کہا جاتا ہے قیام ِ پاکستان کے وقت میں لاہور کے انارکلی چوک سے چیرنگ کراس تک لگ بھگ 150 کے قریب چائے اور کافی ہاوس ہوا کرتے تھے۔ یہ فاصلہ کم و بیش محض دو کلومیٹر کا ہے.
Image credit to: Pak Tea House, Google , Lahore Achieve ، Pakistan today
آج سے قریب ستر برس پہلے کے لاہور کی تہذیب اور کلچر کی قدامت کا اندازہ اس بات سے لگا لیجئے۔
اتنے چائے خانوں میں سے کوئی ایک وہ مقام حاصل کر لیتا ہے کہ جس کے ذکر کے بغیر اس شہر کی عمومی تاریخ اور خاص کر ادبی تاریخ تو کسی طور مکمل نہیں ہوتی۔ اس کا نام " پاک ٹی ہاوس " ہے ۔
مال روڈ نیلا گنبد کے پاس وائے ایم سی اے سے متصل ایک پچاس ساٹھ افراد کے بیٹھنے کی گنجائش والا، بیس گز چوڑائی والا چائے خانہ۔۔۔۔ بقول عطاالحق قاسمی کے" ادیبوں کا ویٹی کن سٹی" ہے۔
پاک ٹی ہاوس کی پیشانی پر تاریخ 1948 درج ہے۔
مگر اصل میں یہ 1940 میں ایک سکھ بوٹا سنگھ نے "انڈیا ٹی ہاؤس" کے نام سے چائے خانہ شروع کی۔ بوٹا سنگھ نے 1940ء سے 1944ء تک اس چائے خانہ و ہوٹل کو چلایا پھر پر دو سکھ بھائی سرتیج سنگھ بھلا اور کیسر سنگھ بھلا جو گورنمنٹ کالج لاہور کے سٹوڈنٹ تھے انکے حوالے کر دیا۔
قیام پاکستان کے بعد دبلی پتلے لکھنوئی وضع کے حافظ رحیم بخش جو جالندھر سے ہجرت کر کے لاہور آئے تو انہیں پاک ٹی ہاؤس 79 روپے ماہانہ کرایہ پر ملا، یہ چائے خانہ انڈیا ٹی ہاؤس کے نام سے ہی کچھ عرصہ چلتا رہا مگر 1948 میں انڈیا کاٹ کر پاک کا لفظ لکھ دیا گیا۔ یوں پاک ٹی ہاوس کا قیام ہوا
حافظ صاحب کی وفات کے بعد انکے دو بڑے بیٹوں علیم الدین اور سراج الدین نے پاک ٹی ہاؤس کی گدی کو سنبھالا۔
وہ کونسا شاعر ادیب ہوگا جس نے اس چائے خانے کو رونق نہیں بخشی۔ میں نام لکھتا رہوں تو یہ تھریڈ ختم نہ ہو۔ ہر مکتبہ فکر کے ادیب، شاعر، نقاد اور دانشور اپنی محفلیں سجاتے تھے۔
سعادت حسن منٹو، اے حمید، فیض احمد فیض، ابن انشاء، احمد فراز، منیر نیازی، میرا جی، کرشن چندر، حبیب جالب، کمال احمد رضوی،ناصر کاظمی،سجاد باقر رضوی، استاد امانت علی خان، ڈاکٹر محمد باقر، انتظار حسین، اشفاق احمد، قیوم نظر، شہرت بخاری، انجم رومانی، افتخار جالب، عزیز الحق، کشور ناہید
استاد دامن، مظفر علی سید، جاوید شاہین، شاہد حمید، انیس ناگ اور بھی کئی نام یہ سب اس کے جان تھے۔
انڈیا سے قراة العین حیدر ،ڈاکٹر گوپی چند نارنگ، شمس الرحمن فاروقی، شمیم حنفی،عرفان صدیقی، بشیر بدر اور دوسرے بہت سے ادیب جب لاہور آتے تو محفل یہیں گلتی۔ یہ ”زیارت گاہ“ بھی تھی۔
میں نے یہاں ۹۰ کی دہائی میں جانا شروع کیا۔ کالج کے اوئل دن تھے ۔ دوپہر کے بعد جانا ۔۔۔ چائے کا ہاف سیٹ پینا (دو چائے کے کپ والا ٹی پاٹ)، اگر حلقہ ارباب ذوق کا جلسہ ہوتا تو وہ سننا اور شام ڈھلے مال روڈ کی سیر کرتے گھر لوٹ جانا۔
