مکہ اور مدینہ کے درمیان ایک جگہ ہے
اور یہ اس وقت بمنزلہ ایک چوراہے کے تھا
یہاں سے مکہ سے آنے والے حجاج کے راستے الگ الگ ہوتے تھے
مکہ اور یمن جانے والوں کا راستہ جنوب میں جاتا تھا
عراق اور ہندوستان وغیرہ کو جانے والوں کا راستہ مشرق کو جاتا تھا
اور مغربی ممالک اور
تو مدينة شمال کی جانب تھا
جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حجۃ الوداع سن 10 ہجری کو مکہ سے واپس ہوئے اور اس مقام پر پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک خطبہ ارشاد فرمایا کیوں کہ اس کے بعد آپ کے ساتھ حج پر جانے والے صحابہ الگ الگ ہونے
حدیث غدیر خم سے مراد وہ روایت ہے جس کو امام ترمذی، ابن ماجہ اور احمد بن حنبل وغیرہ نے مختلف صحابہ کرام سے روایت کیا ہے جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی علیہ السلام سے متعلق ارشاد فرمایا
اللَّهُمَّ مَنْ كُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ،
(مسند احمد بن حنبل : 950)
تپتے صحراء میں دھوپ کی شدید طمازت کے باوجود حاجیوں کے سوا لاکھ کے مجمع کو یکجا جمع کرنا اور رسول اسلام (ص) کا ایک طولانی خطبہ بیان کرنا صرف ایک حکم کے لیے، یہ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ اسلام
امام احمد حنبل نے اپنی کتاب مسند میں یوں بیان کیا ہے کہ:
براء ابن عازب کا کہنا ہے کہ: ایک سفر میں ہم رسول خدا صلی اللہ
الصلاۃ جامعۃ،(یعنی نماز جماعت کے لیے تیار ہو جاؤ)
دو درختوں کے نیچے رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے انتظام کیا گیا، رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز بجا لائے اور پھر حضرت علی کا ہاتھ پکڑ کر
کیا میں سب کی جان و مال کا مالک نہیں ہوں ؟
سب نے کہا
ہاں آپ ہماری جان و مال کے مالک ہیں۔
پھر آپ نے فرمایا
جس جس کا میں مولا ہوں، اس اس کے یہ علی مولا ہیں، خدایا اس کو دوست رکھ جو علی کو دوست رکھے اور اس سے دشمنی رکھ جو علی سے دشمنی رکھے
پھر حضرت عمر رض آپ کے گلے ملے
مبارک ہو اے ابو طالب کے بیٹے! آپ نے صبح و شام کی ہے، اس حالت میں کہ آپ ہر مؤمن مرد و عورت کے مولا ہیں۔
یہ روایت (مسند احمد) میں مختلف مقامات پر بہت زیادہ سندوں کے ساتھ نقل ہوئی ہے۔
حافظ ابن عبد اللہ نیشاپوری نے بھی مستدرک میں مختلف الفاظ میں مختلف مقامات پر حدیث
ابن ماجہ اور سنن ترمذی میں بھی اسی مضمون کے ساتھ اس حدیث کو نقل کیا ہے۔
غدیر خم کا واقعہ مسلمانوں کی تاریخ و زندگی سے مربوط ایک اہم اور معروف واقعہ ہے۔ جو لوگ اس واقعہ سے باخبر تھے اسے آنے والی نسلوں کے لیے دست بہ دست اور سینہ بہ سینہ منتقل کرتے تھے
غدیر کے واقعہ کی شہرت کسی خاص گروہ یا کسی خاص علاقے تک محدود نہ تھی، بلکہ مختلف اقوام اور مختلف علاقوں کے مسلمان اس سے آگاہ تھے اور تمام لوگوں کے ہاں یہ واقعہ مشہور اور
ہم مختصرا یہاں پر اس روایت کے مصادر اور اس کی صحت کے اصولوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں اور اس کی تفصیل کو جاننے کے لیے مختلف مکتبہ فکر کی تحقیقی کتابوں کی طرف رجوع کرتے ہیں۔
کتاب "احقاق الحق و ملحقاتہ" از شہید قاضی
ابن حزم نے بھی منہاج السنہ میں یہی کہا ہے۔
علامہ امینی "الغدیر" میں
نیز اہل سنت کے 30 بڑے مفسرین ( منجملہ: ترمذی، طحاوی، حاکم نیشاپوری، قرطبی، ابن حجر عسقلانی، ابن کثیر،
کتاب " احقاق الحق" میں حدیث غدیر کو اہلسنت کے 50 معتبر مصادر اور
ضیاء الدین مقبلی کا کہنا ہے کہ: اگر حدیث غدیر قطعی اور یقینی نہیں ہے تو کچھ بھی دین اسلام میں قطعی اور یقینی نہیں ہے۔
غزالی نے لکھا ہے کہ: حدیث غدیر کے متن پر اکثر مسلمین کا
بدخشی نے کہا ہے کہ: حدیث غدیر صحیح حدیث ہے، کوئی اس کی صحت پر شک نہیں کرتا مگر یہ کہ اس کے اندر تعصب کی آگ بھڑک رہی ہو کہ ایسے شخص کی بات کا کوئی اعتبار نہیں ہوتا۔
آلوسی کا کہنا ہے کہ: حدیث غدیر، صحیح حدیث ہے جس کی سند میں کوئی مشکل نہیں ہے اور ہمارے نزدیک اس
حافظ اصفہانی کہتے ہیں کہ: حدیث غدیر صحیح حدیث ہے کہ صحابہ میں سے 100 افراد نے اسے نقل کیا ہے اور " عشرہ مبشرہ " بھی انہی سو آدمیوں میں سے ہیں۔
حافظ سجستانی کا کہنا
حافظ ابن حجر عسقلانی " تہذیب التہذیب " میں حدیث غدیر کے بعض راویوں کو بیان کرنے کے ضمن میں اس کے طرق کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں:
ابن جریر طبری نے حدیث غدیر
نیز کتاب " فتح الباری بشرح صحیح البخاری " میں آیا ہے کہ:
حدیث " من کنت مولاہ فعلی مولاہ " کو ترمذی اور نسائی نے
جو کچھ علی (ع) کے فضائل کے سلسلے میں مجھ تک پہنچا ہے
قندوزی حنفی حدیث غدیر کو مختلف اسناد سے نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں کہ:
محمد بن جریر الطبری نے حدیث غدیر کو 75 طریقوں سے نقل کیا ہے اور ایک مستقل کتاب بنام " الولایۃ " اس کے بارے میں تالیف کی ہے۔ نیز ابو العباس احمد بن محمد
حافظ محمد بن محمد الجزری الدمشقی نے حضرت علی (ع) کے حدیث غدیر سے احتجاج کرنے کو نقل کرتے ہوئے یوں لکھا ہے کہ:
یہ حدیث حسن ہے اور یہ روایت تواتر کے ساتھ حضرت علی علیہ السلام سے نقل ہوئی ہے
اگر تمام صحیح روایات صحیح بخاری یا صحیح مسلم میں نقل ہو جاتی تو صحاح ستہ کی ضرورت نہ تھی۔ حالانکہ آپ جانتے ہیں کہ کوئی عالم اور دانشمند اپنے پاس صحیح بخاری اور صحیح مسلم