My Authors
Read all threads
کی بورڈ

ناول

سرمئی شام میں وہ اپنے دوستوں کے ساتھ کیلیفورنیا کے ساحل پر موجود تھی یہ ایک کالج گروپ تھا اور چھٹیوں پر کیلیفورنیا آیا ہوا تھا ۔ خوب ہلہ گلہ ہو رہا تھا وہ پنک اسکارف لانگ شرٹ اور جینز میں سب سے الگ دکھائی دے رہی تھی ۔ وہ ایک سال پہلے امریکہ آئی تھی Image
اس نے امتحانات میں ٹاپ کیا تھا جس پر حکومت نے اس کو وظیفہ دیا تھا ۔ حکومت کی اس مہربانی پر آج وہ امریکہ میں تھی اور باقی کی پڑھائی یہاں کر رہی تھی ۔ وہ آئی ٹی میں ماسٹر کر رہی تھی شکاگو کی ایک اچھی یونیورسٹی سے ۔ وہ ایک عام لڑکی تھی ۔ اسکے والد ایک تاجر تھے دو بھائی تھے
جو باپ کے کاروبار میں اسکا ہاتھ بٹاتے تھے اور اسکی ماں ایک عام گھریلو عورت تھی ۔ وہ چھبیس سال کی ہو چکی تھی آج اسکی سالگرہ بھی تھی اسکی دوستوں نے اسکو پارٹی دی تھی اسی سلسلے میں وہ آج کیلیفورنیا میں موجود تھے ۔ اس گروپ میں لڑکے بھی تھے انہی میں ایک شہروز نامی لڑکا بھی تھا
وہ بھی امریکہ تعلیم حاصل کرنے آیا تھا ۔ شہروز کا باپ ایک بیوروکریٹ تھا ۔ وہ ایک اچھا اور سلجھا نوجوان تھا اور فاطمہ کا کلاس میٹ بھی وہ دونوں ایک ساتھ ہی بیٹھے تھے ۔ دیارِ غیر میں ہم وطن مل جائیں تو اپنائیت کا احساس رہتا ہے لیکن ان میں اب اپنائیت سے زیادہ محبت کا جذبہ بھی پروان
چڑھ رہا تھا ۔ لیکن دونوں ہی اپنی حدود جانتے تھے ۔ گروپ میں ٹوٹل بارہ لوگ تھے آٹھ لڑکیاں اور چار لڑکے باقی سب انگریز تھے ۔ فاطمہ موسیقی سے لطف اندوز ہوتی رہی ۔ شہروز اسکے لیے قیمے کے سموسے بنا کر لایا تھا ۔ شہروز کو کوکنگ کا شوق تھا ۔ روایتی سموسے جب گروپ کے دوسرے لوگوں نے کھائے
تو انکی آنکھوں سے پانی نکل آیا ۔ تیز مرچ کے ساتھ ہری مرچوں کی چٹنی برا یہ ہوا کہ انہوں نے اسکے اوپر بئیر چڑھا لی اس لیے اب سب شہروز کو غصے سے دیکھ رہے تھے جبکہ فاطمہ کو سموسے بہت پسند آئے وہ ویسے ہی تیز مرچ کھانے کی عادی تھی ۔ شہروز نے ہنس کر کہا ۔ کیا ہو گیا ہے
یہ تو ہمارے روایتی کھانے ہیں ابھی تو میں نے ہلکا مصالحہ رکھا ہے ویسے بھی یہ تو فاطمہ کے لیے لایا تھا تم لوگ تو خود ہی کود پڑے اس میں میرا کیا قصور ہے ۔ فاطمہ نے کہا یہ جھوٹ بول رہا ہے میرے سموسوں میں تو بالکل مرچیں نہیں تھی ۔ وہ سب شہروز کو مارنے دوڑے تو شہروز بھاگ کھڑا ہوا
فاطمہ ہنسنے لگی شہروز کو پکڑ کر انہوں نے پانی میں اچھال دیا ۔ ہلکی سردی اور ٹھنڈا پانی شہروز کو تو تارے نظر آ گئے ۔ یہ ہی انکی زندگی تھی ۔ پڑھنا کھیلنا انجوائے کرنا ۔ لیکن کسی کو کیا معلوم تھا آنے والے دن کیا قیامت لے کر آنے والے ہیں فاطمہ کے لیے ۔ رات کو انہوں نے واپسی کا فیصلہ
کیا ۔ وہ وہاں سے سیدھا ائیر پورٹ پہنچے ۔ ٹکٹس لی اور واپس شکاگو کے لیے روانہ ہو گئے ۔ ان کا وہ دن ایک یادگار دن تھا جو بعد میں کئی دن ڈسکس بھی ہوتا رہا ۔ شہروز کو تو پیسوں کی کمی نہیں تھی اکثر وہ فاطمہ کو بھی کہتا تم کام چھوڑ دو ۔ کیا میرا سب کچھ تمھارا نہیں ہے
لیکن فاطمہ اسکی اس آفر کو قبول نہیں کرتی تھی اور وہ شام کو جاب کیا کرتی تھی ۔ شہروز اسے روز لینے آتا تھا واپسی پر وہ باہر کھانا کھاتے اور اپنے ہوسٹل میں چلے آتے جہاں اوپر کے پورشن میں لڑکیاں اور نیچے لڑکے ہوتے تھے ۔ آزاد معاشرے میں بھی وہ دونوں اپنی روایات کا پاس رکھتے تھے
شاہد اسی لیے فاطمہ اسکے قریب بھی ہو گئی تھی ورنہ وہ جب نئی نئی آئی تھی تو اپنے کمرے سے باہر ہی نہیں نکلتی تھی اسکی روم میٹ اکثر اسکو باہر کا کہتی مگر وہ انکار کر دیتی تھی البتہ چھٹی کے دن وہ پارک تک چلی جاتی تھی ۔ پھر جب سے شہروز آیا وہاں تب سے اب تک وہ بدل گئی تھی
محبت کی کونپل اسکے من میں پھوٹی تھی جو اب تناور درخت بن چکی تھی ۔ ایسے ہی ایک شام وہ اپنے کام پر موجود تھی ۔ اسکی قسمت اچھی تھی کہ اسے کام بھی اسکیورٹی چیکنگ کا ملا تھا جہاں اسکے انڈر تمام عمارت کی آن لائن دیکھ بھال تھی سو وہ اپنی کرسی پر بیٹھی ڈیوٹی کر رہی تھی
اور ساتھ میں لیپ ٹاپ پر شہروز سے چیٹ بھی کر رہی تھی ۔ آئی ٹی کے شعبے میں ہونے کی وجہ سے اسکو ہیکنگ کا بھی شوق پڑ گیا تھا ۔ لیکن وہ کبھی غلط کام نہیں کرتی تھی ۔ بس کبھی آن لائن گیمز کے زریعے سرور ہیک کر لیتی اگر ہار رہی ہو ۔ وہ رات فاطمہ کی زندگی میں نیا موڑ لانے والی تھی
وہ شہروز سے بات ختم کر کے گیم کھیلنے لگی ۔ کہ اسے ایک ریکوئسٹ موصول ہوئی ۔ اس نے لنک کو پراکسی کے ساتھ کنیکٹ کیا اور اس اکاونٹ کو دیکھنے لگی ۔ لیکن پراکسی پر وہ اکاونٹ نہیں کھلا جس سے اسکی دلچسپی بڑھ گئی ۔ چونکہ وہ ہیکر بھی تھی تو اس نے سافٹ وئیرز کی مدد سے اسکو کھوجنا شروع کیا
کافی کوشش کے بعد بھی جب وہ لنک اوپن نہیں ہوا تو اسکو ضد سی ہو گئی ۔ اس نے وہ لنک کاپی کیا اور آفس کے کمپیوٹر پر اسے ٹائپ کرنے لگی ۔ یہ ہی اسکی سب سے بڑی غلطی تھی کیونکہ وہ بلڈنگ دراصل ایف بی اے والوں کی تھی جس کا فاطمہ کو معلوم نہیں تھا نہ اسکو بتایا گیا تھا وہ وہاں معمولی جاب
کرتی تھی ۔ جب اس نے آفس کمپیوٹر کے زریعے اس لنک کو کھولا تو اسکرین پر ایک ڈھانچے کی شکل نمودار ہوئی جو ہنس رہا تھا ۔ ابھی وہ اسکو سمجھنے کی کوشش میں ہی تھی کہ تمام اسکرین آف ہو گئی ۔ اس نے جلدی سے سٹم کو ری بوٹ کیا ۔ اسکے دل نے خطرے کی گھنٹی بجائی ۔ سسٹم ری بوٹ ہونے پر کیمرے آن
ہو گئے ۔ وہ ہر طرف نظرہں گھمانے لگی لیکن حالات معمول پر تھے ۔ بلڈنگ کے اندر اپنی اسکیورٹی ہوتی تھی ۔ دراصل یہ ایف بی اے کا ریکارڈ روم تھا ۔ یہاں حساس معلومات بھی پائی جاتی تھی لیکن فاطمہ ان سب سے بے خبر تھی ۔ سارا سسٹم چیک کرنے کے بعد وہ مطمعن تو ہو گئی مگر دل میں ہلکی سی خلش
برقرار تھی ۔ دوسری جانب ہیکرز نے وہ سارا سسٹم ہیک کر لیا تھا جس کی وجہ فاطمہ بنی تھی اگر وہ اپنے لیپ ٹاپ پر وہ لنک کھولتی تو اسکو معلوم ہو جاتا کہ کوئی سسٹم ہیک کرنا چاہتا ہے تب وہ سدِباب کر سکتی تھی مگر آفس کے کمپیوٹر میں ایسا کوئی نظام نہ تھا اسلیے اسکو بھی معلوم نہیں ہو سکا
کام ختم کر کے جب وہ آفس سے باہر نکلی تو شہروز کو موجود پایا ۔ وہ مسکراتے ہوئے اسکی جانب بڑھی ۔ اور بولی تم خواہ مخواہ تکلف کرتے ہو شہروز ۔ میں نے پہلے بھی کہا ہے اپنا کام چھوڑ کر مت آیا کرو ۔ ہ کہنے لگا مجھے کیا کام ہو سکتا ہے بھلا اور نہ مجھے کوئی مسلہ ہے اس میں تو تم کو کیا