اس وقت کا پاک ٹی ہاوس آج کے مقابلے میں بہت مختلف تھا ۔۔ آئیے جیسا میں نے دیکھا وہ دکھاتا ہوں۔ صدر دروازے سے داخل ہوتے تو سیدھے ہاتھ کی کھڑکی کے ساتھ لمبا صوفہ تھا اس کے سامنے مستطیل میز اور چند کرسیاں ۔
باقی ہال میں چار چار کی میزیں لگیں ہوئی ہیں۔
یہ حلقہ فیض احمد فیض، ناصر کاظمی، میرا جی، ھبیب جالب، اشفاق احمد اور کئی بڑے ادیبوں اور شاعروں کے لئے مخصوص ہے۔ آپ بھی اپنا حلقہ کسی اور کونے میں لگا لیں کوئی حرج نہیں ۔ پچھلے کونے میں کچن ہے اور ساتھ اوپر جاتی سیڑھیاں ہیں۔
ایک نیچی چھت والی منزل جہاں ہفتہ وار حلقہ اربابِ ذوق کی محفلیں اور جلسے ہوتے ہیں۔ اس کا ذکر پھر کبھی۔
دیواروں پر قائد اعظم کی تصویریں اور وہ شاعر ادیب جو رخصت ہو گئے آویزاں ہیں۔
مالک سراج اور چائے پیش کرنے والے بیرے بھی آدھے ادیب ہیں۔
سن 2006 میں اس کے مالک سراج الدین نے اس کو بند کرنے کا اعلان کر دیا کہ اب کاروبار کا بوجھ نہیں اٹھایا جاتا۔ اب وہ ادیب رہا بھی کہاں تھا جو یہاں آتا اور محفلیں جماتا۔
پاک ٹی ہاوس ایک ٹائروں کی دوکان بن گیا۔ وقت بہت بے رحم ہوتا ہے۔
جو زندہ رہے وہ بڑے ڈرائنگ رومز یا لاہور کے مہنگے ہوٹلوں میں محفلیں لگا لیتے۔ کچھ اجتجاج کیا گیا اور با لا آخر میاں محمد نواز شریف صاحب نے 2012 میں اس کو لاہور کا ورثہ قرار دیتے ہوئے حکومتی تحویل میں لے لیا اور تنزین و آرائش کے بعد اسے دوبارہ کھول دیا۔
لاہور کے عوامی شاعروں کا زکر ہو اور استاد دامن کا زکر نہ ہو ایسا ممکن نہیں۔ وہ ان سب کے استاد تھے۔
لیکن پہلے سمجھیئے عوامی شاعر ہوتا کون ہے۔وہ چاہے کسی بھی زبان سے متعلق ہو، کسی بھی علاقے سے تعلق ہو وہ عام عوام کا شاعر ہوتا ہے خواص کا نہیں ۔
Insets: Header Courtesy Nadeem Sb
زبان و ادب کا شاعر نہیں ۔ پھر اسکا دکھ غمِ جاناں نہیں ہوتا غمِ روزگار کے مارے لوگ ہوتے ہیں، سڑکوں پر چلتے پھرتے ریٹرھیاں لگاتے، ملوں میں مزدوریاں کرتے عوام ہوتے ہیں۔ وہ خود بھی اُنہیں میں سے ایک ہوتا ہے اُنہیں کی زبان میں بات کرتا ہے بس قدرتی طور پر شاعر ہوتا ہے
نہ کہ علم کے بِنا پر شعر کہتا ہے اس لئے بہت سے عوامی شاعر واجبی تعلیم یافتہ یا سرے سے ہی غیر تعلیم یافتہ ہوتے ہیں
لاہور میں پیدا ہوئے اور خاندانی طور پر درزی پیشے سے منسلک تھے۔ شعر گوئی کی ابتدا بڑے بھائی کی وفات پرمرثیوں سے کی لیکن باقاعدہ طور پر شاعری کا آغاز میٹرک کے بعد کیا
لاہور۔ مسجد صالح محمد کمبوہ۔۔۔ مسجد وزیر خان کی سگی بیٹی۔۔۔ ثانی مسجد
اندرونِ لاہور کا تاریخی حسن حوادثِ زمانہ کی نظر جو ہوا سو ہوا مگر بدہیت اور بے ہنگم پلازوں کی بھرمار اس کے خوبصورت چہرے پر بدنما داغ ہیں اور مزید بن رہے ہیں۔
اعلیشان حویلیاں برباد کی گیئں
مگر مذہب اور اسکا احترام چونکہ ہماری گھٹی میں شامل ہے اسلئے اس مجرمانہ شکست و ریخت و غفلت سے کچھ مساجد بچیں رہیں۔
انہیں مساجد میں ایک نام "مسجد صالح محمد کمبوہ" کا بھی ہے۔ ایک مختصر سی مسجد جو بمشکل سو دو سو افراد کے لئے ہو گی مگر خوبصورتی میں کئی بڑی بڑی مساجد پر بھاری ہے۔
