تو نےکہا تھاتیرا کہا کیوں نہیں ہوا
جب حشراسی زمیں پہ اٹھائےگئےتو
پھر
برپایہیں پہ روز جزا کیوں نہیں ہوا
وہ شمع بجھ گئی تھی توکہرام تھا
تمام
دل بجھ گئےتوشورعزاکیوں نہیں ہوا
واماندگاں پہ تنگ ہوئی کیوں تری زمیں
دروازہ آسمان کاواکیوں نہیں ہوا
ان کی گلی میں رقص ہواکیوں نہیں ہوا
آخراسی خرابے میں زندہ ہیں اور سب
یوں خاک کوئی میرےسواکیوں نہیں ہوا
کیاجذب عشق مجھ سےزیادہ تھاغیر میں
اس کاحبیب اس سےجداکیوں نہیں ہوا
جب وہ بھی تھےگلوئےبریدہ سےنالہ زن
پھرکشتگاں کاحرف رسا کیوں نہیں ہوا
تومیرےدشمنوں سے خفا کیوں نہیں ہوا
جو کچھ ہواوہ کیسے ہواجانتا ہوں میں
جو کچھ نہیں ہواوہ بتا کیوں نہیں ہوا
عرفان صدیقی