اعتراض ہے ۔ یا پھر میرا آنا برا لگتا ہے ۔ وہ اسے ترچھی نظر سے دیکھ کر بولی میں نے ایسا کب کہا کہ مجھے برا لگتا ہے میں تو یہ کہہ رہی ہوں کہ تمھارے اپنے بھی دوست ہیں لیکن تم مجھے عادت بنا رہے ہو ۔ سوچو کبھی تم یا میں کسی کام میں مشغول ہوئے اور ہمیں بعد میں احساس ہو تو کیسا لگے گا
شہروز نے کہا تب کی تب دیکھیں گے ۔ چلو آو وہاں چلتے ہیں ۔ وہ دونوں سڑک کراس کر کے ایک اوپن ریسٹورنٹ میں آ بیٹھے ۔ کرسیاں سنبھالنے کے بعد شہروز نے کہا تو پھر کیا کھلا رہی ہو آج ؟ یہ بھی فاطمہ کے زور دینے پر ہوا تھا کہ ایک دن وہ ڈنر کرا دے ایک دن فاطمہ کرا دے گی شہروز پہلے تو مانا
نہیں ۔ مگر فاطمہ کی ضد پر آخرکار مان گیا تھا ۔ فاطمہ نے کہا جو دل کرے کھاو ۔ وہ اپنا بیگ ساتھ کرسی پر رکھتے ہوئے بولی ۔ شہروز نے مینیو اٹھا لیا یہ ایک انڈین ریسٹورنٹ تھا یہاں کے پراٹھے بڑے مشہور تھے ۔ شہروز نے اپنا اور اسکا آڈر دیا اور پھر وہ باتیں کرتے رہے ۔ رات کو جب فاطمہ
اپنے کمرے میں تھی تو اسکے موبائل پر میسج ٹون ہوئی ۔ فاطمہ نے کتاب ایک طرف رکھی اور موبائل اٹھا کر اسکرین پر نظر ڈالی کوئی ان دیکھا نمبر تھا ۔ اس نے میسج کو کھولا جہاں لکھا تھا تمھارا شکریہ اور نیچے ڈھانچہ بنا ہوا تھا ۔ فاطمہ چونک سی گئی یہ تو بالکل وہی ڈھانچہ ہے جو اسکو آفس
کے کمپیوٹر پر نظر آیا تھا ۔ فاطمہ نے اس کو ری پلائے کر کے پوچھا تم کون ہو اور کیا چاہتےہو ۔ لیکن جواب نہیں آیا ۔ فاطمہ کو وہ لنک یاد آیا ۔ اس نے موبائل میز پر رکھ دیا اور اپنا لیپ ٹاپ آن کیا ۔ اور وہ لنک تلاش کرنے لگی جو اس نے کاپی کیا تھا ۔ جلد ہی اس نے اس لنک کو کلک کیا
اب کی بار بات اور تھی کیونکہ فاطمہ کے ہیکنگ سافٹ وئیر نے اشارہ کر دیا تھا یہاں کچھ گڑبڑ ہے ۔ فاطمہ نے اس لنک کو کھول لیا ۔ وہ ایک ویب سائیٹ تھی جس پر لکھا تھا ویلکم ٹو اسپائڈرز ویب ۔ اس پیج کی ڈومین کو چیک کیا تو اسے احساس ہو گیا یہ ہیکرز ہیں ۔ وہ تھوڑا پریشان ہو گئی
اس نے ایک بار پھر موبائل کو دیکھا اور پھر میسج کیا ۔ تم کون ہو ۔اب کی بار جواب آیا میں ایڈمن ہوں ۔ فاطمہ نے لکھا کون ایڈمن ؟ جواب آیا اسپائڈز ویب کا ایڈمن ۔ فاطمہ نے لکھا تم نے میرا شکریہ کس لیے اداکیا ہے میں تم کو نہیں جانتی تم نے میرا نمبر کہاں سے لیا ہے ؟ جواب میں ہنسنے والا
ایموجی آیا اور ساتھ لکھا تھا میں تو تمھارے بارے میں بھی جانتا ہوں تم کون ہو کہاں سے آئی ہو کہاں پڑھتی ہو تمھارے دوست کون ہیں ۔ فاطمہ نے جواب میں کہا مجھ سے کیا چاہتےہو تم ۔ اس نے جواب دیا کچھ بھی نہیں تمھارا شکریہ ادا کرنا تھا جو تم نے میرا لنک اپنے آفس میں کھولا ۔ حالانکہ میرا
تو خیال تھا کہ تم اس کو کھولو گی تو میں تم کو آفر دونگا اپنے ساتھ کام کرنے کی مگر تم نے اسکو جس کمپیوٹر پر کھولا اس سے میرا بہترین کام ہوگیا ۔ دل تو کرتا ہے تم کو اسکا نفع دوں جو ہزاروں ڈالرز میں بنتا ہے کیا میرے ساتھ کام کرو گی ؟ فاطمہ نے لکھا تم نے وہاں کیا کیا ہے ؟
جواب میں وائس میسج آیا جس میں ہنسنے کی آواز تھی اور ایک بھاری آواز سنائی دی وہی جو میرا کام ہے یعنی ہیکنگ کا ۔ تمھاری بے وقوفی کی بدولت مجھے لاکھوں کا فائدہ ہو گیا ہے فاطمہ ۔ اب جو میں کہونگا اس کو دھیان سے سنو ۔ فی الحال تمھارے آفس کو یہ بات معلوم نہیں لیکن انکو جلد معلوم ہو
جائے گا ۔ لیکن میں تمھارے لیے اتنا کر سکتا ہوں کہ اس سسٹم سے اپنا لنک اڑا دیتا ہوں تاکہ تم پر الزام نہیں آئے تم انجانے میں ماری ناں جاو ۔ فاطمہ کو اسکی باتوں سے ڈر لگنے لگا ۔ اس نے کوئی جواب نہیں دیا مگر دوسری جانب سے میسج آتے رہے ۔ وہ بولا تم ڈر رہی ہو گی لیکن فکر نہیں کرو
وہ تم پر الزام نہیں لگا سکیں گے میں نے وہ سسٹم کلئیر کر دیا ہے ۔ البتہ انکوائری ضرور ہو گی خود کو سنبھالنا تمھارا کام ہے ۔ ہاں میری آفر موجود ہے اگر تم وہاں میرے لیے کام کرو تو میں تم کو اسکی رقم دونگا ۔ فاطمہ اب بھی خاموش ہی رہی اس کا میسج آیا اگر دل مان جاٰے تو اسی لنک پر آنا
اور اس میں رجسٹرڈ ہو جانا ۔ اگر نہیں مانا تو یہ بات یہاں ہی ختم ہے یہ مہربانی اسلیے کر رہا ہوں کیونکہ تم ایک عام لڑکی ہو اور اس دھندے میں رسک ہے پکڑے جانے پر مار دیا جاتا ہے ۔ اچھا گڈ بائے اور ایک مرتبہ پھر شکریہ ۔ پھر اسکا میسج نہیں آیا ۔ فاطمہ کے جسم میں سرد لہر اٹھی
اسکی باتوں نے اسے سمجھا دیا تھا کہ وہ ایک ہیکر ہے اور اس بے اس عمارت کا ڈیٹا چرا لیا ہے اب اس عمارت میں ایسا کیا تھا فاطمہ سوچنے لگی ۔ وہ جتنا سوچتی اتنا ہی الجھ جاتی تھی ۔ اس نے لیپ ٹاپ بند کر دیا ۔ لیکن نیند اسکی آنکھوں سے روٹھ گئی رات دیر تک وہ جاگتی رہی اور پریشان رہی
اگلے دن وہ جب جاب پر گئی تو وہاں سب نارمل تھا مگر وہ اندر سے خوفزدہ تھی ۔ اس نے شہروز کو بھی کچھ نہیں بتایا تھا ۔ ناں ہی دوبارہ کوئی میسج آیا تھا اسے ۔ وہ اپنی ڈیوٹی کرتی رہی اور ڈیوٹی کے بعد جب شہروز اسے لینے آیا تب بھی وہ انہی خیالوں میں تھی ۔ شہروز نے نوٹ کیا کہ وہ چپ ہے
تو بولا کیا بات ہے دھیان کہاں ہے تمھارا ۔ کیا کوئی پریشانی ہے تم کو ۔ فاطمہ چونک کر اسکی جانب دیکھنے لگی اور بولی کچھ کہا تم نے ۔ شہروز نے اپنی بات دہرائک تو وہ بولی کچھ نہیں بس رات نیند پوری نہیں کی اور اب تھکن ہو رہی ہے سوری تم کو بور کیا ۔ شہروز اسکو غور سے دیکھ رہا تھا
اسکے خاموش ہونے پر بولا جیسے تمھاری مرضی لیکن اگر کوئی پریشانی ہے تو ضرور بتانا ۔ فاطمہ نے سر ہلایا پھر وہ واپس آگئے اس رات فاطمہ جلد سو گئی ۔ تین چار روز بعد وہ اس بات کو بھول گئی لیکن ایک خلش برقرار رہی ۔ ٹھیک ایک ہفتے بعد اسکو انکوائری کے لیے بلایا گیا ۔ بلڈنگ کے ذمےداروں نے
اس سے گھما پھرا کر سوال کیے لیکن وہ اپنی جگہ مضبوط رہی ۔ ایجنٹ اسمتھ ایک منجھا ہوا جاسوس تھا ۔ وہ فاطمہ سے بولا تمھارا ریکارڈ اچھا ہے مس فاطمہ لیکن یہ غفلت ہوئی ضرور ہے ہم اسکی کھوج میں ہیں اگر تم کو اس بارے میں کچھ بھی معلوم ہو تو ہم کو ضرور بتانا اب تم جا سکتی ہو
فاطمہ وہاں سے نکل آئی ۔ اس رات بھی وہ بے چین رہی وہ اکیلی لڑکی اور دیارِ غیر میں بھی اگر اس پر کوئی آفت آگئی تو وہ کیسے نمٹے گی ۔ یہ ہی سوچیں اسے بے چین کر رہی تھی ۔ اس ے شہروز سے بات کرنے کا فیصلہ کر لیا لیکن وہ یہ بات فورا نہیں کرنا چاہتی تھی ۔ اسے احساس تھا کہ وہ پھنس چکی ہے
ہو سکتا ہے وہ نظروں میں ہو ۔ اسلیے وہ معمول کی زندگی گزارتی رہی دوبارہ انکوائیری بھی نہیں ہوئی اگر ہوئی تو اسے بلایا نہیں گیا تھا ۔ ٹھیک دس دن بعد اس نے شہروز کو بتایا کہ اسکے ساتھ کیا ہوا ہے ۔ شہروز نے سب کچھ تحمل سے سنا جب وہ بات ختم کر چکی تو وہ بولا ۔ اگر اب سب خاموش ہیں تو
