لاہور۔ مسجد صالح محمد کمبوہ۔۔۔ مسجد وزیر خان کی سگی بیٹی۔۔۔ ثانی مسجد
اندرونِ لاہور کا تاریخی حسن حوادثِ زمانہ کی نظر جو ہوا سو ہوا مگر بدہیت اور بے ہنگم پلازوں کی بھرمار اس کے خوبصورت چہرے پر بدنما داغ ہیں اور مزید بن رہے ہیں۔
اعلیشان حویلیاں برباد کی گیئں
مگر مذہب اور اسکا احترام چونکہ ہماری گھٹی میں شامل ہے اسلئے اس مجرمانہ شکست و ریخت و غفلت سے کچھ مساجد بچیں رہیں۔
انہیں مساجد میں ایک نام "مسجد صالح محمد کمبوہ" کا بھی ہے۔ ایک مختصر سی مسجد جو بمشکل سو دو سو افراد کے لئے ہو گی مگر خوبصورتی میں کئی بڑی بڑی مساجد پر بھاری ہے۔
اندروں موچی گیٹ میں داخل ہوتے ہی جہاں ایک دوراہا بنتا ہے جو ایک طرف لال کوہ اور مبارک حویلی اور چوک نواب کی طرف جاتا ہے اور دوسری طرف ورق کوبوں کی گلی سے ہوتا ہوا رنگ محل کی طرف نکلتا ہےاسی سنگم پر یہ عظیم فراموش ہوتی یادگار ۔۔۔ مسجد صالح محمد کمبوہ ہے۔
رائے بہادر کنہیا لال ، اپنی کتاب ، تاریخ لاہور میں لکھتے ہیں۔
"یہ حیرت انگیز مسجد موچی گیٹ کے اندر واقع ہے۔ جو بھی موچی گیٹ کے راستے شہر میں داخل ہوتا ہے، اسے موچی گیٹ سے سیدھے ہی اس شاندار اور رنگین عمارت کا پتہ چلتا ہے۔
یہ چھوٹی سی مسجد ایک زمانے میں بہت ہی جامع اور خوبصورت تھی۔ تاریخ تکمیل 1070 ھ اور منشی محمد صالح کمبوہ ، دیوان صوبہ پنجاب نے اس کو تعمیر کیا۔ بانی اس مسجد کا عالم و فاضل و شاعر و جّید منشی شاہ جہاں دربار کا ذات کا کمبو ہ تھا"
صالح محمد کمبوہ مغل بادشاہ شاہ جہاں کے زمانے میں خطاطی اور درباری مورخ تھے۔ ان کا سہرا شاہ جہاں کی سوانح حیات شاہجہان نامہ کو مرتب کرنے کا ہے۔ پانچ سو فوجیوں کے کمانڈر ہونے کے علاوہ ، انہوں نے صوبہ پنجاب کے گورنر کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دیں۔
مسجد کے صدر دروازے کی محراب پر انتہائی خوبصورتی سے خطِ کوفی جیسے مشکل ترین خط میں دورِ حاضر کے کسی گمنام خطاط نے انتہائی خوبصورتی اور مہارت سے مسجد کا نام تحریر کیا ہوا ہے، نام معلوم ہوتا تو ہاتھ چوم لیتا۔
مسجد تین گنبدوں پر مشتمل ہے۔ جن پر دل کش رنگوں میں مدھم ہوتے
