جب تشدد شروع ہوا تو وہ خاموش تماشائی بنے رہے۔ تین دن تک مزاحمت کے بعد، سکھوں نے سفید جھنڈے لہرا دیئے اور مسلم ہجوم کے ساتھ صلح کی بات چیت کی اور معاہدہ طےپاگیا جس کے تحت ہجوم گھروں کو لوٹے گا لیکن ان کو نذر آتش نہیں کرے گا، مردوں کو قتل اور خواتین کی بے عزتی نہیں کرے گا۔
پھر سکھوں نے بیس ہزار روپے اکھٹے کرکے ہجوم کو دے دیئے اس کے بعد انہوں نے اپنے مکانات چھوڑ دیئے اور سب سردار گلاب سنگھ کی وسطی حویلی میں جمع ہوگئے۔ کچھ نے گلاب سنگھ کی حویلی سے متصل "دوکھ بھنجانی" گوردوارہ میں پناہ لی۔ سکھوں نے 6 دن تک اپنے گھروں کو لوٹتے اور جلتے ہوا دیکھا۔
گھروں کو لوٹنے کے بعد، مسلم ہجوم نے گلاب سنگھ کے حویلی کا رخ کیا اور اسے گھیر لیا اور ایکبار پھر لڑائی شروع ہوگئی، سکھ خواتین باغ کے چاروں طرف طرف کنویں کے پاس جمع ہونا شروع ہوگئیں۔ جب صرف خواتین اور بچے رہ گئے تو #مان_کور نے ان تمام خواتین کو حویلی کے اندر ایک بڑے کنویں👇
کی طرف لے جانے کا فیصلہ کیا۔ اس نے "جپوجی صاحب" سکھ کی دعائیں پڑھ کر کنویں کے اندر چھلانگ لگائیں۔ 93 سے زیادہ سکھ خواتین نے اس کی پیروی کی اور سب نے اپنی عزت بچانے کے لئے بڑے پیمانے پر خودکشی کی۔ تھوہا خالصہ کے #سردار_پریتپال_سنگھ نے چھوٹی عمر میں اپنی بہنوں اور ماں کے ساتھ
تھوہا خالصہ گاؤں کے رہائشی 85 سالہ مسلمان سکھ خواتین کے ذریعہ اجتماعی خود کشی کے عینی شاہد کا بیان👇
#راجہ_مسعود_اختر_جنجوعہ خود ایک مسلمان راجپوت کی حیثیت سے اس علاقے کی تفصیل بتاتے ہوئے جہاں سکھ خواتین نے خودکشی کی👇
#سردار_منموہن_سنگھ واقعات کی پوری تفصیل، مسلم ہجوم کے حملوں، سکھوں کی ہجوم سے لڑائی، سکھ خواتین کی اجتماعی خودکشیوں اور خود اس قتل عام سے کس طرح زندہ بچنے کا بیان دیتے ہوئے👇
اس قتل عام کی خبر قومی اخبارات میں شائع ہوئی تو وائسرائے ہند #لارڈ_ماؤنٹ_بیٹن نے صورتحال کا جائزہ لینے کے لئے گاؤں کا دورہ کیا اور املاک اور جانوں کے ضیاع کو دیکھا اور زندہ بچ جانے والوں سے ملے اور ان کی مشکلات کو سنا۔ لیڈی ماؤنٹ بیٹن نے متاثرہ افراد کو بچانے اور اسپتال
میں داخل کرنے کی راہنمائی کی۔
بچ جانے والے افراد پناہ گزین کیمپوں سے ہوتے ہوئے حفاظتی دستوں کی حفاظت میں #دہلی_انڈیا پہنچے اور اپنی کہانیاں سناتے رہے۔
(اس پوری تھریڈ کے ریفرینسز کیلئے مجھ سے رابطہ کرسکتے ہیں، ریفرنسز کافی زیادہ ہیں اور تھریڈ کافی بڑی ہو گئی ہے)