My Authors
Read all threads
1/ محرم الحرام کامہینہ شروع ہوتے ہی ہر مسلمان کے دل و دماغ میں حضرت امام حسین علیہ السلام اور آپ کے پاکیزہ خانوادہ پر یزیدیوں کے ظلم و ستم کی دردناک داستانیں تازہ ہو جاتی ہیں۔

بد قسمتی سے کچھ کلمہ گو مگر دشمنان آل بیت وہ بھی ہیں جو یہ غلط فہمی پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ
2/ "امام حسین علیہ السلام نے اقتدار کے حصول یا عظمت و سطوت کے لالچ میں یزید کی بیعت نہیں کی اور اس سے برسر پیکار ہوئے، جس کے نتیجے میں آپ کی شہادت ہوئی"۔
جبکہ زمینی حقائق اس کے بالکل برعکس ہیں۔

تاریخ گواہ ہے کہ حضرت علی ع کی شہادت کے بعد خلافت کے امور حضرت امام حسن ع کے
3/ سپرد ہوئے۔ آپ نے چھ ماہ تک یہ فرائض سرانجام دیئے۔ بعد ازاں آپ نے از خود ایک معاہدہ کے تحت یہ اقتدار امیر معاویہؓ کے سپرد کردیا تھا۔

اس وقت حضرت امام حسین ع عالم شباب میں تھے۔ اگر اقتدار کی خواہش ہوتی تو اپنے بھائی سے گزارش کر کے لے لیتے۔ لیکن کسی ایک روایت میں بھی آپ
4/ کی کسی ایسی خواہش کا ذکر نہیں ملتا۔

گویا یہ اقتدار تو وہی تھا جسے آپ کے گھرانے سے از خود صلح و صفائی کی خاطر منتقل کیا گیا تھا۔
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی حیات طیبہ میں یہ پیشگوئی فرما دی تھی کہ "میرے اس بیٹے کی وجہ سے مومنوں کے دو گروہوں کے درمیان صلح ہوگی"۔
5/ جہاں تک جاہ و جلال اور عزت و آبرو کا سوال ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات اقدس سے جو نسبت اور تعلق ہے، اس سے بڑھ کر اور کیا عزت ہوگی، جس کی امام عالی مقام کو خواہش ہوتی۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر اتنا بڑا معرکہ کیوں بپا ہو گیا؟
حقیقت حال یہ ہے کہ حضرت امام
6/ عالی مقام حضرت امام حسین علیہ السلام نے اپنے نانا پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مبارک حیات طیبہ کے مدنی دور میں آنکھ کھولی۔ بچپن، لڑکپن اور جوانی کے ایام خلافت راشدہ کے بابرکت دور میں گزارے۔ آپ بخوبی آگاہ تھے کہ گلستان اسلام کی آبیاری حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی
7/ علیہم اجمعین کے مقدس خون سے کی گئی تھی۔

جب یزیدیوں کا فسق و فجور اور رقص و سرور اس گلشن اسلام کو اجاڑ رہا تھا تو کیسے ممکن تھا کہ پروردہ آغوش نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، نور نگاہ علی مرتضی علیہ السلام اور جگر گوشہ فاطمہ الزہرہ سلام اللہ علیہا یعنی حضرت امام حسین علیہ
8/ السلام یزید جیسے شخص کے ہاتھ پر بیعت کر لیتے۔

آپ نے عزیمت کا مظاہرہ کیا اور بے سرو سامانی کے باوجود فسق و فجور اورباطل کے سامنے ڈٹ گئے۔

ویسے تو یزید کے کرتوتوں سے تاریخ اسلام کے کئی صفحات سیاہ ہیں۔ لیکن ان میں سے تین واقعات حد درجہ قابل مذمت ہیں۔
(1) آل بیت اطہار کی
9/ دردناک شہادت
(2) مدینہ طیبہ خصوصاً مسجدنبوی شریف پر چڑھائی اور بے ادبی و بد تمیزی کی آخری حدوں کو پھلانگنا۔
(3) حرم کعبہ پر چڑھائی اور توہین۔

امام بخاری نے صحیح بخاری میں ایک باب قائم کیا ہے، "باب مناقب قرابۃ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم" یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ
10/ وآلہ وسلم کے قرابت داروں کے فضائل کا بیان۔

پھر اسی باب میں حضرت ابو بکر صدیق رض سے روایت بیان کی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قرابت داروں سے معاملہ کرتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ہر حال میں لحاظ و پاس رکھو۔

