My Authors
Read all threads
غازی علم دین شہید کا پورا واقعہ

اکثر لوگ صرف اتنا ہی جانتے ہیں کہ غازی علم دین شہید نے گستاخی کرنے پر راج پال کو کوئی موقع دیے بغیر ہی مار دیا تھا لیکن ایسا ہرگز نہیں ہے، غازی نے اسلامی اصول کے عین مطابق راج پال کو توبہ کرنے اور تمام کتب ذائع کر کے اپنی زندگی بچانے کا پورا
1/29
موقع دیا تھا جس سے فائدہ نہ اٹھانے پر غازی نے اسے قتل کیا تھا

غازی علم دین شہید اور راجپال کا پورا واقعہ جاننے کیلیے یہ تھریڈ ضرور پڑھیں

غازی علم دین شہید 3 دسمبر 1908ء بمطابق 8 ذیقعد 1366ھ کو لاہور کے ایک علاقے کوچہ چابک سواراں (موجودہ نام محلہ سرفروشاں) میں پیدا ہوئے
2/29
آپ کے والد کا نام طالع مند تھا جو ترکھان یعنی لکڑی کے کاریگر تھے۔ غازی علم دین نے ابتدائی تعلیم اپنے محلے کی تکیہ سادھواں کی مسجد اوربازار نوہریاں اندرون اکبری دروازہ بابا کالو کے مدرسہ میں حاصل کی۔ تعلیم سے فراغت کے بعد آپ نے اپنے آبائی پیشہ کو اختیار کیا اور اس فن میں اپنے
3/29
والد اور بڑے بھائی میاں محمد امین کی شاگردی اختیار کی۔1928ء میں آپ کوہاٹ منتفل ہو گئے اور بنوں بازار میں اپنا فرنیچر سازی کا کام شروع کیا۔ علم الدین کے آباء و اجداد سکھ مت کے پیروکار تھے، مفل فرمانروا جہانگیر کے دور میں اس وقت کے اولیاء اللہ کی صحبت میں رہ کر علم الدین کے
4/29
ایک جد بابا لہنا سنگھ نے اسلام قبول کیا۔ جس پر انھیں سخت تکالیف کا سامنا کرنا پڑا، بعد میں عبادت و ریاضت میں لگے رہے اور عوام میں ان کو بھی ولی کا مقام ملا

بابا لہنا سنگھ وہاں سے ہجرت کر کے موضع پڈانہ میں آ کر آباد ہوئے۔ یہ اس وقت پاک بھارت سرحد پر واقع ہے۔ وہاں ہی،
5/29
بابا لہنا کا وصال ہوا۔ آپ کا مزار بابا لہنو کے نام سے مشہور ہے۔ ان کے دو بیٹے تھے ایک کی اولاد آج بھی برکی ہڈیارہ کے علاقہ میں آباد ہے اور دوسرے کی لاہور میں

نسب: علم الدین ولد طالع مند ول عبد الرحیم ولد جوایا برخوردار ولد عبد اللہ ولد عیسیٰ ولد برخواردار ولد بابا لہنو
6/29
لاہور کے ایک ناشر راج پال نے بدنام زمانہ کتاب شائع کی۔ جس پر مسلمانوں میں سخت اضطراب پیدا ہو گیا۔ مسلمان رہنماؤں نے انگریز حکومت سے اس دل آزار کتاب کو ضبط کرنے اور ناشر کے خلاف کاروائی کا مطالبہ کیا، مجسٹریٹ نے ناشر کو صرف چھ ماہ قید کی سزا سنائی جس کے خلاف مجرم نے ہائی کورٹ
7/29
میں اپیل کی جہاں جسٹس دلیپ سنگھ مسیح نے اس کو رہا کر دیا

