ہم چار لوگ تھے‘ ہم نے چائے منگوائی اور بیٹھ کر انتظار کرنے لگے‘ گرمی اور حبس تھا‘ ہمیں پسینہ آ رہا تھا‘ میں نے ٹشو پیپر نکالنے کیلئے جیب میں ہاتھ ڈالا‘ ٹشو پیپر نکالا اور چہرہ صاف کرنے لگا‘ ٹشو پیپر نکالتے ہوئے پچاس روپے کا ایک نوٹ میری جیب سے نکل کر فرش پر گر گیا،، میں نوٹ
کے نکلنے اور گرنے سے واقف نہیں تھا‘ یہ نوٹ اُڑ کر میرے پاؤں کے قریب پہنچ گیا‘ میں نے نادانستگی میں نوٹ پر پاؤں رکھ دیا...

دور کونے میں درمیانی عمر کا ایک مزدور بیٹھا تھا‘ وہ تڑپ کر اپنی جگہ سے اٹھا‘ بھاگتا ہوا میرے پاس آیا‘ زمین پر بیٹھ کر
میرا پاؤں ہٹایا‘ نوٹ اٹھایا‘ نوٹ کو سینے پر رگڑ کر صاف کیا‘ نوٹ کو چوما‘ آنکھوں کے ساتھ لگایا اور دونوں ہاتھوں میں رکھ کر مجھے واپس کر دیا...

ہم چاروں اس حرکت پر حیران بھی تھے اور پریشان بھی۔ ہماری جیبوں سے عموماً نوٹ گرجاتے ہیں‘ دیکھنے والے ان کی
نشاندہی کرتے ہیں اور ہم نوٹ اٹھا کر دوبارہ جیب میں رکھ لیتے ہیں لیکن ہم نے زندگی میں کوئی ایسا پاگل نہیں دیکھا تھا...

یہ یقیناً حیرت کی بات تھی اور ہم چاروں اس وقت حیران تھے‘ میں نے اسے اپنے ساتھ بٹھا لیا‘ اس کیلئے بھی چائے کا آرڈر
دیا اور اس سے اس تڑپ‘ اس عقیدت کی وجہ سے پوچھی‘ وہ مزدور تھا مگر وہ سدا کا مزدور نہیں تھا...

وہ بیس سال قبل شہر کے رئیس لوگوں میں شمار ہوتا تھا‘ اس کا والد شہر کے چار بڑے تاجروں میں شامل تھا‘ یہ اس کی واحد نرینہ اولاد تھا‘ یہ نازونعم میں پلا
تھا‘ گاڑی تھی‘ بینک بیلنس تھا‘ جوانی تھی اور ماں باپ کی اندھی محبت تھی‘ یہ چاروں چیزیں جہاں جمع ہوتی ہیں‘ وہاں بگاڑ ضرور پیدا ہوتا ہے‘ یہ بھی بگڑ گیا‘ اس کے بعد کیا ہوا‘ یہ آپ اس کی زبانی سنیے...

’’میں جوان تھا‘ امیر تھا اور ماں باپ کا اکلوتا بیٹا تھا‘
مجھے برے لوگوں نے گھیر لیا‘ میری صحبت خراب ہو گئی‘ میرے والد کو معلوم ہوا تو انہوں نے مجھے سمجھانا شروع کیا مگر انسان کی زندگی میں جب جوانی‘ شراب اور دولت تین نشے جمع ہو جائیں تو اس کی عقل پر پردے پڑ جاتے ہیں‘ یہ سمجھنے‘ سمجھانے کی حد کراس کر جاتا
ہے‘ میرے ساتھ بھی یہی ہوا‘ میں نے والد کی بات سننے اور ماننے سے انکار کر دیا‘ میری خرابی نے میرے والد کو روگ لگا دیا‘ وہ اس روگ میں چل بسے...

مجھے ساری زمین‘ جائیداد اور بینک بیلنس مل گیا‘ میں والد کے انتقال پر اداس ہونے کی بجائے دولت ملنے پر خوش تھا‘ میں نے
اپنی ماں اور بہنوں کو چھوٹے سے مکان میں شفٹ کیا‘ ان کا ماہانہ خرچ طے کیا اور والد کی حق حلال کی دولت کو انجوائے کرنے لگا...

