My Authors
Read all threads
1/ "جنت البقیع" سعودی عرب کے شہر مدینہ منورہ میں موجود ایک قبرستان ہے جہاں عالمِ اسلام کی مشہور و معروف شخصیات مدفون ہیں اور 8 شوال 1344ھ بمطابق 24 اپریل 1925ء کو سعودی بادشاہ عبدالعزیز بن سعود کے حکم پر مقدس شخصیات (امام حسن وسجاد و باقر و جعفر ع) کے گنبد و مزارات گرا دیے
2/ گئے. اسی مناسبت سے 8 شوال یومِ انہدامِ جنت البقیع کے عنوان سے عالمِ اسلام میں منایا جاتا ہے، اسے یومِ الھدم یعنی منہدم کرنے کا دن بھی کہتے ہیں.

جنت البقیع کی مدفون شخصیات میں سرِ فہرست حضرت فاطمہ الزہرا بنتِ حضرت محمد (ص)، امام حسن (ع)، امام زین العابدین (ع)، امام محمد
3/ باقر (ع)، امام جعفر صادق (ع) مدفون ہیں.
انکے علاوہ حضرت فاطمہ بنتِ اسد (ع) جو چچی حضرت محمد (ص)، زوجہ حضرت ابوطالب و والدہ حضرت علی (ع) ہیں، والدہ حضرت عباس بی بی ام البنین (ع)، حضرت عقیل بن ابی طالب (ع)، چچا پیغمبرِ اکرم حضرت عباس بن عبدالمطلب (ع)، پھوپھی پیغمبرِ اکرم
4/ حضرت صفیہ بنتِ عبدالمطلب (ع)، پسر پیغمبرِ اکرم حضرت ابراہیم (ع)، محمد بن ابی طالب المعروف حضرت محمد بن حنفیہ (ع) (آپکی والدہ کا نام حنفیہ خاتون تھا اسی نسبت سے آپ محمد بن حنفیہ کے نام سے مشہور ہیں)، زوجِ حضرت بی بی زینب حضرت عبداللہ بن جعفر طیار (ع)، حضرت اسماعیل بن امام
5/ جعفر صادق (ع)، دائی حلیمہ اور امام مالک کے علاوہ تقریباً سات ہزار صحابہ اکرام اور زشتہ دار حضرت محمد ص مدفون ہیں.

جنت البقیع اور روضہ پیغمبرِ اکرم حضرت محمد (ص) کو منہدم کرنے کی نیت سے پہلی مرتبہ آلِ سعود و ناصبی 1220ھ کو مدینہ منورہ پہ حملہ آور ہوئے (یہ سلطنت عثمانیہ کا
6/ دور تھا) آل سعود اور ناصبیوں نے مختلف مساجد اور مزارات کو نشانہ بنایا مگر مجموعی طور پہ اپنے ارادوں میں ناکام رہے. یہ "تحریکِ وہابیت" جو محمد بن عبد الوہاب بن شیخ سلیمان نے چلائی تھی، کا مدینہ پہ پہلا حملہ تھا. مزارات و مساجد کو جو نقصان پہنچا، اسکی تعمیرِ نو کے لیے
7/ عثمانی حکومت نے ارادہ کیا تو شیعہ و سنی حضرات نے مل کر اسکے لیے رقم مہیا کی.

مزارات کی خوبصورت اور جدید ترین تزئین و آرائش کی گئ. 1344ھ کو جب آلِ سعود نے مکہ، مدینہ اور اطراف میں مکمل طور پہ قبضہ کر لیا تو مقاماتِ مقدسہ جنت البقیع، اصحاب اور خاندانِ رسالت کے آثار کو زمینِ
8/ حجاز سے مٹانے کا ارادہ کیا تو اسکے لیے چند ناصبی مفتیوں سے فتوئے بھی لے لیے.

آل سعود نے لوگوں کی بغاوت سے بچنے کے لیے مفتیوں سے فتوئے لینے کے لیے "قاضی القضاۃ سلمان بن بلیہد" کو منتخب کیا. اس قاضی القضاۃ نے سوالات کو توڑ مروڑ کر علمائے مدینہ کے سامنے رکھا اور اندازِ بیان
9/ سے یہ واضح تھا کہ جو مزارات کو منہدم کرنے کا فتوٰی نہیں دے گا وہ قتل ہوگا. کچھ مفتیان نے ڈر کر اور کچھ نے چند سکوں کے عوض اپنا ایمان بیچ کر انہدام کے لیے فتوے دیے. یہ سوالات و جوابات مکہ مکرمہ سے جاری ہونے والے رسالے "اُم القریٰ" ماہِ شوال 1344ھ میں شائع ہوئے.

1205ھ سے
10/ 1217ھ تک کئی مرتبہ سعودیوں نے حجاز پہ حکومت قائم کرنے کی کوشش کی مگر کامیاب نہ ہو سکے. آخرکار 1217ھ میں طائف پہ قابض ہو گئے اور طائف میں موجود مساجد کو منہدم کرنے کے ساتھ ساتھ بہت سے مسلمانوں کا قتلِ عام بھی کیا. 1218ھ میں مکہ پہ حملہ آور ہوئے اور زم زم پہ موجود عمارت تک
11/ کو بھی گِرا دیا.

