My Authors
Read all threads
20 نومبر 1979 کی صبح تھی۔ مرحوم شاہ فیصل کے بیٹے ترکی الفیصل کو، جو سعودی عرب کا وزیر تھا، شاہ خالد کا پیغام ملا کہ وہ اس سے ملنا چاہتا ہے۔ شہزادہ ترکی اس وقت شہزادہ فہد کے ساتھ تیونس میں ایک عرب کانفرنس میں شرکت کر رہا تھا۔ شہزادہ ترکی کی عمر چونتیس برس تھی اور اسکے وہم وگمان⬇️
میں بھی نہ تھا کہ اسے زندگی کے ایک بہت بڑے سیاسی اور مذہبی بحران کا سامنا کرنا ہوگا۔
20 نومبر بہت اہم تھا کیونکہ وہ حج کا آخری دن تھا۔ اس صبح خانہِ کعبہ کے بزرگ امام شیخ محمد السبیل فجر کی نماز اور پچاس ہزار حاجیوں کی امامت کی تیاری کر رہے تھے۔ وہ جونہی نماز پڑھانے کے لیے⬇️
آگے بڑھے اور مائکروفون کو پکڑا تو انہیں کسی شخص نے دھکا دے کر نیچے پھینک دیا اور پھر کعبے میں بندوقیں چلنے کی آوازیں آئیں۔ نمازیوں میں سے چند لوگ علیحدہ ہو گئے اور انہوں نے اپنے احرام کے نیچے سے بندوقیں نکال لیں۔ انہوں نے فوراٌ خانہ کعبہ کے دروازے مقفل کر دیے اور دروازوں پر⬇️
کھڑے پولیس افسروں کو قتل کر دیا۔ پھر ان میں سے ایک بد ہیئت داڑھی والے شخص نے نعرہ مارا۔۔۔’اللہ اکبر۔۔۔او مسلمانوں۔۔۔مہدی آ گیا ہے، ’مہدی۔۔۔مہدی، باقی مسلح باغیوں نے اس شخص کی آواز میں آواز ملائی۔
چودھویں صدی ہجری کا سال خون میں لت پت ہو چکا تھا۔ مسلم روایتوں کے مطابق قیامت⬇️
آنے سے پہلے مہدی کا ظہور ہوگا جسکا نام محمد بن عبداللہ ہوگا مہدی کے بعد عیسیٰ کا ظہور ہوگا۔اور پھر مہدی اور عیسیٰ ملکر دجال سے لڑیں گے اور کرہِ ارض پر امن اور سلامتی قائم کریں گے۔ اس روز خانہِ کعبہ میں جس شخص نے مہدی ہونے کا دعوہ کیا تھا اس کا نام بھی محمد بن عبداللہ القحطانی⬇️
تھا لیکن اس بغاوت کو شروع کرنے والا جہیمان العتیبی تھا جو ایک شدت پسند مسلمان مبلغ تھا۔ وہ دونوں کچھ عرصہ جاسوسی کی سزا کے طور پر اکٹھے جیل میں رہ چکے تھے۔ اس جیل کے قیام کے دوران العتیبی نے قحطانی کو خبر دی تھی کہ اسے خدا نے خواب میں بتایا تھا کہ قحطانی مہدیِ موعود ہے۔⬇️
اوتانی نے قحطانی کو قائل کر لیا تھا کہ وہ نیا مہدی ہے۔ جب دونوں جیل سے نکلے تو قحطانی نے العتیبی کی بہن سے شادی کر لی اور اپنا پیغام پھیلانا شروع کردیا۔جلد ہی مدینہ کی اسلامی یونیورسٹی کے طالبعلموں نے قحطانی کے ہاتھ پر بیعت کرنی شروع کردی۔ ان نوجوانوں کا تعلق اخوان المسلمین سے⬇️
تھا۔ بہت سے مالدار لوگوں نے قحطانی اور العتیبی کی مالی مدد کی اور انہیں اسلحہ خریدکر دیا۔ان طالب علموں میں سے چند ایک العتیبی کی طرح سعودی نیشنل گارڈ کے ممبر تھے اور فوجی ٹریننگ حاصل کر چکے تھے۔اس نئے گروہ کا مقصد سعودی حکومت کا تختہ الٹنا تھا تا کہ قیامت آنے سے پہلے
سعودی عرب⬇️
میں ایک اسلامی حکومت قائم ہو سکے۔
