قرآن حکیم، فرقان مجید، صحیفہ آخرین، کتاب ہدایت، منزل من اللہ، پیغام سماوی سراپا نور و ہدایت ہے جس پہلو کا مطالعہ کریں اوراق نور صرف منزل کے نشان ہی نہیں دیکھاتے بلکہ ہاتھ تھام کے منزل مراد تک لے جاتے ہیں۔
کوئی الہام، اسقام اور ابہام فکر قرآن میں ہرگز نہیں۔ واضح، بین اور روشن ہے۔ حضور خواجہ کائنات، آقائے کونین، فاتح بدروحنین، جد حسنین، امام الحرمین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر حسن و برکت، ذکر نور و نکہت،
ذکر سعادت و نعمت اور نور مبین کا مرکزی و محوری موضوع ہے۔ 6666 آیات نور کا ہر کلمہ ذکرِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔ یہ کوئی جذباتی غیر حقیقی امر نہیں حضرت شیخ محقق، محقق برحق، امام برحق، عبدالحق محدث دہلوی نے اپنے
تذکرہ’’اخبارالاخیار‘‘ میں سر زمین ہند میں ایک تفسیر قرآن حکیم کا ذکر کیا ہے جس کا مخطوطہ آپ نے خود ملاحظہ فرمایا۔ اس کا ایک ایک حرف ذکرو نعت مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نکات عظیمہ‘ مضامین عالیہ سے پرنور ہے
قرآن صاحب قرآن کی عظمتوں، رفعتوں، سطوتوں کے کیا کیا باب کھولتا ہے۔ اور ذہن پہ نور کی کیا کیا قوس و قزاح بکھیرتا ہے۔ محبتوں کی کون سی وادیاں کھولتا ہے۔ نظر کو کونسے افلاک عطا کرتا ہے۔ عقل و دانش کو کیا عظمتیں عطا کرتا ہے۔
الہامی، سماوی کتب و صحائف میں آج صرف اور صرف قرآن عظیم نظر آتا ہے بلکہ محرف کتب کا تقابلی مطالعہ قرآنی عظمت کا بین ثبوت ہے۔ اسی سے تصور نبوت و رسالت کے اعليٰ، برتر، عظیم تر خدوخال اور نقوش واضح ہوتے ہیں
اور جہاں تک آقائے ابد قرار، حضور حبیب کردگار کا ذکر پرعظمت، پررفعت، پرسطوت، پر منزلت، پرتمکنت ہے وہ اوج کمال پہ ہے۔ آیئے اپنے خودساختہ، خود پرداختہ تصورات سے تائب ہوں اور فکر قرآن کو دل و دماغ پہ رقم کریں
اللہ تعاليٰ کا فرمان
وَکَانُواْ مِنْ قَبْلُ يَسْتَفْتَحُوْنَ عَلَی الَّذِيْنَ کَفَرُوْا
کےمطابق اےمحبوب مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ کےاس بزم گیتی میں آنےسے قبل اہل کتاب آپ کی عظمتوں کےشناسا تھے، آپ کی رفعتوں کےقصیدہ خواں تھے
اور جب دوسری اقوام و ملل سے واسطہ پڑتا تو آپ کا نام نامی، اسم گرامی سے ہزار برکت لیتے اور بار الہ میں توسّل اسم محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پیش کرتےاور فتح و نصرت ان کےقدم چومتی، بلائیں راہ بدل لیتیں، مشکلیں حل ہوجاتیں،
دقتیں کافور ہوجاتیں، شدائد ہوا ہوجاتے ان کا وجود باجود لاکھوں کرم نوازیوں کا باب کیوں نہ کھولے۔
جدالانبیاء حضرت ابراہیم علیہ السلام خانہ خدا کی تعمیر کےبعد خداوند دو عالم کے حضور دست بدعا ہوئے مانگتے مانگتے جب نکتہ کمال پہ پہنچے
تو نبی باکمال، ابن باکمال، مرسل باکمال کے لئے الفاظ مبارک کے پھول لبوں پہ سج سج گئے۔ عرض کی
رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيْهِمْ رَسُوْلاً
’’بار الہ، مجھے مصطفی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بابا بنادے۔‘‘
وَمِنْ ذُرِّيَتِنَا اُمَّةً مُسْلِمَةً لَّکَ
’’اور جب سلسلہ نسب و نسل جلوہ ا فروز ہو اس کے فرد فرد کو چادر حفاظت و طہارت عطا کر۔‘قَلبِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں قبلہ براہیمی کی خواہش پہروں سے مچلتی تھی۔
