رابعہ بصری اپنے والدین کی چوتھی بیٹی تھیں ،اسی لئے آپ کا نام رابعہ یعنی ”چوتھی“ رکھاگیا۔ وہ ایک انتہائی غریب لیکن معززگھرانے میں پیداہوئیں۔ رابعہ بصری کے والدین کی غربت کا اندازہ اس بات سے لگایاجاسکتاہے کہ جس شب رابعہ بصری پیدا ہوئیں، آپ کے والدین کے پاس نہ تو
رات کو رابعہ بصری کے والد کو خواب میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زیارت ہوئی اور اُنہوں نے رابعہ کے والد کو بتایا کہ ”تمہاری نومولود بیٹی، خداکی برگزیدہ بندی بنے گی اور مسلمانوں کو صحیح راہ پر لے کر آئے گی۔ تم امیرِ
جناب رابعہ
کچھ عرصے بعد رابعہ بصری رح کے والد انتقال کرگئے اور شہر
ہوا کچھ یوں کہ رابعہ بصری رح ایک قافلے میں جارہی تھیں کہ قافلے کو ڈاکوؤں نے لوٹ لیا اور ڈاکوؤں کے سرغنہ نے رابعہ بصری رح کو اپنی تحویل میں لے لیا اور آپ کو لوٹ کے مال کی طرح
آپ کا آقا، آپ سے انتہائی سخت محنت و مشقت کا کام لیتاتھا۔ اس کے باوجود آپ دن میں کام کرتیں اور رات بھر عبادت کرتی رہتیں اور دن میں بھی زیادہ تر روزے رکھتیں۔
اتفاقاً ایک دفعہ رابعہ بصری رح کا آقا آدھی رات کو جاگ گیااور کسی کی گریہ وزاری کی
”اے اللہ! تو میری مجبوریوں سے خوب واقف ہے۔ گھر کا کام کاج مجھے تیری طرف آنے سے روکتا ہے۔ تو مجھے
اپنی کنیز کا یہ کلام اورعبادت کا یہ منظر دیکھ کر رابعہ بصری رح کا مالک خوفِ خدا سے لرزگیا اور یہ فیصلہ کیا، بجائے
صبح ہوتے ہی وہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور اپنے فیصلے سے آپ کو آگاہ کیا اور کہا:
"آج سے آپ میری طرف سے آزاد ہیں، اگر آپ اسی گھر میں قیام کریں تو میری خوش نصیبی ہوگی وگرنہ آپ اپنی مرضی
حضرت رابعہ بصری رح نے کچھ عرصہ کے لئے حضور قلب اور اللہ کا قرب
غربت، نفی اورعشقِ الٰہی اُن کے ساتھی تھے۔ اُن کی کل متاع حیات ایک ٹوٹاہوا برتن، ایک پرانی
جیسے جیسے رابعہ بصری رح کی شہرت بڑھتی گئی، آپ کے معتقدین کی تعداد میں بھی ااضافہ ہوتا گیا۔ آپ نے اپنے وقت
گو اُنہیں شادی کے لئے کئی پیغامات آئے، جن
رابعہ بصری کو کثرت رنج و الم اورحزن و ملال نے دنیا اوراس کی دلفریبیوں سے بیگانہ کردیا۔ رابعہ بصری رح کے مسلک
ایک مرتبہ رابعہ بصری سے پوچھا گیا
"کیا آپ شیطان سے نفرت کرتی ہیں؟"
رابعہ بصری نے جواب دیا
"خدا کی محبت نے میرے دل میں اتنی جگہ بھی نہیں چھوڑی کہ اس میں کسی اورکی نفرت یا محبت سما سکے"
رابعہ بصری رح نے ننگے پاؤں پیدل بیت اللہ شریف کا حج کیا۔
''یہ تیرے بندوں کی پناہ گاہ ہے اور تو ان سے محبت کرتا ہے اب تو آنکھوں میں آنسو ختم ہوگئے ہیں۔''
"یااللہ عَزَّوَجَلَّ! ستارے چمک رہے ہیں، سب کی آنکھیں سوئی ہوئی ہیں، بادشاہوں نے اپنے دروازے بند کر لئے ہیں،
پھر آپ نماز ادا کرتی رہتیں، جب سحری کا وقت ہوتا اور فجر طلوع ہو جاتی تو بارگاہِ ربُّ العزَّت میں عرض کرتیں
"یااللہ عَزَّوَجَلَّ ! یہ رات گزر گئی، دن خوب روشن ہو گیا۔ کاش! مجھے معلوم ہو جائے کہ
رابعہ بصری نے تقریباً اٹھاسی (88) سال کی عمر پائی لیکن آخری سانس تک آپ نے عشق الٰہی کی لذت و سرشاری کو اپنا اشعاربنائے رکھا۔ یہاں تک کہ اپنی آخری سانس تک معبودِ حقیقی کی محبت کا دم بھرتی رہیں۔
نوٹ:۔ کچھ
ذہن میں رہے کہ اہل تصوف و صوفیا اور بزرگان دین کا اللہ کا قرب پانے کے لئے کچھ عرصہ الگ رہ کر عبادت کرنے کو آپ رہبانیت سے تعبیر نہیں کرسکتے۔ سب سے پہلے آپ کو جاننا چاہئے کہ کس
اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا ہے:
رہبانیت تو انہوں نے خود ہی ایجاد کر لی تھی۔ ہم نے ان پر اسے واجب نہ کیا تھا۔ انہوں نے اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لئے اسے ایجاد تو کرلیا (الحدید57:27)
جب نبی اکرم
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک یہ بات پہنچی تو آپ نے فرمایا
"خدا کی قسم! میں تم سے زیادہ خدا سے ڈرنے والا ہوں اور اس کے حدود کا پاس رکھنے والا ہوں، لیکن میں روزے بھی رکھتا ہوں اور افطار بھی
اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا تصوف رہبانیت کی تعلیم دیتا ہے؟
جی نہیں! ایسا ہر گز نہیں، اگرچہ کم علمی کی بنا پر
پرانے زمانے کے راہب پہاڑوں جنگلوں
آپ جناب غزالی رح کی زندگی کا مطالعہ کریں۔
آپ نے رہبانہ زندگی نہیں گزاری ۔بلکہ بڑے بڑے علماء
ایک اور بات ذہن میں رہے رابعہ بصری رح نے ہمیشہ جوانی میں پردہ کیا۔ اور ان کے مالک اور خاوند کے علاوہ شائد
ہاں ان کے بڑھاپے میں لوگوں نے ان سے ملاقات کی اور اکثر باتیں جو لوگوں سے ملاقات کی ہیں، ان کے بڑھاپے کی
یہ باتیں میں نے ظمناً آپ کی خدمت میں پیش کی ہیں۔ تاکہ آپ ان جیسی برگزیدہ ہستیوں کے بارے اپنا ذہن صاف