ایک نوجوان اپنے بوڑھے ماں باپ کے ساتھ کسی مہنگے ہوٹل میں کھانا کھانے گیا۔ ماں باپ تو نہیں چاہتے تھے، لیکن بیٹے کی خواہش تھی کہ وہ انہیں کسی مہنگے ہوٹل میں ضرور کھانا کھلائے گا، اِسی لیے اُس نے اپنی پہلی تنخواہ ملنے کی خوشی میں ماں باپ جیسی عظیم ہستیوں کے ساتھ
شہر کے مہنگے ہوٹل میں لنچ کرنے کا پروگرام بنایا۔
باپ کو رعشے کی بیماری تھی، اُسکا جسم ہر لمحہ کپکپاہٹ میں رہتا تھا، اور ضعیفہ ماں کو دونوں آنکھوں سے کم دیکھائی دیتا تھا۔ یہ شخص اپنی خستہ حالی اور بوڑھے ماں باپ کے ہمراہ جب ہوٹل میں داخل ہوا تو وہاں موجود امیر لوگوں نے سیر سے
پیر تک اُن تینوں کو یوں عجیب و غریب نظروں سے دیکھا جیسے وہ غلطی سے وہاں آ گئے ہوں۔
کھانا کھانے کیلئے بیٹا اپنے دونوں ماں باپ کے درمیان بیٹھ گیا۔ وہ ایک نوالہ اپنی ضیعفہ ماں کے منہ میں ڈالتا اور دوسرا نوالہ بوڑھے باپ کے منہ میں۔ کھانے کے دوران کبھی کبھی رعشے کی بیماری کے باعث
باپ کا چہرہ ہل جاتا تو روٹی اور سالن کے ذرے باپ کے چہرے اور کپڑوں پر گر جاتے۔ یہی حالت ماں کے ساتھ بھی تھی، وہ جیسے ہی ماں کے چہرے کے پاس نوالہ لے جاتا تو نظر کی کمی کے باعث وہ انجانے میں اِدھر اُدھر دیکھتی تو اُس کے بھی منہ اور کپڑوں پر کھانے کے داغ پڑ گئے تھے۔
اِردگرد بیٹھے لوگ جو پہلے ہی انہیں حقیر نگاہوں سے دیکھ رہے تھے، وہ اور بھی منہ چڑانے لگے کہ، "کھانا کھانے کی تمیز نہیں ہے اور اتنے مہنگے ہوٹل میں آ جاتے ہیں۔۔۔!"۔ بیٹا اپنے ماں باپ کی بیماری اور مجبوری پر آنکھوں میں آنسو چھپائے، چہرے پر مسکراہٹ سجائے۔ اِردگر کے ماحول کو نظرانداز
کرتے ہوئے، ایک عبادت سمجھتے ہوئے انہیں کھانا کھلاتا رہا۔
کھانے کے بعد وہ ماں باپ کو بڑی عزت و احترام سے واش بیسن کے پاس لے گیا، وہاں اپنے ہاتھوں سے اُنکے چہرے صاف کیے، کپڑوں پر پڑے داغ دھوئے اور جب وہ انہیں سہارا دیتے ہوئے باہر کی جانب جانے لگا تو پیچھے سے ہوٹل کے مینجر نے آواز
دی اور کہا،
"بیٹا! تم ہم سب کیلئے ایک قیمتی چیز یہاں چھوڑے جا رہے ہو۔۔۔!"
اُس نوجوان نے حیرانگی سے پلٹ کر پوچھا، "کیا چیز۔۔۔؟"
مینجر اپنی عینک اُتار کر آنسو پونچھتے ہوئے بولا۔۔۔!
"نوجوان بچوں کیلئے سبق اور بوڑھے ماں باپ کیلئے اُمید۔۔۔!