میں نے اپنے گھر کو رقص گاہ بنا لیا‘ میں اور میرے دوست روز طوائفوں کو گھر لاتے‘ ساری رات مجرا کراتے‘ شراب پیتے اور
شراب کے نشے میں طوائفوں پر نوٹ نچھاور کرتے‘ ہم طوائفوں کو حکم دیتے تھے‘ ہم ان پر جو نوٹ نچھاور کریں گے‘ وہ یہ نوٹ صبح تک فرش سے نہیں اٹھائیں گی‘ وہ ان نوٹوں پر ناچتی رہیں گی‘ مجھے دراصل فرش پر نوٹوں کا قالین اور اس قالین پر ناچتے تھرکتے ہوئے گورے گلابی
پاؤں اچھے لگتے تھے چنانچہ میری محفل میں ساری رات نوٹ نچھاور ہوتے تھے اور طوائفیں ان نوٹوں پر ناچتی تھیں‘ یہ کام مہینوں جاری رہا‘میری عادت‘ میری حالت سے پورا شہر واقف ہو گیا...

میرے والد کے ایک دوست کو اطلاع ہوئی تو وہ ایک روز میرے پاس آیا ‘ اس نے
میرے سر پر ہاتھ پھیرا اور کہا ‘ بیٹا تمہارے والد لوگوں سے کہا کرتے تھے‘ اللہ تعالیٰ جب کسی سے خوش ہوتا ہے تو یہ اسے دولت سے نوازتا ہے‘ پھر صحت دیتا ہے‘ پھر اولاد عنایت کرتا ہے اور آخر میں اچھے دوست دیتا ہے‘ تمہارے والد کہا کرتے تھے‘ دولت ایمان کے بعد اللہ تعالیٰ کی بہت
بڑی نعمت ہوتی ہے‘ لوگوں کی نسلیں اسی نعمت کی دعا کرتے کرتے قبرستان پہنچ جاتی ہیں...

اللہ بہت کم لوگوں پر خوشحالی کے دروازے کھولتا ہے لیکن جب اللہ کے بندے نوٹوں کو پاؤں میں روندتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ناراض ہو جاتا ہے اور یہ دولت کی
ناقدری کرنے والوں سے ایمان بھی چھین لیتا ہے‘ عقل بھی‘ صحت بھی اور اچھے دوست بھی۔ والد کے دوست کا کہنا تھا‘ تم نوٹوں کو طوائفوں کے قدموں میں نچھاور کر کے اللہ کی بڑی نعمت کی توہین کر رہے ہو‘ تم تباہ ہو جاؤ گے‘ تم سنبھل جاؤ لیکن میں اس وقت نشے کے گھوڑے پر سوار تھا‘
میں نے ان کو یہ کہہ کر روانہ کر دیا’’ آپ مجھے میرے حال پر چھوڑ دیں‘ آپ اپنے بچوں پر توجہ دیں...

‘ یہ روز لوگوں کے گریبان پھاڑتے ہیں‘‘۔ وہ چلے گئے‘ میں نے اپنا معمول جاری رکھا‘ میں اور میرے دوست طوائفوں کے قدموں میں نوٹ نچھاور کرتے رہے‘ ایک دن اس
غرور کا نتیجہ نکل آیا‘ میں نے نشے کے عالم میں گولی چلا دی‘ ایک طوائف ماری گئی‘ کیس بنا میں سزا سے بچ گیا لیکن میرا سب کچھ چلا گیا اور میں اب فیکٹری میں مزدوری کرتا ہوں...

وہ رک گیا اس نے لمبی سانس لی اور بولا ’’میں جب بھی کسی نوٹ کو کسی پاؤں
میں گرا ہوا دیکھتا ہوں تو میں تڑپ اٹھتا ہوں‘ میں نوٹ کو اٹھا کر صاف کرتا ہوں‘ ہونٹوں اور آنکھوں کے ساتھ لگاتا ہوں اور مالک کو واپس کر دیتا ہوں کیونکہ میں سمجھتا ہوں دنیا کا جو بھی شخص نوٹ کو پاؤں میں روندتا ہے یا روندتا ہوا دیکھ
کر خاموش رہتا ہے وہ تباہ ہو کر رہ جاتاہے‘‘
اس نے ایک اور لمبی آہ کھینچی اور بولا’’ بهائی صاحب یہ بات پلے باندھ لیں مجرا کرانے والا کوئی شخص امیر نہیں رہ سکتا‘ یہ تباہ و برباد ہو جاتا ہے کیونکہ یہ اللہ کی
نعمت کو عورتوں کے قدموں میں روندتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی ذات اپنی نعمت کی یہ تذلیل برداشت نہیں کرتی..