بھول جاو اس بات کو یہ سب سے اچھا ہوگا ۔ فاطمہ نے اسے وہ میسج پڑھائے جو ایڈمن کے تھے ۔ شہروز نے کہا واقعی اس نے تم پر احسان کیا ہے ورنہ ایسے لوگ بات نہیں کرتے ۔ فاطمہ نے کہا لیکن مجھے چین نہیں آرہا شہروز کوئی چیز مجھے اندر ہی اندر کھا رہی ہے ۔ جیسے میں نے جرم کیا ہے
شہروز نے کہا تم ٹچی ہو رہی ہو یہ اب انجانے میں ہوا تم استعمال ہوئی ہو تم نے جان کر یہ سب نہیں کیا ۔ فاطمہ نے کہا ہاں لیکن اگر کل کو وہ مجھے بلیک میل کر کے کوئی کام لینا چاہے تب میں کیا کرونگی ۔ اس وقت تو میں کسی کو بتا بھی نہیں سکوں گی کون اعتبار کرے گا شہروز نے اسکا ہاتھ تھاما
اور کہا ۔ ایسا مت سوچو تم ۔ اب اس بات کو کافی وقت ہو گیا ہے اگر اس نے کچھ کرنا ہوتا تو کر چکا ہوتا ۔ تمھاری جاب برقرار ہے اسکا مطلب یہ ہے کہ وہ بھی مطمعن ہیں تم سے ۔ لیکن اس عمارت میں ایسا کیا ہے ؟ فاطمہ نے کہا معلوم نہیں ۔ شہروز نے کہا کہیں وہ کوئی سرکاری عمارت تو نہیں
فاطمہ نے کہا میں نے اس پر سوچا ہے اسلیے تو پریشان ہوں ۔ اگر وہاں حساس معلومات ہوئی تو میرا مستقبل تو اندھیروں میں گزرے گا کیا ہم جانتے نہیں یہ لوگ ہمیں کس طرح ٹریٹ کرتے ہیں ۔ شہروز نے کہا ہاں یہ بات تو ہے لیکن تم یقین رکھو میں ہر وقت تمھارے ساتھ ہوں اللہ خیر کرے گا فاطمہ
فاطمہ کء دل کو اسکی باتوں سے کافی سکون ملا ۔ اسی رات فاطمہ نے سارے معاملے پر سوچا ۔ اس کو اپنی ماں کی نصحیت یاد آئی جو کہتی تھی اگر کوئی غلطی انجانے میں سرزد ہو جائے تو اسکو سدھارنا چاہیے یہ ایک طرح سے کفارہ ہوتا ہے ۔ فاطمہ نے اس پر سوچنا شروع کیا مگر وہ کیا کر سکتی ہے
پھر اسے کوکو یاد آئی وہ ایک منجھی ہوئی ہیکر تھی ۔ کوکو اس کی دوست تھی فاطمہ نے سوچا کیا وہ اسے اعتماد میں لے ؟ پھر اس نے فیصلہ کر لیا وہ کوکو کو یہ لنک دے گی اور کہے گی اس پر تحقیق کرے دیکھتے ہیں وہ کیا کرتی ہے ۔ اسکو ویسے بھی ایسی چیزوں سے دلچسپی تھی سو وہ یہ فیصلہ کر کے سو گئی
اگلے دن اس نے کوکو سے اس کا تذکرہ کیا ۔ وہ بولی کہاں ہے لنک ۔ فاطمہ نے اس کو بتایا تو اس نے اپنے لیپ ٹاپ سے وہ لنک کھولا ۔ کوکو اس ویب سائیٹ پر رجسٹرڈ ہو گئی ۔ مزید آگے بڑھنے پر وہ بولی یہ تو ہیکرز ہیں اور یہ تو جرائم میں مبتلا بھی ہیں ۔ تم کو یہ لنک کس نے دی فاطمہ
فاطمہ نے کہا ۔ میں گیم کھیل رہی تھی تو وہاں چیٹ روم میں یہ لنک آیا تھا تم کو تو معلوم ہے مجھے ہیکنگ میں دلچسپی ہے لیکن مجھے ڈر بھی لگتا ہے اسلیے میں نے اسے کھولا نہیں اور تمھارا خیال آیا ۔ کوکو نے کہا یہاں سے تو اچھے خاصے پیسے کمائے جا سکتے ہیں یہ دیکھو کیا لکھا ہے ۔ کوکو نے
اسکرین کو گھمایا اور فاطمہ کی جانب کر دیا جہاں لکھا تھا اگر آپ رسک لینا جانتے ہیں تو آپ کبھی بھوکے نہیں مریں گے ۔ پیج کا الگ چیٹ روم بھی تھا اس وقت بھی وہاں درجنوں اکاونٹ چیٹ کر رہے تھے سب ہی ایڈمن کے نام سے تھے وہ انکی بات چیت پڑھتے رہے ۔ کوکو نے چیٹ روم میں لکھا مجھے رسک لینا
اچھا لگتا ہے ۔ جواب میں کسی نے کہا تو پھر کچھ کر کے دکگاو اور ایک لنک اسے دیا گیا ۔ جو منسٹری آف ڈیفینس کا تھا ۔ اس نے لکھا مجھے کیا کرنا ہوگا جواب آیا اس کو ہیک کرو اور کوئی بھی پیغام وہاں چھوڑ دو ہم دیکھیں گے تم کتنی قابل ہو ۔ کوکو نے لکھا مجھے کیا ملے گا ۔ جواب آیا جو چاہو
لیکن پہلے کام ۔ کوکو نے حامی بھر لی جواب آیا تمھارے پاس آج کا دن ہے ناکامی کی صورت میں تم جانو اور وہ جانیں ہمیں تو ویسے بھی کوئی نہیں پکڑ سکتا ۔ کوکو نے لاگ آوٹ کر دیا اور فاطمہ سے کہا انٹرسٹنگ ہے ۔ فاطمہ نے کہا تم کیا کرو گی کوکو نے کہا کچھ تو کرونگی۔ فاطمہ بولی میرا نام نہ آئے
کوکو نے کہا اب یہ تمھارا مسلہ نہیں اگر واقعی یہاں سے پیسے مل گئے تو تمھیں پارٹی دونگی ۔ فاطمہ مسکرا دی اور کہا مجھے کچھ نہیں چاہیے تم جانو اور یہ وہ وہاں سے اٹھ گئی ۔ اب وہ خود اس کو دیکھنا چاہتی تھی اس نے فیصلہ کر لیا تھا کہ وہ ان کو پکڑے گی اور شہروز اسکو نہیں بتائے گی جاری ہے
لیکن وہ اپنے فیصلے پر قائم نہیں رہ سکی ۔ اس نے شہروز کو بتایا تو وہ اسکا منہ تکتا رہ گیا ۔ اس نے فاطمہ کو سمجھایا تو فاطمہ نے کہا ۔ غلطی مجھ سے ہوئی ہے اس لیے اسکو سدھارونگی بھی میں تم میرا ساتھ دے رہے ہو یا نہیں ؟ شہروز نے کہا تمھارا ساتھ تو دونگا لیکن ایک بار پھر سوچ لو
فاطمہ نے کہا تو پھر کیسے شروع کیا جائے ۔ شہروز نے کہا میرا کزن ہے آئی ٹی ایکسپرٹ وہ انٹلیجنس میں ہوتا ہے میں اس سے بات کرونگا ۔ دیکھتے ہیں وہ کیا کہتا ہے ۔ فاطمہ نے کہا ٹھیک ہے ۔ دوسری طرف کوکو نے منسٹری آف ڈیفینس کی ویب سائیٹ ہیک کر کے اس پر فنی تبصرے کیے جو اس پر بھاری پڑے
اسکو پولیس پکڑ کر لے گئی تھی مگر اس نے فاطمہ کا نام نہیں لیا تھا ۔ شہروز نے اپنے کزن سے بات کی تو اس نے بھی ایسا کرنے سے روکا اسک کہنا تھا ایسے لوگ پیشہ ور قاتل رکھتے ہیں تم لوگوں کی جان کو خطرہ ہو سکتا ہے مگر شہروز نے کہا اگر فاطمہ کا راز کھل گیا تو ااکی زندگی ویاے بھی خطرے میں
آجائے گی اور یہ خطرہ برقراررہے گا اسکو بلیک میل کیا جا سکتا تھا ۔ شہروز کے کزن نے کہا وہ کام کہا کرتی ہے تو شہروز نے اسے کمپنی کا نام بتایا تو اسکا کزن بولا جانتے ہو وہ کون سی عمارت ہے وہ ایف بی اے کا ریکارڈ روم ہے ۔ شہروز کے رونگھٹے کھڑے ہو گئے ۔ اس نے کہا تب تو وہ نگرانی میں ہو
سکتی ہے ۔ اسکے کزن نے کہا بالکل ہو گی پھر اسکے کزن نے کہا اچھا میں اپنے سورس سے کچھ کرتا ہوں ۔ شہروز نے سب فاطمہ کے گوش گزار کیا تو وہ بھی پریشان ہو گئی ۔ لیکن اس نے یہ بھی کہہ دیا یہ صرف میری بات نہیں میرے ملک کی بدنامی کی بھی بات ہے پہلے ہی ہم یہاں تھرڈ گریڈ گنے جاتے ہیں
اگر میں پھنسی تو ہمارا ملک بدنام ہوگا شہروز ۔ دو دن بعد شہروز کے کزن نے اسکو ایک نمبر دیا اور کہا اس سے جا کر ملو یہ وہاں کی ایجنسی کا آئی ٹی ایکسپرٹ ہے میرا دوست ہے وہ تمھاری مدد کرے گا ۔ شہروز نے اسکا شکریہ اد کیا اسی دن وہ اس شخص کے پاس چلے گئے وہ ان سے اچھے طریقے سے ملا
اس نے فاطمہ کی ساری بات تحمل سے سنی اور کہا غلطی تو تم سے ہو گئی ہے آج نہیں تو کل وہ معلقم کر ہی لیں گے خاص طور پر ایجنٹ اسمتھ اگر یہ کیس دیکھ رہا ہے تو وہ آرام سے نہیں جان چھوڑتا ۔ اب تمھارے پاس دو راستے ہیں فاطمہ یا تو سرنڈر کر دو یا ہھر لڑو مجھ سے جو ہو سکا میں کرونگا
