محدث العصر علامہ سید یوسف بنوری
کے قلم سے
اسلام جس کامل ترین شکل میں اُمتِ محمدیہ کے سامنے آج موجود ہے، یہ بڑی کٹھن منزلیں طے کرکے یہاں پہنچا ہے اور دین اسلام کا یہ خوب صورت باغیچہ جس شان میں آج موجود ہے اور جس طرح 👇
👇
اور زیادہ گہرائی میں جایئے تو اس دین الٰہی کی تاریخ اس سے بھی زیادہ قدیم نظر آتی ہے۔ حضرت آدم علی نبینا وعلیہ السلام نے اس دین اسلام کی خِشتِ اول رکھی ہے، ان کے بعد آنے والے حضرات انبیاء کرام ؑورسولان عظام ؑپر کیا گذری ہے؟👇
ترجمہ:۔’’سب سے زیادہ تکلیفیں انبیاء کرام علیہم السلام کو اٹھانی پڑتی ہیں، پھر جو ان کے جتنا زیادہ قریب ومماثل ہو اس کو‘‘۔
یعنی یہ ’’دین اسلام‘‘ ان تمام ادیانِ الٰہیہ سماویہ کی آخری کڑی ہے 👇
امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ اتفاق سے اس سرزمین میں پیدا ہوئے جہاں علوم نبوت کا سب سے زیادہ ذخیرہ پہنچا، 👇
جس وقت حضرت علیؓ کوفہ تشریف لے گئے ہیں، 👇
ترجمہ:۔’’حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ کے علاوہ کوئی صحابیؓ ایسا نہیں 👇
👇
یہ چالیس ارکان کی جماعت مسائل فقہیہ میں کما حقہ غور وخوض کے بعد مسائل متفقہ طور پر طے کرتی تھی، 👇
’’وضع أبو حنیفۃؒ مذہبہ شوری بینہم لم یستبد فیہ بنفسہ دونہم، اجتہاداً منہ فی الدین ومبالغۃً فی النصیحۃ ﷲ ورسولہ والمؤمنین ، 👇
👇
👇
👇
’’لکل فن رجال‘‘ معروف قولہ ہے۔ اعمشؒ جو ابوحنیفہؒ اور ابو یوسفؒ کے شیخ تھے، ایک موقعہ پر ان سے ایک مسئلہ پوچھا گیا، جواب سے عاجز آئے، ابوحنیفہؒ موجود تھے، عرض کیا: ’’اجازت ہو تو جواب دوں؟‘‘ فرمایا: ’’جی ہاں!‘‘ جب ابوحنیفہؒ نے اسی حدیث سے جواب دیا 👇
امام ابویوسفؒ کی موجودگی میں ایک دفعہ کسی نے کوئی مسئلہ دریافت کیا، پھر 👇
👇
بسوخت عقل زحیرت کہ ایں چہ بوالعجبی است
أللّٰہم اہد قومی فإنہم لایعلمون۔