جس وقت پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تمام حکومتی مراکز اور مذہبی رؤسا کو خط بھیج کر اسلام کی دعوت دی تو ایک خط نجران کے عیسائی رہنما پوپ کو بھی
"شروع کرتا ہوں خدائے ابراہیم و یعقوب و اسحاق علیہم السلام کے نام سے، خدا کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جانب سے نجران کے پوپ
میں ابراہیم و اسحاق و یعقوب علیھم السلام کے خدا کی تعریف بجا لاتا ہوں اور تمھیں بندوں کی پرستش ترک کرکے خدا کی عبادت کرنے کی دعوت دیتا ہوں۔
تمھیں اس بات کی دعوت دیتا ہوں کہ بندوں کی ولایت سے نکل کر خدا کی ولایت میں داخل ہو جاؤ اور اگر تمہیں ہماری دعوت منظور نہیں ہے
پوپ نے خط پڑھنے کے بعد تمام مذہبی اور غیر مذہبی شخصیات کو مشورے کے لئے طلب کیا۔ شرجیل جو مشاوریں میں سے تھا اور عقل و درایت میں بہت ہی معروف تھا، اس نے مشورہ دیا کہ
"ہم نے بارہا اپنے راہنماؤں سے یہ سنا ہے کہ ایک دن منصب نبوت
شرجیل کے مشورے کے بعد اس کمیٹی نے فیصلہ کیا کہ کچھ لوگوں کو نجران
چنانچہ نجران کے حاکم ابو حارثہ بن علقمہ کی کارکردگی میں 60 افراد پر مشتمل ایک گروہ مدینہ روانہ کیا گیا۔ اس گروہ کے ساتھ عبدالمسیح و ایھم نامی دو مذہبی رہنما بھی
نجران کا یہ قافلہ بڑی شان و شوکت سے سونے چاندی سے سجے فاخرانہ لباس پہنے مدینہ منورہ میں داخل ہوا۔ یہ لوگ مسجد نبوی میں داخل ہوئے تاکہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نزدیک سے دیدار کر سکیں۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس گروہ کی یہ حالت دیکھی تو
چند روز اسی طرح گزر گئے یہاں تک کہ حضرت علی ع کے مشورے سے نجران والے متوجہ ہوئے کہ اس انداز میں پیغمبر سے ملاقات ممکن نہیں ہے لہذا سادہ لباس زیب تن کر کے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
یہاں تک کہ پھر سورۂ آل عمران کی آیہ مباہلہ نازل ہوئی، جس میں پروردگار نے فرمایا
چنانچہ اب آپ کو علم (اور وحی) پہنچنے کے بعد، جو بھی اس
اس پر طے یہ ہوا کہ
یہ خبر سارے شہر میں پھیل گئی۔ لوگ مباہلہ شروع ہونے سے پہلے ہی اس جگہ پر پہنچ گئے ۔ نجران کے نمایندے آپس میں کہتے تھے کہ اگر آج محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے سرداروں اور سپاہیوں کے
سب کی نظریں شہر کے دروازے پر ٹکی ہیں، دور سے مبہم سایہ نظر آنے لگا، جس سے ناظرین کی حیرت میں اضافہ ہوا، جو کچھ دیکھ رہے تھے اسکا تصور بھی
پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک ہاتھ سے امام حسین علیہ السلام کو آغوش میں لئے ہوئے ہیں اور دوسری جانب سے امام حسن علیہ السلام کا ہاتھ پکڑ رکھا ہے، آنحضرت کے پیچھے پیچھے انکی دختر گرامی سیدۃ النساء العالمین حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا چل رہی ہیں
ان کے سب سے بڑے پادری نے یہ منظر دیکھ کر کہا
"میں یہاں ان چہروں کو دیکھ رہا ہوں جو اگر پہاڑ کی طرف اشارہ کریں تو ان پر بھی لرزہ طاری ہو جائے گا اور اگر انہوں
دوسرے نے کہا
تو پھراس کا سد باب کیا ہے؟
جواب ملا
ان کے ساتھ صلح کریں گے اور کہیں گے کہ ہم جزیہ دیں گے تاکہ آپ ہم سے راضی رہیں۔
ایسا ہی کیا گیا۔ اس طرح حق
اس واقعے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا
"خدا کى قسم! جس نے مجھے نبى بنایا ہے کہ
واضح رہے کہ فخر رازى نے اس روایت کے بارے میں لکھا ہے کہ اس کى صحت پر تقریباً تمام اہل تفسیر و حدیث کا اتفاق و اجماع ہے۔
24ذی الحجہ وہ مبارک و مسعود تاریخ ہے جس میں پیغمبر اسلام و اہلبیت اطہار علیھم السلام کو
مباہلہ کا ایک اہم پیغام یہی ہے کہ زبانی دعوے و لعن ترانیوں سے دشمن کو پسپا نہیں کیا جا سکتا بلکہ