اس سے پہلے کہ باغی خانہِ کعبہ کے بجلی اور ٹیلیفون کے تار کاٹ دیتے بن لادن خاندان کے ایک فرد نے، جو خانہِ کعبہ کا معمار تھا، فون پر اپنے افسران کو اطلاع دی کہ خانہِ کعبہ میں بغاوت کا اعلان ہو چکا ہے۔ ان افسران نے شاہ خالد کو اطلاع دی⬇️
اور شاہ خالد نے شہزادہ ترکی کو، جو جاسوسی کا وزیر تھا، فوراٌ اپنے دربار میں حاضر ہونے کا حکم دیا۔
ترکی ہوائی جہاز سے جدہ پہنچا اور اپنی گاڑی چلا کر رات کو مکہ پہنچا۔ اس کے پہنچنے سے پہلے سارا شہر خالی کروا دیا گیا تھا۔ چاروں طرف ہو کا عالم اور گھپ اندھیرا تھا کیونکہ خانہ کعبہ⬇️
کی بجلی کےتار کاٹ دیے گئے تھے۔ ترکی اپنے چچا شہزادہ سلطان، جو وزیرِ دفاع تھے، سے ملنے ان کے ہوٹل گیا۔ جونہی ترکی ہوٹل میں داخل ہوا اسے ایک فائر کی آواز آئی اور ہوٹل کا دروازہ اسکی آنکھوں کے سامنے چکنا چور ہو گیا۔ ترکی کو اندازہ ہو گیا کہ خانہِ کعبہ کے میناروں میں مسلح باغی فوجی⬇️
بیٹھے ہیں۔ ترکی خانہِ کعبہ سے سو گز کے فاصلے پر ایک محفوظ مقام پر چلا گیا تا کہ سیاسی بحران سے نبرد آزما ہو سکے۔ خانہِ کعبہ میں باغیوں نے بہت سے حاجیوں کو جانے کی اجازت دے دی تھی لیکن بہت سے اب بھی محصور تھے۔ کوئی نہیں جانتا تھا کہ باغیوں کی تعداد کتنی تھی اور ان کے پاس کس قدر⬇️
خوراک اور اسلحہ تھا۔ وزارتِ داخلہ کے سو سپاہیوں نے باغیوں سے مقابلہ کرنے کی کوشش کی تھی لیکن باغیوں نے انہیں قتل کر دیا تھا باغیوں سے مقابلہ کرنے کے لیے سعودی فوج اور نیشنل گارڈ کو طلب کیا گیا تھا۔مسئلہ یہ تھا کہ خانہِ کعبہ پر فوجی حملہ کرنے سے پہلے کمانڈر کو علما سے اجازت لینی⬇️
ضروری تھی کیونکہ اسلام کی روایت کے مطابق خانہِ کعبہ میں جنگ و جدل کی اجازت نہیں تھی۔ علما بھی آزمائش میں تھے اگر وہ حکومت اور فوجی کمانڈر کو حملے کی اجازت نہ دیتے تو لوگ یہ سمجھتے کہ وہ باغیوں کا ساتھ دے رہے ہیں۔ یہ بحران اتنا سنگین بحران تھا کہ اس سے سعودی علما اور سعودی شاہی⬇️
خاندان کے رشتے میں گہرا شگاف پڑ سکتا تھا۔ ان دنوں سعودی علما کا رہنما عبد العزیز بن باز تھا جو ایک ستر سالہ نابینا شخص تھاْ ۔ وہ ایک روایتی عالم تھا جو سائنس اور جدید مغربی علوم کے خلاف تھا۔ وہ اب بھی ایمان رکھتا تھا کہ سورج زمین کے گرد گھومتا ہے اور انسان کی چاند پر جانے کی⬇️
خبر سراسر جھوٹ ہے۔ عبدالعزیز ایک عجب مخمصے کا شکار تھا کیونکہ العتیبی مدینے میں اس کا شاگرد رہ چکا تھا۔ جب سعودی حکومت اور سعودی علما کے مذاکرات ہوئے تو علما نے حکومت کو خانہِ کعبہ پر فوجی حملے کی اجازت دے دی۔ شہزادہ سلطان نے فوج کو حکم تو دے دیا کہ وہ خانہِ کعبہ کے تین دروازوں⬇️