مختصر معلوماتی اسلامی اور تاریخی اردو تحریریں پڑھنے کیلئے
دوسرا اکاؤنٹ فالو کریں 👈🏻 @AliBhattiTP

ہمارا فیس بک گروپ جوائن کریں ⁦👇🏻👇🏻
bit.ly/2FNSbwa

• • •

Missing some Tweet in this thread? You can try to force a refresh
 

Keep Current with علـــمـــی دنیــــــا

علـــمـــی دنیــــــا Profile picture

Stay in touch and get notified when new unrolls are available from this author!

Read all threads

This Thread may be Removed Anytime!

PDF

Twitter may remove this content at anytime! Save it as PDF for later use!

Try unrolling a thread yourself!

how to unroll video
  1. Follow @ThreadReaderApp to mention us!

  2. From a Twitter thread mention us with a keyword "unroll"
@threadreaderapp unroll

Practice here first or read more on our help page!

More from @Pyara_PAK

24 Oct
جب مشہور برطانوی بحری جہاز ٹائی ٹینک حادثے کا شکار ہوا تو اس کے آس پاس تین ایسے بحری جہاز موجود تھے جو ٹائی ٹینک کے مسافروں کو بچا سکتے تھے۔
سب سے قریب جو جہاز موجود تھا اسکا نام سیمسن (Samson) تھا اور وہ حادثے کے وقت ٹائی ٹینک سے صرف سات میل کی Image
دوری پہ تھا۔ سیمسن کے عملے نے نہ صرف ٹائی ٹینک کے عملے کی طرف سے فائر کئے گئے سفید شعلے (جو کہ انتہائی خطرے کی صورت میں فضا میں فائر کئے جاتے ہیں) دیکھے تھے بلکہ مسافروں کی آہ و بُکا کو سُنا بھی تھا۔ لیکن کیونکہ سیمسن کے عملے کے لوگ غیر قانونی طور پہ انتہائی قیمتی
سمندری حیات کا شکار کر رہے تھے اور نہیں چاہتے تھے کہ پکڑے جائیں لہذا ٹائی ٹینک کی صورتحال کا اندازہ ہوتے ہی بجائے مدد کرنے کے وہ جہاز کو ٹائی ٹینک کی مخالف سمت میں بہت دور لے گئے۔
یہ جہاز ہم میں سے ان لوگوں کی نمائندگی کرتا ہے جو اپنی گناہوں بھری زندگی میں
Read 11 tweets
23 Oct
السلام علیکم پیارے دوستو

آج ایک سال کا عرصہ ہو گیا بے روزگار ہوئے اپنے کاروبار کی ابھی پوزیشن نہیں ایک سال میں میری یہی کوشش رہی ہے کہ کسی نہ کسی طرح کوئی چھوٹی موٹی نوکری حاصل کر کے اپنے مزدور باپ دو معزور بھائیوں اور اپنے گھر والوں کی ImageImage
مشکلوں میں کمی کا سبب بن سکوں لیکن مکمل ناکامی کا سامنا کرنا پڑا اور کوئی جاب نہ مل سکی دو چار ایسے لوگوں سے بھی واسطہ پڑا جو صاحب روزگار کر سکتے تھے لیکن پتہ نہیں کیا بات ہے کہ کسی کے بس میں تھوڑا سا بھی کوئی کام
ہوتا ہے وہ خدا جانے وقت کا فرعون کیوں بن جاتا ہے ہم تو یہی کوشش کرتے ہیں کہ اگر ہمارے وسیلے سے کسی کا بھلا ہوتا ہے تو ہو جائے لیکن لوگ نہ جانے کیا سوچتے ہیں اللہ جانے
گھر میں بھی فارغ رہ کر دن بدن ڈپریشن کا
Read 5 tweets
23 Oct
ﺳﻮﺭﺓ ﻓﺎﺗﺤﮧ ﻭﺍﻗﻌﯽ حیران کن ﮨﮯ __