انگریز حکومت کی عدم توجہی پر مایوس ہوکر مسلمانوں نے متعدد جلسے جلوس منعقد کیے مگر انگریز حکومت نے روایتی مسلم دشمنی کا مظاہرہ کرتے ہوئے دفعہ 144 نافذ کرکے الٹا مسلمان رہنماؤں کو ہی گرفتار کرنا شروع کر دیا۔ مسلمانوں
8/29
میں یہ احساس جاگزیں ہونے لگا کہ حکومت وقت ملعون ناشر کو بچانے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے اور یہ کہ اس ملعون کو کیفر کردار تک پہنچانے کے لیے ان کو خود ہی کچھ کرنا ہوگا

لاہور کے ایک غازی خدابخش نے 24 ستمبر 1928ء کو اس گستاخ کو اس کی دکان پر نشانہ بنایا تاہم یہ بھاگ کر اپنی جان
9/29
بچانے میں کامیاب ہوگيا، غازی خدابخش کو گرفتاری کے بعد 7 سال کی سزاسنائی گئی

افغانستان کے ایک غازی عبدالعزیز نے لاہور آکر اس شاتم رسول کی دکان کا رخ کیا مگر یہ بدبخت دکان میں موجود نہیں تھا اس کی جگہ اس کا دوست سوامی ستیانند موجود تھا۔ غازی عبد العزیز نے غلط فہمی میں اس کو
10/29
راج پال سمجھ کر اس پر حملہ کر کے ایک ہی وار میں اس کا کام تمام کر دیا۔ غازی عبد العزیزکو حکومت وقت نے چودہ سال کی سزا سنائی

راج پال ان حملوں کے بعد نہایت خوفزدہ رہنے لگا، حکومت نے اس کی پشت پناہی کرتے ہوئے دو ہندو سپاہیوں اور ایک سکھ حوالدار کو اس کی حفاظت پر متعین کر دیا
11/29
راج پال کچھ عرصے کے لیے لاہور چھوڑ کر کاشی، ہردوار اور متھرا چلا گیا مگر چند ماہ بعد ہی واپس آگیا اور دوبارہ اپنا کاروبار شروع کر دیا

غازی علم دین کی غیرت ایمانی نے یہ گوارا نا کیا کہ یہ ملعون اتنی آسانی سے بچ نکلے اس لیے آپ نے اس کو اس کے انجام تک پہنچانے کا فیصلہ کر لیا
12/29
آپ نے 29 اپریل 1929ء کو راج پال کی دکان کا رخ کیا، اس وقت یہ ملعون اپنی دکان پر ہی موجود تھا۔ آپ نے اس کو للکارتے ہوئے کہا "اپنے جرم کی معافی مانگ لو اور اس دل آزار کتاب کو تلف کردو اور آئندہ کے لیے ان حرکات سے باز رہو" راج پال نے اس کو گیدڑ بھپکی سمجھ کر نظر انداز کر دیا
13/29
اس پر آپ نے ایک ہی بھرپور وار میں اس بدبخت کا کام تمام کر دیا۔ اس کی دکان کے ایک ملازم نے قریبی تھانے انارکلی کو خبر دی جس پر پولیس نے آپ کو گرفتار کر لیا۔ آپ اس واقعہ کے بعد نا صرف مکمل پرسکون رہے بلکہ آپ نے فرار ہونے کی بھی کوئی کوشش نہیں کی۔ آپ نے اس کارروائی کا اعتراف
14/29
کیا اور گرفتاری پیش کردی۔ مقدمہ ایڈیشنل ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ لوئس کی عدالت میں پیش ہوا جج نے ملزم پر فرد جرم عائد کر کے صفائی کا موقع دیے بغیر مقدمہ سیشن کورٹ میں منتقل کر دیا۔ آپ کی جانب سے سلیم بارایٹ لا پیش ہوئے جنہوں نے آپ کے حق میں دلائل دیے مگر نیپ نامی انگریز جج نے آپ کو
15/29
مورخہ 22 مئی 1929ء کو سزائے موت کا حکم سنایا۔ مسلمانان لاہور نے فیصلہ کیا کہ کہ سیشن کورٹ کے اس فیصلے کے خلاف ہائی کورٹ میں اپیل کی جائے اور اس مقدمے میں غازی کی وکالت کے لیے شہرہ آفاق وکیل محمد علی جناح کو نامزد کیا جائے۔ چنانچہ محمد علی جناح بمبئی سے لاہور تشریف لائے، ان
16/29
کی معاونت جناب فرخ حسین بیرسٹر نے کی۔ 15 جولائی 1929ء کو ہائی کورٹ کے دو ججز نے فیصلہ سناتے ہوئے سیشن کورٹ کی سزا کو بحال رکھا۔ اور غازی کی اپیل خارج کردی۔ اپیل خارج ہونے کی اطلاع جب جیل میں غازی کو ملی تو آپ نے مسکرا کر فرمایا " شکر الحمداللہ ! میں یہی چاہتا تھا۔ بزدلوں کی
17/29
طرح قیدی بن کر جیل میں سڑنے کی بجائے تختہ دار پر چڑھ کر ناموس رسالت پر اپنی جان فدا کرنا موجب ہزار ابدی سکون و راحت ہے"

