BinGhazi Profile picture
11 Sep, 88 tweets, 20 min read
"رفع و نزول سیدنا عیسیؑ پر چند ابتدائی گزارشات"

"رفع نزول سیدنا عیسیؑ کا عقیدہ اور حضرت محمدﷺ کا فرض منصبی"

حضور سرور کائناتﷺ کی بعثت کے وقت سر زمین عرب میں تین طبقے خصوصیت سے موجود تھے۔

1)مشرکین مکہ
2)نصاریٰ نجران
3)یہود

اب ہمیں دیکھنا ہے کہ قرآن مجید کی رو سے آپﷺ کی
رسالت کے کیا فرائض تھے؟

1)آپﷺ کی بعثت سے قبل کے جو طریق منہاج ابراہیمی کے موافق تھے ان میں تغیر و تبدل نہ ہوا تھا۔ان کو آپﷺ نے اور زیادہ استحکام کے ساتھ قائم فرمایا اور جن امور میں تحریف فساد یا شعائر شرک و کفر مل گئے تھے انکا آپﷺ نے بڑی شدت سے علی الا علان رد فرمایا۔
جن امور کا تعلق عبادات و اعمال سے تها انکے آداب و رسومات اور مکروہات کو واضح کیا۔ رسومات فاسدہ کی بیخ کنی فرمائی اور طریقے صالحہ کا عمل فرمایا اور جس مسئلہ شریعت کو پہلی امتوں نے چهوڑ رکھا تها یا انبیاء سابقہ نے اسے مکمل نہ کیا تها انکو آپﷺ نے تروتازگی دے کر رائج فرمایا اور
کامل و مکمل کر دیا۔

2)آپﷺ سے قبل مختلف مذاہب کے پیروکاروں میں جن امور پر اختلاف تها آپﷺ ان کے لیے فیصل (فیصلہ کرنے والے) اور حکم بن کر تشریف لائے آپﷺ پر نازل ہوئی کتاب قرآن مجید اور اسکی تفسیر (حدیث) کے ذریعے مختلف فیہ امور میں جو فیصلہ صادر ہو جائے وہ حتمی اور اٹل ہے۔
(اس سے روگردانی و انحراف موجب ہلاکت و خسران اور اسے دل سے تسلیم کرنا سعادت مندی اور اقبال بختی کی دلیل ہے)

چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے

وَمَاۤ اَنۡزَلۡنَا عَلَیۡکَ الۡکِتٰبَ اِلَّا لِتُبَیِّنَ لَہُمُ الَّذِی اخۡتَلَفُوۡا فِیۡہِ ۙ وَ ہُدًی وَّ رَحۡمَۃً لِّقَوۡمٍ یُّؤۡمِنُوۡنَ۔
"اور ہم نے تم پر یہ کتاب اسی لیے اتاری ہے تاکہ تم ان کے سامنے وہ باتیں کھول کھول کر بیان کردو جن میں انہوں نے مختلف راستے اپنائے ہوئے ہیں،اور تاکہ یہ ایمان لانے والوں کے لیے ہدایت اور رحمت کا سامان ہو۔"

(سورۃ النحل آیت نمبر 64)
اب ہم دیکھتے ہیں کہ تینوں طبقات کے کون کون سے عقائد و اعمال صحیح یا غلط تهے اور انکا آپﷺ نے کیا فیصلہ فرمایا۔

"مشرکین مکہ"

1)مشرکین مکہ شرک میں مبتلا تهے۔بتوں کی پوجا کرتے تھے چنانچہ قرآن مجید نے تردید شرک اور اثبات توحید باری تعالیٰ پہ جتنا زور دیا ہے اور جس طرح شرک کو بیخ
و بن سے اکھاڑا ہے۔بتوں کی عبادت کی تردید اورابطال کا قرآن مجید نے جو انداز اختیار کیا ہے۔کیا کسی آسمانی مذہب یا آسمانی کتاب میں اس کی نظیر پیش کی جا سکتی ہے؟
نہیں اور ہر گز نہیں۔آپﷺ نے جس طرح معبودان باطلہ کو للکارا وہ صرف اور صرف آپﷺ ہی کا حصہ تها۔
2)مشرکین مکہ بیت اللہ کا طواف کرتے تھے. یہ عمل انکا صحیح تها۔اسلام نے اسکو نہ صرف قائم رکھا بلکہ زمانہ نبوت سے تا ابدل آباد اسکو اسلامی عبادت کا بہترین حصہ قرار دیا۔

وَ لۡیَطَّوَّفُوۡا بِالۡبَیۡتِ الۡعَتِیۡقِ(الحج 29)

اور اس بیت عتیق کا طواف کریں۔
طواف امر الہی اور حکم ربی ہے ہاں مشرکین نے طواف میں جو غلط رسومات شامل کر لی تهیں مثلاً ننگے طواف کرتے تهے یہ بیہودہ امر تها اسکو محو کر دیا۔

3)مشرکین مکہ حجاج کو ستو پلایا کرتے تھے حجاج کی عزت و تکریم کرتے تھے۔حجاج کو بیت اللہ کے زائرین کو، ضیوف میں اللہ سمجھتے تھے یہ امر صحیح
تھا۔اس لیے اسکی توثیق فرمائی۔

جیسے ارشاد باری تعالیٰ ہے۔

سِقَایَۃَ الۡحَآجِّ(توبہ 19)
حاجیوں کو پانی پلانا

اس سے قبل بیت اللہ الحرام کی تعمیر اور اس میں حاجیوں کا پانی پلانا ذکر فرماکر ان امور کو خیر توثیق فرمائی۔

4)مشرکین عرب اپنی بچیوں کو زندہ درگور کر دیا کرتے تھے۔انکا
فعل قبیح اور حرام تها. اس سے پیغمبر اسلام نے نہ صرف روکا بلکہ بچیوں کی تربیت کرنے والوں کو جنت کی خوشخبری سے نوازا بچیوں کے قتل پر قرآن مجید میں ارشاد ہے۔

وَ اِذَا الۡمَوۡءٗدَۃُ سُئِلَت۔ ۡ بِاَیِّ ذَنۡۢبٍ قُتِلَتۡ(تکویر 8،9)

اور جس بچی کو زندہ قبر میں گاڑ دیا گیا تھا، اس سے
پوچھا جائے گا۔کہ اسے کس جرم میں قتل کیا گیا؟

غرض قرآن مجید نے مشرکین کے غلط عقائد و رسومات کو مٹایا اور صحیح کاموں کی توثیق کی اور انکو اور زیادہ مستحکم کیا۔

"یہود کے عقائد"

1)یہود بے بہود حضرت عزیرؑ کو ابن اللہ قرار دیتے تھے۔

وَ قَالَتِ الۡیَہُوۡدُ عُزَیۡرُۨ ابۡنُ اللّٰہِ
(توبہ 39)
اور یہود نے کہا کہ عزیر اللہ کا بیٹا ہے۔

قرآن مجید نے اسکی تردید کی۔

تَکَادُ السَّمٰوٰتُ یَتَفَطَّرۡنَ مِنۡہُ وَ تَنۡشَقُّ الۡاَرۡضُ وَ تَخِرُّ الۡجِبَالُ ہَدًّا۔ اَنۡ دَعَوۡا لِلرَّحۡمٰنِ وَلَدًا۔ وَ مَا یَنۡۢبَغِیۡ لِلرَّحۡمٰنِ اَنۡ یَّتَّخِذَ وَلَدا۔
کچھ بعید نہیں کہ اس کی وجہ سے آسمان پھٹ پڑیں،زمین شق ہوجائے اور پہاڑ ٹوٹ کر گر پڑیں۔ مکہ ان لوگوں نے خدائے رحمن کے لئے اولاد ہونے کا دعوی کیا ہے۔حالانکہ خدائے رحمن کی یہ شان نہیں ہے کہ اس کی کوئی اولاد ہو۔

(سورۃ مریم آیت نمبر 90 تا 92)
2)یہود حضرت عیسی بن مریمؑ کے قتل کا اعتقاد رکھتے تھے۔
اِنَّا قَتَلۡنَا الۡمَسِیۡحَ عِیۡسَی ابۡنَ مَرۡیَمَ رَسُوۡلَ اللّٰہِ۔
(النساء 157)

(ہم نے اللہ کے رسول مسیح ابن مریم کو قتل کردیا تھا)

جتنی پختگی سے وہ دعویٰ کرتے تھے اس سے زیادہ زور دار بیان سے قرآن مجید نے وماقتلوه
(اور انہوں نے نہ اسکو مارا)کہہ کر قتل مسیحؑ کی مطلق نفی کر کے اس غلط دعویٰ کی تردید فرمائی۔

3 )وہ حضرت مریمؑ کی پاکدامنی کے خلاف تھے۔
قرآن مجید نے
وَ اِذۡ قَالَتِ الۡمَلٰٓئِکَۃُ یٰمَرۡیَمُ اِنَّ اللّٰہَ اصۡطَفٰکِ وَ طَہَّرَکِ وَ اصۡطَفٰکِ عَلٰی نِسَآءِ الۡعٰلَمِیۡنَ۔
(سورۃ آل عمران آیت نمبر 42)

اور (اب اس وقت کا تذکرہ سنو) جب فرشتوں نے کہا تھا کہ:اے مریم ! یشک اللہ نے تمہیں چن لیا ہے،تمہیں پاکیزگی عطا کی ہے اور دنیا جہان کی ساری عورتوں میں تمہیں منتخب کرکے فضیلت بخشی ہے۔

وَ اُمُّہٗ صِدِّیۡقَۃٌ(المائدہ آیت نمبر 75)
(اور اسکی ماں ولی ہے)کہہ کر یہود کے عقیدہ بد کی تردید فرمائی۔

خود مرزا قادیانی کو بھی اعتراف ہے چنانچہ اس نے لکها کہ

"یہودیوں کا حضرت عیسیؑ کی نسبت یہ خیال تها کہ وہ قتل بهی کیے گئے اور صلیب بھی دیے گئے بعض یہود کہتے ہیں پہلے قتل کر کے پھر صلیب پر لٹکائے گے
اور بعض کہتے ہیں پہلے صلیب دے کر پھر انکو قتل کیا گیا۔"

(ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم صفحہ 176 مندرجہ روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 345)
غرض یہود کے ان غلط دعووں کو وماقتلوه وما صلبوه وما قتلوہ یقیناً کے زور دار الفاظ سے ڈنکے کی چوٹ پر قرآن مجید نے نہ صرف رد کیا۔بلکہ قتل مطلق اور صلب مطلق کی نفی کی تلوار سے ان دعووں کو بیخ و بن سے اکھیڑ دیا وما قتلوہ یقیناً تو ایسا قرآنی وار ہے جس نے یہود کے دعوی کو ملیا میٹ اور
زمین بوس کر دیا۔

"نصاری کے عقائد"

1)نصاری تثلیث کے قائل تھے انکا یہ عقیدہ بدایتہ باطل تھا۔

قرآن مجید نے اسکا رد فرمایا

لَقَدۡ کَفَرَ الَّذِیۡنَ قَالُوۡۤا اِنَّ اللّٰہَ ثَالِثُ ثَلٰثَۃٍ۔

(سورۃ المائدہ آیت نمبر 73)
بیشک کافر ہوئے جنہوں نے کہا اللہ ہے تین(معبودوں) میں سے تیسرا ہے۔

نیز فرمایا:
وَ مَا مِنۡ اِلٰہٍ اِلَّاۤ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ(المائدہ 73)

حالانکہ (کوئی معبود نہیں بجز ایک معبود کے)

2)نصاری الوہیت مسیحؑ کے قائل تهے انکا یہ عقیدہ بهی بداہتہ باطل تھا چنانچہ صراحتا قرآن مجید نے
اسکی تردید فرمائی۔

لَقَدۡ کَفَرَ الَّذِیۡنَ قَالُوۡۤا اِنَّ اللّٰہَ ہُوَ الۡمَسِیۡحُ ابۡنُ مَرۡیَمَ(آلمائدہ 72)

وہ لوگ یقینا کافر ہوچکے ہیں جنہوں نے یہ کہا ہے کہ اللہ مسیح ابن مریم ہی ہے۔

نیز فرمایا:
مَا الۡمَسِیۡحُ ابۡنُ مَرۡیَمَ اِلَّا رَسُوۡلٌ(آلمائدہ 75)
(نہیں ہے مسیح مریم کا بیٹا مگر رسول)

3)نصاری عیسی بن مریمؑ کو ابن مریم قرار دیتے تھے.
وَ قَالَتِ النَّصٰرَی الۡمَسِیۡحُ ابۡنُ اللّٰہ(توبہ 30)

(اور نصاری نے کہا مسیح اللہ کا بیٹا ہے)

انکا یہ عقیدہ بھی بداہتہ باطل تھا۔قرآن مجید نے صراحتاً اسکی بھی تردید فرمائی۔
قُلۡ ہُوَ اللّٰہُ اَحَدٌ ۔اَللّٰہُ الصَّمَد۔ لَمۡ یَلِدۡ ۬ۙ وَ لَمۡ یُوۡلَدۡ۔ وَ لَمۡ یَکُنۡ لَّہٗ کُفُوًا اَحَدٌ۔
(سورۃ الاخلاص)

(تو کہہ دو وہ اللہ ایک ہے اللہ بےنیاز ہے نہ کسی کو جنا نہ کسی سے جنا اور نہیں اسکے جوڑ کا کوئی)
نیز سورہ مریم کی آیات 90 تا 92 پہلے گزر چکی ہیں غرض نصاریٰ کے اس عقیدہ باطل کی بهی قرآن مجید نے تردید کی۔

4)نصاری کا عقیدہ تها کہ مسیحؑ پھانسی پر چڑھ کر ہمارے گناہوں کا کفارہ ہو گئے انکے عقیدہ کفارہ کی بنیاد مسیحؑ علیہ السلام کا صلیب پر چڑھنا تها۔قرآن مجید نے اسکی تردید کی۔
وماصبلوہ (النساء 157)

کہ وہ قطعاً پھانسی پر نہیں چڑھائے گئے۔

تو عقیدہ کفارہ کی بنیاد ہی قرآن مجید نے گرا دی کہ جب وہ سرے سے ہی صلیب پر نہیں چڑھائے گئے تو تمہارے گناہوں کا کفارہ کا عقیدہ ہی سرے سے بےنیاز ہوا۔
چونکہ یہ عقیدہ اصولاً غلط تھا۔چنانچہ قرآن مجید نے صرف نفی صلیب پہ
اکتفاء نہیں کیا بلکہ واقعاتی تردید کے ساتھ ساتھ اصولی اور معقولی تردید بهی کی۔

وَ لَا تَزِرُ وَازِرَۃٌ وِّزۡرَ اُخۡرٰی (فاطر18)

(اور کوئی بوجھ اٹھانے والا کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا)

نیز فرمایا:

فَمَنۡ یَّعۡمَلۡ مِثۡقَالَ ذَرَّۃٍ خَیۡرًا یَّرَہٗ۔وَ مَنۡ یَّعۡمَلۡ
مِثۡقَالَ ذَرَّۃٍ شَرًّا یَّرَہ۔ (زلزال 7-8)

چنانچہ جس نے ذرہ برابر کوئی اچھائی کی ہوگی وہ اسے دیکھے گا۔اور جس نے ذرہ برابر کوئی برائی کی ہوگی،وہ اسے دیکھے گا۔

اسےمرزا قادیانی کو بهی تسلیم ہے کہ نصاریٰ کا عقیدہ تها کہ
مسیحؑ عیسائیوں کے گناہ کے لئے کفارہ ہوا۔"

(ازالہ اوہام حصہ اول صفحہ 374 مندرجہ روحانی خزائن جلد 3 ص 292)

عیسائیوں کا کفارے کا عقیدہ غلط تھا تو قرآن نے اس کا رد کیا۔

عیسائیوں کا ایک عقیدہ یہ بھی تھا کہ سیدنا عیسیؑ کو اللہ تعالٰی نے آسمان پر اٹھا لیا ہے اور اب وہ دوبارہ واپس
زمین پر تشریف لائیں گے۔

خود مرزاقادیانی نے لکھا ہے کہ

"اس خیال پر تمام فرقے نصاری کے متفق ہیں کہ (سیدنا عیسیؑ) آسمان پر اٹھائے گئے۔"

(ازالہ اوہام حصہ اول صفحہ 248 مندرجہ روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 225)
لیکن قرآن پاک نے عیسائیوں کے اس عقیدے کا رد نہیں کیا۔بلکہ اس عقیدے کو بیان کیا۔تاکہ قیامت تک کے لوگوں کو پتہ چل سکے کہ سیدنا عیسیؑ کو اللہ تعالٰی نے اپنی طرف اٹھا لیا تھا اور اب وہ قرب قیامت واپس زمین پر تشریف لائیں گے۔

جیسا کہ مندرجہ ذیل آیات میں سیدنا عیسیؑ کے آسمان پر
اٹھائے جانے اور قرب قیامت واپس تشریف لانے کا ذکر ہے۔ان آیات کے بارے میں تفصیلی گفتگو آنے والے اسباق میں ہوگی۔جب رفع و نزول سیدنا عیسیؑ پر دلائل آیئں گے۔
فی الحال آیات اور ان کا ترجمہ ملاحظہ فرمائیں۔

وَّ قَوۡلِہِمۡ اِنَّا قَتَلۡنَا الۡمَسِیۡحَ عِیۡسَی ابۡنَ مَرۡیَمَ

ا
رَسُوۡلَ اللّٰہِ ۚ وَ مَا قَتَلُوۡہُ وَ مَا صَلَبُوۡہُ وَ لٰکِنۡ شُبِّہَ لَہُمۡ ؕ وَ اِنَّ الَّذِیۡنَ اخۡتَلَفُوۡا فِیۡہِ لَفِیۡ شَکٍّ مِّنۡہُ ؕ مَا لَہُمۡ بِہٖ مِنۡ عِلۡمٍ اِلَّا اتِّبَاعَ الظَّنِّ ۚ وَ مَا قَتَلُوۡہُ یَقِیۡنًۢا ۔ بَلۡ رَّفَعَہُ اللّٰہُ اِلَیۡہِ ؕ
وَ کَانَ اللّٰہُ عَزِیۡزًا حَکِیۡمًا۔

اور (یہودیوں نے)یہ کہا کہ:ہم نے اللہ کے رسول مسیح ابن مریم کو قتل کردیا تھا،حالانکہ نہ انہوں نے عیسیٰ کو قتل کیا تھا،نہ انہیں سولی دے پائے تھے،بلکہ انہیں اشتباہ ہوگیا تھا۔اور حقیقت یہ ہے کہ جن لوگوں نے اس بارے میں اختلاف کیا ہے
وہ اس سلسلے میں شک کا شکار ہیں،انہیں گمان کے پیچھے چلنے کے سوا اس بات کا کوئی علم حاصل نہیں ہے،اور یہ بالکل یقینی بات ہے کہ وہ عیسیٰ کو قتل نہیں کر پائے۔بلکہ اللہ نے انہیں اپنے پاس اٹھا لیا تھا،اور اللہ بڑا صاحب اقتدار،بڑا حکمت والا ہے۔

(سورۃ النساء آیت نمبر 157،158)
سیدنا عیسیؑ قرب قیامت کی نشانیوں میں سے ہیں یعنی ان کا دوبارہ زمین پر تشریف لانا اس بات کی نشانی ہے کہ قیامت قریب آگئی ہے۔اس کا ذکر درج ذیل آیت میں ہے۔

وَ اِنَّہٗ لَعِلۡمٌ لِّلسَّاعَۃِ فَلَا تَمۡتَرُنَّ بِہَا وَاتَّبِعُوۡنِ ؕ ہٰذَا صِرَاطٌ مُّسۡتَقِیۡمٌ۔
اور یقین رکھو کہ وہ ( یعنی عیسیٰؑ) قیامت کی ایک نشانی ہیں۔اس لیے تم اس میں شک نہ کرو،اور میری بات مانو،یہی سیدھا راستہ ہے۔

(سورۃ الزخرف آیت نمبر 61)

اب آتے ہیں اصل سوال کی طرف جس کے لئے اتنی تمہید باندھنی پڑی۔

قادیانیوں کہتے ہیں کہ سیدنا عیسیؑ کے رفع و نزول کا عقیدہ
عیسائیوں کا تھا اور مسلمانوں نے اسے قبول کیا۔

مرزاقادیانی نے لکھا ہے کہ

"ان عقیدہ حیاتہ قد جاءت فی المسلمین من الملتہ النصرانیہ۔"

حیات عیسیؑ کا عقیدہ مسلمانوں میں عیسائیوں سے آیا۔

(ضمیمہ حقیقة الوحی۔الاستفتاء صفحہ 39 مندرجہ روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 660)
ہم کہتے ہیں بالکل یہ عقیدہ عیسائیوں کا تھا کہ سیدنا عیسیؑ کو اللہ تعالی نے آسمانوں پر اٹھالیا تھا اور وہ دوبارہ زمین پر تشریف لایئں گے۔جیسا کہ عیسائیوں کی کتب میں موجود ہے۔

1)خداوند یسوع سے کلام کرنے کے بعد (سیدنا عیسیؑ) کو آسمان پر اٹھایا گیا۔

(مرقس باب 16 آیت 19)
2)ان (حواریوں) سے جا ہوگیا اور آسمان پر اٹھالیاگیا۔

(لوقا باب 24 آیت 52)

3)اس وقت لوگ ابن آدم (سیدنا عیسیؑ) کو بڑی قدرت اور جلال کے ساتھ بادلوں میں آتے دیکھیں گے۔

(مرقس باب 13 آیت 26)

اس کے علاوہ حضورﷺ نے قسم کھاکر ارشاد فرمایا ۔
قَالَ رَسُولُ اللَّهِﷺ:وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَيُوشِكَنَّ أَنْ يَنْزِلَ فِيكُمُ ابْنُ مَرْيَمَ حَكَمًا مُقْسِطًا، فَيَكْسِرَ الصَّلِيبَ، وَيَقْتُلَ الْخِنْزِيرَ، وَيَضَعَ الْجِزْيَةَ، وَيَفِيضَ الْمَالُ حَتَّى لَا
يَقْبَلَهُ أَحَدٌ۔

رسول اللہﷺ نے فرمایا:اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے،وہ زمانہ آنے والا ہے جب ابن مریم ( عیسیٰؑ) تم میں ایک عادل اور منصف حاکم کی حیثیت سے اتریں گے۔وہ صلیب کو توڑ ڈالیں گے،سوروں کو مار ڈالیں گے اور جزیہ کو ختم کر دیں گے۔اس وقت مال کی اتنی زیادتی
ہو گی کہ کوئی لینے والا نہ رہے گا۔

(بخاری حدیث نمبر 2222)

قرآن مجید نے عیسائیوں کے اس عقیدے کا رد نہیں کیا کہ یہ عقیدہ غلط ہے۔بلکہ اس عقیدے کو قرآن مجید نے بھی بیان کیا ہے۔اور اس عقیدے کے بارے میں آپ ﷺ کی قریبا 116 احادیث بھی موجود ہیں۔
اگر عیسائیوں کا یہ عقیدہ غلط تھا تو قرآن کو اس عقیدے کا رد کرنا چاہیے تھا۔لیکن قرآن نے اس عقیدے کو بیان کیا اور حضورﷺ کی احادیث مبارکہ سے اس کی وضاحت ہوتی ہے۔ پتہ چلا کہ یہ عقیدہ حق ہے۔اور اس عقیدے کا انکار کرنا قرآن،احادیث اور تواتر کا انکار کرنا ہے۔جو کہ کفر ہے۔
اب دیکھتے ہیں کہ مرزا صاحب نے رفع و نزول سیدنا عیسیؑ کے متعلق کیا لکھا ہے۔

سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ مرزا صاحب نے لکھا ہے کہ رفع و نزول سیدنا عیسیؑ کا عقیدہ تواتر سے ثابت ہے۔جیسا کہ مرزا صاحب کی درج ذیل تحریرات سے ثابت ہوتا ہے۔

مرزا صاحب نے لکھا ہے کہ
"ہمیں اس بات کو اول درجے کی دلیل قرار دینا چاہیے کہ ایک قوم باوجود ہزاروں اور لاکھوں اپنے افراد کے پھر ایک بات پر متفق ہو۔"

(ایام الصلح صفحہ 63 مندرجہ روحانی خزائن جلد 14 صفحہ 298)
پھر مرزا صاحب نے تواتر کے بارے میں لکھا ہے کہ

"تواتر ایک ایسی چیز ہے کہ اگر غیر قوموں کی تواریخ سے بھی پایا جائے تو تب بھی ہمیں قبول کرنا ہی پڑتا ہے۔"

(ازالہ اوہام حصہ دوم صفحہ 556 مندرجہ روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 399)

سیدنا عیسیؑ کے نزول کے بارے میں مرزا صاحب نے لکھا ہے کہ
"پس کمال درجہ کی بدنصیبی اور بھاری غلطی ہے کہ یک لخت تمام حدیثوں کو ساقط الاعتبار سمجھ لیں۔اور ایسی متواتر پیشگوئیوں کو جو خیر القرون میں ہی تمام ممالک اسلام میں پھیل گئی تھیں۔اور مسلمات میں سے سمجھی گئی تھیں بمد موضوعات داخل کردیں۔یہ بات پوشیدہ نہیں کہ مسیح ابن مریم کے آنے کی
پیشگوئی ایک اول درجے کی پیشگوئی ہے۔جس کو سب نے بالاتفاق قبول کر لیا ہے۔اور جس قدر صحاح میں پیشگوئیاں لکھی گئی ہیں۔کوئی پیشگوئی اس کے ہم پہلو اور ہم وزن ثابت نہیں ہوتی۔تواتر کا اول درجہ اس کو حاصل ہے۔انجیل بھی اس کی مصدق ہے۔اب اس قدر ثبوت پر پانی پھیرنا اور یہ کہنا کہ یہ تمام
حدیثیں موضوع ہیں۔ درحقیقت ان لوگوں کا کام ہے۔جن کو خدائے تعالٰی نے بصیرت دینی اور حق شناسی سے کچھ بھی حصہ اور بخرہ نہیں دیا۔اور بباعث اس کے کہ ان لوگوں کے دلوں میں قال اللہ اور قال الرسول کی عظمت باقی نہیں رہی۔اس لئے جو بات ان کی اپنی سمجھ سے بالاتر ہو۔اس کو محالات اور ممتنعات
میں داخل کر لیتے ہیں۔"

(ازالہ اوہام حصہ دوم صفحہ 557 مندرجہ روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 400)

اس کے علاوہ مرزا صاحب نے تواتر کے انکار کے بارے میں لکھا ہے کہ
تواتر کا انکار کرنا گویا اسلام کا انکار کرنا ہے۔"

(کتاب البریہ صفحہ 173 مندرجہ روحانی خزائن جلد 13 صفحہ 206)

مرزا صاحب کا سیدنا عیسیؑ کے رفع و نزول کے بارے میں پہلے یہی عقیدہ رہا کہ سیدنا عیسیؑ کو اللہ تعالٰی نے آسمان پر اٹھا لیا تھا اور اب وہ قرب قیامت واپس زمین پر تشریف
جیسا کہ مرزا صاحب کی اس تحریر سے ثابت ہے۔

"میرا بھی یہی اعتقاد تھا کہ حضرت عیسیؑ آسمان سے نازل ہوں گے۔"

(حقیقة الوحی صفحہ 148 مندرجہ روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 152)
عد میں مرزا صاحب نے اپنے عقیدے کو تبدیل کیا۔اور پہلے جس عقیدے کے انکار کو اسلام کا انکار کہا بعد میں خود ہی اس
عقیدے کا انکار کردیا۔

بلکہ حیات سیدنا عیسیؑ کا عقیدہ رکھنے والے کو مشرک قرار دے دیا۔

(ضمیمہ حقیقة الوحی۔الاستفتاء صفحہ 39 مندرجہ روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 660)
پھر حیات سیدنا عیسیؑ کے عقیدے کے متعلق لکھا کہ

"اول تو یہ جاننا چاہیئے کہ مسیحؑ کے نزول کا عقیدہ کوئی ایسا عقیدہ نہیں ہے۔جو ہمارے ایمانیات کی جزو ہو یا ہمارے دین کے رکنوں میں سے کوئی رکن ہو۔بلکہ صدہا پیشگوئیوں میں سے یہ ایک پیشگوئی ہے
جس کا حقیقت اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔"

(ازالہ اوہام حصہ اول 140 مندرجہ صفحہ روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 171)

مرزا صاحب کے مطابق رفع و نزول سیدنا عیسیؑ کا مسئلہ 13 صدیوں تک چھپا رہا اور تمام مسلمان 13 صدیوں تک مشرکانہ عقیدے پر قائم رہے۔

جیسا کہ مرزا صاحب نے لکھا ہے کہ
"ولکن ما فھم المسلمون حقیقتہ۔لان اللہ تعالٰی اراد اخفاءہ۔ فغلب قضاءہ ومکرہ وابتلاءہ علی الافھام فصرف وجوھھم عن الحقیقتہ الروحانیہ الی الخیالات الجسمانیہ فکانو بھا من القانعین و بقی ھذا الخبر مکتوبا مستورا کالحب فی السنبلتہ قرنا بعد قرن حتی جاء زماننا"
لیکن مسلمان اس کی حقیقت کو نہیں سمجھے۔کیونکہ اللہ تعالٰی نے ارادہ کیا تھا کہ اس کو مخفی رکھے۔پس اللہ کی قضاء،اس کی تقدیر اور اس کی آزمائش لوگوں کے فہم پر غالب آگیئں۔اس لئے لوگ اس کی روحانی حقیقت سے ہٹ کر اس کے جسمانی خیالات کی طرف سوچنے لگے۔اور اسی پر وہ قناعت کر گئے۔یہ خبر کئی
صدیوں تک یونہی چھپی رہی۔جس طرح کہ دانہ خوشے میں چھپا رہتا ہے۔یہاں تک کہ ہمارا زمانہ آگیا۔

(آئینہ کمالات اسلام صفحہ 552 مندرجہ روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 552،553)

مرزا صاحب کی اس تحریر سے اور دوسری تحریرات سے پتہ چلا کہ 13 صدیوں سے حیات عیسیؑ کا مسئلہ چھپا رہا جس طرح دانہ خوشے
میں چھپا رہتا ہے۔اور یہ مسئلہ مرزاقادیانی پر کھولا گیا۔

جیسا کہ مرزا صاحب نے لکھا ہے:

"مجھ سے پہلے مسلمانوں کا ذہن اللہ تعالٰی نے جسمانی نزول کی طرف پھیرا لیکن میرے اوپر یہ راز کھلا کہ یہ نزول جسمانی نہیں ہے بلکہ روحانی ہے۔"
(آئینہ کمالات اسلام صفحہ 553 مندرجہ روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 553)

مرزا صاحب سے پہلے 1300 سال کے مسلمانوں کا عقیدہ یعنی حضورﷺ کے دور سے لے کر مرزا صاحب تک کے تمام مسلمانوں کا عقیدہ سیدنا عیسیؑ کے جسمانی رفع و نزول کا تھا۔

جیسا کہ خود مرزا صاحب نے لکھا ہے کہ
"ایک دفعہ ہم دلی گئے۔ہم نے وہاں کے لوگوں کوکہا کہ تم نے 1300 برس سے یہ نسخہ استعمال کیا ہے کہ آنخضرتﷺ کو مدفون اور حضرت عیسیؑ کو آسمان پر زندہ بٹھایا۔۔۔۔ اب دوسرا نسخہ ہم بتاتے ہیں کہ حضرت عیسیؑ علیہ السلام کو فوت شدہ مان لو۔"

(ملفوظات جلد 5 صفحہ 579)
اسی بات کی تائید قادیانیوں کے دوسرے خلیفہ مرزا صاحب کے بیٹے مرزا بشیر الدین محمود نے بھی کی ہے۔

مرزا بشیر الدین محمود نے لکھا ہے کہ

"پچھلی صدیوں میں قریبا سب دنیا کے مسلمانوں میں مسیحؑ کے زندہ ہونے پر ایمان رکھا جاتا تھا۔اور بڑے بڑے بزرگ اسی عقیدہ پر فوت ہوئے۔اور نہیں کہ سکتے
کہ وہ مشرک فوت ہوئے۔گو اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ مشرکانہ عقیدہ ہے۔حتی کہ حضرت مسیح موعود (مرزا صاحب) باوجود مسیح موعود کا خطاب پانے کے دس سال تک یہی خیال کرتے رہے کہ مسیحؑ آسمان پر زندہ ہے۔"

(انوار العلوم جلد 2 صفحہ 463)
مرزا صاحب نے ایک کتاب "براہین احمدیہ" لکھی۔اس کتاب کے بارے میں مرزا صاحب نے لکھا ہے کہ اس کتاب کو حضورﷺ کی تائید حاصل ہے۔اور اسی کتاب میں مرزاقادیانی نے "محمد الرسول اللہ" ہونے کا دعوی کیا ہے۔اور مزے کی بات یہ ہے کہ اسی کتاب میں مرزا صاحب نے سیدنا عیسیؑ کے جسمانی رفع و نزول کا
عقیدہ لکھا ہے۔

جیسا کہ مرزا صاحب نے لکھا ہے کہ

"براہین احمدیہ میں میں نے یہ لکھا تھا کہ مسیح ابن مریم آسمان سے نازل ہوگا۔مگر بعد میں یہ لکھا کہ آنے والا مسیح میں ہی ہوں۔"

(حقیقة الوحی صفحہ 148 مندرجہ روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 152،153)

اس سے پتہ چلا کہ مرزاقادیانی نے جب
نعوذ باللہ "محمد الرسول اللہ" ہونے کا دعوی کیا تو اس وقت بھی مرزاقادیانی حیات عیسیؑ اور ان کے جسمانی نزول کا قائل تھا۔حالانکہ بعد میں اسی عقیدے کو شرک لکھا۔اب آپ خود فیصلہ کریں کہ کیا ایک مشرک نبی بن سکتا ہے؟؟
قارئین اصل میں ہمارا اور قادیانیوں کا اختلاف حیات عیسیؑ کے مسئلے پر یہ ہے کہ ہم کہتے ہیں کہ سیدنا عیسیؑ جو بنی اسرائیل کے رسول تھے ان کو اللہ نے آسمان پر اٹھا لیا تھا اور وہ اس امت میں دوبارہ نازل ہوں گے۔ جبکہ مرزا صاحب اور قادیانی جماعت کا موقف یہ ہے کہ سیدنا عیسیؑ فوت ہوگئے ہیں
اور ان کی روحانی صفات والے کسی مسیح نے آنا تھا اور وہ مرزا غلام احمد ہے۔

حالانکہ مرزا صاحب اور ان کے بیٹے کے حوالے آپ نے ملاحظہ فرمالئے کہ مرزا صاحب کے آنے سے پہلے حضورﷺ کے دور سے لے کر مرزا صاحب تک تمام مسلمانوں جن میں صحابہ کرام ؓ،تمام مجددین،فقھاء،مفسرین اور اولیاء اللہؒ
شامل ہیں ان کا یہی عقیدہ تھا کہ سیدنا عیسیؑ کو اللہ تعالٰی نے آسمان پر اٹھا لیا تھا اور وہ قرب قیامت نازل ہوں گے۔

جبکہ مرزا صاحب نے نیا عقیدہ خود سے گھڑا جو 13 صدیوں کے مسلمانوں کے عقیدے کے خلاف تھا۔کیونکہ اگر مرزا صاحب کے عقیدے کو صحیح تسلیم کریں تو اس کا یہ مطلب ہے کہ حضورﷺ
کے دور سے لے کر مرزا صاحب تک سب مشرک ہی رہے۔حالانکہ یہ بات عقلی اور نقلی لحاظ سے غلط ہے۔

اب مرزا صاحب کے وہ حوالے ملاحظہ فرمائیں جس میں مرزا صاحب نے مثیل مسیح ہونے کے دعوے کئے ہیں۔

"میں نے صرف مثیل مسیح ہونے کا دعوی کیا ہے۔اور میرا یہ ایمان بھی نہیں کہ صرف مثیل مسیح ہونا میرے
میرے پر ہی ختم ہوگیا ہے۔بلکہ میرے نزدیک ممکن ہے کہ آیئندہ زمانوں میں میرے جیسے اور بھی دس ہزار مثیل مسیح آجایئں۔۔۔کسی زمانے میں ایسا مسیح بھی آجائے جس پر حدیثوں کے بعض ظاہری الفاظ صادق آجایئں۔"

(ازالہ اوہام حصہ اول صفحہ 190 مندرجہ روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 192)
ایک اور جگہ لکھا ہے کہ

"اس عاجز نے جو مثیل موعود ہونے کا دعوی کیا ہے جس کو بعض کم فہم مسیح موعود خیال کر بیٹھے ہیں۔"

(ازالہ اوہام حصہ اول صفحہ 190 مندرجہ روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 192)
"خلاصہ کلام"

قرآن مجید نے عیسائیوں کے اس عقیدے کا رد نہیں کیا کہ یہ عقیدہ غلط ہے۔بلکہ اس عقیدے کو قرآن مجید نے بھی بیان کیا ہے۔اور اس عقیدے کے بارے میں آپﷺ کی قریبا 116 احادیث بھی موجود ہیں۔

اگر عیسائیوں کا یہ عقیدہ غلط تھا تو قرآن کو اس عقیدے کا رد کرنا چاہیے تھا۔لیکن قرآن
نے اس عقیدے کو بیان کیا اور حضورﷺ کی احادیث مبارکہ سے اس کی وضاحت ہوتی ہے۔ پتہ چلا کہ یہ عقیدہ حق ہے۔اور اس عقیدے کا انکار کرنا قرآن اور احادیث کا انکار کرنا ہے۔ جو کہ کفر ہے۔

مرزا صاحب نے حیات و نزول سیدنا عیسیؑ کے عقیدے کو پہلے تواتر کہا اور تواتر سے انکار کرنے والے کو
اسلام کا انکار کرنے والا کہا پھر خود ہی تواتر کا انکار کر دیا۔

مرزا صاحب نے حیات و نزول سیدنا عیسیؑ کے عقیدے کو شرک قرار دیا ہے۔حالانکہ خود مرزا صاحب نے تسلیم کیا ہے کہ حضورﷺ کے دور سے لے کر مرزا صاحب تک سارے مسلمان سیدنا عیسیؑ کے جسمانی رفع و نزول کے قائل تھے۔
مرزا صاحب نے رفع و نزول سیدنا عیسیؑ کے عقیدے کو شرک قرار دیا ہے خود اپنی زندگی کے 52 سال اسی عقیدے پر قائم رہے۔

مرزا صاحب نے رفع و نزول سیدنا عیسیؑ کے عقیدے کو شرک قرار دیا ہے خود اس کو اس کتاب میں نقل کیا جس کتاب کو بقول مرزا صاحب رسول اللہﷺ سے تائید حاصل تھی۔
مرزا صاحب نے رفع و نزول سیدنا عیسیؑ کے عقیدے کو شرک قرار دیا ہے خود نعوذ باللہ "محمد الرسول اللہ" کا لقب پانے کے بعد بھی اسی شرکیہ عقیدے میں مبتلا رہے۔

مرزا صاحب کہتے ہیں کہ 1300 سال کے مسلمانوں کو جن میں صحابہ کرام ؓ بھی شامل ہیں ان کو پتہ نہیں چلا لیکن مجھے پتہ چل گیا کہ
سیدنا عیسیؑ کے نزول سے مراد یہ ہے کہ ان کے کسی مثیل نے آنا تھا اور وہ مسیح میں ہی ہوں۔اور میرے جیسے دس ہزار مسیح بھی آسکتے ہیں۔

مرزا صاحب نے عقیدہ اور الفاظ وہی لئے ہیں جو 1300 سال سے مسلمانوں میں رائج تھے۔ لیکن ان کا مفہوم 1300 سال سے مسلمانوں سے ہٹ کر لیا ہے۔اور یہ ہٹ کر
مفہوم لینا ہمارے نزدیک تو کفر ہے ہی لیکن یہ مرزا صاحب کے نزدیک بھی کفر ہے۔

(رفع و نزول سیدنا عیسیؑ کے بارے میں قرآن مجید سے دلائل اور احادیث مبارکہ آنے والے اسباق میں بتائی جائیں گی)

"مرزا صاحب کی ایک دلیل کا رد"

قادیانی کہتے ہیں کہ سیدنا عیسیؑ فوت ہوگئے ہیں اور قرب قیامت
واپس زمین پر تشریف نہیں لائیں گے۔اس کی دلیل یہ ہے کہ

مرزا صاحب نے لکھا ہے کہ

"کسی جسم عنصری کا آسمان پر جانا محال ہے۔"

(ازالہ اوہام حصہ اول صفحہ 47 مندرجہ روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 126)

مرزا صاحب کی اس دلیل کے بہت سے جوابات ہیں۔ملاحظہ فرمائیں۔
جواب نمبر 1

جس طرح حضورﷺ کا واقعہ معراج میں آسمان پر جانا اور پھر واپس آنا حق ہے اس طرح سیدنا عیسیؑ کا بھی آسمان پر جانا اور پھر واپس آنا حق ہے۔

(بخاری حدیث نمبر 349)

جواب نمبر 2

جس طرح سیدنا آدمؑ آسمان سے زمین پر تشریف لا سکتے ہیں اسی طرح سیدنا عیسیؑ بھی آسمان سے زمین پر
تشریف لائیں گے۔

جواب نمبر 3

مرزا صاحب نے لکھا ہے کہ

"بابا گرونانک کا چوغا آسمان سے آسکتا ہے۔"

(ست بچن صفحہ 37 مندرجہ روحانی خزائن جلد 10 صفحہ 157)
پس جس طرح بابا گرونانک کا چوغا آسمان سے آسکتا ہے اسی طرح سیدنا عیسیؑ بھی آسمان سے تشریف لائیں گے۔

جواب نمبر 4

جس طرح عامر بن فہیرہ ؓ کا غزوہ بیئر معونہ میں شہید ہوکر جنازہ آسمان پر جا سکتا ہے۔ اسی طرح سیدنا عیسیؑ بھی آسمان پر گئے ہیں۔

(بخاری حدیث نمبر 4093)
جواب نمبر 5

مرزا صاحب نے لکھا ہے کہ
دو نبیوں کا آسمان پر جانا ثابت ہے۔
1)حضرت ادریسؑ
2)حضرت عیسیؑ

(توضیح المرام صفحہ 3 مندرجہ روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 52)
پس جس طرح عیسیؑ آسمان پر جا سکتے ہیں اسی طرح واپس زمین پر بھی آسکتے ہیں۔

• • •

Missing some Tweet in this thread? You can try to force a refresh
 

Keep Current with BinGhazi

BinGhazi Profile picture

Stay in touch and get notified when new unrolls are available from this author!

Read all threads

This Thread may be Removed Anytime!

PDF

Twitter may remove this content at anytime! Save it as PDF for later use!

Try unrolling a thread yourself!

how to unroll video
  1. Follow @ThreadReaderApp to mention us!

  2. From a Twitter thread mention us with a keyword "unroll"
@threadreaderapp unroll

Practice here first or read more on our help page!

More from @BinteGhazi18

10 Sep
"مسئلہ رفع و نزول سیدنا عیسیؑ پر چند ابتدائی گزارشات"

"مسلمانوں کا عقیدہ"

مسلمانوں کا اجماعی عقیدہ یہ ہے کہ سیدنا عیسیؑ علیہ السلام کو یہود نہ قتل کر سکے اور نہ صلیب دے سکے۔بلکہ اللہ تعالٰی نے ان کو آسمان پر اٹھا لیا اور اب وہ قرب قیامت واپس زمین پر تشریف لائیں گے۔ہمارا عقیدہ
قرآن، حدیث،اجماع اور تواتر سے ثابت ہے۔

"قادیانیوں کا عقیدہ"

قادیانیوں کا عقیدہ یہ ہے کہ یہود نے سیدنا عیسیؑ کو صلیب پر چڑھایا اور چند گھنٹے وہ صلیب پر رہے۔لیکن وہ صلیب پر چڑھنے کی وجہ سے قتل نہیں ہوسکے۔بلکہ زخمی ہوگئے۔
تین گھنٹے کے بعد آپؑ کو صلیب سے زخمی حالت میں اتارا گیا
پھر آپؑ کو ایک غار میں لے جایا گیا وہاں آپؑ کی مرہم پٹی کی گئی۔پھر آپؑ صحت یاب ہوگئے۔اس کےبعد سیدنا عیسیؑ اپنی والدہ حضرت مریمؑ کو ساتھ لے کر فلسطین سے افغانستان کے راستے سے کشمیر چلے گئے۔کشمیر میں 87 برس زندہ رہے۔پھر سیدنا عیسیؑ کی وفات ہوئی۔اور کشمیر کے محلہ خان یار میں ان کی
Read 41 tweets
30 Aug
آیت خاتم النبیین کی علمی تحقیقی تفسیر"*

قرآن مجید میں اللہ تعالٰی فرماتے ہیں۔

*مَا کَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنۡ رِّجَالِکُمۡ وَ لٰکِنۡ رَّسُوۡلَ اللّٰہِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَ ؕ وَ کَانَ اللّٰہُ بِکُلِّ شَیۡءٍ عَلِیۡمًا ۔*
محمدﷺ تم مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں
لیکن وہ اللہ کے رسول ہیں،اور تمام نبیوں میں سب سے آخری نبی ہیں،اور اللہ ہر بات کو خوب جاننے والا ہے۔

*(سورۃ الاحزاب آیت نمبر 40)*
"آیت کا شان نزول"*

عرب معاشرے میں یہ قبیح رسم موجود تھی کہ وہ لےپالک بیٹے کو حقیقی بیٹا سمجھتے تھے اور اس لےپالک کو تمام احوال و احکام میں بھی حقیقی بیٹا ہی سمجھتے تھے اور مرنے کے بعد وراثت،حلت و حرمت،رشتہ،ناطہ وغیرہ تمام احکام میں بھی حقیقی بیٹا ہی تصور کرتے تھے۔
Read 86 tweets

Did Thread Reader help you today?

Support us! We are indie developers!


This site is made by just two indie developers on a laptop doing marketing, support and development! Read more about the story.

Become a Premium Member ($3/month or $30/year) and get exclusive features!

Become Premium

Too expensive? Make a small donation by buying us coffee ($5) or help with server cost ($10)

Donate via Paypal Become our Patreon

Thank you for your support!

Follow Us on Twitter!