یہ ہیکرز کوئی معمولی ہیکرز نہیں ہیں ان کی تنظیم ہے یہ دنیا بھر سے معلومات چراتے ہیں اور آگے فروخت کرتے ہیں ہم انکو ڈھونڈنے میں تاحال ناکام ہیں تم سے رابطہ کر کے اس نے ایک غلطی تو کی ہے اب دیکھنا یہ ہے ہم اس غلطی سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں یا نہیں ۔ فاطمہ نے کہا یہ سب میں اسلیے کرنا
چاہتی ہوں کہ میرے ملک کا نام بدنام ناں ہو سر ۔ وہ بولا شاباش پھر تم کامیاب رہو گی البتہ تم کو بہت خطرہ ہوگا ایک طرف اسمتھ ہو گا دوسری جانب وہ ۔ یا ہھر تم اسمتھ کو اعتماد میں لے سکو تو تمھارا کام آسان ہو جائے گا ۔ لیکن وہ آسانی سے مانے گا نہیں ۔ فاطمہ نے اسکا شکریہ اداکیا
وہ دونوں وہاں سے چل پڑے ۔ راستے میں شہروز نے کہا اب کیا ارادہ ہے ۔ فاطمہ نے کہا ایک منٹ اور اپنے موبائل سے ہیکر نامی ایڈمن کو ٹیکسٹ کیا اور لکھا مجھے پیسوں کی ضرورت ہے ۔ میسج بھیج کر وہ بولی اب ہم انتظار کریں گے ۔ اسی رات ایڈمن کا میسج آیا پیسے مفت نہیں ملتے اسکے لیے کام کرنا
ہوتا ہے ۔ فاطمہ نے کہا کوئی آسان کام بتاو ایڈمن نے لکھا آسان کام یہ ہی ہے کہ تم اپنی ڈیوٹی کرو اور اس کام سے دور رہو ہمارا کام آسان نہیں ۔ فاطمہ نے کہا مجھے سخت ضرورت ہے رقم کی ۔ تم باتو مجھے کیا کرنا ہوگا ۔ ایڈمن نے لکھا یہ بات ہے تو مجھے اپنے آفس سے کی بورڈ کی فائل ڈھونڈ دو
فاطمہ نے کہا یہ کیا ہے ؟ وہ بولا یہ ایک key ہے جس سے ہم حساس معلومات حاصل کر سکتے ہیں اس کام کے تم کو لاکھوں ڈالر مل سکتے ہیں ۔ فاطمہ نے کہا کیا تم کو یقین ہے کہ وہ key وہاں ہی ہے ۔ اس نے لکھا بالکل ۔ فاطمہ نے کہا ٹھیک ہے میں کوشش کرونگی لیکن اگر کچھ پیسے مل جاتے تو
اس نے لکھا بس اسٹیشن ہر ڈبہ نمبر ایک یاد کر لو وہاں تم کو دس ہزار ڈالر مل جائیں گے لیکن یاد رکھو اگر تم ناکام ہوئی تو پیسے واپس کرنے ہونگے ۔ فاطمہ نے کہا مجھے منظور ہے ۔ بات چیت طے ہو گئی ۔ اس نے ساری چیٹ شہروز کو بھیجی ۔ شہروز نے لکھا تم تیز چل رہی ہو فاطمہ احتیاط کرو
فاطمہ نے لکھا کچھ تو پیش رفت ہونی چاہیے تھی ۔ فاطمہ نے یہ ہی چیٹ آئی ٹی ایکسپرٹ کو سینڈ کی اس نے لکھا بہت خوب کوئی سراغ تو ملا ۔ ہم اسے چیک کریں گے تم وہاں جانا اور پیسے لے آنا ۔ فاطمہ نے اوکے لکھا اور اسمتھ کا سوچنے لگی ۔ اگر وہ مان جائے تو کتنا اچھا ہو کم از کم وہ اپنی صفائی
تو دے سکے گی ۔ اور دوسری جانب اسمتھ مسلسل اس پر نظر رکھے ہوئے تھا اسکا آنا جانا اٹھنا بیٹھنا اور آئی ٹی ایکسپرٹ سے ملنا سب اسکی نظروں میں تھا ۔ فاطمہ نے جوا کھیلنے کا فیصلہ کیا اس نے ایجنٹ اسمتھ کا نمبر ڈائل کیا دوسری جانب بیل جانے لگی ۔ کچھ ہی لمحوں میں وہ بولا یس مس فاطمہ
وہ بولی سر مجھے آپکو کچھ بتانا ہے ۔ وہ بولا ہاں کہو سن رہا ہوں ۔ فاطمہ نے کہا لیکن فون پر نہیں اگر ہم مل سکیں تو اچھا ہو ۔ اس نے کہا کل صبح اتوار ہے میرے گھر آجانا اس نے اوکے کہا ۔ اسمتھ نے اسے ایڈریس سمجھا دیا ۔ اگلے دن وہ شہروز کے ساتھ اسمتھ کے گھر موجود تھی راستے میں شہروز نے
کہا تم نے پھر جلدی کی اگر اس نے تم کو گرفتارکر لیا تو ۔ فاطمہ نے کہا وہ میرا ان سے لبک ثابت نہیں کر سکتے مجھے یہ مشورہ جوزف نے دیا ہے ۔ جوزف وہی آئی ٹی ایکسپرٹ تھا جس سے وہ ملے تھے ۔ اسمتھ انکے لیے کافی لے کر آیا ۔ اسمتھ کی بیوی ایک ہنس مکھ عورت تھی اسکے دو بچے بھی تھے
اسمتھ ان کو لیونگ روم میں لایا اور بولا شروع ہو جاو ۔ فاطمہ نے پہلے دن سے رات تک کی ساری بات اسکو بتا دی اور کہا میں اس دن بہٹ ڈری ہوئی تھی سر ۔ اسمتھ نے کہا آج ڈر نہیں لگ رہا تو وہ بولی ڈر تو لگ رہا ہے مگر میں نے کوئی جرم نہیں کیا غلطی کی ہے اور اسکی تلافی کرنا چاہتی ہوں
اسمتھ نے سگریٹ سلگایا اور بولا ۔ اگر یہ بات تم اس وقت بتا دیتی تو ہم کچھ ناں کچھ ضرور کر لیتے ۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ میں تم کو گرفتار کر لوں مگر مجھے اس پر دوبارہ سوچنا پڑے گا ۔ کیا تم وہ پیسے لے کر آئی ۔ فاطمہ نے کہا جی ہاں صبح ہی لے آئی تھی ۔ اسمتھ نے کہا اسکی ڈیمانڈ کافی بڑی ہے
پھر انہوں نے طویل میٹنگ کی جس میں یہ فیصلہ ہوا کہ اسمتھ اسکی مدد کرے گا لیکن سامنے سے نہیں اسکو یہ خطرہ خود مول لینا ہوگا ۔ فاطمہ نے کہا تو کوئی ترکیب بتائیں ۔ اسمتھ نے کہا مجھے اپنے بڑوں سے بات کرنی ہو گی ۔ ہو سکتا ہے وہ بھی تمھاری نگرانی کر رہے ہوں ۔ اگر انکو معلوم ہوگیا
تم مجھ سے ملی ہو تو وہ تم کو مارنے میں دیر نہیں کریں گے میں تمھارے ہیچھے اپنے آدمی لگا دیتا ہوں فی الحال باقی بعد میں دیکھیں گے ۔ پھر اس نے ایک فون کال پر فاطمہ کی نگرانی کرنے کا کہا اور کہا اسکو کچھ ہونا نہیں چاہیے یہ اہم گواہ ہے ہوشیار رہنا ۔ فاطمہ نے اسکا شکریہ ادا کیا
انہوں نے لنچ بھی اسمتھ کے گھر کیا ۔ راستے میں شہروز نے کہا بہت تیز آدنی ہے دیکھا کیسے گھوم پھر کر تم پر ہی آرہا تھا ۔ فاطمہ نے کہا ہاں یہ تو ہے ۔ اگلے دن اامتھ نے اسے ٹیکسٹ کیا اور کہا اسکی نگرانی نہیں ہو رہی لیکن اب ہم دوبارہ نہیں ملیں گے ۔ کل تم کو وہ key دکھائی جائے گی
یعنی اسکی تصویر تم اس کو وہ تصویر سینڈ کرنا دیکھتے ہیں وہ کیا کہتا ہے ۔ فاطمہ نے ویسا ہی کیا اس نے ایڈمن کو وہ تصویر سینڈ کی اور ہوچھا کیا تم اسکی بات کر رہےہو ۔ ایڈمن کا جواب آیا ہاں بالکل یہ تصویر تم کو کہاں سے ملی ۔ فاطمہ نے کہا ریکارڈ روم کے فائل میں لگی تھی اور ساتھ
ایک کاغذ تھا جس پر مہر لگی ہے ۔ ایڈمن نے کہا اس مہر کی تصویر بھی بنا لیتی تم ۔ وہ بولی بنا لیتی مگر کوئی آرہا تھا اسلیے نہیں بنا سکی ۔ اس نے لکھا اب مجھے اسکا ڈومین اور لنک چاہیے تم یہ کام کر دو تو پانچ لاکھ ڈالر دونگا تم کو ۔ فاطمہ نے کہا میں کوشش کرونگی ۔ اس نے لکھا
خیال کرنا انکو معلوم ہوا تو تم زندہ نہیں بچو گی ۔ فاطمہ نے کہا میری ضرورت پوری ہو گئی ہے لیکن اب مجھے مزید پیسے کمانے ہیں ۔ ایڈمن نے لکھا گڈ گرل رسک لو گی تو ہی کما پاو گی ۔ اور اس تصویر کی خاطر وہ دس ہزار واپس کرنے کی اب ضرورت نہیں تم کام کی لڑکی لگ رہی ہو مجھے ۔ فاطمہ نے لکھا
پیسے کسے نہیں پسند ایڈمن ۔ اس نے لکھا اچھی بات ہے جتنی جلد کام کر سکو اتنا ہی اچھا ہوگا ہم سب کے لیے ۔ فاطمہ نے چیٹ کلوز کر دی ۔ اس نے اسمتھ کو وہ ساری چیٹ سینڈ کی اس نے لکھا بہت اچھے ۔ انتظار کرو ۔ دو گھنٹے بعد وہ سو رہی تھی جب اسکا موبائل بجا اس نے کم ل سے سر نکالا دیکھا تو
