باتیں ہو رہی تھیں اور عمر سعد امام حسین علیہ السلام کے بے قصور ہونیکی بات کر رہا تھا۔
دورانِ میٹنگ اچانک کوفہ سے ابن زیاد
جونہی سعد نے زیاد ملعون کے خط کا مضمون پڑھا تو بہت پریشان ہو گیا اور اپنی گفتگو جو لشکر کے کمانڈروں سے کر رہا تھا اس میں شرمندہ ہونے لگا۔
عمر سعد سوچنے لگا کہ فرزندِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کسی صورت میں یزید کی
عمر سعد ابھی یہ سوچ ہی رہا تھا کہ کوفہ سے ایک اور قاصد آ پہنچا اور ابن زیاد ملعون کا دوسرا خط دیا۔
اسکا مضمون کچھ یوں تھا:
"اے ابن سعد!
میں
اے سعد!
حسین علیہ السلام پر حالات کو تنگ کر دو تاکہ وہ جنگ کریں یا یزید کی بیعت کر لے، مہلت نہیں دینا اور حسین علیہ السلام پر تنگی کرنیکا مطلب یہ ہے کہ اسکا پانی
دشمن کے الفاظ صاف ظاہر ہے تلخ ہی ہونگے، لہذا بے ادبی کی صحیح عکاسی کرنا ناگزیر تھا۔
خط پڑھ کر عمر ابن سعد بہت حیران اور پریشان ہوا اور ابن زیادہ ملعون پر لعنت کرنے لگا۔ اور پھر عمر سعد نے میٹنگ برخواست کر دی۔
ایک صحابی سے فرمایا:
جاٶ ابن سعد سے کہو کہ میں دونوں لشکروں کے درمیان تم سے ملنا چاہتا ہوں۔
ملاقات شروع ہوٸی۔
سعد کے محافظ حفص اور درید تھے۔
امام علیہ السلام کے محافظ
عمر سعد نےکہا:
ابن زیاد ملعون نے کہا ہے اور آج کے خطوط میں تاکید کی ہے کہ آپ علیہ السلام ہر صورت یزید نجس العین کی بیعت کریں، اگر بیعت نہیں کرتے تو آپ علیہ السلام کا پانی بند کر دوں اور آپ علیہ السلام سے جنگ کر کے
امام علیہ السلام نے بطور نصیحت فرمایا:
ہاٸے افسوس تجھ پر اے ابن سعد!
کیا تم اللہ تعالی سے نہیں ڈرتے، کیا تمہیں قیامت کا یقین نہیں، پسر مرجانہ کی اطاعت کرتے ہو اور میرے قتل پر کمربستہ ہو گٸے ہو۔ حالانکہ تم جانتے ہو کہ میں کون ہوں؟
اگر تمہارے ہاتھ میرے خون میں
عمر سعد نے کہا:
میں قربان جاٶں، میں آپ علیہ السلام کو اچھی طرح جانتا ہوں کہ آپ علیہ السلام سبطِ پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، فرزندِ حیدر علیہ السلام اور جناب فاطمہ علیہ السلام کے دل کا میوہ ہیں۔
لیکن آپ علیہ السلام کوٸی چارہ
امام علیہ السلام نے فرمایا:
اس کا حل یہ ہے کہ ان تین کاموں میں سے ایک کام کرو۔
1- مجھے راستہ دو تاکہ میں مکہ یا مدینہ کی طرف لوٹ جاٶں۔
2- مسلمانوں کے کسی شہر جانیکی اجازت دو تاکہ وہاں ایک عام مسلمان کی طرح زندگی گزار سکوں۔
راوی کہتا ہے کہ اللہ تعالی کی قسم!
امام حسین علیہ السلام نے ان تین راستوں کے علاوہ کوٸی اور بات بھی نہ کی۔
عمر سعد نے کہا:
مجھے تو ہر بات قبول ہے۔ لیکن وہ پرکینہ کافر ان باتوں کو تسلیم نہیں کریگا۔ میں اپنی طرف سے