روایات کے مطابق یہ تابوت جس لکڑی سے تیار کیا گیا تھا اسے "👇🏻
یہ تابوت نسل در نسل انبیاء سے ہوتا ہوا حضرت موسیٰ علیہ السلام تک پہنچا تھا، اس مقدس صندوق میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کا عصا، من و سلویٰ، اور دیگر انبیاء کی یادگاریں تھیں۔ یہودی اس تابوت کی برکت سے لر👇🏻
جب حضرت داؤد علیہ السلام کو بادشاہت عطا ہوئی تو آپ نے اپنے لئے ایک باقاعدہ محل تعمیر کروایا۔👇🏻
یہ بائیبل کی روایات ہے۔
جیسے بائیبل میں ہے؛
" بادشاہ نے کہا: ’میں تو دیودار کی شان دار لکڑی سے بنے ہوئے ایک محل میں رہتا ہوں، مگر خدا وند کا تابوت ایک خیمے👇🏻
چنانچہ آپ نے ہیکل کی تعمیر کا ارادہ کیا اور اس کے لئے ایک جگہ کا تعین کیا گیا۔ ماہرین نے آپ کو مشورہ دیا کہ اس ہیکل کی تعمیر آپ کے دور میں ناممکن ہے۔ آپ اس کا ذمہ اپنے بیٹے حضرت سلیمان علیہ السلام کو دے دیجیئے۔ 👇🏻
ہیکل کی پہلی تعمیر کے دوران ہی حضرت سلیمانؑ اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔ لیکن جنات کو پتہ نہ چل سکا اور انہوں نے ہیکل کی تعمیر مکمل کر دی۔
یہ واقعہ آپ نے پہلے بھی پڑھا ہو گا کہ حضرت سلیمانؑ کی روح اللہ نے دورانِ عبادت ہی قبض کر لی، لیکن اس کی ترکیب اس طرح بنی👇🏻
بہرحال یہ ہیکل، معبد یا مسجد بہت عالیشان اور وسیع و عریض تعمیر کی گئی تھی ۔
حضرت سلیمانؑ کی وفات کے بعد اس میں تین👇🏻
بیرونی حصے میں عام لوگ عبادت کیا کرتے۔ اس سے اگلے حصے میں علماء جو کہ انبیاء کی اولاد میں سے ہوتے، ان کی عبادت کی جگہ تھی۔ اس سے اگلے حصے میں جسے انتہائی مقدس سمجھا جاتا تھا، اس میں تابوت سکینہ رکھا گیا تھا۔ اس حصے میں کسی کو بھی داخل ہونے کی اجازت نہیں تھی، سوائے سب سے👇🏻
وقت گزرتا رہا، اس دوران بنی اسرائیل میں پیغمبر معبوث ہوتے رہے۔ یہ قوم بد سے بدتر ہوتی رہی۔ یہ کسی بھی طرح اپنے گناہوں سے توبہ تائب ہونے یا ان کو ترک کرنے کے لئے تیار نہیں تھے۔
یہ ایک جانب عبادتیں کیا کرتے دوسری جانب اللہ کے احکام کی صریح خلاف ورزی بھی👇🏻
ان کی اس دوغلی روش سے اللہ پاک ناراض ہو گیا۔ ان کے پاس ایک بہت بڑی تعداد میں انبیاء بھی بھیجے گئے لیکن یہ قوم سدھرنے کو تیار نہ تھی۔ حتیٰ کہ ان کی شکلیں تبدیل کر کے بندر اور سؤر تک بنائی گئیں۔ لیکن یہ گناہوں سے باز نہ آئے۔ تب اللہ نے ان پر لعنت کر دی ۔👇🏻
۷٠ سال تک ہیکل صفحۂِ ہستی سے مٹا رہا۔ دوسری طرف بخت نصر نے تابوتِ سکینہ کی شدید بے حرمتی کی اور اسی کہیں پھینک دیا۔
کہا جاتا ہے اس حرکت کا عذاب اسے اس کے ملک کو اس طرح ملا کہ سن ۵٣٩ ق۔ م میں ایران کے بادشاہ سائرس نے بابل ( عراق) پر حملہ کر دیا👇🏻
سائرس ایک نرم دل اور انصاف پسند حکمران تھا۔ اس نے تل ابیب کے تمام قیدیوں کو آزاد کر کے ان کو واپس یروشلم جانے کی اجازت دے دی اور ساتھ میں ان کو ہیکل کی نئے سرے سے تعمیر کی بھی اجازت دے دی۔ ساتھ میں👇🏻
انھوں نے مثبت ردِ عمل کا اظہار کیا اور پوری قوم کی پر👇🏻
ایک اور دلچسپ بات، عام طور پر تاریخ دان ہیکل کی👇🏻
ہیروڈس بادشاہ جو کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش سے چند سال پہلے کا بادشاہ ہے اس نے جب👇🏻
ہیروڈس نے ان کو بہلانے کے لئے کہا کہ وہ صرف اس کی مرمت کرانا چاہتا ہے، اسے گرانا نہیں چاہتا۔
چنانچہ ١٩ ق م میں اس نے ہیکل کے ایک👇🏻
کچھ عرصہ بعد حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا ظہور ہوا، اللہ کے اس رسول پر ایک بار پھر یہودیوں نے حسبِ معمول مظالم کے پہاڑ توڑنے شروع کر دیئے۔ دراصل وہ اپنے مسیحا کے منتظر تھے جو دوبارہ آ کر ان کو پہلے جیسی شان و شوکت عطا کرتا۔👇🏻
یہ رومی جرنیل،بابل کے بادشاہ بخت نصر سے بھی زیادہ ظالم ثابت ہوا۔ اس نے ایک دن میں لاکھوں یہودیوں کو تہہ تیغ کر دیا👇🏻
یہودی پوری دنیا میں بکھر کر اور رسوا ہو کر رہ گئے۔ کم و بیش اٹھارہ انیس سو سال تک بھٹکنے کے بعد برطانیہ نے جب فلسطین پر قبضہ کیا تو ساتھ ہی ایک ناجائز بچے👇🏻
لیکن یہ قوم اپنی ہزاروں سال پرانی گندی فطرت سے باز نہ آئی ۔ یہ برطانیہ کے جنم دیئے ہوئے اسرائیل تک محدود نہ رہے۔👇🏻
۵ جون ١٩٦۷ء کو اس نے شام کی گولان کی پہاڑیوں پر قبضہ کر لیا۔ ١٩٦٨ء میں اردن کے مغربی کنارے پر قابض ہو گئے۔ اسی سال مصر کے علاقے پر بھی کنٹرول کر لیا۔ آج اس قوم کی شرارتیں اور پھرتیاں دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے👇🏻
امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا اسرائیل کے دارالخلافہ کی تبدیلی کا اعلان بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ لیکن مسلمان اقوام کو کوئی پرواہ نہیں۔ 👇🏻