مسلمان عمائدین نے ہائی کورٹ کے اس فیصلے کے خلاف لندن کی پریویو کونسل میں اپیل دائر کی۔ اس اپیل کا مسودہ محمد علی جناح (جو بعد میں قائد اعظم کہلائے) کی
18/29
زیرنگرانی تیار کیا گیا۔ مگر انگریز حکومت، جو ایڈیشنل سیشن کورٹ سے ہائی کورٹ تک مسلم دشمنی کا مسلسل مظاہرہ کرتی آئی تھی، اس نے اس اپیل کو بھی رد کر دیا

غازی نے اپنے رشتہ داروں کو جو وصیت فرمائی وہ قابل غور ہے۔ "میرے تختہ دار پر چڑھ جانے سے وہ بخشے نہیں جائیں گے بلکہ ہر ایک
19/29
اپنےاعمال کےمطابق جزا اور سزا کا حق دار ہوگا اور انہیں تاکید کی کہ وہ نماز نہ چھوڑیں اور زکوٰة برابر اداکریں اور شرعِ محمدی "ص" پر قائم رہیں"

آپ کی شہادت کےبعد انگریز حکومت نےآپ کے جسدخاکی کو قبضے میں رکھا اور کسی نامعلوم مقام پر سپرد خاک کر دیا جس پر شدید احتجاجی لہر اٹھی
20/29
4 نومبر 1929ء کو مسلمان رہنماؤں کےایک وفد (جن میں علامہ اقبال، سر محمد شفیع، مولانا عبد العزیز، مولانا ظفر علی خان، سر فضل حسین، خلیفہ شجاع، میاں امیر الدین، مولانا غلام محی الدین قصوری شامل تھے) نے گورنر پنجاب سے ملاقات کی اور جسد خاکی کی حوالگی کا مطالبہ کیا۔ گورنر نے شرط
21/29
عائد کی کہ اگر مذکورہ رہنما پرامن تدفین کی ذمہ داری اور کسی گڑبڑ کے نہ ہونے کی یقین دہانی کرائیں تو جسد خاکی مسلمانوں کے حوالے کیا جاسکتا ہے۔ مذکورہ وفد نے یہ شرط منظور کرلی۔ 13 نومبر 1929ء کو مسلمانوں کا ایک وفد سید مراتب علی شاہ اور مجسٹریٹ مرزا مہدی حسن کی قیادت میں
22/29
میانوالی روانہ ہوا اور دوسرے روز جسد خاکی وصول کیا