"کاپی" "منقول"
مختصرمعلوماتی اسلامی اورتاریخی اردوتحریریں پڑھنےکیلئےاکاؤنٹ فالولازمی کریں
• • •
Missing some Tweet in this thread? You can try to
force a refresh
!!!!!شمس الدّین التمش!!!!
شمس الدّین التمش قراختائی ترکوں کے ایک بہت بڑے گھرانے کا بیٹا تھا۔التمش کے باپ کا نام ایلم خاں تھا۔وہ البری قبیلے کا سردار تھا۔التمش اپنی صورت اور سیرت کے لحاظ سے اپنے تمام بھائیوں میں ممتاز تھا۔اس وجہ سے ایلم خان اسے اپنے بیٹوں میں سب سے زیادہ چاہتا تھا
التمش کے بھائی اس سے خوش نہ تھے۔التمش کےساتھ اسکے دشمنوں نے وہی سلوک کیا جو حضرت یوسف ؑکےساتھ ان کے بھائیوں نے کیا تھا۔التمش کے بھائیوں نے ترکستان کےاس یوسف (التمش) کو گلہ بانی کےبہانے سے قبیلہ البری کے یعقوب (ایلم خان) سے جدا کرکے ایک سوداگر کے ہاتھ بیچ ڈالا۔کچھ عرصے تک اس آقا
کے گھر میں التمش بڑے آرام سے پرورش پاتا رہا لیکن قسمت نے اسے یہاں بھی نہ رہنے دیا اور اسے ایک سوداگر ’’حاجی بخاری‘‘ نے خرید لیا۔اس کے بعد التمش کو سلطان قطب الدین نے خرید لیا۔التمش کے ساتھ ایک ’’ایبک‘‘ نامی غلام بھی تھا۔قطب الدین التمش پر بڑااعتماد کرتا تھا ۔یہاں تک کہ گوالیار کا
!!سلطان نور الدین زنگی!!
نور الدین زنگی ابو القاسم محمود ابن عماد الدین زنگی ترک سلطنت زنگی کے بانی عماد الدین زنگی کا بیٹا تھا جس نے تاریخ میں بڑا نام پیدا کیا۔ نور الدین فروری 1118ء میں پیدا ہوا اور 1146ء سے 1174ء تک 28 سال حکومت کی۔
اس نے عیسائیوں سے بیت المقدس واپس لینے کے لیے پہلے ایک مضبوط حکومت قائم کرنے کی کوشش کی اور اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے گرد و نواح کی چھوٹی چھوٹی مسلمان حکومتوں کو ختم کرکے ان کو اپنی مملکت میں شامل کرلیا۔ شروع میں نورالدین کا دارالحکومت حلب تھا۔
549ھ میں اس نے دمشق پر قبضہ کرکے اسے دارالحکومت قرار دیا۔ اس نے صلیبی ریاست انطاکیہ پر حملے کرکے کئی قلعوں پر قبضہ کرلیا اور بعد ازاں ریاست ایڈیسا پر مسلمانوں کا قبضہ ختم کرنے کی عیسا ئیوں کی کوشش کو بھی ناکام بنا دیا۔ دوسری صلیبی جنگ کے دوران دمشق پر قبضہ کرنے کی کوششوں کو بھی
اس نے امریکہ اور یورپ کے 55 چوٹی کے پلاسٹک سرجنز کی خدمات حاصل کیں یہاں تک کہ 1987ء تک مائیکل جیکسن کی ساری شکل وصورت‘ جلد‘ نقوش اور حرکات و سکنات بدل گئیں۔ سیاہ فام مائیکل جیکسن کی جگہ گورا چٹا اورنسوانی نقوش کا مالک ایک خوبصورت مائیکل جیکسن دنیا کے سامنے آ گیا۔
اس نے 1987ء میں بیڈ کے نام سے اپنی تیسری البم جاری کی‘ یہ گورے مائیکل جیکسن کی پہلی البم تھی‘ یہ البم بھی کامیاب ہوئی اور اس کی تین کروڑ کاپیاں فروخت ہوئیں۔ اس البم کے بعد اس نے اپنا پہلا سولو ٹور شروع کیا۔ وہ ملکوں ملکوں ‘ شہر شہرگیا ‘ موسیقی کے شو کئے اوران شوز سے کروڑوں ڈالر
کمائے۔ یوں اس نے اپنی سیاہ رنگت کو بھی شکست دے دی۔ اس کے بعد ماضی کی باری آئی ‘ مائیکل جیکسن نے اپنے ماضی سے بھاگنا شروع کر دیا‘ اس نے اپنے خاندان سے قطع تعلق کر لیا۔ اس نے اپنے ایڈریسز تبدیل کر لئے‘ اس نے کرائے پر گورے ماں باپ بھی حاصل کر لئے اور اس نے اپنے تمام پرانے دوستوں سے
اپنی ایجادات پر شرمندہ مؤجد!!!
یقیناً کوئی بھی ایسی ایجاد اپنے مؤجد کا سر فخر سے بلند کرنے کا باعث بنتی ہے جو نہ صرف دنیا میں تہلکہ مچا دے بلکہ لوگوں کے لیے آسانی پیدا کرے اور ان کے کام آئے- لیکن ایک حقیقیت یہ بھی ہے کہ بعض اوقات یہی ایجادات جب غلط مقاصد کے لیے استعمال ہونے لگتی
ہیں تو اپنے مؤجد کے لیے شرمندگی اور پچھتاوے کا سبب بن جاتی ہیں- آج کے آرٹیکل میں ہم چند ایسی ایجادات کا ذکر کریں گے جو اپنے مؤجد کے لیے شرمندگی کا سبب بن گئیں-
Alfred Nobel
الفریڈ نوبل کی زندگی انتہائی دلچسپ تھی٬ یہ ایک صنعتکار اور انجنئیر تھا- 1860 میں الفریڈ ایسا طریقے تلاش کر
رہا تھا جن کی مدد سے ایک متاثر کن دھماکہ کیا جاسکے- اور اسی تلاش کے نتیجے میں الفریڈ نائیٹرو گلیسرین اور سلیکا کی آمیزش کر کے ڈائنامائیٹ دریافت کرنے میں کامیاب ہوگیا- تاہم جب الفریڈ نے اپنی اس تخلیق کا غلط استعمال ہوتے دیکھا تو اسے انتہائی افسوس اور دکھ ہوا- یہی وجہ ہے کہ
دنیاں کا سب سے خطرناک ترین سانپ تائپن سانپ کو مانا جاتا ہے اندروں ملک تائپن کا زہر 0.05mg میورین ایل ڈی 50 ویلیو کے ساتھ سب سے زیادہ طاقتور زہر مانا جاتا ہے اس کا زہر اتنا زہریلا ہوتا ہے کہ وہ کم از کم 100 بالغ مردوں کو مار سکتا ہے۔
لیکن کیا اپ کو معلوم ہے کہ ایک ایسا جانور بھی پایا جاتا جسے دنیاں کا سب سے زہریلا جانور مانا جاتا ہے جی ہاں سنہری مینڈک(THE GOLDEN POISON FROG) کو دنیاں کا سب سے زہریلا جانور مانا جاتا ہے اس کا زہر دس سے بیس بندوں کو سیکنڈوں میں مار سکتا ہے زہریلے سنہری ڈارٹ مینڈک کے اندر
انتہائی طاقتور زہر پایا جاتا ہے
اس کا زہر کیوریرے زہر سے زیادہ پر اثر اور سایانائید سے ہزاروں گنا زیادہ خطرناک ہوتا ہے ایک مینڈک کے اندر اتنا زہر ہوتا ہے جو بیس ہزار چوہوں اور پندرہ بالغ انسانوں کو موت کی نیند سلا دے