اندروں موچی گیٹ میں داخل ہوتے ہی جہاں ایک دوراہا بنتا ہے جو ایک طرف لال کوہ اور مبارک حویلی اور چوک نواب کی طرف جاتا ہے اور دوسری طرف ورق کوبوں کی گلی سے ہوتا ہوا رنگ محل کی طرف نکلتا ہےاسی سنگم پر یہ عظیم فراموش ہوتی یادگار ۔۔۔ مسجد صالح محمد کمبوہ ہے۔
نواز شریف اور اسکی گورنمنٹ کے خلاف کی جاتی ہے اور عملاً سی پیک روک دیا جاتا ہے۔ پاکستان کی ترقی رک جاتی ہے مگر کچھ افراد کی ذاتی ترقی جاری رہتی ہے۔
پچھلے ہفتے انٹرنیشنل میڈیا پر ایک خبر آئی کہ HSBC ہانگ کانگ شنگھائی بینک کارپوریشن جو کہ دنیا کا سب سے بڑا بینک ہے
اور نام سے ظاہر ہے کہ چائنا کی ملکیت ہے۔ روس کا بھی بڑا اشتراک ہے اس میں۔ اس بینک کی لیکس کی گئی کہ چھ کھرب ڈالر کی غیر قانونی رقوم گذشتہ بیس سالوں میں اِدھر سے اُدھر ہوئیں اور ان تمام کاروئیوں میں پاکستان کے چھ بینک بھی استعمال ہوئے جن کے نام نہیں بتائے گے۔ اب پیسہ اور منصوبہ
۹۰ کی دہائی میں ہماری طرح کسی بھی لاہوری لڑکے کی یہی کوشش رہی ہوگی کہ کچھ ہوجائے گھر کے بڑوں کے آگے ایک جگہ کا نام منہ سے نہ نکل جائے پایا جانا تو دور کی بات تھی اسکا نام "ہیرا منڈی " تھا۔
Image Courtesy:
Chughtai Museum, Iqbal Hussain
لاہور کا بدنامِ زمانہ طوائف خانہ جو آج اُن طوائفوں سے بے آباد ہوچکا مگرا ٓج بھی کسی بزرگ کے آگے نام لیتے زبان لڑکھڑا جاتی ہے۔
لاہور کی ہیرا منڈی ایک سکھ سردار، سردار ہیرا سنگھ سے منسوب ہے۔ 1700 صدی میں یہ ایک مشہور غلّہ منڈی ہوا کرتی تھی.
اگر یہ غلہ منڈی تھی تو یہاں طوائفیں کیسے آباد ہوئیں۔ آئیےتاریخ پر نظر ڈالتے ہیں اس کی کیا کہانی ہے۔
عہدِ سکھّی میں لاہور میں ایک اہم کردار کا نام ملتا ہے جس کا نام سلطان ٹھیکیدار تھا۔ دلی دروازے میں رہا کرتا تھا۔ سکھّی عہد جاتا رہا اور دولتِ سرکار انگریز کی آمد ہوئی
یہ ایک مذہبی نہیں معاشرتی مسلہ ہے۔ یہ بنیادی طور پر معاشرے کے اجتماعی رویے اور توازن کی بات ہے۔ ہم اسکو مذہبی طور پر اس لئے دیکھ لیتے ہیں کہ معاشرے کے بنیادی خدوخال اور میانہ روی کے جو اصول اسلام نے وضع کئے وہ بہترین ہیں سو اسی معیار کو سامنے رکھ کے بات کی وضاحت کر لیتے ہیں۔
مگر یہ بھی یاد رہیے ہم نے اسلام کو نظریہ حیات کے طور پر لیا ہی نہیں کبھی اپنایا ہی نہیں۔محض مولوی کی تقریر سے سمجھا ہے۔ آج دنیا میں ایک انچ پر اسلام دین کے طور پر نافذ ہی نہیں لہذا عمل کرنے کے اثرات کیا ہوں گے اس کا ادراک ہی نہیں۔ جو ہے وہ تاریخ کی کتابوں میں ہی ہے۔
آج دنیا میں شاید ہی کوئی معاشرہ ہوگا جو جذباتی توازن پر موجود ہو ورنہ سب کا حال ایک سا ہی ہے۔ وہاں جہاں مکمل شخصی آزادی ہے جیسے کہ مغرب اور وہاں جہاں اس کے خلاف مذاہمت پائی جاتی ہے۔ عصمت دری کی بیماری دونوں معاشروں میں موجود ہے اور تمام تر بدصورتیوں کے ساتھ موجود ہے۔