My Authors
Read all threads
1/ "صلیبی جنگوں" کا نام تو سنا ہوگا، دراصل ارض فلسطین بالخصوص بیت المقدس پر عیسائی قبضہ بحال کرنے کے لیے یورپ کے عیسائیوں نے جنگیں لڑیں تاریخ میں انہیں “صلیبی جنگوں“ کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔

یہ جنگیں فلسطین اور شام کی حدود میں صلیب کے نام پر لڑی گئیں۔ صلیبی جنگوں کا یہ
2/ سلسلہ طویل عرصہ تک جاری رہا اور اس دوران 9 بڑی جنگیں لڑی گئیں جس میں لاکھوں انسان قتل ہوئے۔

فلسطین اور بیت المقدس کا شہر حضرت عمر رض کے زمانہ میں ہی فتح ہوچکا تھا۔ یہ سرزمین مسلمانوں کے قبضہ میں رہی اور عیسائیوں نے زمانہ دراز تک اس قبضہ کے خلاف آواز نہیں اٹھائی۔

گیارھویں
3/ صدی کے آخر میں سلجوقیوں کے زوال کے بعد دفعتاً ان کے دلوں میں بیت المقدس کی فتح کا خیال پیدا ہوا۔ ان جنگوں میں تنگ نظری ،تعصب ، بدعہدی ، بداخلاقی اور سفاکی کا جو مظاہرہ اہل یورپ نے کیا وہ ان کی پیشانی پر شرمناک داغ ہے۔

فلسطین حضرت عیسی علیہ السلام کی جائے پیدائش تھا۔ اس
4/ لیے عیسائیوں کے لیے مقدس اور متبرک مقام ہونے کی حیثیت رکھتا تھا۔ اور ان کے لیے زیارت گاہ تھا۔ حضرت عمر رض کے زمانہ سے وہ اسلامی سلطنت کا حصہ بن چکا تھا۔

بیت المقدس مسلمانوں کا قبلہ اول تھا اور بڑے بڑے انبیا کے مقبرے یہاں تھے اس لیے بیت المقدس کا شہر اور زمین ان کے لیے
5/ عیسائیوں سے کہیں زیادہ متبرک اور مقدس تھی۔ مسلمانوں نے متبرک مقامات کی ہمیشہ حفاظت کی۔ چنانچہ غیر مسلم زائرین جب اپنے مقدس مقامات کی زیارت کے لیے یہاں آتے تو مسلم حکومتیں انہیں ہر طرح کی سہولتیں بہم پہنچاتیں۔ ان کے گرجے اور خانقاہیں ہر قسم کی پابندیوں سے آزاد تھے۔ حکومت نے
6/ انہیں اعلیٰ مناصب پر فائز کر رکھا تھا لیکن خلافت اسلامیہ کے زوال اور انتشار کے دور میں ان زائرین نے اس سے فائدہ اٹھانے کی کوششیں کیں ان کی تنگ نظری اور تعصب کی بدولت مسلمانوں اور عیسائیوں میں چھوٹی چھوٹی جھڑپیں ہونا شروع ہوگئیں۔

یہ جاہل اور متعصب زائر جب واپس جاتے تو
7/ مسلمانوں کی زیادتیوں کے فرضی افسانے گھڑ کر اہل یورپ کے جذبات کو بھڑکاتے۔ یورپ کے عیسائی پہلے ہی مسلمانوں کے خلاف تھے اب ان حالات میں ان کے اندر نفرت و حقارت کے جذبات نے مزید تقویت پائی۔ چنانچہ دسویں صدی عیسوی کے دوران یورپ کی عیسائی سلطنتوں اٹلی، فرانس ، جرمنی اور انگلستان
8/ وغیرہ نے سر زمین فلسطین کی دوبارہ تسخیر کا منصوبہ بنایا تاکہ اسے ایک بار پھر عیسائی مملکت میں تبدیل کیا جاسکے۔

اس دوران سارے یورپ میں ایک افواہ خواص و عام میں بے حد مقبول ہو گئی کہ حضرت عیسی علیہ السلام دوبارہ نزول فرما کر عیسائیوں کے تمام مصائب کا خاتمہ کریں گے لیکن ان
9/ کا نزول اسی وقت ہوگا جب یروشلم کا مقدس شہر مسلمانوں کے قبضہ سے آزاد کرالیا جائے۔ اس افواہ نے عیسائیوں کے مذہبی جوش میں بے پناہ اضافہ کر دیا۔