لیکن جب آرزو مبارک بن کے دوران نماز آئی اور سوئے آسماں دیکھا تو دوران نماز پوری کردی گئی۔
اجابت کا سہرا عنایت کا جوڑا
دلہن بن کے نکلی دعائے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
ایک ہی مقام پہ خداوند دو عالم نے پندرہ مختلف پیراؤں، اسالیب، انداز ہائے کلام، میں فرمایا
’’فَولِّ وَجْهَکَ‘‘ فَوَلُّوْا وُجُو هَکُمْ‘‘
محبوب! چہرہ نور فزا، رخ والضحٰی، قبلۂ براہیمی کی طرف پھیر لینےکا حکم ہوا
وَيَکُونُ الرَّسُوْلُ عَلَيکُمْ شَهِيْدًا
میں وہ عظمت سے ہمکنار کیا، بہرہ یاب کیا کہ کائنات تحت و فوق دنیائے یمین و لیسار، عوالم سماوی و ارضی، اکوان مرئی و غیر مرئی کو اپنے محبوب محتشم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پہ آشکار کردیا۔
آپ ملاحظۂ کون و مکاں یوں فرمائیں جیسے ہتھیلی پہ رائی کا دانہ۔ آپ والی مدینہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظمتوں اور رفعتوں کا عالم یہ ہے کہ کتب ماسبق، صحائف ماقبل میں جگہ جگہ آپ کی عظمتوں کے ابواب کے ابواب نازل فرمائے۔ امم ماضیہ،
فَلَا وَرَبِّکَ لَا يُوْمِنُوْنَ حَتّٰی يُحَکِّمُوکَ
محبوب پیارے، دو عالم تجھ پہ نثار بھلا اس کو ایمان سے واسطہ کیا جو تجھے حاکم و حکم نہ مانے۔ جو تیری حاکمیت مطلقہ کونہ مانیں۔ جو عقل قربان کن بپیشِ مصطفی کا قائل نہ ہو،
فاطمۃ الزہراء کے بابا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تیری کتاب زندگی کے ورق ورق کی قسم، ہر نوری سطر کی قسم،
فرمایا لَعَمْرُکَ تیری ساعت ساعت، گھڑی گھڑی، لمحہ لمحہ کی قسم آپ کی عظمتوں کاکیا احاطہ کہ آپ تشریف لائے ایسے ہی منفرد،
اے خاکیو، ناسیو، ارضیو، تم میں مبعوث فرمایا۔
لَااُ قْسِمُ بِهٰذَا الْبَلَدْ
اے دعائے خلیل اے مژدہ مسیح جہاں تیرے نور بانٹتےقدم آئیں ان جگہوں کی قسم۔ اے سیاح لامکاں تو جن گلیوں میں چلے اس کے ذروں کی قسم، جو زمین تیرے قدم چومیں،
طریقہ اکمل بنایا۔ ہر راستی آپ کے قدموں سے چمٹ جانے میں ہے۔ آج ہم در بدر ٹھوکروں کی نظر کیوں؟قعرِ مزلّت ہمارا مقدر کیوں؟ اس طریقہ اعليٰ کو چھوڑ کے مغرب کی دہلیز پہ سجدہ ریز ہیں۔
دنیا میں کھو جانے والو۔ آؤ در مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پہ آؤ۔ میرا رسول اگرسوئے فلک دیکھ لو تودفتروں کے دفتر تمہارے سیاہیوں کے دھل جائیں گے۔ ارے ابھی عظمت کے آفتاب کو نیم روز کی طرح دیکھ کے بھی ہم متردد ہیں
اَلنَّبِيُ اَوْلٰی بِالْمُوْمِنِيْنَ مِنْ اَنْفُسِهِمْ
جان سے قریب تر ہونے کا ملکہ عظیمہ، قوت عظیمہ عطا فرمائی گئی۔ امتی کے احوال کا لمحہ لمحہ مکین گنبد خضريٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نگاہ غیوب داں میں ہے۔
ذکر سرور کونین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں ایک اہم ترین پہلو ذکر آداب بارگاہ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔ ایسے آداب عظیمہ، آداب دقیعہ، آداب عالیہ، آداب رفیعہ ذکر فرمائے جو اولین و آخرین میں کسی کے لئے ذکر نہ ہوئے
لَا تَقُوْلُوْا رَاعِنَا
راعنا مت کہو، لفظوں کے انتخاب کا ادب تعلیم فرمایا۔ ایسا لفظ جس کے کئی معانی ہوںاور کوئی سوئے ادب پہلو ہو تو ترک کردو۔ لفظ لفظ سوچو، غور وتعمّق کرو، فکر و تدبر کرو، صد بار سوچو، اب بولو۔
لَا تَجْعَلُوْا دُعَاءَ الرَّسُولِ کَدُعاَءِ بَعْضِکُمْ بَعْضَا.