پر حملہ کریں تا کہ باغیوں سے نبرد آزما ہوسکیں لیکن وہ حملہ بری طرح ناکام ہوا۔ فوجیوں کو بالکل اندازہ نہ تھا کہ باغیوں کی تعداد چار سے پانچ سو کی تھی ۔ ان باغیوں میں سعودیوں کے علاوہ یمنی، کویتی، مصری حتیٰ کہ چند سیاہ فام امریکی بھی شامل تھے۔ ان میں سے بہت سوں نے نیشنل گارڈ⬇️
سے اسلحہ لیا تھا اور فوجی ٹریننگ بھی حاصل کی تھی۔ انہوں نے اپنا اسلحہ خانہِ کعبہ کے تہہ خانوں میں چھپا کر رکھا ہوا تھا۔ باغیوں نے خانہِ کعبہ کے میناروں پر مورچے سنبھال رکھے تھے اور جب بھی کوئی سعودی فوجی خانہِ کعبہ کی طرف بڑھتا،وہ اسے گولی مار کر قتل کردیتے تھے۔⬇️
سعودی فوج کو مشورہ دینے والوں میں بھی، جن میں پاکستانی اور امریکی شامل تھے، شدید اختلاف رائے تھا۔ اس اختلاف کی وجہ سے بھی کئی سعودی فوجی مارے گئے تھے۔ ایک دن وزیرِ دفاع سلطان نے چند سعودی فوجیوں کو ایک خود کش ہیلی کاپٹر کی رسیوں سے خانہِ کعبہ کے صحن میں اتر کر باغیوں سے مقابلہ⬇️
کرنے کا حکم دیا لیکن باغیوں نے انہیں اپنی بندوق کی گولیوں سے بھون دیا۔ جب وزیرِ دفاع اپنی کوششوں میں ناکام رہا تو اس نے شہزادہ ترکی کو باغیوں سے مقابلے کی پوری ذمہ داری سونپ دی ترکی الفیصل نے ایک ایسا منصوبہ بنانے کی کوشش کی جس میں خانہ کعبہ میں کم از کم جانوں کا نقصان ہو۔⬇️
اس نے بن لادن خاندان سے رابطہ قائم کیا کیونکہ وہ خاندان ایک طویل عرصے سے خانہِ کعبہ کی مرمت کر رہا تھا اور اس عمارت کے تہہ خانوں کے رازوں سے واقف تھا۔ اس نے بن لادن خاندان سے خانہ کعبہ کے نقشے منگوائے۔ جس وقت ترکی الفیصل باغیوں سے مقابلے کی تیاری کر رہا تھا باغی خانہِ کعبہ کے⬇️
لائوڈ سپیکروں سے تقریریں کر رہے تھے اور مسلمانوں کو مہدیِ موعود کے آنے کی خوش خبری دے رہے تھے۔ اسوقت تک سارے شہر میں ہی کیا سارے ملک اور سارے عالمِ اسلام میں ایک عجیب سنسنی خیز خوف و ہراس کی لہر دوڑ چکی تھی۔ باغیوں سے مقابلے کے چوتھے دن سعودی فوجی خانہِ کعبہ میں داخل ہوئے⬇️
اور باغیوں پر حملہ آور ہوئے۔ چاروں طرف خون ہی خون تھا۔ خانہ کعبہ میں جو باغی قتل ہوئے ان میں محمد بن عبداللہ القحطانی بھی شامل تھا۔ اس وقت تک خانہِ کعبہ میں گلی سڑی لاشوں کی بدبو پھیل چکی تھی۔ مہدی موعود کے قتل کے بعد بھی باغیوں نے ہتھیار نہ ڈالے۔⬇️
حالات کا بہتر جائزہ لینے کے لیے ترکی الفیصل نے فوجی وردی پہنی اور اپنے بھائی شہزادہ سعود، سالم بن لادن اور ایک حفاظتی دستے کے ساتھ خانہِ کعبہ میں داخل ہوا۔ ترکی کو یہ اندازہ تو ہو گیا تھا کہ باغی خانہِ کعبہ کے تہہ خانوں میں چھپے ہوئے تھے لیکن اسے بالکل اندازہ نہ تھا کہ⬇️
وہ وہاں کب تک چھپ کر حملے کر سکتے ہیں۔ ترکی کے حکم سے لاشوں کو خانہِ کعبہ سے نکال کر کسی محفوظ مقام تک پہنچا دیا گیا۔ ترکی الفیصل کو اندیشہ تھا کہ اگر باغی کامیاب ہو گئے تو سعودی حکومت کا تختہ الٹ جائے گا۔ خانہِ کعبہ جسمیں صدیوں سے دن رات مسلمان طواف کرتے رہتے تھے بالکل اجاڑ ہو⬇️
