تھوڑی دیر کے بعد امام حسین ع نے بچوں کی حالت کے پیشِ نظر پھر عباس ع سے کنواں کھودنے کی فرمائش کی، آپ نے سعی بلیغ شروع کردی۔
جب
پھر تھوڑی دیر کے بعد حضرت عباس (ع) نے کنواں کھودا وہ بھی بند کر دیا گیا- یہاں تک کہ چار کنویں کھودے اور پانی حاصل
مورخین لکھتے ہیں کہ نویں تاریخ کو شمر کوفہ واپس گیا اور اس نے عمر ابن سعد کی شکایت کرکے ابن زیاد سے ایک سخت حکم حاصل کیا، جس کا مقصد یہ تھا کہ اگرحسین (ع) بیعت
ابن سعد نے عبیداللہ کا خط پڑھ کر شمر سے کہا: "میں لشکر کی امارت تمہارے حوالے نہیں کروں گا اور میں تیرے وجود میں اس
اسی نویں تاریخ کو شمر نے حضرت عباس(ع) اور ان کے بھائیوں کو امان کی پیش کش کی انھوں نے بڑی حقارت سے اسے ٹھکرادیا-
مورخین نے شمر کو حضرت عباس ع کا ماموں لکھا
کوفہ میں شمر نے ابن زیاد سے عبداللہ بن ابی المحل کے ساتھ مل کر اپنے بھانجوں کے لئے امان نامہ دینے کی درخواست کی۔ ابن زیاد نے اس تجویز کو پسند کیا.
( طبری، محمد بن جریر، تاریخ الأمم و مملوک ج5، ص415، الخوارزمی مقتل الحسینؑ، ص 246، ابن اثیر،الکامل ص56)-
عبداللہ بن ابی
(تاریخ الأمم و الملوک طبری ج5 ص415 الکوفی، ابن
دوسری روایت کے مطابق شمر خود ہی امان نامہ لے کر کربلا میں عباس بن علیؑ اور ان کے بھائیوں عبداللہ، جعفر اور عثمان کو پہنچایا.
(عمدة الطالب ص 327، مقتل الحسین خوارزمی ص246).
حضرت عباسؑ
امامؑ نے بھائی عباسؑ سے فرمایا:
"گو کہ وہ فاسق ہے لیکن اس کا جواب دے دو، بےشک وہ تمہارے مامؤوں میں سے ہے"
(عمومی رسم و رواج کے مطابق جس طرح ہم اپنے گلی محلے کے لوگوں کو چچا یا تایا یا
حضرت عباس، عبداللہ بن علی، جعفر بن علی اور عثمان بن علی علیہم السلام باہر آئے اور شمر سے کہا
کیا چاہتے ہو؟
شمر نے کہا
"اے میرے بھانجو! تم امان میں ہو، میں نے تمہارے لئے عبید
لیکن حضرت عباس اور ان کے بھائیوں نے مل کر کہا
"خدا تم پر اور تمہارے امان نامے پر لعنت کرے، یہ کیونکر ہوسکتا ہے کہ ہم امان میں ہوں اور بنت پیمبر(ص) کا بیٹا امان میں نہ ہو"
(انساب الاشراف ج3 ص184، طبری ٥ ص416، الارشاد، ج2، ص89؛ مقتل
بی بی ام البنین (س) کے فرزندوں کی طرف سے ابن زیاد کا امان نامہ مسترد ہونے کے بعد عمر سعد نے لشکر کو حکم دیا گیا کہ جنگ کی تیاری کریں۔ چنانچہ سب سوار ہوئے اور جمعرات 9 محرم بوقت عصر امام حسینؑ اور آپؑ کے اصحاب و خاندان کے خلاف
(انساب الاشراف، ص184؛ طبری ج5، ص416؛ الارشاد، ج2، ص89؛ خوارزمی،مقتل الحسین ج1، ص249؛ اعلام الوری ج1، ص454)
9 محرم بوقت عصر صحرائے کربلا میں عمر بن سعد کی سپاہ کی نقل و حرکت بڑھ گئی اور عمر سعد امام حسینؑ کے خلاف جنگ کے لئے تیار ہوا اور اپنی سپاہ کو
"اے خدا کے لشکریو! سوار ہوجاؤ کہ میں تمہیں جنت کی بشارت دیتا ہوں"
کوفی سب سوار ہوئے اور جنگ کے لئے تیار ہو گے.
9 محرم کو یوم تاسوعا بھی کہتے ہیں۔ یعنی وہ دن، جس دن امام حسین ع اور اصحاب حسین ع کربلا میں محصور
ابن مرجانہ (ابن زیاد) اور عمرسعد اتنا بڑا لشکر فراہم ہونے پر خوش ہوئے اور اس دن امام حسین علیہ السلام اور آپ کے اصحاب کو کمزور سمجھا اور انھوں نے یقین کرلیا تھا کہ امام حسین کے لئے کوئی مدد نہیں آئے گی اور عراقی آپؑ کی مدد نہیں
(انساب الاشراف، ص 184؛ الطبری، تاریخ الأمم طبری، ج5، ص416؛ الارشاد، ج2، مقتل الحسین خوارزمی، ج1، ص249؛ اعلام الوری ...، ج1، ص454).
لشکر میں شور اور ہنگامہ بپا ہوا، امامؑ اپنے خیمے کے سامنے اپنی تلوار پر ٹیک لگائے بیٹھے تھے. حضرت زینبؑ لشکر کوفہ میں شور و غل کی
"بھائی جان! کیا آپ قریب تر آنے والی صدائیں سن رہے ہیں؟"
امام حسینؑ نے سر اٹھا کر فرمایا
"میں نے نانا رسول اللہ (ص) کو خواب میں دیکھا اور آپؐ نے مجھ سے مخاطب ہو کر فرمایا ہے کہ بہت جلد ہمارے پاس آؤگے"
پھر امام حسینؑ نے عباس بن علیؑ
"اے عباس! میری جان فدا ہو تم پر، اپنے گھوڑے پر سوار ہوجاؤ اور ان کے پاس جاؤ اور پوچھو کہ وہ کیا چاہتے ہیں اور کس لئے آگے بڑھ آئے ہیں؟"
حضرت عباسؑ زہیر بن قین اور حبیب بن مظاہر سمیت 20 سواروں کے ہمراہ دشمن کی فوج کی طرف گئے اور ان سے پوچھا
"کیا ہوا ہے؟ اور تم
انھوں نے کہا
"امیر کا حکم ہے کہ ہم آپ سے کہہ دیں کہ یا بیعت کرو یا جنگ کے لئے تیار ہوجاؤ"
حضرت عباسؑ نے کہا
"اپنی جگہ ٹھہرو میں ابا عبداللہ ؑ کے پاس جاؤں اور تمہارا پیغام آپؑ کو پہنچا دوں"
وہ مان گئے چنانچہ حضرت عباسؑ اکیلے امام حسینؑ کی خدمت میں حاضر
(انساب الاشراف، ص184-185، الطبری ج5 ص416-418؛ الکوفی، ابن اعثم، الفتوح، ج5، ص97- 98؛ الارشاد، ج2، ص90؛ الخوارزمی، مقتل الحسینؑ، ج1، ص249-250؛ مسکویه، تجارب الامم، ص73).
امام حسین(ع)نے حضرت عباس(ع) سے فرمایا
"اگر تمہارے لئے ممکن
جب تک عباس(ع) امام
حضرت