موقع پر موجود لوگوں کا بیان ہے کہ دو ہفتے گزر جانے کے باوجود جسد خاکی میں ذرا بھی تعفن نہیں تھا اور جسدِ مبارک بالکل صحیح وسالم تھا۔ چہرے پر غسل کے پانی کے قطرے ایسے چمک رھے تھے جیسے ابھی غازی نے وُضوء کیا ھو اور چہرے پر
23/29
جلال و جمال کا حسین امتزاج تھا اور ہونٹوں پر مسکراہٹ تھی۔ کیوں کہ شہید زندہ ہوتے ہیں یہ اللہ تعٰالی نے قُرآن میں بھی ارشاد فرمایا ہے۔ محکمہ ریلوے نے یہ جسد خاکی 15 نومبر 1929ء کو لاہور چھاؤنی میں دو مسلم رہنماؤں علامہ اقبال اور سر محمد شفیع کے حوالے کیا
24/29
شہید کا جنازہ لاہو ر کی تاریخ کا سب سے بڑا جنازہ کہلاتا ہے، جنازہ کا جلوس ساڑھے پانچ میل لمبا تھا۔ نماز جنازہ یونیورسٹی گراؤنڈ میں ادا کی گئی جس میں کم و بیش چھ لاکھ عشاقان رسول نے شرکت کی ہندوستان میں مقیم جید علما کرام و مشائخ عظام بھی کونے کونے سے رسول پاک کے سچے عاشق کے
25/29
آخری دیدار کےلیے لاہور تشریف لائے۔ تدفین کےانتظامات کی سرپرستی مولانا ظفر علی خان، علامہ محمد اقبال اور سیددیدار علی شاہ نے فرمائی۔ صندوق و بانس کا اہتمام ڈاکٹر محمد دین تاثیر نے کیا تھا جو پنجاب کے مقتول گورنر سلمان تاثیر کے والد تھے۔ شہید کی پہلی نماز جنازہ قاری شمس الدین
26/29
خطیب مسجد وزیر خان نے پڑھائی اور دوسری نماز جنازہ مولانا دیدار علی شاہ الوری نےپڑھائی۔ مولانا دیدار علی شاہ اور علامہ اقبال نے شہید کو اپنے ہاتھوں سے لحد میں اتارا تھا جس پر مولانا ظفر علی خان نے کہا تھا" کاش! یہ مقام مجھے نصیب ہوتا" اس موقع پر علامہ نے فرمایا "یہ ترکھان کا
27/29
لڑکا ہم سب پڑھے لکھوں سے بازی لے گیا"۔ لوگوں نے عقیدت میں اتنے پھول نچھاور کیے کہ میت ان میں چھپ گئی

لاہور میں بہاولپور روڈ کے کنارے میانی صاحب قبرستان میں ایک نمایاں مقام پر آپ کی آخری آرام گاہ موجود ہے۔ مزار کے چہار اطراف برآمدہ ہے، مزار بغیر چھت کے ہے، مزار کے مشرق میں
28/29
غازی کے والد محترم اور والدہ محترمہ کی بھی آخری آرامگاہیں موجود ہیں۔ لوح مزار پر پنجابی اور اردو کے کئي اشعار کندہ ہیں
۔۔۔۔۔۔۔

اپنے قارئین کو میں ایک اور بات بھی بتاتا چلوں کہ راج پال کی وہ دکان جہاں غازی علم دین شہید نے اسے قتل کیا تھا میری آبائی رہائش سے صرف 50 گز دور ہے
29/29
Missing some Tweet in this thread? You can try to force a refresh.

Keep Current with 🇵🇰 ندیم زیدی 🇵🇰

Profile picture

Stay in touch and get notified when new unrolls are available from this author!

Read all threads

This Thread may be Removed Anytime!

Twitter may remove this content at anytime, convert it as a PDF, save and print for later use!

Try unrolling a thread yourself!

how to unroll video

1) Follow Thread Reader App on Twitter so you can easily mention us!

2) Go to a Twitter thread (series of Tweets by the same owner) and mention us with a keyword "unroll" @threadreaderapp unroll

You can practice here first or read more on our help page!

Follow Us on Twitter!

Did Thread Reader help you today?

Support us! We are indie developers!


This site is made by just two indie developers on a laptop doing marketing, support and development! Read more about the story.

Become a Premium Member ($3.00/month or $30.00/year) and get exclusive features!

Become Premium

Too expensive? Make a small donation by buying us coffee ($5) or help with server cost ($10)

Donate via Paypal Become our Patreon

Thank you for your support!