پچھلے دو دنوں میں عہد وفا مکمل ڈرامہ دیکھا اور ڈرامے میں ہمارے ملکی نظام کے متعلق کچھ چیزیں جاننے کا موقع ملا۔
1۔ ایک فوجی جتنا ملک سے اور قوم سے مخلص ہوتا اتنا محب وطن کوئی نہیں ہوتا۔۔ایک سپاہی کو جب وطن پر جان قربان کرنے کا موقع ملتا ہے وہ پیچھے ہٹنے
کے بجائے سبز ہلالی پرچم پر جان قربان کرنے کو اپنی خوش قسمتی سمجھتا ہے
2۔ تمام بیوروکریٹ نا اہل نہیں لیکن کوئی بیوروکریٹ کام کرنا چاہے تو اس سے اوپر والے افسر کام کرنے کے بجائے کام میں رکاوٹیں کھڑی کرتے ہیں جس کی وجہ سے ایماندار افسر بھی کرپٹ نظام میں پھس
جاتا ہے۔
3۔ تمام اینکر پرسن اور میڈیا ورکر کرپٹ نہیں لیکن تمام میڈیا مالکان ضرور کرپٹ ہیں جو سچ دکھانے کہ بجائے اپنے مفادات کے مطابق اپنے چینل اور اینکرز کو آپریٹ کرتے ہیں۔
4۔ سیاستدان کرپشن کریں یا نہ کریں لیکن نا جائز اختیارات ضرور استعمال کرتے ہیں طبیعت میں فرعونیت اور اپنے من کی تسکین کیلئے ہر عزت دار اور بے عزت کے تن سے کپڑا کھینچنا اور ان کے جذباتوں کی تذلیل کرنا ان کی فطرت میں ہوتا ہے۔
میرے وطن پر میرا تن من دھن قربان یاد
رہے پاک فوج ہے تو پاکستان ہے اگر ہماری فوج نہ ہوتی تو ہم پر بیرونی طاقتیں ایسے مسلط ہو جاتی جیسے آج عراق شام اور یمن پر۔۔۔
پاک فوج زندہ باد
بقلم خود۔ علی بھٹی۔۔۔۔۔۔۔
• • •
Missing some Tweet in this thread? You can try to
force a refresh
وہ شکل سے شریف گھر کی بیٹی لگ رہی تھی میں پاس گیا
میرے قریب ہو کر بولی
چلو گے صاحب
میں نے پوچھا کتبے پیسے لو گی
کہنے لگی آپ کتنے دیں گے
میں نے اس کی نیلی سی آنکھوں میں جھانک کر دیکھا
وہ بے بس سی تھی میں نے بولا آو کار میں بیٹھو
وہ ڈر رہی تھی
کہنے لگی کتنے آدمی ہو میں نے کہا ڈرو نہیں
میں اکیلا ہی ہوں
وہ خاموش بیٹھی رہی
پھر کہنے لگی آپ مجھے سگریٹ سے اذیت تو نہیں دو گے نا
میں مسکرایا بلکل بھی نہیں
پھر اس نے ایک لمبی سانس بھری
آپ میرے ساتھ
کوئی ظلم تو نہیں کریں گے نا
آپ چاہے مجھے 500 کم دے دینا لیکن میرے ساتھ برا نہ کرنا پلیز
وہ بہت خوبصورت تھی معصومیت اس کی باتوں سے ٹپک رہی تھی
پھر بھی خدا جانے وہ کیوں جسم بیچنے پہ مجبور تھی
وہ نہیں جانتی تھی میں کون ہوں
میں نے پوچھا کھانا کھایا ہے کہنے لگی نہیں
ہم چار لوگ تھے‘ ہم نے چائے منگوائی اور بیٹھ کر انتظار کرنے لگے‘ گرمی اور حبس تھا‘ ہمیں پسینہ آ رہا تھا‘ میں نے ٹشو پیپر نکالنے کیلئے جیب میں ہاتھ ڈالا‘ ٹشو پیپر نکالا اور چہرہ صاف کرنے لگا‘ ٹشو پیپر نکالتے ہوئے پچاس روپے کا ایک نوٹ میری جیب سے نکل کر فرش پر گر گیا،، میں نوٹ
کے نکلنے اور گرنے سے واقف نہیں تھا‘ یہ نوٹ اُڑ کر میرے پاؤں کے قریب پہنچ گیا‘ میں نے نادانستگی میں نوٹ پر پاؤں رکھ دیا...