ایک اجنبی نمبر تھا ۔ اس نے سوچا اور نمبر اٹھا لیا ہیلو ۔ دوسری جانب سے ایک مردانہ آواز سنائی دی لگتا ہے سو رہی ہو تم ۔ فاطمہ نے کہا تم کون ہو ۔ وہ بولا ایڈمن ہوں ۔ فاطمہ کے حواس بحال ہو گئے ۔ وہ بولی فون کیوں کیا ہے ۔ اگر کسی کو شک ہو گیا تو کیا ہوگا ۔ وہ بولا فکر نہیں کرو
اس وقت سب ہی سوتے ہیں ویسے بھی ہمارے حالات غیر معمولی ہوتے ہیں ۔ میں نے تم کو ٹیکسٹ کیے تھے جواب ناں پا کر کال کی ہے ۔ فاطمہ نے کہا بولو کیا بات ہے وہ بولا جہاں سے تم نے یہ تصویر لی ہے وہاں مزید کیا موجود ہے ۔ فاطمہ نے کہا فائلوں کے ڈھیر ہیں ۔ وہ بولا تم وہاں تک گئی کیسے ؟
فاطمہ نے کہا اب میں اندر ڈیوٹی کرتی ہوں ۔ یہ اسمتھ اور اسکا پلان تھا جس ہر وہ عمل کر رہی تھی ۔ وہ بولا ویری گڈ اور کون ہوتا ہے وہاں ۔ فاطمہ نے کہا صرف میں ہوتی ہوں اور ہمارا ایم ڈی جس کا الگ آفس ہے وہ جب کوئی فائل منگوائے تو مجھے لانی ہوتی ہے اسکے علاوہ ایک گارڈ ہوتا ہے
جو باہر کھڑا ہوتا ہے ۔ ایڈمن نے کہا گڈ ۔ بس یہ ہی پوچھنا تھا جگانے کے لیے معذرت کام جلد کرو وہاں ۔ فاطمہ نے کہا کوشش کرونگی میں خود سے نہیں جا سکتی جب حکم ہوتا ہے تب ہی جاتی ہوں ۔ اس نے اوکے کہہ کر فون بند کر دیا ۔ فاطمہ بھی سونے کے لیے لیٹ گئی اس نے اسمتھ کو صبح بتانے کا سوچا
اگلی صبح اس نے اسمتھ کو میسج کر کے صورتحال بتائی ۔ اسمتھ نے کہا وہ یا تو بہت بے وقوف ہے یا جلد باز اچھا ہے اس طرح ہم اس تک پہنچ سکیں گے ۔ پھر اس نے کہا اب تمھارا رابطہ ہو تو اسکو کہنا یہاں خلائی مشن کی فائل ہے لیکن تم اسی تصویر نہیں بنا سکتی کیونکہ نوبائلز کی پابندی لگ گئی ہے
فاطمہ نے کہا اس سے کیا ہوگا ۔ اسمتھ نے کہا اگر میرا اندازہ درست ثابت ہوا تو وہ تم سے ملنا چاہے گا اور میں یہ ہی چاہتا ہوں ۔ فاطمہ نے کہا کیا وہ فائل اتنی اہم ہے ۔ اسمتھ نے کہا معلوم ہو جائے گا تم کو ۔ اسی رات اس نے ایڈمن کو خلائی مشن کا بتایا وہ بولا کیا کہہ رہی ہو تم
فاطمہ نے اہنے الفاظ دہرائے تو وہ بولا اسکو کسی طرح حاصل کرو اگر تم نے یہ کر دکھایا تو فوری کیش تمھارے اکاونٹ میں ٹراسفر کرونگا ۔ فاطمہ نے کہا یہ آسان کام نہیں وہاں اسکرینگ ہوتی ہے ایڈمن ۔ وہ بولا اچھا میں کچھ سوچتا ہوں ۔ پھر رابطہ ختم ہو گیا ۔ جاری ہے
اگلی صبح اس نے اسمتھ کو ساری بات بتائی ۔ وہ بولا چوہا پھنس گیا ہے وہ تم سے ضرور ملے گا کیا تم تیارہو ؟فاطمہ نے کہا بالکل میں تیار ہوں اسمتھ نے کہا ٹھیک ہے پھر تم کو ڈرنے کی ضرورت نہیں ہمارے آدمی تمھاری حفاظت کریں گے وہ تم کو جہاں بھی بلائے بلا جھجک چلی جانا اور وہ لڑکا کیا نام ہے
شہروز ، فاطمہ نے کہا تو اسمتھ بولا ہاں اسکو بھی لے جانا چاہے تو ۔ بات چیت مکمل ہو گئی اسی شام ایڈمن نے فاطمہ سے رابطہ کیا ۔ فاطمہ اس وقت ڈیوٹی پر تھی اسلیے اسے جواب نہیں دیا ڈیوٹی ختم کر کے جب وہ باہر نکلی تو شہروز وہاں موجود تھا ۔ اس نے شہروز کو سب بتا دیا تھا اب وہ ایڈمن سے
رابطہ کرنے لگی ۔ اس نے ایڈمن کو ٹیکسٹ کیا ۔ اسکا جواب آیا میں نے اس بارے میں بہت سوچا ہے اور حل یہ نکلا ہے کہ تم مجھے اس بلڈنگ کا نقشہ ڈھونڈ کر دو گی وہ تم باآسانی مل جائے گا ریکارڈروم سے اور اس کو لانا بھی مسلہ نہیں ہوگا ۔ فاطمہ نے لکھا مسلہ کیوں نہیں ہوگا ۔ وہ بولا
تم کو ایک بیگ پہنچ جائے گا یہ لیڈیز بیگ ہوگا تم اسے ساتھ لے کر جاو گی اس بیگ میں خفیہ خانہ ہوگا وہ نقشہ تم اس میں ڈال کر لاو گی ۔ فاطمہ نے کہا تو میں فائل ہی لے آتی ہوں ۔ اس نے لکھا فائل اس میں نہیں آسکے گی البتہ نقشہ آجائے گا ۔ وہ عام پرس ہوگا ۔ فاطمہ نے کہا منظور ہے
اسمتھ نے کہا وہ بیگ تم وہاں ہی رکھو گی جہاں سے تم پیسے وصول کیے تھے ۔ فاطمہ نے کہا ٹھیک ہے کام ہو جائے گا ۔ ایڈمن نے لکھا بیگ وہاں سے لے جاو وہ پہنچ چکا ہے ۔ پھر رابطہ ختم ہو گیا ۔ اس نے شہروز کو بتایا تو وہ بولا اسمتھ کو بتاو وہ کیا کہتا ہے اس نے اپنی چیٹ اسمتھ کے نمبر پر سینڈ
کر دی ۔ وہاں سے جواب آیا جیسا وہ کہہ رہا ہے ویسے کرتی جاو ۔ رات کو ایڈمن کا ٹیکسٹ آیا اس نے کہا پہلا پلان ملتوی ہو گیا ہے تم کو بیگ اب ہوسٹل کے باہر ملے گا کیونکہ تم نظروں میں ناں ہو اسلیے ۔ تمھارے ہوسٹل کے باہر ایک ہوم لیس آدمی بیٹھا ہوگا وہ بیگ تم اس سے دس ڈالر میں خریدو گی
یہ نیلے رنگ کا ایک ہی بیگ ہوگا ۔ جب تم نقشہ کے آو تب مجھے ٹیکسٹ کر دینا باقی بعد میں بتاونگا ۔ فاطمہ نے وہ چیٹ بھی اسمتھ کو بھیج دی اسمتھ کا جواب نہیں آیا ۔ اگلے دن جب وہ یونیورسٹی جانے کے لیے نکلی تو ہوسٹل کے باہر ایک ادھیڑ عمر آدمی زمین پر بیٹھا تھا اسکے پاس تین بیگ تھے
فاطمہ اسکی جانب بڑھی اور اس سے وہ بیگ خرید لیا ۔ شہروز اسکے ساتھ تھا اس نے وہ بیگ اپنے شولڈر بیگ میں ڈال لیا ۔ یہ ایک فینسی بیگ تھا ۔ شام کو اسمتھ نے اسے وہ نقشہ دیا جو اس نے بیگ کے خفیہ خانے میں رکھ لیا ۔ رات کو اس نے ایڈمن کو بتا دیا کہ وہ نقشہ لے آئی ہے ۔ ایڈمن نے لکھا انتظار
کرو ۔ تین دن تک کوئی بھی ایکٹیوٹی نہیں رہی چوتھے دن جب وہ یونیورسٹی سے نکلی تو اسکا موبائل بجا اس نے اسکرین کو دیکھا ۔ ایڈمن کا ٹیکسٹ تھا لکھا تھا ۔ شام چار بجے ریلوے اسٹیشن ٹکٹ لے کر سوار ہو جانا میں خود تم سے ملونگا ۔ فاطمہ نے لکھا ٹھیک ہے ۔ اسمتھ کو اس نے جب وہ پیغام بھیجا
تو وہ بولا ٹھیک ہو گیا اب تم وہاں جاو اکیلے ہی جانا ۔ اس نے جب شہروز کو یہ کہا تو وہ بولا ناممکن یہ نہیں ہو سکتا ۔ فاطمہ نے کہا مجبوری ہے شہروز ۔ میں کب اکیلی ہونگی وہاں اسمتھ کے لوگ ہونگے ۔ وہ باتیں کر رہے تھے کہ ایک آدمی وہاں آیا جو ویٹرکے روپ میں تھا ۔ وہ برتن سمیٹتے ہوئے بولا
اسمتھ نے تمھارے لیے کچھ سامان بھیجا ہے ریسٹورنٹ کے اندر چلی جاو ۔ فاطمہ وہاں سے اٹھی اور اپنا پرس شہروز کے پاس چھوڑ دیا وہ ریسٹورنٹ کے اندر گئی تو اسے اسمتھ نظر آیا جو اوپر کا اشارہ کر رہا تھا فاطمہ خاموشی سے اسے پیچھے چل پڑی ۔ ریسٹورنٹ کے اوپر صرف ایک ہی کمرہ تھا
اسمتھ نے کہا آجاو ۔ وہ کمرے میں داخل ہوئی جہاں اور لوگ بھی موجود تھے ۔ وہاں دو عورتیں بھی تھی ۔ اسمتھ نے کہا پہلے یہ پہن لو اندر سے ۔ یہ ایک بلٹ پروف جیکٹ تھی وہ واش روم میں چلی گئی جب وہ باہر نکلی تو اسمتھ نے ایک عورت سے کہا اسکو تیار کرو ۔ وہ بولی آپ سب باہر چلے جائیں
اسمتھ نے سب کو اشارہ کیا اور خود بھی باہر نکل گیا ۔ وہ عورتیں وہاں ہی رہی ۔ فاطمہ نے اپنا اسکارف اتارا اور کہا کیا کرنا ہے ۔ عورت نے کہا ایک تو یہ مائیک ہے دوسرا ائیر رنگ جس میں اسپیکر ہے اور یہ کیمرہ جو تمھارے بلاوز میں لگے گا ۔ فاطمہ نے کہا اوکے ۔ چند منٹوں میں اسکو تیار کر دیا