عیسائی مذہبی رہنماؤں نے یہ چیز عام کر دی تھی کہ اگر کوئی چور، بدمعاش اور بدکردار بھی بیت المقدس کی زیارت کر آئے گا تو وہ جنت کا
10/ مستحق ہوگا۔ لہٰذا اس عقیدہ کی بنا پر بڑے بڑے بدکردار لوگ بھی زائروں کی صورت میں بیت المقدس آنا شروع ہوگئے۔ شہر میں داخل ہوتے وقت وہ ناچتے اور باجے بجاتے اور شوروغل کرتے ہوئے اپنے برتری کا اظہار کرتے اور کھلے بندوں شراب نوشی کے مرتکب ہوتے۔

چنانچہ زائرین کی ان نازیبا حرکات
11/ اور ان کی سیاہ کاریوں، بدنظمی اور امن سوز سرگرمیوں کی وجہ سے ان پر کچھ اخلاقی پابندیاں لگا دی گئیں۔ لیکن ان زائرین نے واپس جاکر مسلمانوں کی زیادتیوں کے من گھڑت افسانے لوگوں کو سنانے شروع کر دیے تاکہ ان کے مذہبی جذبات کو ابھارا جا سکے۔

عیسائی قوم اس وقت دو حصوں میں منقسم
12/ ہو چکی تھی۔ ایک حصے کا تعلق یورپ کے مغربی کلیسا سے تھا جس کا مرکز روم تھا۔ دوسرا مشرقی یا یونانی کلیسا جس کا مرکز قسطنطنیہ تھا۔ دونوں چرچ کے ماننے والے ایک دوسرے کے مخالف تھے۔

روم کے پوپ کی ایک عرصہ سے یہ خواہش تھی کہ مشرقی بازنطینی کلیسا کی سربراہی بھی اگر اسے حاصل
13/ ہوجائے اور اس طرح وہ ساری عیسائی دنیا کا روحانی پیشوا بن جائے گا۔ اسلام دشمنی کے علاوہ اپنے ان عزائم کو پورا کرنے کے لیے اس نے اعلان کردیا کہ ساری دنیا کے عیسائی بیت المقدس کو مسلمانوں سے آزاد کرانے کے لیے اٹھ کھڑے ہوں۔ جو اس جنگ میں مارا جائے گا وہ جنت کا حقدار ہوگا۔ اس
14/ کے سب گناہ دھل جائیں گے۔ اور فتح کے بعد جو مال و زر حاصل ہوگا وہ ان میں تقسیم کر دیا جائے گا۔ نتیجہً عیسائی دنیا مسلمانوں کے خلاف دیوانہ وار اٹھ کھڑی ہوئی۔

عساکر اسلام نے اپنے عروج کے زمانے میں بڑی بڑی سلطنتیں زیر و زبر کر دی تھیں۔ افریقہ ، ایشیا ، جزائر بحیرہ روم (سلسلی
15/ و قبرص) وغیرہ اور سپین و پرتگال سب ان کے زیر نگیں تھیں۔ اب گیارہویں صدی عیسوی میں اسلامی دنیا کی حالت بہت بدل چکی تھی۔ مصر میں عبیدی سلطنت روبہ زوال تھی۔ سسلی میں مسلمانوں کا اقتدار کمزور ہوچکا تھا۔ جس کی وجہ سے بحیرہ روم کے عیسائی زور پکڑ چکے تھے۔ سپین میں اگر یوسف بن
16/ تاشفین میدان عمل میں نہ آتے تو سپین سے مسلمانوں کا اخراج بہت پہلے مکمل ہو چکا ہوتا۔ صلیبی جنگیں مسلمانوں کے اس سیاسی غلبے کے خلاف یورپ کے عیسائیوں کا اجتماعی ردعمل تھا۔

سلجوقیوں کا دور مسلمانوں کے عروج کا آخری شاندار باب ہے ۔ انہوں نے ایشائے کوچک کے تمام علاقے فتح کرکے
17/ قسطنطنیہ کی فتح کے لیے راہیں کھول دی تھیں۔ اور اگر ملک شاہ سلجوقی کے بعد کوئی نامور حکمران تخت نشین ہوتا تو شاید قسطنطنیہ کی تسخیر شرمندہ تعبیر ہوجاتی۔

قسطنطنیہ عیسائی یورپ پر اسلامی یلغار کو روکنے کے لیے آخری حصار کا کام دے رہا تھا۔ لہٰذا سلجوقیوں کی قوت سے خوفزدہ ہو کر
18/ بازنطینی حکمران مائیکل ڈوکس نے 1094عیسوی میں مغربی ملکوں کو ترکوں کے اس بڑھتے ہوئے سیلاب کی طرف متوجہ کیا اور ان سے امداد طلب کی۔ چنانچہ ساری عیسائی دنیا نے اس کی استدعا کو فوراً قبول کر لیا اور میدان عمل میں نکل آئے۔ اور دیکھتے ہی دیکھتے ان کا ایک سیلاب سرزمین اسلام کی
19/ طرف امڈ آیا۔