1344ھ میں بقیع پہ حملہ کرنے سے پہلے آل سعود نے مکہ میں موجود ایک قبرستان حجون پہ حملہ کیا اور وہاں موجود مزارات کو مسمار کیا. اس قبرستان کو "جنت المعلیٰ" بھی کہا جاتا ہےاور بعد از بقیع یہ افضل ترین قبرستان ہے. حضرت محمد (ص) زیارت کے لیے جایا کرتے کیونکہ
12/ اس قبرستان میں آپکے اجداد حضرت عبد المناف (ع)، دادا حضرت عبد المطلب (ع)، چچا حضرت ابو طالب (ع)، پسرِ پیغمبرِ اکرم حضرت قاسم (ع) اور زوجہ حضرت خدیجۃ الکبری (س) مدفون ہیں.

8 شوال 1344ھ بمطابق 21 اپریل 1925ء کو عبدالعزیز بن سعود کی سربراہی میں مدینہ پہ حملہ آور ہوئے اور
13/ عثمانی حکومت کے نمائندوں کو مدینہ سے باہر نکال دیا اور دفاع کرنے والوں سے جنگ کی. اسکے بعد روضہ حضرت فاطمۃ الزہرا (س)، امام حسن (ع)، امام زین العابدین (ع)، امام باقر (ع) اور امام جعفر صادق (ع) منہدم کر دیا.

مورخیںن کے مطابق مزاراتِ مقدسہ سے 40 صندوق ہیرے و جواہرات مرصع بہ
14/ الماس و یاقوت اتارے. 100 سے زائد قبضہ شمشیر جن کے اوپر الماس و یاقوت جڑے تھے اور وہ خالص سونے سے بنے تھے سب لوٹ لیے.

ایک معروف عالمِ دین، سینکڑوں کتابوں کے مولف جناب صافی گلپائیگانی نے 8 شوال کو یومِ غم منانے کا حکم دیا ہے اور فرمایا
"متبرک روضوں کا انہدام عظیم نقصان اور
15/ مصیبت ہے. آلِ سعود و سلفیوں کی اصل فکر اسلام کو نقصان پہنچانا ہے. اس روز انہدام کرنے والوں پر نفرین اور مذمت کرنی چاہیے. ان آثاراتِ مقدسہ کو محفوظ کرنا چاہیے تھا جیسے دوسرے ممالک نے کیا تاکہ بعد میں آنے والے مسلمان اسلام کا قریب سے مشاہدہ کر سکیں"

آل سعود کا کہنا تھا کہ
16/ قبر پہ عمارت یا مزار تعمیر کرناخلاف شریعت ہے لیکن۔۔۔
سورہ کہف کی آیت 21 میں بیان ہوتا ہےکہ
"اور انہوں نے کہا ان پر(غار) عمارت تعمیر کرو دوسرے گروہ نے کہا ہم انکی قبروں پہ مسجد بنائیں گے"
سورہ کہف کی اس آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ قبروں پہ مساجد و عمارت تعمیر کرنا مستحب ہے
17/ اور اللہ نے اس آیت کو بلا تنقید فرمایا ہے.
اسکے علاوہ تفسیر ابنِ کثیر , تفسیر کبیر, تفسیر مظہری, تفسیر روح البیان , تفسیر ابحر المحیط کے علاوہ بہت سی تفاسیر میں قبروں پہ تعمیر کو بلاتنقید بیان کیا گیاہے.
ہائے افسوس کہ جسے رسول (ص) نے اپنا جگر کا ٹکڑا کہا تھا انکا مزار گِرا
18/ دیا گیا، جنکے بارے حدیث تھی جس نے فاطمہ س کو تکلیف پہنچائی اسنے مجھے تکلیف پہنچائی.

8 شوال کو تمام مسلم امہ کی طرف سے مل کر انہدام جنت البقیع اور عمر بن عبدالعزیز رح کی قبر تباہ کیے جانے کے خلاف مل کر احتجاج کرنا چاہئیے۔
#پیرکامل
#قلمکار
#یوم_انہدام_جنت_البقیع
Missing some Tweet in this thread? You can try to force a refresh.

Enjoying this thread?

Keep Current with 💎 پـیــــــKamilــــــر™

Profile picture

Stay in touch and get notified when new unrolls are available from this author!

Read all threads

This Thread may be Removed Anytime!

Twitter may remove this content at anytime, convert it as a PDF, save and print for later use!

Try unrolling a thread yourself!

how to unroll video

1) Follow Thread Reader App on Twitter so you can easily mention us!

2) Go to a Twitter thread (series of Tweets by the same owner) and mention us with a keyword "unroll" @threadreaderapp unroll

You can practice here first or read more on our help page!

Follow Us on Twitter!

Did Thread Reader help you today?

Support us! We are indie developers!


This site is made by just two indie developers on a laptop doing marketing, support and development! Read more about the story.

Become a Premium Member ($3.00/month or $30.00/year) and get exclusive features!

Become Premium

Too expensive? Make a small donation by buying us coffee ($5) or help with server cost ($10)

Donate via Paypal Become our Patreon

Thank you for your support!