گیا کیمرہ ایسے لگایا گیا جیسے شرٹ کا بٹن ہو اس کے لیے شرٹ کے دوسرے بٹن بھی تبدیل کیے انہوں نے ۔ جب وہ تیار ہو گئی تو اس نے اپنا اسکارف پہن لیا ۔ ایک عورت نے دروازہ کھولا اور اسمتھ کو بلا لیا ۔ اسمتھ نے اندر آکر اسکا جائزہ لیا اور بولا اب دھیان سے سنو ۔ ہم تم سے دور نہیں ہونگے
تمھارے ساتھ ہمارے لوگ بھی سوار ہونگے اگر وہ وہاں سے تم کو لے جائے تو بلاجھجک چلی جانا ۔ یہ کیمرہ مجھے تمھاری اپ ڈیٹ دیتا رہے گا ۔ جب تک میں نہیں کہوں کہیں بھاگنے کی ضرورت نہیں ۔ فاطمہ نے اسے کہا اگر وہ ٹرین میں ہی رہا تو ۔ اسمتھ نے کہا تو تم اگلے اسٹاپ ہر اتر جاو گی یا جو وہ کہے
ویسا کرنا ۔ تم ایک ذھین لڑکی ہو معاملہ سنبھال لو گی ۔ فاطمہ نے سر ہلایا ۔ اس نے کہا شہروز مجھے اکیلا نہیں جانے دے گا ۔ اسمتھ نے کہا وہ تم کو چاہتا ہے اسے جانے دو اگر وہ جاتا ہے تمھارے ساتھ لیکن اس سے کہو تم سے دور رہے ۔ فاطمہ نے کہا ٹھیک ہے اسکے بعد وہ واپس شہروز کے پاس آئی
وہ بولا اتنا وقت ۔ میں تو پریشان ہو گیا تھا ۔ فاطمہ نے اسے بتایا اور وہ وہاں سے چل پڑے ۔ فاطمہ نے کہا تم الگ سوار ہونا ۔ شہروز نے کہا اچھی بات ہے ۔ شام چار بجے وہ ٹکٹس لے کر ٹرین کا انتظار کرنے لگے ۔ یہ شہر کے اندر چلنے والی ٹرین تھی وہ دونوں الگ الگ اندر داخل ہوئے
فاطمہ ایک خالی سیٹ پر بیٹھ گئی سات منٹ بعد ٹرین حرکت میں آگئی ۔ وہ اپنے موبائل سے ایڈمن کو ٹیکسٹ کرنے لگی ۔ میں آگئی ہوں تم کہاں ہو ۔ ایڈمن کا جواب آیا انتظار کرو ۔ اگلے اسٹاپ پر جو آٹھ منٹ بعد آیا وہاں ٹرین رکی اسکی نظر اسکرین پر تھی ۔ لیکن کوئی ٹیکسٹ نہیں آیا وہ ایزی بیٹھی رہی
جب ٹرین دوبارہ چلی تو اسکو ٹیکسٹ آیا ڈبہ نمبر بتاو ۔ فاطمہ نے اسے اپنا ڈبہ نمبر بتایا وہ بولا اوکے ۔ چند منٹوں بعد فاطمہ نے ایک نوجوان کو دیکھا جو دوسرے دروازے سے اندر آرہا تھا ۔ وہ ایک خوبصورت لڑکا تھا وہ خاموشی سے فاطمہ کے پاس آکر کھڑا ہو گیا اور پول کو پکڑ لیا
فاطمہ خاموش رہی ۔ اس لڑکے نے اپنا منہ فاطمہ کی جانب گھما لیا ۔ فاطمہ نے اسے دیکھا تو وہ بولا ایڈمن ۔ اور آگے پیچھے جائزہ لینے لگا ۔ سب لوگ اپنی مستی میں تھے شہروز ان دونوں پر نظر جمائے کھڑا تھا ۔ وہ بولا تمھارا بوائے فرینڈ غصے میں لگ رہا ہے ۔ فاطمہ نے کوئی جواب ناں دیا
جب ٹرین رکی تو وہ بولا آو میرے ساتھ ۔ وہ خاموشی سے اسکے ساتھ چل پڑی یہ شہر کا آخری اسٹیشن تھا ۔ اسٹیشن سے نکل کر وہ پارکنگ ائریے کی جانب چل پڑے ۔ فاطمہ نے کہا تم مجھ سے بیگ لے لو ۔ وہ بولا ڈرنے کی بات نہیں میں تسلی کرنا چاہتا ہوں ۔ ویسے تم کم خوبصورت نہیں اور اپنے بوائے فرینڈ کو
بلا لو ۔ فاطمہ نے شہروز کو اشارہ کیا وہ تیزی سے دونوں کی جانب آیا اور کہا ہم کہاں جا رہے ہیں ۔ ایڈمن نے کہا بس تھوڑا اور آگے ۔ وہ کافی اسمارٹ لڑکا تھا ۔ پارکنگ سے نکل کر وہ پٹریوں کے پاس آگئے جہاں ٹرین کے ڈبے کھڑے تھے یا ان تینوں کے سوا کوئی نہیں تھا ۔ ایڈمن بولا لاو اب دو
فاطمہ نے بیگ اسے دیا اس نے بیگ کو کھولا اور نقشہ نکال کر بیگ پھینک دیا ۔ پھر وہ بولا میں فی الحال یہاں ہی ہوں تم لوگ واہس جا سکتے ہو اور لو یہ رکھو یہ دس ہزار ڈالر تمھارے اس کام کے ہیں ۔ میں رات کو تم سے رابطہ کرونگا ۔ اور پھر بتاونگا تم کو ۔ فاطمہ نے کہا ٹھیک ہے
وہ دونوں وہاں سے پلٹ گئے مگر ایڈمن وہاں ہی رہا ۔ فاطمہ کو اسمتھ کی آواز سنائی دی بہترین ۔ اب اسکو بتائیں گے کہ قانون کیا ہوتا ہے ۔ فاطمہ نے کہا کیا وہ اکیلا ہے اسمتھ نے کہا نہیں اور بھی لوگ ہیں ۔ دو لوگ اب بھی تمھارے تعاقب میں ہیں ۔ بس تم دونوں چلے جاو بیسٹ آف لک ۔
فاطمہ نے کہا اور اس سامان کا کیا کرنا ہے ۔ وہ بولا اسی ریسٹورنٹ میں چلی جانا وہ عورتیں وہاں ہی ہیں ۔ فاطمہ نے اوکے کہا اور شہرز کو بتایا ۔ شہروز بولا ٹھیک ہے پہلے یہ ہی کر لیتے ہیں ۔ اسی رات اسمتھ کا ٹیکسٹ آیا خود کو محفوظ کر لو باہر نکلنا سختی سے منع ہے وہ بھاگ گیا ہے
فاطمہ نے لکھا مگر میرا سمسٹر ۔ اسمتھ نے کہا اسکی فکر نہیں کرو جو کہا ہے وہ کرو ۔ فاطمہ نے کہا لیکن یہ ہوا کیسے ۔ اسمتھ نے لکھا ہم پر دو طرفہ حملہ ہوا تھا تفصیل کا وقت نہیں ۔ بس اب باہر نہیں نکلنا جب تک میں ناں کہوں گڈ بائے ۔ فاطمہ یہ سب ان کر پریشان ہو گئی اس نے شہروز کو بتایا
وہ بولا یہ تو مسلہ ہو گیا یعنی میں بھی خطرے میں ہوں ۔ چلو دیکھتے ہیں ۔ اسہ رات فاطمہ کو ایڈمب کا ٹیکسٹ آیا لکھا تھا ڈبل کراس کرنے والوں کو معاف نہیں کیا جاتا انتظار کرو ۔ فاطمہ نے لکھا میں نے کوئی ڈبل کراس نہیں کیا ۔ اسکا جواب آیا کیا مجھے معلوم نہیں تم کیا کرتی پھر رہی ہو
میں نے بھی چیلنج قبول کیا ۔ اسمتھ بھی کیا یاد کرے گا کس سے پالا پڑا ہے اسکا ۔ فاطمہ نے جواب نہیں دیا اور ناں ہی اسکا جواب آیا وہ ایکسپوز ہو گئی تھی ۔ اگلی صبح جب وہ جاگی تو خود کو ہوسٹل کے کمرے کی بجائے کسی اور جگہ موجود پایا اس کے ہاتھ پاوں بندھے ہوئے تھے شہروز بھی اسی کمرے میں
تھا ۔ اسکے منہ پر ٹیپ لگی تھی ۔ شہروز بھی جاگ رہا تھا ۔ ان دونوں نے ایک دوسرے کو دیکھا دونوں کی آنکھوں میں ایک ہی سوال تھا کہ کیسے ؟ مگر جواب ناں مل سکا ۔ وہ خود کو اٹھانے لگی شہروز بھی کوشش کر رہا تھا سیدھا ہونے کی ۔ ایسے میں دروازہ کھلا اور ایڈمن اندر داخل ہوا ۔ جاری ہے
وہ مسکرا رہا تھا ۔ فاطمہ اور شہروز نے اسے دیکھا تو وہ بولا سوچ تو رہےہو گے کہ یہ کیسے ہوا ۔ پھر بولا جب تم دونوں سو رہے تھے تو سینتھک گیس کا استعمال کیا گیا اس سے اندازہ لگالو ہمارے ہاتھ کتنے مضبوط ہونگے ۔ اس نے فاطمہ کے منہ سے ٹیپ کو کھینچا اور کہا میں نے تم کو کہا تھا
مجگے ڈبل کراس نہیں کرنا مگر تم خود کو ہوشیار سمجھتی ہو ۔ فاطمہ نے کہا پھر سوچ کیا رہے ہو ہمیں ختم کر دو ۔ وہ ہنسا اور کہنے لگا بہادر ہو تم یہ تو مانتا ہوں میں ۔ لیکن تھوڑی جذباتی بھی ہو ۔ پھر اس نے شہروز کے منہ سے بھی ٹیپ اتار دی ۔ شہروز نے کہا اسکو چھوڑ دو اور جانے دو
ایڈمن نے کہا میں تم دونوں کو نہیں چھوڑونگا بلکہ تمھاری لاشیں پارسل کرونگا اسمتھ کو تاکہ اسکو بھی معلوم ہو وہ اب کچھ بھی نہیں ہے ۔ فاطمہ نے کہا ہمیں اذیت میں رکھ کر کیا فائدہ ؟ وہ بولا لگتا ہے بہت جلدی ہو یا پھر مایوس ہو گئی ہو ۔ فاطمہ نے کہا ہمارے ہاں یہ ہی پڑھایا جاتا ہے کہ
