My Authors
Read all threads
1/ 9 محرم الحرام (جمعرات) کی صبح پانی ختم ہوچکا تھا اور امام حسین علیہ السلام نے حضرت عباس ع کو کنواں کھودنے کا حکم دیا لیکن پانی بر آمد نہ ہوا۔
تھوڑی دیر کے بعد امام حسین ع نے بچوں کی حالت کے پیشِ نظر پھر عباس ع سے کنواں کھودنے کی فرمائش کی، آپ نے سعی بلیغ شروع کردی۔

جب
2/ بچوں نے کنواں کھدتا ہوا دیکھا تو سب کوزے لے کر آپہنچے۔ ابھی پانی نکلنے نہ پایا تھا کہ دشمنوں نے آکر اسے بند کر دیا۔ دشمنوں کو دیکھ کر بچے خیموں میں جا چھپے۔

پھر تھوڑی دیر کے بعد حضرت عباس (ع) نے کنواں کھودا وہ بھی بند کر دیا گیا- یہاں تک کہ چار کنویں کھودے اور پانی حاصل
3/ نہ کر سکے۔ اس کے بعد امام حسین (ع) ایک ناقہ پر سوار ہوکر دشمن کے قریب گئے اور اپنا تعارف کرایا لیکن کچھ نہ بنا۔

مورخین لکھتے ہیں کہ نویں تاریخ کو شمر کوفہ واپس گیا اور اس نے عمر ابن سعد کی شکایت کرکے ابن زیاد سے ایک سخت حکم حاصل کیا، جس کا مقصد یہ تھا کہ اگرحسین (ع) بیعت
4/ نہیں کرتے تو انھیں قتل کرکے ان کی لاش پرگھوڑے دوڑا دے اور اگر تجھ سے یہ نہ ہو سکے تو شمر کو فوج کی کمان دے دے، ہم نے اسے یزید کے حکم کی تعمیل کا حکم دیا ہے۔

ابن سعد نے عبیداللہ کا خط پڑھ کر شمر سے کہا: "میں لشکر کی امارت تمہارے حوالے نہیں کروں گا اور میں تیرے وجود میں اس
5/ کام کی اہلیت نہیں دیکھ رہا ہوں چنانچہ میں اس کام کو خود ہی انجام تک پہنچا دوں گا؛ تم صرف پیدل دستوں کے سالار رہو"
اسی نویں تاریخ کو شمر نے حضرت عباس(ع) اور ان کے بھائیوں کو امان کی پیش کش کی انھوں نے بڑی حقارت سے اسے ٹھکرادیا-

مورخین نے شمر کو حضرت عباس ع کا ماموں لکھا
6/ ہے۔
کوفہ میں شمر نے ابن زیاد سے عبداللہ بن ابی المحل کے ساتھ مل کر اپنے بھانجوں کے لئے امان نامہ دینے کی درخواست کی۔ ابن زیاد نے اس تجویز کو پسند کیا.
( طبری، محمد بن جریر، تاریخ الأمم و مملوک ج5، ص415، الخوارزمی مقتل الحسینؑ، ص 246، ابن اثیر،الکامل ص56)-

عبداللہ بن ابی
7/ المحل نے مذکورہ امان نامہ اپنے غلام "کزمان یا عرفان" کے ہاتھوں کربلا ارسال کیا اور کربلا پہنچنے کے بعد امان نامے کا متن ام البنین(س) کے فرزندوں یعنی حضرت عباس ع اور انکے بھائیوں کے لئے پڑھا. لیکن انھوں نے امان نامہ مسترد کیا.
(تاریخ الأمم و الملوک طبری ج5 ص415 الکوفی، ابن
8/ اعثم الفتوح، ج5، ص93-94، خوارزمی، مقتل الحسینؑ، ص246؛ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، ص56).

دوسری روایت کے مطابق شمر خود ہی امان نامہ لے کر کربلا میں عباس بن علیؑ اور ان کے بھائیوں عبداللہ، جعفر اور عثمان کو پہنچایا.
(عمدة الطالب ص 327، مقتل الحسین خوارزمی ص246).