ﯾﮧ ﺳﻮﺭﺓ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﮐﻮ ﻣﭩﯽ ﺳﮯ ﺍﭨﮭﺎ ﮐﺮ ﻋﺮﺵ ﮐﮯ ﻧﯿﭽﮯ ﻻ ﮐﮭﮍﺍ ﮐﺮﺗﯽ ﮨﮯ …
ﮨﻤﯿﮟ ﻋﺪﻡ ﺳﮯ ﻭﺟﻮﺩ ﻣﯿﮟ ﻻﻧﮯ ﻭﺍﻻ, ﭘﯿﺪﺍ ﮐﺮﻧﮯ ﻭﺍﻻﮐﻮﻥ ? ﺍﻟﻠﮧ _____ ﺍﻟﺤﻤﺪﻟﻠﮧ ! Image
ﭘﮭﺮ ﮨﻤﯿﮟ ﭘﺎﻟﻨﮯ ﻭﺍﻻ ﮐﻮﻥ __ ﺭَﺏِّ ﺍﻟْﻌَﺎﻟَﻤِﻴﻦَ
ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﮨﻤﯿﮟ ﺗﮭﺎﻣﻨﮯ ﺍﻭﺭ ﭼﻼﻧﮯ ﻭﺍﻻ ﮐﻮﻥ __ ’’ ﺍَﻟﺮَّﺣْﻤٰﻦ ‘‘ …
ﺁﺧﺮﺕ ﻣﯿﮟ ﮨﻢ ﮐﺲ ﮐﮯ ﺳﮩﺎﺭﮮ ﮨﻮﮞ ﮔﮯ ___ ’’ ﺍَﻟﺮَّﺣِﯿْﻢ …‘‘
ﮨﻤﯿﮟ ﺩﺍﺭ ﺩﻧﯿﺎ ﺳﮯ ﺁﺧﺮﺕ ﻣﻨﺘﻘﻞ ﮐﺮﻧﮯ ﻭﺍﻻ ﺍﻭﺭ ﻭﮨﺎﮞ ﮨﻤﯿﮟ ﺍﻧﺼﺎﻑ ﺩﯾﻨﮯ ﻭﺍﻻ ’’___ ﻣَﺎﻟِﮏِ ﯾَﻮْﻡِ ﺍﻟﺪِّﯾْﻦ …‘‘
ﺟﺐ ﮨﻤﺎﺭﯼ ﭘﯿﺪﺍﺋﺶ ﺳﮯ ﻟﮯ ﮐﺮ ﮨﻤﯿﮟ ﺍﮔﻠﮯ
Read 7 tweets
23 Oct
عورت برائے فروخت

وہ شکل سے شریف گھر کی بیٹی لگ رہی تھی میں پاس گیا
میرے قریب ہو کر بولی
چلو گے صاحب
میں نے پوچھا کتبے پیسے لو گی
کہنے لگی آپ کتنے دیں گے
میں نے اس کی نیلی سی آنکھوں میں جھانک کر دیکھا Image
وہ بے بس سی تھی میں نے بولا آو کار میں بیٹھو
وہ ڈر رہی تھی
کہنے لگی کتنے آدمی ہو میں نے کہا ڈرو نہیں
میں اکیلا ہی ہوں
وہ خاموش بیٹھی رہی
پھر کہنے لگی آپ مجھے سگریٹ سے اذیت تو نہیں دو گے نا
میں مسکرایا بلکل بھی نہیں
پھر اس نے ایک لمبی سانس بھری
آپ میرے ساتھ
کوئی ظلم تو نہیں کریں گے نا
آپ چاہے مجھے 500 کم دے دینا لیکن میرے ساتھ برا نہ کرنا پلیز
وہ بہت خوبصورت تھی معصومیت اس کی باتوں سے ٹپک رہی تھی
پھر بھی خدا جانے وہ کیوں جسم بیچنے پہ مجبور تھی
وہ نہیں جانتی تھی میں کون ہوں
میں نے پوچھا کھانا کھایا ہے کہنے لگی نہیں
Read 22 tweets
22 Oct
انصاف اور آج کل کے حکمران

