جس کے تقريباً 20 معانی ہيں
جن ميں سے چند معانی یہ ہيں:
آقا، مالک، پرورش کرنے والا، دوست، آزاد کرنے والا، آزاد کيا ہوا غلام اور مہربان ۔
قرآن کريم ميں بھی "مولا" کا لفظ مختلف
صرف "مولا" کا لفظ تنہا بھی استعمال ہوا اور متعدد ضميروں کے ساتھ بھی يہ لفظ استعمال ہوا ہے۔
سورة الحج ، آيت 78 ميں 2جگہ مولا کا لفظ استعمال ہوا ہے،
ايک جگہ "کُم" ضمير کے ساتھ
جبکہ دوسری مرتبہ بغير ضمير کے
اور دونوں جگہوں پر اللہ کی ذات مراد ہے۔
سورة الدخان آيت 41 ميں "مولا" اللہ کے لئے نہيں بلکہ دوست کے معنیٰ ميں يعنی انسان کے لئے استعمال ہوا ہے۔
اسی طرح سورة الحديد، آيت15 میں لفظ "مولا" جگہ يا ٹھکانے کے لئے استعمال ہوا ہے۔
غرضیکہ اللہ تعالیٰ نے خود
قرآن کريم ميں لفظ مولا "نا" ضمير کے ساتھ 2 جگہ سورة ا لبقرة آيت286 اور سورہ التوبہ آيت51 میں استعمال ہوا ہے اور دونوں جگہ پر اللہ کی ذات مراد ہے، ليکن اس کا مطلب ہرگز يہ نہيں کہ "مولانا" ايک لفظ ہے اور وہ صرف اللہ
مولا ايک مستقل لفظ ہے اور اس کے ساتھ مختلف ضميريں استعمال کی جاسکتی ہيں، جیسے مولائی ، مولانا ، مولاکم ، مولاہ وغيرہ۔
لفظ مولا یا لفظ مولانا کا اطلاق جس طرح اللہ تعالی پر ہوا ہے، اسی طرح اس لفظ کا استعمال قرآن واحادیث میں دیگر مختلف معانی کے لیئے بھی ہوا
"مولا" کااطلاق اللہ تعالی پرقرآن کریم میں:
(1) فانصرناأنت مولانا ۔ (البقرہ:۲۸۶)
(2) بل اللہ مولاکم ۔ (آل عمران ۱۵۰)
(3) فاعلموا أن اللہ مولاکم ۔
(4) واعتصموا باللہ ھومولاکم فنعم المولی ونعم النصیر ۔ (الحج:۷۸)
(5) ذلک نأن اللہ مولی الذین اٰمنوا (محمد:۱۱)
(6) واللہ مولاکم ۔ (تحریم:۲)
(7) الاماکتب اللہ لنا ھومولانا ۔ (توبہ:۵)
(8) فان اللہ ھومولاہ وجبرئیل وصالح المؤمنین ۔ (تحریم:۴)
(9) ثم ردواالی اللہ
(10) وردواالی اللہ مولھم الحق ۔ (یونس:۳۰)
"مولا" کا اطلاق اللہ تعالی پر احادیث میں:
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا
قولوا اللہ مولانا ولا مولالکم (بخاری:۴۰۴۳)
"لوگو! تم کہو کہ اللہ ہمارا مولا اور کارساز ہے نہ کہ تمہارا"
نبی کریم صلی
ولیقل .... سیدی ومولای (بخاری:۲۵۵۲)(مسلم:۲۲۴۹)
"کہ اسے چاہئے کہ وہ اللہ کے بارے میں میرا آقا اورمیرا مولا کہے"
"مولا" کا اطلاق اللہ تعالی کے علاوہ پر قرآن کریم میں:
لبئس المولی(حج:۱۳)
امام مجاھد رح فرماتے ہیں کہ اس آیت میں مولا بت کے معنی
(تفسیرابن کثیر:۳؍۷۸۰،چشتی)
یوم یغنی مولی عن مولی شیئا (دخان:۴۱)
علامہ ابن کثیر لکھتے ہیں کہ کوئی رشتہ دار کسی بھی رشتہ دار کونفع نہیں پہنچائے گا اس جگہ رشتہ دار پر مولا کا اطلاق ہوا ہے
(تفسیرابن کثیر:۴؍۱۸۳)
مأوٰکم النارھی مولاکم (تحدید:۱۵)
علامہ ابن کثیر لکھتے ہیں
(تفسیرابن کثیر:۴؍۳۹۵)
وکل علی مولاہ (نحل:۷۶)
"وہ اپنے آقا پر بھاری اور بوجھ ہے"
اس جگہ "مولا" کا اطلاق مالک اور آقا پر ہوا ہے
(التفسیر
ولکل جعلنا موالی مماترک (نساء)
اس آیت میں لفظ موالی کا اطلاق وارث پر ہوا ہے
(تفسیرابن کثیر:۱؍۶۳۸)
انی خفت الموالی (مریم:۵)
یہاں پر مولا یا موالی کااطلاق ان رشتہ داروں پر ہوا ہے جن کو اصطلاح شرح میں عصبہ کہا جاتا ہے جنہیں میت کے ترکہ میں سے ذوی الفروض کو ان
(تفسیرابن کثیر:۳؍۱۵۰)
فاخوانکم فی الدین وموالیکم (احزاب:۵)
اس آیت میں موالی بھائی کے معنی میں استعمال ہوا ہے
احادیث میں "مولا / مولانا" کا اطلاق اللہ تعالی کے علاوہ پر
وقال لزید:أنت أخونا ومولانا (بخاری:۲۶۹۹)
نبی کریم صلی اللہ
حافظ ابن حجرعسقلانی رح فرماتے ہیں
لفظ مولا کا اطلاق بہت سے معانی پر ہوتا ہے، مثلا ولی، ناصر وغیرہ، لیکن لفظ مولا اور سید مطلقا بغیر کسی اضافت کے اللہ تعالی کے لئے ہی استعمال ہوتا ہے، اور لفظ مولا
(فتح
ماکنت مولاہ فعلی مولاہ ۔ (سنن ترمذی:۳۷۲۲)
جسکا میں مولا یا ذمہ دار ہوں اس کے حضرت علی ع بھی مولا یا ذمہ دار ہیں
علامہ جزری رح فرماتے ہیں کہ احادیث میں لفظ مولا کا تزکرہ بکثرت آیا ہے اور لفظ مولا ایک ایسا نام ہے جو بہت سے معنوں میں استعمال ہوتا ہے جیسا
حضرت عبد اللہ بن عمر رض فرماتے ہیں:
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا ثلاثۃ علی کثبان المسک یوم
قیامت کے دن تین لوگ مشک کے ٹیلوں پر ہوں گے، وہ غلام جس نے اللہ تعالی کا حق ادا کیا اور اپنے آقا کا حق ادا کیا
اس حدیث میں بھی مولا آقا اور سردار کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔
امام نووی رح فرماتے ہیں
غلام کے لئے اپنے آقا کو
(شرح مسلم:۵؍۹۰۴،چشتی)
قرآن وحدیث اور علماء امت کی تشریحات سے یہ بات بالکل واضح ہوگئی ہے کہ لفظ "مولا" کا اطلاق اللہ عزّوجلّ کے علاوہ دیگر معانی میں بھی درست ہے،