پژ مردہ پھول بوٹے ، آرائشیں ، فارسی کے اشعار اپنے بنانے والی کی کاریگری کی زندہ مثال ہیں۔ اگرچہ زمانہ ان رنگوں پر دُھول ڈال چکا مگر اب بھی جو نقوش باقی ہیں وہ دیکھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔
ہال میں داخلے کے مرکزی محراب پر بیرم خان کا مندرجہ ذیل شعر درج ہے
محمد عربی کا بروی ہر دو سراست
کسی کہ خاک درش نیست خاک برسر او
کہا جاتا ہے کہ مسجد وزیر خان جب مکمل ہوئی تو اس کے ہنر مندوں اور نقاشوں نے اس مسجد کی تعمیر کے بعد جو سامان بچ رہا انہوں نے اس سے کمبوہ کی مسجد کی تعمیر کی۔ ایک حیرت انگیز مماثلت مسجد وزیر خان اور مسجد کمبوہ میں ہے۔
مستنصر حسین تارڑ نے اسی مناست سے اس کو " مسجد وزیر خان کی ثانی۔۔۔اس کی سگی بیٹی کہا ہے۔ وہ لکھتے ہیں۔
"ہم میں سے کتنے ہیں جو اس مسجد کے وجود سے آگاہ ہیں۔۔ اس قدیم زیبائش کی گل کاری اور بیل بوٹوں کے ایک سحر انگیز فریب سے آگاہ ہیں۔"
شہرِ لاہور میں رہتے ہوئے بھی کتنے ہیں۔۔۔
• • •
Missing some Tweet in this thread? You can try to
force a refresh
نواز شریف اور اسکی گورنمنٹ کے خلاف کی جاتی ہے اور عملاً سی پیک روک دیا جاتا ہے۔ پاکستان کی ترقی رک جاتی ہے مگر کچھ افراد کی ذاتی ترقی جاری رہتی ہے۔
پچھلے ہفتے انٹرنیشنل میڈیا پر ایک خبر آئی کہ HSBC ہانگ کانگ شنگھائی بینک کارپوریشن جو کہ دنیا کا سب سے بڑا بینک ہے
اور نام سے ظاہر ہے کہ چائنا کی ملکیت ہے۔ روس کا بھی بڑا اشتراک ہے اس میں۔ اس بینک کی لیکس کی گئی کہ چھ کھرب ڈالر کی غیر قانونی رقوم گذشتہ بیس سالوں میں اِدھر سے اُدھر ہوئیں اور ان تمام کاروئیوں میں پاکستان کے چھ بینک بھی استعمال ہوئے جن کے نام نہیں بتائے گے۔ اب پیسہ اور منصوبہ
۹۰ کی دہائی میں ہماری طرح کسی بھی لاہوری لڑکے کی یہی کوشش رہی ہوگی کہ کچھ ہوجائے گھر کے بڑوں کے آگے ایک جگہ کا نام منہ سے نہ نکل جائے پایا جانا تو دور کی بات تھی اسکا نام "ہیرا منڈی " تھا۔
Image Courtesy:
Chughtai Museum, Iqbal Hussain
لاہور کا بدنامِ زمانہ طوائف خانہ جو آج اُن طوائفوں سے بے آباد ہوچکا مگرا ٓج بھی کسی بزرگ کے آگے نام لیتے زبان لڑکھڑا جاتی ہے۔
لاہور کی ہیرا منڈی ایک سکھ سردار، سردار ہیرا سنگھ سے منسوب ہے۔ 1700 صدی میں یہ ایک مشہور غلّہ منڈی ہوا کرتی تھی.