میرے محبوب مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ بیکس پناہ میں حاضری دینے والو! سنو، پکارتے ہوئے ایسے مخاطب مت کرو جیسے بے تکلف ایک دوسرے سے کلام کرتے ہو۔
عزت بخاری نے کہا۔
ادب گاہیست زیر آسماں از عرش نازک تر
نفس گم کردہ می آید جنید و بایزید ایں جا
پکارتے ہوئے حسین لفظوں کا چناؤکرو۔ دنیا کے کسی ادبیات کے شعبہ کا مطالعہ کریں ہر ادب کہتا ہے
Proper Words in proper place
فارسی والے کہتے ہیں
’’الفاظ متناسبہ بر جگہ متناسبہ استعمال کردن ادب است‘‘، تو گویا تخاطب مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کےادب کا ہر جگہخیال رکھا جائےگاتو وہ لا محالہ ادب بن جائےگا
کہاں ہمسری، خداوند دو عالم تو آواز مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں برابری مطلقاً پسند نہیں کرتا۔ کیا یہ فکر فکرِ قرآن ہوسکتا، قرآن مجید جن کی عظمتوں کے زمزمے گنگنائے،
قرآن مجید جن کی رفعتوں کا نغمہ خواں ہو اور فکر جدیدہ کے ریزہ خوار شخصیت پرستی کے فتنہ میں مبتلا ہیں۔ قرآن سے پوچھو؟ کہ تم کس فکر کے حاشیہ بردار ہو۔ قرآن کا روشن آئینہ تم پہ واضح کررہا ہے۔
لَاتَسْءَلُوْا عَنْ اَشْيَآءَ
کا حکم ادب بارگہ مصطفی تعلیم کررہا ہے کہ بے جا موشگافیاں چھوڑو، سوالاتِ بے جا ترک کرو، مطلق سوالات کا دروازہ بند نہیں۔ احادیث مبارکہ کے نور بکھیرتے اوراق اس بات کے شاہد ہیں،
سوالات تو لاکھوں ہوئے تو پھر سوالات کو منع کرنے کا حکم کس کے لئے ہے؟ غلط مسؤلیت کا دروازہ بند کردیا گیا۔ ادب شناس بارگاہ بن کے بیٹھو۔ حضور تاجدار کون و مکان صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آرام فرمارہے ہوں تو حجرات
وَلَوْاَنَّهُمْ صَبَرُوْا حَتَّی يَخْرُجَ اِلَيْهِمْ لَکَانَ خَيْرًا لَهُمْ.
اے کاش وہ در مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پہ ادب باش ہوکے رک جاتے حتی کہ میرا پیارا تشریف لے آتا کتنا اچھا ہوتا۔
خدائے لم یزل ولایزال تو آپ کے آرام میں خلل پسند نہ کرے اور آداب عالیہ کی تعلیم فرمائے اور آج کے جدید فکر کے علم بردار گرداب شخصیت پرستی میں گم ہیں۔ پڑھو کہ قرآن مجید کس عالی ادب کو عطا کررہا ہے۔
اور قدمین مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو چومیں اور ہاتھ باندھے حاضر ہو جائیں۔ نماز عبادت الہيٰ کا اعليٰ مقام ہے۔ لیکن مصطفی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آواز مبارک سنتے ہی ایک لمحے کی تاخیر مت کرو،
بلکہ جب بھی پکاریں آ جاؤ کیونکہ مصطفےٰ کا پکارنا اللہ کے بلانے کی طرح ہے۔ اب خیال مبارک کا ڈھنڈورا پیٹنا اور بے ادبی کے گہرے گھڑے میں جاگرنا۔ کہاں ہے؟ کیا راہ فرار اب اس حکم واضح کے آنے بعد ہے؟ ہوش کے ناخن لو کہیں
کہ تم مرے محبوب مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، مونس انس و جاں کے افعال مبارکہ، اعمال سعیدہ سے ہرگز پہل نہ کرو۔ یہ تقدم فعلی، تقدم عملی بارگاہ الٰی میں گوارا نہیں
قرآن حکیم، پیغام عظیم نے ذکر مصطفی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے متعدد پہلوؤں کو نمایاں کیا۔ ہر پہلو اپنے مقام پہ عظیم تر ہے۔ خداوند دو عالم نے جس ذات مکرم
