بد قسمتی سے کچھ کلمہ گو مگر دشمنان آل بیت وہ بھی ہیں جو یہ غلط فہمی پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ
جبکہ زمینی حقائق اس کے بالکل برعکس ہیں۔
تاریخ گواہ ہے کہ حضرت علی ع کی شہادت کے بعد خلافت کے امور حضرت امام حسن ع کے
اس وقت حضرت امام حسین ع عالم شباب میں تھے۔ اگر اقتدار کی خواہش ہوتی تو اپنے بھائی سے گزارش کر کے لے لیتے۔ لیکن کسی ایک روایت میں بھی آپ
گویا یہ اقتدار تو وہی تھا جسے آپ کے گھرانے سے از خود صلح و صفائی کی خاطر منتقل کیا گیا تھا۔
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی حیات طیبہ میں یہ پیشگوئی فرما دی تھی کہ "میرے اس بیٹے کی وجہ سے مومنوں کے دو گروہوں کے درمیان صلح ہوگی"۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر اتنا بڑا معرکہ کیوں بپا ہو گیا؟
حقیقت حال یہ ہے کہ حضرت امام
جب یزیدیوں کا فسق و فجور اور رقص و سرور اس گلشن اسلام کو اجاڑ رہا تھا تو کیسے ممکن تھا کہ پروردہ آغوش نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، نور نگاہ علی مرتضی علیہ السلام اور جگر گوشہ فاطمہ الزہرہ سلام اللہ علیہا یعنی حضرت امام حسین علیہ
آپ نے عزیمت کا مظاہرہ کیا اور بے سرو سامانی کے باوجود فسق و فجور اورباطل کے سامنے ڈٹ گئے۔
ویسے تو یزید کے کرتوتوں سے تاریخ اسلام کے کئی صفحات سیاہ ہیں۔ لیکن ان میں سے تین واقعات حد درجہ قابل مذمت ہیں۔
(1) آل بیت اطہار کی
(2) مدینہ طیبہ خصوصاً مسجدنبوی شریف پر چڑھائی اور بے ادبی و بد تمیزی کی آخری حدوں کو پھلانگنا۔
(3) حرم کعبہ پر چڑھائی اور توہین۔
امام بخاری نے صحیح بخاری میں ایک باب قائم کیا ہے، "باب مناقب قرابۃ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم" یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ
پھر اسی باب میں حضرت ابو بکر صدیق رض سے روایت بیان کی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قرابت داروں سے معاملہ کرتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ہر حال میں لحاظ و پاس رکھو۔
علامہ قسطلانی ؒ نے شرح بخاری میں قرابت دار
یزید نے ذرا بھر بھی اس نسبت رسول کا خیال نہیں کیا۔ انتہائی بے دردی اور ڈھٹائی کے ساتھ گلشن اہلبیت کے پھولوں کو مسل دیا۔
کوفہ میں یزید کے مقرر کردہ گورنر ابن زیاد کے پاس جب بعد
فتح الباری شرح صحیح بخاری (باب مناقب الحسن الحسین) میں حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ
"میں نے اس سے کہا
جہاں تو اس وقت چھڑی رکھ رہا ہے وہاں میں نے رسول اللہ
اس پر اس کا منہ بند ہو کے رہ گیا"۔
یزیدی لشکر نے میدان کربلا میں حضرت امام حسین علیہ السلام اور خانوادہ نبوت کی دیگر پاکباز ہستیوں کا جو بیہمانہ قتل کیا، یہ اسکا انتہائی قبیح اور سیاہ کارنامہ ہے۔
اس ظالم نے شہر نبی
مسجد نبوی میں گھوڑے باندھے گئے۔
صرف سعید بن مصیبؓ نے مسجد نبوی کو نہیں چھوڑا اور چھپ کر
انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر انور سے اذان کی آواز آتی تھی اور اس کے مطابق نماز کی ادائیگی کرتے تھے۔
علامہ یاقوت حموی نے معجم البلدان میں لکھا ہے کہ اس دوران یزیدیوں نے سترہ سو انصار، تیرہ سو قریش اور ساڑھے تین ہزار دیگر ہستیوں کو قتل
یہاں سے فارغ ہونے کے بعد یزید کے حکم سے مکہ مکرمہ کا رخ کیا گیا۔ حرم کعبہ کا محاصرہ کیا اور خانہ کعبہ شریف پر منجنیق کی مدد سے پتھراؤ کیا گیا۔ خانہ کعبہ شریف میں آگ لگی
حرم کعبہ میں حضرت اسماعیل ؑ کے فدیے میں جنت سے بھیجے گئے دنبے کے سینگ محفوظ چلے آرہے تھے اور اس واقعہ میں وہ بھی جل گئے۔
یزید کے ہاتھوں حرمین شریفین کی حرمت پامال ہوئی۔ صحابہ کرام کی توہین اور عترت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خون سے اس کے ہاتھ