اگر یہ غلہ منڈی تھی تو یہاں طوائفیں کیسے آباد ہوئیں۔ آئیےتاریخ پر نظر ڈالتے ہیں اس کی کیا کہانی ہے۔
عہدِ سکھّی میں لاہور میں ایک اہم کردار کا نام ملتا ہے جس کا نام سلطان ٹھیکیدار تھا۔ دلی دروازے میں رہا کرتا تھا۔ سکھّی عہد جاتا رہا اور دولتِ سرکار انگریز کی آمد ہوئی
یہ ایک مذہبی نہیں معاشرتی مسلہ ہے۔ یہ بنیادی طور پر معاشرے کے اجتماعی رویے اور توازن کی بات ہے۔ ہم اسکو مذہبی طور پر اس لئے دیکھ لیتے ہیں کہ معاشرے کے بنیادی خدوخال اور میانہ روی کے جو اصول اسلام نے وضع کئے وہ بہترین ہیں سو اسی معیار کو سامنے رکھ کے بات کی وضاحت کر لیتے ہیں۔
مگر یہ بھی یاد رہیے ہم نے اسلام کو نظریہ حیات کے طور پر لیا ہی نہیں کبھی اپنایا ہی نہیں۔محض مولوی کی تقریر سے سمجھا ہے۔ آج دنیا میں ایک انچ پر اسلام دین کے طور پر نافذ ہی نہیں لہذا عمل کرنے کے اثرات کیا ہوں گے اس کا ادراک ہی نہیں۔ جو ہے وہ تاریخ کی کتابوں میں ہی ہے۔
آج دنیا میں شاید ہی کوئی معاشرہ ہوگا جو جذباتی توازن پر موجود ہو ورنہ سب کا حال ایک سا ہی ہے۔ وہاں جہاں مکمل شخصی آزادی ہے جیسے کہ مغرب اور وہاں جہاں اس کے خلاف مذاہمت پائی جاتی ہے۔ عصمت دری کی بیماری دونوں معاشروں میں موجود ہے اور تمام تر بدصورتیوں کے ساتھ موجود ہے۔
لاہور میں شاید ہی کوئی ہو جس نے اندرون موچی گیٹ کی لال کھوہ کی برفی نہ کھائی ہو یا سنی نہ ہو۔ مگر گنتی کے لوگ ہو گے جو یہ جانتے ہو نگے کہ لال کھوہ برفی کی وجہ سے مشہور ہوا کہ برفی لال کھوہ کی وجہ سے۔ اور ان دونوں کا آپس میں کیا رشتہ ہے
1/7
یہ رشتہ کم و بیش ۵۰۰ سو سال پرانا ہے ۔ جی جناب! اس کنویں سے منسوب دوستی کی ایک لازوال داستان ہے۔ ایک مسلمان درویش حضرت میاں میر اور ایک سکھ گورو ارجن دیو کی دوستی کی داستان۔ گورو ارجن کے والد صاحب گورو رام داس نے ’’میٹھے تالاب‘‘ یعنی امرتسر کی بنیاد رکھی اور ارجن دیو نے
2/7
دربار صاحب امرتسر کی تعمیر اور بنیاد رکھنے کے لئے اپنے دوست میاں میر صاحب کو بلایا۔سکھ برادری جہاں بابا فرید کو اوتار مانتی ہے کہ ان کی شاعری گرنتھ صاحب میں شامل ہے وہاں میاں میر صاحب کو بھی اپنے بزرگوں میں شمار کرتی ہے کہ انہوں نے ان کے سب سے مقدس مقام کی پہلی اینٹ رکھی
3/7
اگر زندگی میں موقع ملتا تو اُردو ادب میں پی ایچ ڈی کرتا۔ اور مقالہ لکھتا "غالب کا اردو اور فارسی کلام ایک موازنہ"
غالب کی وجۂ شہرت انکا اردو کلام ہے، لیکن غالب کو ہمیشہ اپنے فارسی کلام پر فخر رہا اور وہ اردو کو ثانوی حیثیت ہی دیتے رہے۔
اسی لیے کہا تھا کہ "بگزار مجموعہء اردو کے بے رنگِ من است"۔
انکا خیال تھا اُردو زبان انکے خیالات کا احاطہ ہی نہیں کر سکتی۔ مارے باندھے ریختہ میں لکھنا شروع کیا جس میں فارسی کی زیادہ آمیزش تھی۔
غالب کی زندگی میں انکےاردو میں پانچ دیوان چھپے باقی زندگی کے بعد چھپے۔
سب سے مستند نسخہ عرشی کہلاتا ہے جس میں لگ بھگ 1876 کے قریب اشعار ہیں۔ جب کہ فارسی کلام کی تعداد دس ہزار اشعار سے زیادہ ہے۔
غور طلب بات یہ ہے جس کو پسند نہیں کیا وہ وجہ شہرت بنی مگر جس میں خود کو وہ استادوں کے استاد کہتے تھے اس کو جانتا بھی کوئی نہیں۔