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سر تاج محبوبیت کبريٰ، تاج مقربیت عظميٰ سجایا ہے اس پہ نعم بے پایاں، احسانات بے حساب، انعامات لاتعداد ہے۔
’’کُلاًّ نُمِدُّ هٰئُوْلآءِ وَهٰئُوْلآءِ مِنْ عَطَآءِ رَبِّکَ‘‘
بلکہ کائنات تحت وفوق، پست و بالا اور سماوی و ارضی میں جتنی کرم نوازیوں کی برکھا رت ہے سب پیارے محبوب تیرے و جود مکرم کی خیرات بٹتی ہے۔ مالک و متصرف کون و مکان صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، ہادی انس و جان صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے #آقا_مرحبا_مدنی_مرحبا
ﷺ #سرمایہ_زیست
خود بھی تو فرمایا انما انا قاسم واللہ یعطی خزائن کل میری دست عطا میں ہیں دینے والا خدائے مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔
اِنَّا اَعْطَيْنٰکَ الْکَوْثَرْ
خدائے رحمن، خدائے بخشندہ نے اپنے محبوب مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو
کوثر عطا کی۔ اَعْطَيْنٰک میں عطاء اور تصرف کا یک جا اظہار فرمایا۔ الکوثر میں کثرت کی کثرت جمع کردی۔ منتہی الجموع کے بعد کسی کثرت کا تصور محال ہے۔ کثرت عطا، کثرت اولاد، کثرت مقامات، کثرت عنایات، کثرت سعادات، کثرت برکات، کثرت خزائن،
عطاء الہٰی میں ایک عظیم ترین عطا وھب ہے۔ جمیع انبیاء و مرسلین پہ اکرام الہٰی کی بارش ہوئی۔ صغر سن میں حضرت ابراہیم کو نعمت علم عظیم عطا ہوئی۔ حضرت اسماعیل ذبیح علیہ السلام کی صورت میں بیٹے کی بشارت کا ارشاد الہٰی ہوا۔
جمیع علوم و فنون کے بحرکھول دیئے۔ جمیع علوم کے خزانے آپ کے دامن مبارک میں ڈال دیئے گئے۔
خداوند دو عالم تو بے حساب عطا کرے اور آج ہم امت پیمانوں میں لانے کے لئے کوشاں ہوں۔ نہ جانے کیا کیا استدلالات کی قلابازیاں لگائی گئیں۔
ہر چند کے جبکہ قرآن گواہ ہے دنیا میں آپ کی عظمتوں، رفعتوں کا لاکھوں بار اظہار ہوا ہے۔ لیکن بزم قیامت میں آپ کی عظمتوں کا وہ منظر حسین ہوگا جس کا آج تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ کرسی محمود پہ آپ بیٹھ جائیں گے۔
غم خوار دو عالم پہ کرم نوازیوں میں اک عظیم ترین پہلو سیاحت لامکاں، قیام حریم دنی، زیارت و کلام باری شب معراج میں عطا فرمایا۔ بے حجاب زیارت الہيٰ سے نوازہ جانا خاصہ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قرار پایا۔
بعض نقاد نے حضرت جبرائیل امین کی زیارت دلقاء کو معراج مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قرار دینے کی لایعنی، مذموم کوشش کی۔ یہ عظمت ناشناسی ہے۔ یہ رفعت نادیدگی ہے، یہ منزلت عدم آگہی ہے، یہ مکانت نابلدی ہے۔
اے پیارے محبوب، کائنات تیرے وجود کا طواف کرتی ہے، شجر و حجر تیرے حضورمجرابجا لاتے ہیں۔ چاند سورج تیری بارگاہ میں ہاتھ باندھے کھڑے ہیں۔ بحرو بر تیرے حکم مبارک کا انتظارکریں، پتھر زبان محبت میں سلام عرض کرتے ہیں۔
ہاں جب آپ زبان کن و فکاں واکریں، جب آپ زبان کاشف اسرار کھولیں جب آپ زبان ہزار حکم کھولیں وہ وحی الہٰی ہےایک لفظ مبارک ارادہ ذات،منشائے ذات، خواہش ذات سے نہ ارشاد فرمائیں۔ کلام مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، کلام خدا ہے،
