دنیا کا پہلا میزائیل کس نے ایجاد کیا تھا؟
ٹیپو سلطان نے
جی ہاں شیر میسور، ٹیپو سلطان شہید
ٹیپو سلطان کے پَر دادا "شیخ ولی محمد" بیجا پور کے فرما روا محمد عادل شاہ کے عہد حکومت میں اپنے بیٹے "محمد علی" کے ساتھ دہلی سے گلبرگہ آئے-
شیخ ولی محمد ایک دین دار
شیخ ولی محمد کی وفات کے بعد محمد علی بیجا پور چلے گئے پھر بیجا پور سے اپنے اہل و عیال کے ساتھ "کولار" چلے گئے وہاں کے حاکم شاہ محمد سے ان کی پہلے سے شناسائی تھی- حاکم نے خوش دلی سے اُن کا خیر مقدم کیا اور اپنی جائیداد کا مہتمم مقرر کیا-
شیخ محمدعلی کے چار بیٹے تھے
محمد علی کی وفات کے بعد فتح محمد نے "کولار" کی سکونت ترک کر دی اور نواب سعداللہ خان والیٔ ارکوٹ کی ملازمت اختیار کر لی- نواب سعداللہ خان نے فتح محمد کو جمعدار بنادیا اور 200 پیادوں اور 50 سواروں کے دستے کی کمان اس کے سپرد کر
1721ء میں فتح محمد کے ہاں ایک بیٹا پیدا ہوا تو اس کا نام "حیدر علی" رکھا گیا -حیدر علی بچپن ہی سے زیادہ تر وقت شکار میں گزارتے تھے اور گھوڑ سواری وشمشیر زنی ان کا محبوب مشغلہ تھا -
حیدر علی کی دوشادیاں تھیں، دوسری شادی گورنر معین الدین خان کی بیٹی فاطمہ بیگم المعروف
اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا قبول فرمائی اور ان کو (بمطابق 29 نومبر 1750ء ) ایک
ٹیپو سلطان اپنے والد نواب حیدر علی کی ذاتی دلچسپی سے ایک عالم فاضل اور مدبر حکمران بنے، اُنہیں
ٹیپو سلطان مصنفینِ کتب کی بہت تکریم کرتے،علماء اور شعراء کی سر پرستی فرماتے اور خود بھی مختلف موضوعات پہ کتابوں کے مصنف تھے-
آپ کی اس
’’سلطان کی تحریر دوسری تحریروں سے بالکل ممتاز ہوتی تھی اس قدر مختصر اور پُر معنی ہوتی کہ ایک ایک لفظ سے کئی کئی معنی نکلتے تھے اس کی تحریر کا خاص وصف یہ تھا کہ ایک ہی نظر میں پہچانی جاتی تھی کہ یہ سلطان
اللہ پاک نے ٹیپو سُلطان شہید کو نہ صرف علمی قابلیت سے مالا مال کیا تھا بلکہ فروغ علم کے جذبے سے بھی مالا مال فرمایا تھا - "سرنگا پٹم" میں جامع الامور کے نام سےقائم کردہ یونیورسٹی اسی چیز کا منہ بولتا ثبوت ہے-جس میں دینی علوم کے ساتھ ساتھ صنعتی فنون کی
اللہ پاک نے آپ کو مطالعہ کا وسیع ذوق عطا فرمایا تھا، جو کتاب آپ کے زیر مطالعہ رہتی، مطالعہ کر لینے کے بعد آپ اس کے اختتام پر اپنی مہر ثبت فرماتے- آپ اپنی مجلد کتب کے چاروں کونوں پر اللہ(جلاجلالہ) اور پنجتن پاک ع کے اسماء مبارکہ منقش فرماتے- یہ چیز
سُلطان شہید کا روزانہ کا معمول تھا کہ بعد از نماز فجر طلوعِ آفتاب تک قرآن پاک کی تلاوت فرماتے، آپ کے سونے اور بیٹھنے والے کمروں کی دیواریں آیاتِ قرانی سے مزین ہوتیں،
نماز کی سختی سے پابندی کرتے۔ جب مسجد اعلیٰ کے افتتاح کے وقت سوال کیا گیا کہ پہلی نماز وہ پڑھائے گا جو صاحب ترتیب(یعنی جس نے کبھی کوئی نماز قضا نہ کی)ہوتو سب لوگ جو حاضر تھے خاموش ہو گئے اور جب