حضرت عباسؑ
9/ اپنے بھائیوں کے ساتھ امام حسین ع کے پاس بیٹھے تھے اور شمر کا جواب نہیں دے رہے تھے.
امامؑ نے بھائی عباسؑ سے فرمایا:
"گو کہ وہ فاسق ہے لیکن اس کا جواب دے دو، بےشک وہ تمہارے مامؤوں میں سے ہے"
(عمومی رسم و رواج کے مطابق جس طرح ہم اپنے گلی محلے کے لوگوں کو چچا یا تایا یا
10/ ماموں کہتے ہیں اسی طرح کہا جاتا ہے کہ شمر لعین کا تعلق حضرت عباس علمدار کی والدہ کے علاقے سے تھا)
حضرت عباس، عبداللہ بن علی، جعفر بن علی اور عثمان بن علی علیہم السلام باہر آئے اور شمر سے کہا
کیا چاہتے ہو؟

شمر نے کہا
"اے میرے بھانجو! تم امان میں ہو، میں نے تمہارے لئے عبید
11/ اللہ بن زیاد سے امان نامہ حاصل کیا ہے"

لیکن حضرت عباس اور ان کے بھائیوں نے مل کر کہا
"خدا تم پر اور تمہارے امان نامے پر لعنت کرے، یہ کیونکر ہوسکتا ہے کہ ہم امان میں ہوں اور بنت پیمبر(ص) کا بیٹا امان میں نہ ہو"
(انساب الاشراف ج3 ص184، طبری ٥ ص416، الارشاد، ج2، ص89؛ مقتل
12/ الحسین خوارزمی ج1، ص246، ابن اثیر ج4، ص56).

بی بی ام البنین (س) کے فرزندوں کی طرف سے ابن زیاد کا امان نامہ مسترد ہونے کے بعد عمر سعد نے لشکر کو حکم دیا گیا کہ جنگ کی تیاری کریں۔ چنانچہ سب سوار ہوئے اور جمعرات 9 محرم بوقت عصر امام حسینؑ اور آپؑ کے اصحاب و خاندان کے خلاف
13/ جنگ کے لئے تیار ہوئے.
(انساب الاشراف، ص184؛ طبری ج5، ص416؛ الارشاد، ج2، ص89؛ خوارزمی،مقتل الحسین ج1، ص249؛ اعلام الوری ج1، ص454)

9 محرم بوقت عصر صحرائے کربلا میں عمر بن سعد کی سپاہ کی نقل و حرکت بڑھ گئی اور عمر سعد امام حسینؑ کے خلاف جنگ کے لئے تیار ہوا اور اپنی سپاہ کو
14/ بھی جنگ کی تیاری کا حکم دیا. اس نے اپنی سپاہ میں منادی کرا دی
"اے خدا کے لشکریو! سوار ہوجاؤ کہ میں تمہیں جنت کی بشارت دیتا ہوں"

کوفی سب سوار ہوئے اور جنگ کے لئے تیار ہو گے.

9 محرم کو یوم تاسوعا بھی کہتے ہیں۔ یعنی وہ دن، جس دن امام حسین ع اور اصحاب حسین ع کربلا میں محصور
15/ ہوئے اور شامی فوج ان کے خلاف اکٹھی ہوئی۔

ابن مرجانہ (ابن زیاد) اور عمرسعد اتنا بڑا لشکر فراہم ہونے پر خوش ہوئے اور اس دن امام حسین علیہ السلام اور آپ کے اصحاب کو کمزور سمجھا اور انھوں نے یقین کرلیا تھا کہ امام حسین کے لئے کوئی مدد نہیں آئے گی اور عراقی آپؑ کی مدد نہیں
16/ کریں گے.
(انساب الاشراف، ص 184؛ الطبری، تاریخ الأمم طبری، ج5، ص416؛ الارشاد، ج2، مقتل الحسین خوارزمی، ج1، ص249؛ اعلام الوری ...، ج1، ص454).

لشکر میں شور اور ہنگامہ بپا ہوا، امامؑ اپنے خیمے کے سامنے اپنی تلوار پر ٹیک لگائے بیٹھے تھے. حضرت زینبؑ لشکر کوفہ میں شور و غل کی
17/ صدائیں سن کر بھائی کے قریب آئیں اور کہا
"بھائی جان! کیا آپ قریب تر آنے والی صدائیں سن رہے ہیں؟"

امام حسینؑ نے سر اٹھا کر فرمایا
"میں نے نانا رسول اللہ (ص) کو خواب میں دیکھا اور آپؐ نے مجھ سے مخاطب ہو کر فرمایا ہے کہ بہت جلد ہمارے پاس آؤگے"

پھر امام حسینؑ نے عباس بن علیؑ
18/ کو فرمایا:
"اے عباس! میری جان فدا ہو تم پر، اپنے گھوڑے پر سوار ہوجاؤ اور ان کے پاس جاؤ اور پوچھو کہ وہ کیا چاہتے ہیں اور کس لئے آگے بڑھ آئے ہیں؟"

حضرت عباسؑ زہیر بن قین اور حبیب بن مظاہر سمیت 20 سواروں کے ہمراہ دشمن کی فوج کی طرف گئے اور ان سے پوچھا
"کیا ہوا ہے؟ اور تم
19/ کیا چاہتے ہو؟"

انھوں نے کہا
"امیر کا حکم ہے کہ ہم آپ سے کہہ دیں کہ یا بیعت کرو یا جنگ کے لئے تیار ہوجاؤ"

حضرت عباسؑ نے کہا
"اپنی جگہ ٹھہرو میں ابا عبداللہ ؑ کے پاس جاؤں اور تمہارا پیغام آپؑ کو پہنچا دوں"

وہ مان گئے چنانچہ حضرت عباسؑ اکیلے امام حسینؑ کی خدمت میں حاضر
20/ ہوئے تاکہ انہیں نئی صورت حال سے آگاہ کریں.
(انساب الاشراف، ص184-185، الطبری ج5 ص416-418؛ الکوفی، ابن اعثم، الفتوح، ج5، ص97- 98؛ الارشاد، ج2، ص90؛ الخوارزمی، مقتل الحسینؑ، ج1، ص249-250؛ مسکویه، تجارب الامم، ص73).

امام حسین(ع)نے حضرت عباس(ع) سے فرمایا
"اگر تمہارے لئے ممکن
21/ ہو تو انہیں راضی کرو کہ جنگ کو کل تک ملتوی کریں اور آج رات کو ہمیں مہلت دیں تا کہ اپنے پروردگار کے ساتھ راز و نیاز کریں اور اس کی درگاہ میں نماز بجا لائیں؛ خدا جانتا ہے کہ میں اس کی بارگاہ میں نماز اور اس کی کتاب کی تلاوت کو بہت زیادہ دوست رکھتا ہوں"

جب تک عباس(ع) امام
22/ حسین(ع) کے ساتھ گفتگو کررہے تھے، ان کے ساتھیوں حبیب بن مظاہر اور زہیر بن قین نے بھی موقع سے فائدہ اٹھا کر ابن سعد کی فوج کے ساتھ گفتگو کی اور انہیں امام حسین(ع) کے ساتھ جنگ سے باز رکھنے کی کوشش کی جبکہ اسی حال میں وہ ابن سعد کے سپاہیوں کی پیشقدمی بھی روک رہے تھے۔

حضرت
23/ عباس ع دشمن کے سپاہیوں کی طرف آئے اور امام حسین ع کی درخواست ان تک پہنچا دی اور ایک رات کی مہلت مانگی.

ابن سعد نے اتفاق کیا اور لڑائی ایک شب کے لیے ملتوی ہو گئی۔ لیکن امام حسین ع اور آپ کے خاندان اور اصحاب و انصار کے خیموں کا محاصرہ کردیا گیا.

#پیرکامل
#قلمکار
Missing some Tweet in this thread? You can try to force a refresh.

Keep Current with 💎 پـیــــــKamilــــــر™

Profile picture

Stay in touch and get notified when new unrolls are available from this author!

Read all threads

This Thread may be Removed Anytime!

Twitter may remove this content at anytime, convert it as a PDF, save and print for later use!

Try unrolling a thread yourself!

how to unroll video

1) Follow Thread Reader App on Twitter so you can easily mention us!

2) Go to a Twitter thread (series of Tweets by the same owner) and mention us with a keyword "unroll" @threadreaderapp unroll

You can practice here first or read more on our help page!

Follow Us on Twitter!

Did Thread Reader help you today?

Support us! We are indie developers!


This site is made by just two indie developers on a laptop doing marketing, support and development! Read more about the story.

Become a Premium Member ($3.00/month or $30.00/year) and get exclusive features!

Become Premium

Too expensive? Make a small donation by buying us coffee ($5) or help with server cost ($10)

Donate via Paypal Become our Patreon

Thank you for your support!