اپنے سیاسی مقاصد کے حصول کی خاطر مشرق کے بازنطینی کلیسا اور مغربی کلیسا کے درمیان سمجھوتہ ہو گیا اور دونوں نے متحد ہو کر مسلمانوں کے خلاف صلیبی جنگوں میں حصہ لیا۔

عالم اسلام میں باہمی اتحاد کا فقدان تھا ۔ بغداد کی عباسی اور مصر کی فاطمی خلافت، سلجوقی اور
20/ سپین کے حکمران انحطاط کا شکار تھے، ان کے درمیان باہمی اشتراک کی کوئی صورت موجود نہ تھی۔ لہٰذا صلیبیوں کے لیے اس سے نادر موقع اور کون سا ہوسکتا تھا۔

آسکے علاؤہ یورپ معاشرتی لحاظ سے مسلمانوں کے مقابلہ میں پسماندہ تھا۔ سماجی اور معاشرتی نقطہ نظر سے مساوات، اخوت اور عدل و
21/ انصاف کے جن اصولوں کو مسلمانوں نے اپنے ہاں رواج دیا تھا، یورپ کا عیسائی معاشرہ ابھی تک اس سے محروم تھا۔ غریب اور نادار لوگ طرح طرح کی پابندیوں میں جکڑے ہوئے تھے۔

یورپ کا نظام جاگیرداری پر مبنی تھا۔ جاگیر دار اور غریب عوام کا خون چوس رہے تھے اور ان کے حقوق انہیں میسر نہیں
22/ تھے۔ صاحب اقتدار اور مذہبی گروہ نے ان لوگوں کی منافرت کا رخ اپنی بجائے مسلمانوں کی طرف موڑ دیا۔

اسلامی دنیا کی خوشحالی اور دولت و ثروت کے چرچے یورپ میں عام تھے۔ یورپ ابھی تک خوشحالی کی ان منازل سے نہ گزرا تھا جن کا مشاہدہ مشرق کی اسلامی سلطنتیں کر چکی تھیں۔ لہٰذا یورپ کے
23/ وہ تمام عناصر جنہیں حصول زر کے ذرائع یورپ میں میسر نہ تھے اپنی قسمت آزمائی کے یے اس مذہبی مہم میں شامل ہوگئے۔ ان کا مقصد لوٹ کھسوٹ اور مال و دولت کے جمع کرنے کے سوا کچھ نہ تھا اس کی تصدیق صلیبیوں کے اس طرز عمل سے ہوتی ہے جو انہوں نے ہنگری سے گزرتے ہوئے وہاں کے عیسائی
24/ باشندوں کے ساتھ روا رکھا۔

فلسطین اور شام پر قبضہ کرنے کے بعد اٹلی کے باشندے اپنی سابقہ تجارتی ترقی کو بحال کرنا چاہتے تھے کیونکہ اسلامی غلبہ کی بدولت اطالوی تاجروں کی تجارتی اجارداری ختم ہوچکی تھی۔ لہٰذا ان کا خیال تھا کہ اگر صلیبی جنگوں کی بنا پر فلسطین اور شام کا علاقہ
25/ مسلمانوں سے مستقل چھین لیا جائے تو یورپ کی معاشی حالت سدھر سکتی ہے۔

المختصر یہ کہ مختلف سیاسی، معاشی و مذہبی محرکات صلیبی جنگوں کا سبب بنے۔ آج ہم نے صلیبی جنگوں کے پس منظر کو دیکھا، اگلے تھریڈ میں ان شاءاللہ ان جنگوں کی تفصیل بیان کروں گا🙏
#پیرکامل
#قلمکار
#تعمیرکردار
Missing some Tweet in this thread? You can try to force a refresh.

Keep Current with 💎 پـیــــــKamilــــــر™

Profile picture

Stay in touch and get notified when new unrolls are available from this author!

Read all threads

This Thread may be Removed Anytime!

Twitter may remove this content at anytime, convert it as a PDF, save and print for later use!

Try unrolling a thread yourself!

how to unroll video

1) Follow Thread Reader App on Twitter so you can easily mention us!

2) Go to a Twitter thread (series of Tweets by the same owner) and mention us with a keyword "unroll" @threadreaderapp unroll

You can practice here first or read more on our help page!

Follow Us on Twitter!

Did Thread Reader help you today?

Support us! We are indie developers!


This site is made by just two indie developers on a laptop doing marketing, support and development! Read more about the story.

Become a Premium Member ($3.00/month or $30.00/year) and get exclusive features!

Become Premium

Too expensive? Make a small donation by buying us coffee ($5) or help with server cost ($10)

Donate via Paypal Become our Patreon

Thank you for your support!