"الحمداللہ! مَیں اپنے والد کی تربیت اور اساتذہ کے فیضان سے صاحب ترتیب ہوں چنانچہ پہلی نماز کی امامت خود ٹیپو سلطان نے کرائی-
"ارمغانِ حیدری" کے مصنّف لکھتے ہیں:
’’شاہ غازی کے صاحبان سے ہم نے سنا ہے کہ سلطان
سلطان کی مبارک نصیحت یہ تھی کہ مسلمانوں کےطہارت میں رہنےسے قلب کی صفائی ہوتی ہے-
ٹیپو سلطان ایک سچے مسلمان ہونے
آپ کااپنی ہندو رعایا کے ساتھ نہایت ہی عمدہ اور بے تعصبانہ سلوک تھا - اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ ریاست کی اکثریت ہندو تھی
ٹیپو سلطان کو جدت و ایجادات کا خاص شوق تھا۔ ہندوستان کی تاریخ میں پہلی دفعہ ٹیپو
ٹیپوسلطان نے اپنی سلطنت میں ہتھیار سازی کو بہت ترقی دی اور میدان جنگ میں پہلی مرتبہ لوہےکے بنے راکٹوں کا استعمال کیا۔
دنیا میں پہلا
برصغیر میں جدید گھڑی سازی کا پہلا کارخانہ بھی سلطان نے لگوایا-
ٹیپو سلطان کی بہادری اور شجاعت کا اس سے بڑھ کر اور کیا ثبوت ہو سکتا ہے کہ وہ دست بدست جنگ کو زیادہ محبوب رکھتے تھے اور صرف 15 برس کی عمر میں میدانِ جنگ
انگریزوں کو یہ بات اچھی طرح معلوم ہو گئی کہ ہم طاقت کے بل بوتے پر ٹیپو سلطان کے خلاف فتح حاصل نہیں کر سکتے کیونکہ ٹیپو سلطان انگریزوں کے سامنے ایک
جب میسور کی چوتھی جنگ سرنگا پٹم میں لڑی گئی تو اس جنگ میں ٹیپو سلطان کی فوج میں غدار پُرنیا پنڈت، غدار میر صادق اور غدار غلام علی جو کہ غدارِ
مزید جس تہہ خانے میں جنگی سامان (راکٹ)وغیرہ پڑے تھے اس میں دریائے کاویری کا پانی چھڑوا کرراکٹ ناکارہ کروا دئیے جس کی
انہی غداروں نے سُلطان کے سیکنڈ اِن کمانڈ سردار غازی خان کو بُلوا کر چپکے سے شہید کیا اور جرنیل سیّد غفار کے قتل پہ اندرونی دستے مقرر کئے- جب ایک ایک کر کے سب وفادار شہید ہوگئے تو آخر میں صرف سُلطان رَہ گئے تھے جنہیں
مگر سلطان کا کہنا تھا
"شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے"
اور پھر شیر ِمیسور اپنی بےنظیر شجاعت اور نا قابلِ شکست ارادے کاثبوت
شہادت کے بعد لاشۂ شہید کی ہیبت و جلال کا یہ عالَم تھا کہ غداروں کے ذریعے فتح پانے والے بزدل انگریز جرنیل قریب نہ جا رہے تھے کہ یہ
آخری وقت لڑتے ہوئے سُلطان کی تلوار ٹوٹ گئی تھی اور دستہ ہاتھ میں رِہ گیا تھا ،جب لاشہ مبارک قبضے میں لیا گیا تو ہاتھ کی گرفت ٹوٹے ہوئے دستہ پہ اُسی طرح قائم تھی-
انگریزی فوج کا وہ بندوقچی (Gunman) جس نے
"مجھے نہیں پتہ تھا کہ میرے سامنے لڑنے والا کون ہے ،مگر وہ شیروں کی طرح لڑ رہا تھا"
ٹیپو سلطان کی شخصیت سے نہ صرف ہندو اور مسلمان متاثر تھے بلکہ ایسٹ انڈیا کمپنی کے گورنرجنرل
"میرے دوستو!مجھے ڈر ہے کہ ٹیپو کو یہ دنیا ہمیشہ یاد رکھے گی جب کہ ہمیں اور تمہیں بھول جائے گی۔
ہاں! مجھے خوف ہےکہ وہ ہندوستان کے دوسرے حکمرانوں کی طرح نہیں ہے مجھے اس سے خوف اس لئے ہے کہ اس نے دوسرے حکمرانوں کے لئے مثال