مایوسی کفر ہے ۔ اگر میری موت آگئی ہے تو مجھے دنیا کی کوئی طاقت نہیں بچا سکتی اور اگر نہیں آئی تو تم کوشش کر کے دیکھ لو ۔ ایڈمن نے اپنی گن نکالی جس پر سائلنسر چڑھا ہوا تھا اس نے اور نال کو شہروز کے ماتھے پر رکھ کر بولا تمھارا بھی یہ ہی خیال ہے اس نے فاطمہ کو دیکھا اور کہا
بالکل ۔ میں اس سے اتفاق کرتا ہوں ۔ ایڈمن نے کہا تو پھر آخری خواہش کا بتا دو شہروز بولنے ہی لگا تھا کہ دروازہ دھماکے سے کھلا اور ایڈمن اچھل کر آگے گرا ۔ جب تک وہ سنبھلتا اسمتھ اسکو گریبان سے پکڑتا ہوا بولا ۔ اسمتھ تمھاری سوچ سے بھی زیادہ تیز ہے ۔ تم کیا سمجھتے ہو
کہ تم انکو لے آو گے اور میں سویا ہوا ہونگا ۔ ایڈمن نے کہا تم کو کیسے معلوم ہوا میں یہاں ہوں ۔ وہ بولا یہ فلمی ڈائلاگ رہنے دو اور اس نے اپنے ساتھیوں کو اشارہ کیا جنہوں نے اسے پکڑ کر ہتھکڑی لگا دی اور ایک انجیکشن اسکے گردن میں اتار دیا جس سے وہ بے ہوش ہو گیا
اسمتھ نے ان دونوں کو کھولا ۔ اور کہا مجھے دیر تو نہیں ہو گئی ۔ فاطمہ نے کہا نہیں آپ کے دی ہوئی گھڑی آخر آپکو یہاں لے ہی آئی ۔ شہروز نے کہا کیا مطلب ۔ فاطمہ نے کہا کل اسمتھ نے مجھے یہ واچ دی تھی اس میں ٹریکنگ ڈیوائس نصب ہے ۔ اس نے شاید اوور کانفیڈنٹ ہوتے ہوئے اسکو اتارا نہیں
اسمتھ نے کہا اتار بھی لیتا تب بھی نہیں بچتا جب یہ تم کو لے جا رہے تھے تب اسٹلائیٹ کی نظر میں تھے میں نے اسکی گاڑی کا نمبر فیڈ کرا دیا تھا جس میں تم لوگ تھے ۔ دونوں نے سر ہلائے وہ وہاں سے چل پڑے ۔ یہ شہر سے ہٹ کر ایک علاقہ تھا جہاں ویرانی تھہ اسمتھ نے کہا تم لوگ اب ہوسٹل نہیں جاو
گے بلکہ میرے گھر جاو گے اس گاڑی میں بیٹھ جاو ۔ فاطمہ نے اسکا شکریہ ادا کیا اور وہ دواری گاڑی میں بیٹھ گئے ۔ اسمتھ ایڈمن کو لے کر دوسری گاڑی میں بیٹھ گیا ۔ راستہ خاموشی سے طے ہوا وہ دونوں اسمتھ کے گھر پہنچ گئے جہاں اسکی بیوی نے دونوں کا استقبال کیا ۔ فاطمہ اور شہروز نے اسکا شکریہ
ادا کیا ۔ انکا سامان بھی یہاں موجود تھا ۔ اسمتھ کی بیوی نے کہا تم لوگوں کے الگ الگ کمرے ہیں فریش ہو جاو ۔ اور اپنے بیگ اٹھا لو ۔ فاطمہ نے کہا یہ کون لایا ۔ وہ بولی اسمتھ لایا تھا ۔ شام کو اسمتھ نے فون کیا اور کہا تم دونوں وہاں سے نکلو اور سینٹرل پارک کی جانب روانہ ہو جاو
اب ہم شکار کھیلیں گے ۔ اور مارتھا سے کہو وہ تم کو بلٹ پروف جیکٹ دے گی اور ڈرنا نہیں ہے ہماری اطلاعات کے مطابق پیٹر ( ایڈمن ) اپنے ساتھ قاتل لایا ہے جو شہر میں ہیں اس لیے باہر نکلو تاکہ ہم انہیں ڈھونڈ سکیں اور یہ قصہ ختم ہو ۔ فاطمہ نے کہا میں اکیلی کیوں ناں آوں وہ بولا
محبت اپنی جگہ فرض اپنی جگہ لڑکی ۔ پستول چلانا آتا ہے تو وہ بھی لے کو شاید ضرورت پڑ جائے ۔ لاوڈر آن تھا شہروز بھی سن رہا ےھا فون بند ہونے پر بولا تم ایسا سوچ بھی کیسے سکتی ہو کہ میں اکیلا جانے دونگا تم کو ۔ وہ بولی میں نے ایسے ہی کہا تھا ۔ مارتھا بولی امید ہے تم دونوں سلامت رہوگے
پھر وہ وہاں سے تیاری کے ساتھ نکلے ۔ شہروز کے پاس گن تھی فاطمہ کو چلانی نہیں آتی تھی ۔ وہ ٹیکسی میں سینٹرل پارک آگئے ۔ اور چہل قدمی کرنے لگے ۔ شہروز بہت محتاط تھا مگر وہ احتیاط اسکے کام نہیں آئی ان پر پھر حملہ ہوا اور انہیں سنبھلنے کا موقع ہی نہیں ملا ۔ پھر جب ہوش آیا تو دونوں ایک
کمرے میں پڑے تھے ۔ انکی بلٹ پروف اتار لی گئی تھی ۔ فاطمہ نے خود کو سیدھا کیا اور شہروز سے منہ پھیر کر اپنے کپڑے درست کرنے لگی شہروز بھی اٹھ کر دروازے کی جانب چل دیا ۔ دروازہ لاک تھا ۔ شہروز نے کہا اب کیا ہوگا ؟ فاطمہ کی کلائی بھی خالی تھی یعنی گھڑی اتار لی گئی تھی
پھر بھی اسے امید تھی کہ اسمتھ آئے گا ۔ کافی دیر گزرنے کے بعد دروازہ کھلا اور ایک شخص اندر آیا وہ شکل سے ہی مجرم لگتا تھا ۔ اس نے فاطمہ سے کہا تم میرے ساتھ چلو ۔ شہروز نے کہا تم اسے نہیں لے جا سکتے وہ مسکرایا اور بولا تم روکو گے مجھے ۔ شہروز آگے بـڑھا اور بولا کوشش کرو
وہ آدمی اسکی جانب بڑھا تو شہروز نے اسے مکا دے مارا اس کے بعد دونوں میں ہاتھا پائی شروع ہو گئی ۔ وہ ایک لڑاکا تھا جلد ہی اس نے شہروز کو بے ہوش کر دیا اور فاطمہ سے کہا اسکی خیر چاہتی ہو تو چلو ۔ فاطمہ نے کہا تم کہاں لے جا رہے ہو ۔ وہ بولا سوال نہیں ہمیں عورتوں پر رحم نہیں آتا
اور آگے بڑھ گیا ۔ فاطمہ نے شہروز پر نظر ڈالی تو وہ بولا زندہ ہے ۔ وہ دونوں کمرے سے باہر نکلے اس نے دروازہ بند بھی نہیں کیا ۔ وہ دونوں راہداریسے نکل کر لفٹ میں سوار ہوئے اور گراونڈ فلور پر اتر گئے ۔ سامنے ایک شخص ہال میں بیٹھا تھا اس نے فاطمہ سے کہا بیٹھ جاو ۔ اور فون اٹھا کر
کوئی نمبر ڈائل کر کے بولا وہ آگٰئی ہے ۔ اور فاطمہ سے کہا لو بات کرو ۔ فاطمہ نے ریسیور پکڑا اور ہیلو کہا تو اسمتھ کی آواز سنائی دی ۔ کیسی ہو تم انہوں نے تم کو نقصان تو نہیں پہنچایا ۔ وہ بولی مجھے تو نہیں لبتہ شہروز کو بہت مارا ہے ۔ اسمتھ بولا یہ پیٹر کی رہائی چاہتے ہیں
تم لوگوں کے بدلے ۔ فکر نہیں کرو میں تم کو بچا لونگا فی الحال یہ جیسا کہتے ہیں ویسا کرو یہ ہماری نظر میں ہیں اور ہم انکی ۔ فاطمہ نے کہا اتنی محنت کر کے اگر اسے چھوڑنا ہے تو فائدہ مرنے دو ہمیں ۔ اس آدمی نے اس سے ریسیور لے لیا اور کہا تسلی ہو گئی تو اب سنو پیٹر کو چھوڑ دو
اور انکو لے جاو ۔ پھر بولا سینٹرل پارک پہنچو ۔ ادھر شہروز کو ہوش آگیا اس نے دروازہ کھلا دیکھا تو وہ جلدی سے اٹھ بیٹھا ۔ اسکا سر چکرا رہ تھا لیکن اس نے ہمت جمع کی اور کمرے سے باہر نکلا ۔ راہداری میں آکر وہ آگے بڑھا اسے لفٹ کے ساتھ سیڑھیاں نطڑ آئی اور آوازیں بھی سنائی دی
وہ بالکونی میں گھوم گیا جہاں سے نیچے دیکھا جا سکتا تھا ۔ اس نے نیچے نظر ڈالی تو فاطمہ نظر آئہ جو گاڑی کے پاس کھڑی تھی وہ اسے کہیں لے جا رہے ہیں ۔ ایک آدمی نے گن فاطمہ کی کنپٹی پر رکھی ہوئی تھی یہ چار منزلہ عمارت تھی ۔ شہروز نے آس پاس دیکھا تو اسے ایک طرف ٹیلی فون کا پول نظر آیا
وہ بالکونی کو کراس کر کے شیڈ تک آیا ۔ اور نیچے دیکھا ۔ فاطمہ ان سے کچھ کہہ رہی تھی ۔ ایک آدمی نے دوسرے کو اشارہ کیا وہ آدمی آگے بڑھا اور فاطمہ کو دھکیلنے لگا گاڑی کی جانب ۔ شہروز نے جمپ لیا اور پول سےلپٹ کر نیچے جانے لگا ۔ وہ پروفیشنل نہیں تھا اسلیے خود کو سھنبال نہیں پا رہا تھا
وہ پھسلتا ہوا سیدھا زمین پر گرا ۔ فاطمہ نے پلٹ کر اسے دیکھا اور چیخ پڑی ایک آدمی شہروز کی جانب بڑھا اور اس پر گن تان لی ۔ دوسرے نے کہا اسکی ہمت دیکھو شہروز کھڑا ہونے کی کوشش کر رہا تھا ۔ وہ آدمی بولا چلو دونوں کو ڈالو گاڑی میں ۔ پھر ان دونوں کو گاڑی میں بیٹھایا گیا