علامہ قسطلانی ؒ نے شرح بخاری میں قرابت دار
11/ کی تعریف یہ لکھی ہے کہ "جن کا نسب حضرت عبد المطلب سے ملتا ہو جیسے حضرت علی ع اور ان کی اولاد"۔

یزید نے ذرا بھر بھی اس نسبت رسول کا خیال نہیں کیا۔ انتہائی بے دردی اور ڈھٹائی کے ساتھ گلشن اہلبیت کے پھولوں کو مسل دیا۔
کوفہ میں یزید کے مقرر کردہ گورنر ابن زیاد کے پاس جب بعد
12/ از شہادت حضرت امام حسین علیہ السلام کا سر مبارک لایا گیا تو اس نے شقاوت قلبی کے ساتھ اپنی چھڑی سے توہین کی۔

فتح الباری شرح صحیح بخاری (باب مناقب الحسن الحسین) میں حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ
"میں نے اس سے کہا
جہاں تو اس وقت چھڑی رکھ رہا ہے وہاں میں نے رسول اللہ
13/ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بوسہ دیتے ہوئے دیکھا ہے۔
اس پر اس کا منہ بند ہو کے رہ گیا"۔

یزیدی لشکر نے میدان کربلا میں حضرت امام حسین علیہ السلام اور خانوادہ نبوت کی دیگر پاکباز ہستیوں کا جو بیہمانہ قتل کیا، یہ اسکا انتہائی قبیح اور سیاہ کارنامہ ہے۔

اس ظالم نے شہر نبی
14/ مدینہ منورہ پر چڑھائی کی تو ظلم و ستم اور شرم و حیا کی ساری حدیں پار کردیں۔ امام دارمی نے اپنی سنن میں بیان کیا ہے کہ "جنگ حرہ" کے دوران تین دنوں تک مسجد نبوی میں اذان ہوئی نہ اقامت۔
مسجد نبوی میں گھوڑے باندھے گئے۔
صرف سعید بن مصیبؓ نے مسجد نبوی کو نہیں چھوڑا اور چھپ کر
15/ وقت گزارتے رہے۔
انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر انور سے اذان کی آواز آتی تھی اور اس کے مطابق نماز کی ادائیگی کرتے تھے۔

علامہ یاقوت حموی نے معجم البلدان میں لکھا ہے کہ اس دوران یزیدیوں نے سترہ سو انصار، تیرہ سو قریش اور ساڑھے تین ہزار دیگر ہستیوں کو قتل
16/ کیا، لوگوں کے مال لوٹے اور تین دن تک یزید کے حکم سے مدینہ میں ہر ناجائز کام ان ظالموں کیلئے حلال تھا۔
یہاں سے فارغ ہونے کے بعد یزید کے حکم سے مکہ مکرمہ کا رخ کیا گیا۔ حرم کعبہ کا محاصرہ کیا اور خانہ کعبہ شریف پر منجنیق کی مدد سے پتھراؤ کیا گیا۔ خانہ کعبہ شریف میں آگ لگی
17/ اور پردے جل گئے۔
حرم کعبہ میں حضرت اسماعیل ؑ کے فدیے میں جنت سے بھیجے گئے دنبے کے سینگ محفوظ چلے آرہے تھے اور اس واقعہ میں وہ بھی جل گئے۔

یزید کے ہاتھوں حرمین شریفین کی حرمت پامال ہوئی۔ صحابہ کرام کی توہین اور عترت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خون سے اس کے ہاتھ
18/ رنگین ہوئے۔ اس کے بعد اس کو مہلت نہ ملی اور ذلیل و رسوا ہو کے مر گیا۔
(منقول)
#پیرکامل
#قلمکار
Missing some Tweet in this thread? You can try to force a refresh.

Keep Current with 💎 پـیــــــKamilــــــر™

Profile picture

Stay in touch and get notified when new unrolls are available from this author!

Read all threads

This Thread may be Removed Anytime!

Twitter may remove this content at anytime, convert it as a PDF, save and print for later use!

Try unrolling a thread yourself!

how to unroll video

1) Follow Thread Reader App on Twitter so you can easily mention us!

2) Go to a Twitter thread (series of Tweets by the same owner) and mention us with a keyword "unroll" @threadreaderapp unroll

You can practice here first or read more on our help page!

Follow Us on Twitter!

Did Thread Reader help you today?

Support us! We are indie developers!


This site is made by just two indie developers on a laptop doing marketing, support and development! Read more about the story.

Become a Premium Member ($3.00/month or $30.00/year) and get exclusive features!

Become Premium

Too expensive? Make a small donation by buying us coffee ($5) or help with server cost ($10)

Donate via Paypal Become our Patreon

Thank you for your support!