زبان مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم زبان خدا ہے۔ یہی سبب ہے کہ کسی نبی مکرم اوررسول محتشم کا کلام مبارک یوں محفوظیت نہ پاسکا جیسا کلام حبیب خدا کو اعزاز حاصل ہوا۔
قرآن مجید کے بہت سے مقامات ایسے ہیں جو انسان پر ہیبت طاری کر دیتے ہیں۔ ایسا ہی ایک مقام پارہ 30 سورۃ التکویر کی پہلی آیات ہیں۔ان آیات میں ایک بہت بڑے جرم سے باز رکھنےکےلیےہیبت ناک منظر کشی کےبعد اس جرم کو بیان کیاگیا ہے۔ #آقا_مرحبا_مدنی_مرحبا
صلى الله عليه و سلم #سرمایہ_زیست
کہ آنکھوں سے بے اختیار آنسو جاری ہو جاتے ہیں۔
اب ان آیات کو پڑھتے ہوئے ذہن میں ان منظر کا خاکہ بنائیں۔
۔
اِذَا الشَّمْسُ كُوِّرَتْ۔۔۔۔ جب سورج لپیٹ میں آ جائے گا۔
وَاِذَا النُّجُوْمُ انْكَدَرَتْ ۔۔۔ اور جب ستارے بے نور ہو جائیں گے۔
وَاِذَا الْجِبَالُ سُيِّرَتْ ۔۔۔۔ اور جب پہاڑ چلائے جائیں گے۔
وَاِذَا الْعِشَارُ عُطِّلَتْ ۔۔۔۔ اور جب دس ماہ کی حاملہ اونٹنیاں چھوڑ دی جائیں گی۔
چیچنیا کے18 سالہ غازی نے گستاخ رسول کارٹونسٹ مار ڈالا اور اس مجاہدنوجوان کوبھی پولیس نےموقع پر ہی شہیدکردیا
فرانس: پیرس میں چیچن نوجوان نے طلبا و طالبات کو ’اظہار کی آزادی‘ کے نام پر رسولِ اللہ صلیٰ اللہ وعلیہ وسلم
کئی روز قبل اسکول کے استاد نے بچوں سے پیغمبرِ اسلام کے گستاخانہ خاکوں پر گفتگو شروع کی تھی جس پر کئی والدین نے اپنے غم و غصے کا اظہار کیا تھا۔
توہینِ رسالت پر ہلاک ہونے والے استاد نے کچھ روز قبل بچوں کو
یہی حضرات صحابۂ کرام رضوان ﷲ علیہم اجمعین ہی رسول ﷲ ﷺ کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہو کر’’کتابتِ وحی‘‘کا فریضہ انجام دیتے رہے… جس کی بدولت ان کے اپنے دل بھی کلام ﷲ کے نور سے مسلسل ’’منور‘‘ہوتے رہے۔
*لہٰذا قابلِ غورہے یہ بات کہ ان مبارک وبرگزیدہ حضرات کی امانت ودیانت یاان کےمقام ومرتبےکےبارےمیں کسی قسم کےشکوک وشبہات کاکیامطلب ہوگا
اس چیز کےنتائج ومفاسد کس قدر تباہ کن اور خطرناک ہوں گےاور یہ کہ بات آخر کہاں تک جاپہنچےگی
*_💞حضرت ابوبکر صدیق رضی اللّٰــــــــــــــــہ عنہ کو رسول اللّٰــــــــــــــــہ ﷺ کے انتہائی مقرب اور خاص ترین ساتھی ہونے کے علاوہ مزیدیہ شرف بھی حاصل تھاکہ:_*
کے خاندان میں مسلسل چارنسلوں کورسول اللّٰہ ﷺ کی صحبت ومعیت کاشرف نصیب ہوا*
چنانچہ ان کے والدین بھی صحابی تھے ،یہ خود بھی صحابی تھے،ان کے صاحبزادے عبد اللّٰہ اور عبدالرحمن ٗ نیز صاحبزادیاں عائشہ اوراسماءاور پھر نواسے
اہل بیت نبوت، خانوادہ نبوت ہے۔ اہل بیت نبوت سیدہ کائنات سلام اللہ علیہا کا گھرانہ ہے۔ اہل بیت نبوت کی محبت باعث تکمیل ایمان ہے۔ اہل بیت نبوت وہ مقدس ہستیاں ہیں کہ جس طرح حضور سرور کائنات صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم تمام انبیاء و رسل کے سردار ہیں #حب_اہل_بیت_جزوایمان
اسی طرح رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اہل بیت تمام انبیاء کرام اور رسل عظام (علیہم السلام) کے اہل بیت کے سردار ہیں۔
انہی نفوس قدسیہ کی شان اقدس میں خالق کائنات اللہ سبحانہ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا: