پاکستان میں غداری کا الزام سب سے پہلے فوجی دور میں فاطمہ جناح پر لگا۔ یہ الزام لگانے والی اسٹیبلشمنٹ کی جماعتیں تھیں جن کی اولادیں آگے چل کر ن لیگ میں شامل ہوئیں۔ گوجرانوالہ کا غلام دستگیر (ن لیگ کے سینئر نائب صدر خرم دستگیر کا باپ) تو اپنے جلسے میں کتیا کے گلے میں فاطمہ جناح
👇
کی تصویر لٹکا کر لایا کرتا تھا۔
پھر بھٹو دور میں ولی خان پر غداری کا مقدمہ درج ہوا۔
ضیا دور میں الذولفقار کی دہشتگردی کو بنیاد بناتے ہوئے پیپلزپارٹی سمیت کئی صحافیوں پر غداری کے مقدمات درج کئے گئے۔
بینظیر حکومت میں آئی تو وزیراعلی پنجاب نوازشریف نے اسے سیکیورٹی رسک قرار
👇
دے دیا، اس پر راجیو گاندھی کو علیحدگی پسند سکھوں کی فہرستیں دینے کا الزام لگایا۔
نوازشریف وزیراعظم بنا تو دی نیوز اخبار کے ایک آرٹیکل کی بنیاد پر ملیحہ لودھی پر غداری کا مقدمہ درج کروا دیا۔
زرداری صدر بنا تو نوازشریف نے میمو سکینڈل کی بنیاد پر سپریم کورٹ میں زرداری پر
👇
غداری کا مقدمہ درج کرنے کی درخواست کردی۔
مقصد کہنے کا یہ ہے کہ آج ن لیگ کی قیادت کے خلاف غداری کا مقدمہ درج ہوا تو ان حرامخوروں کی چیخیں نکل آئیں۔
غدار قرار دینے کی یہ رسم خود ن لیگ اور ان کے ناجائز باپوں نے ہی شروع کی تھی۔
ن لیگ اپنے ہی کھودے ہوئے گڑھے میں دفن ہوگئی!!!
• • •
Missing some Tweet in this thread? You can try to
force a refresh
1976 میں جب مصر کے صدر انوارالسادات نے امریکی صدر کی آفیشل سیرگاہ کیمپ ڈیوڈ میں اسرائیل کو تسلیم کرنے کامعاہدہ کیا تھا۔ تب اُسے بھی امن کی طرف ایک بڑی پیش رفت اور فلسطینیوں کے مستقبل کے تحفظ کے لیے قربانی قرار دیا گیا تھا۔ امت کے غدار اُس وقت بھی اُس تاریخی
👇
خباثت کی سنگینی کے تاثر کو بہتر بنانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگائے ہوئے تھے۔ تب مصر کے ایک ہسپتال میں کینسر سے لڑتے لڑتے نڈھال ہو جانے والے ناتواں شاعر “امل دنقل” کی ایک چیخ گونجی تھی۔ “اَمل ابو القاسم دنقل” کی بستر مرگ پر لکھی نظم “لا تصالح” (صلح مت کرنا) نے عربوں کو..
👇
جھنجوڑ ڈالا تھا۔ بلاد عرب میں “لا تصالح” فلسطین کا نوحہ بن کر بچے بچے کی زبان پر آ گئی۔ ایک نظم نے تمام اخبارات اور ریڈیو پراپیگنڈے پر بھاری پڑ گئی۔ مصر میں سادات کے خلاف بغاوت پر مشکل سے قابو پایا گیا۔ انوار السادات قابل نفرت ٹھہرا اور قتل ہو کر بھی نفرین کا مستحق رہا۔
👇
خلافت کے عظیم ترین منصب پرفائزہونے کے باوجودصدیق اکبررضی اللہ عنہ کی سادگی اورانکسارکایہ عالم تھا کہ ہمیشہ خدمتِ خلق میں مشغول ومنہمک رہاکرتے،خوداپنے ہاتھوں سے بلاجھجک دوسروں کے روزمرہ کے کام کاج کردیاکرتے،بیکسوں کی دستگیری اور
👇
ضرورتمندوں کی خبرگیری کوانہوں نے تاحیات اپنا شیوہ وشعاربنائے رکھا۔
حضرت عمربن خطاب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
’’ ابوبکررضی اللہ عنہ کے زمانۂ خلافت کے دوران میں ان کے معمولات کا جائزہ لیا کرتاتھا۔ وہ اکثر فجر کی نماز ادا کرنے جے بعد شہر سے باہر نکل جاتے اور سورج طلوع ہونے
👇
کیساتھ واپس آتے مجھے تجسس ہوا چنانچہ ایک روز میں خاموشی سے ان کے پیچھے ہولیا،وہ ایک ویران جھونپڑی کی طرف جا رہے تھے وہاں پہنچنے کے بعدوہ اس معمولی سی جھونپڑی میں داخل ہوگئے، اورپھرکچھ وقت گذرنے کے بعدوہاں سے نکلے اور واپس مدینہ شہرکی طرف چل دئیے…تب میں نے سوچاکہ میں بھی
👇
گزرے زمانے میں ایک شخص ایک گاؤں میں رھتا تھا جو خوب دل لگا کر باقائدگی کیساتھ پنچ گانہ نماز باجماعت پڑھتا تھا اس لئے لوگ اس کو محنت مزدوری کے لئے نہیں بلاتے تھے۔ شکایت یہ تھی کہ ھر گھڑی مسجد کی دوڑ لگاتا رھتا ھے۔
ایک بار زمیندار کے گھر شادی تھی۔ کام کرنے والے کم پڑ گئے تو
👇
اس کو بھی بلا لیا۔ اس نے اس شرط پر آمادگی ظائر کی کہ نماز باجماعت ھی پڑھونگا۔ زمیندار صاحب آمادہ ھو گئے۔ کام جب ختم ھوا تو اس کی مزدوری دس پیسے بنی۔ زمیندار صاحب نے اس کو چونی دی جو سولہ پیسے کی ھوتی تھی۔ وہ غریب بہت خوش ھوا۔ سر شام دکان پر پہنچا۔ گھر کی ضرورت کا سامان لیا۔
👇
ماں کے لئے گڑ بھی لیا تاکہ وہ اپنی پسند کا حلوہ بنا دے۔ دکاندار نے کہا کہ بارہ پیسے ھو گئے۔ اس غریب نے پلے سے کھول کر چونی دی۔ دکاندار نے چراغ کی رشنی میں دیکھا ، پرکھا اور چونی اس کی جھولی میں پھینک دی اور غصہ میں بولا: "ھر دم مسجد کی دوڑ لگاتے ھو اور
👇
“And [mention] Ayyub, when he called to his Lord, ‘Indeed, adversity has touched me, and you are the Most Merciful of the merciful. So We responded to him and removed what afflicted him of adversity.
👇
And We gave him [back] his family and the like thereof with them as mercy from Us and a reminder for the worshippers [of Allah ].’” (Surah al-Anbiya, 21:83-84)
👇