شہروز کا بازو ٹوٹ گیا تھا فاطمہ نے کہا یہ تم نے کیا کیا شہروز ۔ وہ کراہتا ہوا بولا تم کو اکیلا نہیں چھوڑونگا ۔ ساتھ بیٹھے آدمی نے کہا خاموش رہو تم دونوں ۔ کچھ دیر بعد وہ سینٹرل پارک میں پہنچے جو بند تھا لیکن وہ گیٹ توڑ کر اندر داخل ہو گئے یہ پانچ گاڑیاں تھی جن میں مسلح افراد تھے
سب گاڑیوں سے نکل آئے لیکن ان دونوں کو نہیں نکالا وہ سب پھیل گئے ۔ اس آدمی نے کہا اگر کوئی بھی حرکت کی تو مارے جاو گے انتظار کرو ۔ اس نے دروازہ بند کر دیا چند ہی لمحوں بعد پارک روشنیوں سے نہا گیا اسمتھ اپنی فورس کے ساتھ وہاں پہلے سے موجود تھا ۔ فاطمہ نے اسکی آواز سنی اور کہا
اسمتھ آگیا ہے شہروز ۔ شہروز جو نیم بے ہوش تھا ۔ باہر سے اسمتھ کی آواز سنائی دی وہ دونوں بچے کہا ہیں ۔ اس آدمی نے کہا گاڑی میں ۔ پیٹر کو نکالو اسمتھ نے اپنے آدمی کو اشارہ کیا اس نے گاڑی سے پیٹر کو باہر نکالا ۔ اور اسکے بعد اس آدمی نے فاطمہ سے کہا نکلو گاڑی سے ۔ فاطمہ پہلے خود نکلی
پھر اس نے شہروز کو باہر سہارا دے کر نکالا ۔ اسمتھ نے شہروز کی حالت دیکھ کر کہا اس کا حساب میں تم سے لونگا ۔ وہ بولا اسکا ذمےدار یہ خود ہے چاہے تو پوچھ سکتے ہو نیچے آنے کے لیے سیڑھیاں اور لفٹ دونوں تھی یہ اوپر سے کود گیا ۔ اسمتھ نے شہروز کو سہارا دیا ۔ پیٹر نے کہا کھیل ابھی باقی
ہے اسمتھ ۔ اسمتھ نے کہا تم ان دونوں کا پیچھا چھوڑ دو ویسے بھی اب ہم ایک دوسےرے سے واقف ہیں ۔ فاطمہ اور شہروز اسمتھ کی گاڑی میں بیٹھ چکے تھے ۔ اسمتھ کا ہاتھ پینٹ کی جیب میں تھا ۔ پیٹر نے کہا ہم غداروں کو نہیں چھوڑتے وہ اپنی گاڑی کی جانب بڑھا تو اسمتھ کا ہاتھ پینٹ کی جیب سے باہر
آیا ۔ یہ اشارہ تھا یک لخت پارک میں فائرنگ شروع ہو گئی ۔ اسمتھ نے جمپ لیا اور ایک درخت کی اوٹ ہو کر گن نکال لی ۔ فاطمہ اور شہروز اسمتھ کی گاڑی میں تھے گاڑی بلٹ پروف تھی فائرنگ کی آواز سنتے ہی ڈرائیور نے گاڑی بھگا دی ۔ گاڑی پر چاروں طرف سے فائر ہونے لگے لیکن ڈرائیور نے اسپیڈ
ہلکی نہیں کی ۔ سارا علاقہ گولیوں کی آواز سے گونج رہا تھا مزید فورس بھی پارک کے باہر آچکی تھی ۔ ڈرائیور گاڑی بحفاظت نکالنے میں کامیاب رہا تھا ۔ اس نے گاڑی ایک طرف روک کر کہا گھبرانے کی بات نہیں تم محفوظ ہو اور دروازہ کھول کر ایمبولینس والے کو پکارا یہاں آو ۔ دو آدمی تیزی سے بھاگتے
ہوئے آئے ۔ جنہوں نے شہروز کو اسٹریچر پر لٹایا اور ایمبولینس میں سوار کر کے طبی امداد دینے لگے خطر کی بات نہیں تھی صرف چوٹیں تھی فاطمہ کا بھی ٹریٹمنٹ ہوا بہس منٹ کے بعد گولیوں کی آواز میں کمی آ گئی پھر کا دکا فائر ہونے لگے ۔ فاطمہ نے اسمتھ کی آواز سنی جو لاوڈر ہر بول رہا تھا
کوئی فائدہ نہیں تم یہاں سے نکل نہیں سکتے اندر اور باہر پولیس کھڑی ہے بہتر ہے ہتھیار ڈال دو ۔ ہھر فائر کی آواز سنائی دی ۔ ایک گھنٹے بعد اسمتھ پیٹر اور اس آدمی کو جو فاطمہ اور شہروز کو لایا تھا دونوں کو پکڑ کر لا رہا تھا ۔ ان دونوں کو قیدیوں کی وین میں ڈال دی گیا ۔
اسمتھ فاطمہ کے پاس آیا اور بولا اب فکر کی کوئی بات نہیں ۔ اسکے بازو سے خون نکل رہا تھا ۔ فاطمہ نے کہا آپ کا خون نکل رہا ہے ۔ ایک ڈاکٹر اسمتھ کے پاس آکھڑا ہوا اور اسکا بازو دیکھنے لگا ۔ اسمتھ نے ڈاکٹر سے کہا گولی اندر ہے ۔ تم مجھے انیکشن دو تاکہ یہ خون رکے ۔ ڈاکٹر نے کہا
پہلے اسکا علاج کروا لیں ۔ وہ بولا ہو جائے گا تم انجیکشن لگا کر خون روکو ۔ اور فاطمہ سے کہا انکا نیٹ ورک یہاں پر اتنا ہی تھا ۔ باقی کام انٹرپول کے زریعے ہوگا ۔ جب تک تم یہاں ہو تم ہماری ذمےداری ہو ۔ جب یہاں سے جاو گی تو تمھارے ملک کے لوگوں کی ذمےداری ہوگی ۔ شہروز جو اب بہتر
حالت مہں تھا بولا ۔ ہمارے ملک میں ہمیں کوئی خطرہ نہیں وہاں ہزاروں کان ، ہزاروں آنکھیں اور ہزاروں ہاتھ ہیں ہمیں بچانے کے لیے ۔ اسمتھ نے کہا جانتا ہوں اور اتفاق کرتا ہوں ۔ تم کو اعزازی ڈگری دی جائے گی اور جاب کی آفر بھی ۔ فاطمہ نے کہا وہ کس لیے تو اسمتھ نے کہا کوئی بھی شخص کسی
پرائی آگ میں نہیں کودتا تم چاہتی تو سب بھول سکتی تھی ۔ ہمیں معلوم بھی ناں ہوتا کیونکہ ہمارے کاغذوں میں تم صاف تھی لیکن تم نے لڑنے کا فیصلہ کیا ۔ اس لیے محکمے کی سفارش پر یہ سب اعزاز دئیے جائیں گے ہم تم لوگوں کے شکرگزار ہیں ۔ فاطمہ نے کہا یہ میں نے اپنے ملک کے لیے کیا ہے
اسمتھ نے کہا لیکن فیصلہ تم نے لیا ایک بات اور تمھارے ملک سے کچھ افراد یہاں آ رہے ہیں ۔ وہ بھی معاملے کو دیکھیں گے اور ہو سکتا ہے تم سے بھی ملیں ۔ شہروز نے کہا وہ کون ہیں اسمتھ نے کہا مجھے اتنا ہی معلوم ہے فاطمہ دھیرے سے ہنسی اور کہاں وہ گمنام ہونگے ۔ شہروز نے اسکا ہاتھ تھام لیا
اسمتھ ان دونوں کو دیکھ کر مسکرا دیا اور کہا شادی کر لو تم دونوں اچھے لگتے ہو ساتھ میں ۔ فاطمہ نے اپنا ہاتھ چھڑا کر کہا یہ فیصلہ ہمارے والدین کرتے ہیں ۔ شہروز نے کہا میں تم کو کبھی نہیں چھوڑونگا فاطمہ ۔ رات کی سیاہی بڑھ رہی تھی مگر دل جل رہے تھے

ختم شد 🇵🇰
@threadreaderapp compile this thread
Missing some Tweet in this thread? You can try to force a refresh.

Keep Current with شیر کا شکاری ®™

Profile picture

Stay in touch and get notified when new unrolls are available from this author!

Read all threads

This Thread may be Removed Anytime!

Twitter may remove this content at anytime, convert it as a PDF, save and print for later use!

Try unrolling a thread yourself!

how to unroll video

1) Follow Thread Reader App on Twitter so you can easily mention us!

2) Go to a Twitter thread (series of Tweets by the same owner) and mention us with a keyword "unroll" @threadreaderapp unroll

You can practice here first or read more on our help page!

Follow Us on Twitter!

Did Thread Reader help you today?

Support us! We are indie developers!


This site is made by just two indie developers on a laptop doing marketing, support and development! Read more about the story.

Become a Premium Member ($3.00/month or $30.00/year) and get exclusive features!

Become Premium

Too expensive? Make a small donation by buying us coffee ($5) or help with server cost ($10)

Donate via Paypal Become our Patreon

Thank you for your support!