گیا تھا۔ترکی الفیصل نے آسمان کی طرف دیکھا تو اسے بہت سے کبوتر خانہ کعبہ کا طواف کرتے دکھائی دیے، اسکو چند ماہرین نے مشورہ دیا کہ خانہ کعبہ کے تہہ خانوں کو پانی سے بھر دیا جائے اور پھر پانی میں برقی لہر دوڑا دی جائے لیکن اس مشورے پر عمل کرنا آسان نہ تھا۔ اس کے لیے پانی کی نہایت⬇️
کثیر مقدار درکار تھی جسے حاصل کرنا جوئے شیر لانے سے کم نہ تھا۔ ایک اور مشورہ یہ تھا کہ خانہِ کعبہ کے تہہ خانوں میں ایسے کتے دوڑائے جائیں جنکے جسموں کے ساتھ بارودی بم باندھے گئے ہوں اور پھر ان بارودی بموں کو ریموٹ کنٹرول سے اڑا دیا جائے۔ لیکن خانہ کعبہ میں ناپاک کتے بھیجنا آسان⬇️
نہ تھا۔ترکی کو جب کچھ سمجھ نہ آیا تو اسنے فرانسیسی کمانڈروں اور امریکی سی آئی اے کے نمائندوں سے رابطہ کیا جو طائف شہر میں سعودی فوجیوں کی ٹریننگ کر رہے تھے۔ فرانسیسی کمانڈر نے مشورہ دیا کہ خانہ کعبہ کے تہہ خانوں میں زہریلی گیس چھوڑی جائے۔ ترکی کی خواہش تھی کہ گیس اتنی زیریلی⬇️
ہو کہ باغیوں کو بے ہوش کر دے لیکن اتنی زہریلی نہ ہو کہ انہیں ہلاک کر دے۔ اس منصوبے پر عمل کرنے کے لیے تین فرانسیسی فوجی مکہ آئے لیکن چونکہ مکہ میں غیر مسلموں کو داخل ہونے کی اجازت نہیں اس لیے پہلے ان فرانسیسیوں کو مسلمان بنایا گیا پھر مکہ میں لایا گیا۔⬇️
فرانسیسی فوجیوں نے خانہِ کعبہ کے تہہ خانون میں زہریلی گیس چھوڑی لیکن اس گیس کا کوئی اثر نہ ہوا اور باغی اپنے مورچوں میں ڈٹے رہے۔ جب خانہ کعبہ کے صحن میں انسانی لاشوں کے انبار بڑھنے لگے تو سعودی فوجیوں نے پاکستانی کمانڈوز کے ساتھ مل کر خانہِ کعبہ کے تہہ خانوں کی دیواروں⬇️
میں سوراخ کیے اور بم گرینیڈ پھینکے۔ پھر وہ حملہ آور ہوئے اور انہوں نے باغیوں کو بے دردی سے قتل کیا۔
آخر دو ہفتوں کے محاصرے کے بعد باغیوں نے ہتھیار ڈال دیے۔ اس حملے میں جو باغی زخمی ہوئے ان میں العتیبی بھی شامل تھا۔ اسے ہسپتال بھیج دیا گیا۔ خانہِ کعبہ سے رخصت ہوتے وقت⬇️
اس کی داڑھی اور بال وحشیوں کی طرح بکھرے ہوئے تھے۔ جب ترکی الفیصل العتیبی سے ملنے ہسپتال گیا تو العتیبی نے بستر سے چھلانگ لگا کر ترکی کا ہاتھ پکڑا اور اسے بوسہ دیتے ہوئے کہا ’بادشاہ سلامت سے درخواست کرو کہ مجھے معاف کر دیں، پھر وہ زارو قطار رویا اور روتے ہوئے کہنے لگا⬇️
میں دوبارہ ایسی حرکت نہیں کروں گا، العتیبی کی گفتگو سن کر ترکی الفیصل حواس باختہ ہو گیا۔ اسے کچھ سمجھ نہ آیا کہ کیا کہے۔ اسے کچھ ہوش آیا تو اس نے العتیبی سے کہا ’تم نے معافی مانگنی ہے تو خدا سے معافی مانگو،
ایک اندازے کے مطابق ان دو ہفتوں کی جنگ میں⬇️
