا جاتا تھا اور اسے انصاف کےتقاضوں کے مطابق مانا جاتا تھا۔
اس کاایک فائدہ یہ ہوتا کہ مذہبی طبقے کی بالادستی برقرار رہتی اور کسی کواسےچیلنج کرنےکی جرات نہیں ہوتی تھی۔
یورپ میں مذہب اورمذہبی پیشواؤں کاسورج غروب ہونےکاوقت قریب تھا اور انکااثرکم ہورہاتھا۔
اس سے کم و بیش 70 سال پہلے 1697میں برطانیہ میں ایک 20 سالہ نوجوان کواسی طرح کے جرم میں موت کی سزا ہوئی تھی۔اس نےعہد نامہ قدیم اورحضرت عیسیٰ کے معجزات سےانکار کیا تھا۔
آج برطانیہ اور فرانس میں تصور بھی نہیں کیاجاسکتاکہ کسی کواس بناپر سزاموت ہوسکتی ہے۔
دونوں ملکوں کےقوانین بلاسفیمی قابل سزا نہیں رہی۔
یورپ کے بعض دیگر ممالک میں آج بلاسفیمی پر کم درجہ سزائیں صرف قانون کی کتابوں کی حد تک ہیں۔
بلاسفیمی کی وجہ سےسزاؤں یا حملوں کی زیادہ ترکہانیاں یورپ کے باہران ممالک سےآتی ہیں جہاں مذہب اورریاست میں ایکا ہے۔
صرف بلاسفیمی کےقانون میں تبدیلی سےاندازہ لگایاجاسکتاہےکہ یورپ کتنا بدل گیاہے۔جوالزام کسی دورمیں قابل گردن زنی تھا۔
مسلسل پھانسیوں، سزاؤں اور خونی جنگوں کے بعد یورپ میں مذہب نجی معاملہ قرار پا چکا ہے۔ ریاست اس میں مداخلت سے باز رہتی ہے۔ مذہب اور ریاست کو الگ الگ کر دیا گیا ہے۔
مذہب اور ریاست کی علیحدگی نے بلاسفیمی قوانین پر بھی اثر ڈالا ہے۔
محسوس کیاگیاکہ سائنسی تحقیق کے لیےنئی سوچ اورآزادانہ تحقیق چونکہ بنیادی شرط ہےاس لیےمذہب کے معاملےکواس سےعلیحدہ رکھاجائے۔
صنعت اور سائنس کی ترقی کےلیے آزادانہ سوچ کی ضرورت پڑتی ہے۔
اب نئی بات کرنے والےکوڈرنہیں ہوتا کہ مذہبی پیشواؤں یاانکےماننےوالوں کےہاتھوں جان گنوابیٹھےگا۔
یورپ میں اٹھارویں صدی کی روشن خیالی کی تحریک نےعقل کی اولیت کوتسلیم کرتےہوئےمذہبیت پرپہلا قابل ذکروارکیا۔
لیکن ریاست اورمذہب کی علیحدگی محض چندروشن خیال دانش ورں کے ذہن کی پیداوارنہیں۔یہ یورپ میں ہونےوالی سماجی، معاشی اورسیاسی تبدیلیوں کی داستان ہے۔