ﺍﯾﮏ ﺭﺍﺕ ﺳﻠﻄﺎﻥ ﻣﺤﻤﻮﺩ ﻏﺰﻧﻮﯼ ﮐﻮ ﮐﺎﻓﯽ
ﮐﻮﺷﺸﻮﮞ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺑﮭﯽ
ﺟﺐ ﻧﯿﻨﺪ ﻧﮩﯿﮟ ﺁﺋﯽ ﺗﻮ ﺍﭘﻨﮯ ﻏﻼﻣﻮﮞ ﺳﮯ ﮐﮩﻨﮯ ﻟﮕﮯ ﻟﮕﺘﺎ ہے کہ ﮐﺴﯽ مظلوم ﭘﺮ ﺁﺝ ﮐﻮﺋﯽ ﻇﻠﻢ ہوا ہے۔ Image
ﺗﻢ ﻟﻮﮒ ﮔﻠﯿﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﭘﮭﯿﻞ ﺟﺎﺅ ﺍﻭﺭ ﺍﮔﺮ ﮐﻮﺋﯽ ﻓﺮﯾﺎﺩﯼ ﻧﻈﺮ ﺁﺋﮯ ﺗﻮ ﺍُﺳﮯ ﻣﯿﺮﮮ ﭘﺎﺱ ﻟﮯ ﺁﺅ۔
ﺗﮭﻮﮌﯼ ﺩﯾﺮ ﺑﻌﺪ ﻭﮦ ﺳﺐ ﻭﺍﭘﺲ ﺁ ﮐﺮ ﮐﮩﻨﮯ ﻟﮕﮯ ﺳﻠﻄﺎﻥ، ہمیں ﮐﻮﺋﯽ ﺑﮭﯽ ﻓﺮﯾﺎﺩﯼ ﻧﮩﯿﮟ ﻣﻼ،
ﺁﭖ ﺁﺭﺍﻡ ﺳﮯ ﺳﻮ ﺟﺎﺋﯿﮟ۔ "
ﺳﻠﻄﺎﻥ ﮐﻮ ﺟﺐ ﭘﮭﺮ ﺑﮭﯽ ﻧﯿﻨﺪ ﻧﮩﯿﮟ ﺁﺋﯽ ﺗﻮ ﻭﮦ ﮐﭙﮍﮮ ﺑﺪﻝ ﮐﺮ ﺧﻮﺩ ﻣﺤﻞ ﺳﮯ ﺑﺎﮬﺮ ﻧﮑﻼ۔ ﻣﺤﻞ ﮐﮯ ﭘﭽﮭﻮﺍﮌﮮ ﻣﯿﮟ ﺣﺮﻡ ﺳﺮﺍ ﮐﮯ ﻧﺰﺩﯾﮏ ﺍُنہیں ﮐﺴﯽ ﮐﯽ
Read 16 tweets
21 Oct
پچھلے دو دنوں میں عہد وفا مکمل ڈرامہ دیکھا اور ڈرامے میں ہمارے ملکی نظام کے متعلق کچھ چیزیں جاننے کا موقع ملا۔

1۔ ایک فوجی جتنا ملک سے اور قوم سے مخلص ہوتا اتنا محب وطن کوئی نہیں ہوتا۔۔ایک سپاہی کو جب وطن پر جان قربان کرنے کا موقع ملتا ہے وہ پیچھے ہٹنے
کے بجائے سبز ہلالی پرچم پر جان قربان کرنے کو اپنی خوش قسمتی سمجھتا ہے

2۔ تمام بیوروکریٹ نا اہل نہیں لیکن کوئی بیوروکریٹ کام کرنا چاہے تو اس سے اوپر والے افسر کام کرنے کے بجائے کام میں رکاوٹیں کھڑی کرتے ہیں جس کی وجہ سے ایماندار افسر بھی کرپٹ نظام میں پھس
جاتا ہے۔

3۔ تمام اینکر پرسن اور میڈیا ورکر کرپٹ نہیں لیکن تمام میڈیا مالکان ضرور کرپٹ ہیں جو سچ دکھانے کہ بجائے اپنے مفادات کے مطابق اپنے چینل اور اینکرز کو آپریٹ کرتے ہیں۔
Read 5 tweets

Did Thread Reader help you today?

Support us! We are indie developers!


This site is made by just two indie developers on a laptop doing marketing, support and development! Read more about the story.

Become a Premium Member ($3/month or $30/year) and get exclusive features!

Become Premium

Too expensive? Make a small donation by buying us coffee ($5) or help with server cost ($10)

Donate via Paypal Become our Patreon

Thank you for your support!

Follow Us on Twitter!