255 حاجی اور باغی اور 167 سعودی فوجی مارے گئے اور 560 باغی اور حاجی اور 451 فوجی زخمی ہوئے۔
اس جنگ کے دوران کئی اسلامی ممالک میں امریکہ کے خلاف ہنگامے ہوئے کیونکہ ایران کے مذہبی رہنما آیت اللہ خمینی نے ریڈیو پر اعلان کیا کہ اس بغاوت کے ذمہ دار امریکہ اور اسرائیل ہیں۔⬇️
اس کے بعد حکام نے جو کریک ڈاؤن کیا، اس میں صحرا کی طرف سے آنے والی ایک گاڑی بھی پکڑی گئی جس میں ایک 22 سالہ نوجوان موجود تھا۔ اسے الجامعہ کا کارکن ہونے کے شبے میں بند کر دیا گیا، لیکن اس نے پوچھ گچھ کے دوران کعبہ کے محاصرہ سے مکمل لاعلمی ظاہر کی۔⬇️
اس نوجوان کا نام اسامہ بن لادن تھا۔ بعد میں اسامہ بن لادن نے بھی سعودی حکومت کے خلاف بغاوت کی اور انکے الزامات جہیمان کی تحریک کے عائد کردہ الزامات سے بہت ملتے جلتے تھے۔ 1985 میں انہوں نے پشاور میں گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ جہیمان بالکل ٹھیک تھا۔سعودی حکومت نے العتیبی اور اسکے⬇️
باسٹھ پیروکاروں کو سزائے موت دی اور 9 جنوری 1980 کو آٹھ شہروں میں بر سرِ عام انکے سر قلم کر دیے گئے تا کہ سعودی حکومت سے بغاوت کے بارے میں سوچنے والوں کو عبرت حاصل ہو۔
سعودی عرب کی تاریخ میں پہلے کبھی ایک دن میں اتنے لوگوں کے سر قلم نہ کیے گئے تھے۔
منتخب تحریر
ڈاکٹر خالد سہیل🔄🔄
Missing some Tweet in this thread? You can try to force a refresh.

Keep Current with Anwar Ahmad Khan

Profile picture

Stay in touch and get notified when new unrolls are available from this author!

Read all threads

This Thread may be Removed Anytime!

Twitter may remove this content at anytime, convert it as a PDF, save and print for later use!

Try unrolling a thread yourself!

how to unroll video

1) Follow Thread Reader App on Twitter so you can easily mention us!

2) Go to a Twitter thread (series of Tweets by the same owner) and mention us with a keyword "unroll" @threadreaderapp unroll

You can practice here first or read more on our help page!

Follow Us on Twitter!

Did Thread Reader help you today?

Support us! We are indie developers!


This site is made by just two indie developers on a laptop doing marketing, support and development! Read more about the story.

Become a Premium Member ($3.00/month or $30.00/year) and get exclusive features!

Become Premium

Too expensive? Make a small donation by buying us coffee ($5) or help with server cost ($10)

Donate via Paypal Become our Patreon

Thank you for your support!