دور کونے میں درمیانی عمر کا ایک مزدور بیٹھا تھا‘ وہ تڑپ کر اپنی جگہ سے اٹھا‘ بھاگتا ہوا میرے پاس آیا‘ زمین پر بیٹھ کر
میرا پاؤں ہٹایا‘ نوٹ اٹھایا‘ نوٹ کو سینے پر رگڑ کر صاف کیا‘ نوٹ کو چوما‘ آنکھوں کے ساتھ لگایا اور دونوں ہاتھوں میں رکھ کر مجھے واپس کر دیا...
ہم چاروں اس حرکت پر حیران بھی تھے اور پریشان بھی۔ ہماری جیبوں سے عموماً نوٹ گرجاتے ہیں‘ دیکھنے والے ان کی
مکہ مکرمہ میں ایک عورت تھی اُسکو اپنے حسن پر بڑا ناز تھا!
وہ ایک مرتبہ نہانے کہ بعد کپڑے بدل کر اپنے بال سنوار رہی تھی. آئینے کے سامنے کھڑی تھی اور اپنے آپ پہ بہت فریفتہ تھی کہ میں بہت حور پری ہوں.
خاوند کو جب دیکھا تو اُس نے بڑے ناز
نخرے سے بات کی کہ ہے کوئی مرد ایسا جو مجھے دیکھے اور میری تمنا نہ کرے؟ تو خاوند نے کہا ہاں! ہے"عبید بن عمیر" یہ مسجد نبوی میں مدرس اور خطیب تھے۔
تو میاں بیوی کا تعلق عجیب سا ہوتا ہے آگے سے کہنے لگی تو دے مجھے اجازت میں
تجھے دیکھاتی ہوں وہ پھسلتا کیسے ہے، اُس نے کہا ٹھیک ہے میں اجازت دیتا ہوں . عورت کو اجازت مل گئی اور وہ نکلی، پھر مسجد کے دروازے پر آ کر کھڑی ہو گئی.
اب جب مولانا عبید بن عمیر رحمہ اللہ مسجدنبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے باہر
پھوٹی کوڑی مغل دور حکومت کی ایک کرنسی تھی جس کی قدر سب سے کم تھی۔ 3 پھوٹی کوڑیوں سے ایک کوڑی بنتی تھی اور 10 کوڑیوں سے ایک دمڑی۔ علاوہ ازیں اردو زبان کے روزمرہ میں پھوٹی کوڑی کو محاورتاً محتاجی کی علامت کے طور پر بھی استعمال کیا جاتا ہے مثلاً
میرے پاس پھوڑی کوڑی تک نہیں بچی۔
دنیا کا پُرانا ترین سکہ یہی پھوٹی کوڑی ہے۔ یہ پھوٹی کوڑی کوڑی یا پھٹا ہوا گھونگھا ہے۔ جسے کوڑی گھونگھے کے نام پر رکھا گیا ہے۔ اس کا استعمال دنیا میں
کوئی پانچ ہزار (5000) سال قبل وادیٔ سندھ کی قدیم تہذیب میں بطور کرنسی عام تھا۔ پھوٹی کا نام اسے اس لئے دیا گیا کیونکہ اس کی ایک طرف پھٹی ہوئی ہوتی ہے۔ اس لیے کوڑی کا گھونگا پھوٹی کوڑی کہلایا۔ قدرتی طور پر گھونگھوں کی پیدا
ساٹھ کی دہائی میں ایوب خان ملکہ برطانیہ اور ان کے شوہر کو پاکستان دورے کے دوران برن ہال سکول ایبٹ آباد لے گئے، ملکہ تو ایوب خان کے ساتھ بچّوں سے ہاتھ ملاتی آگے بڑھ گیئں، اُن کے شوہر بچّوں سے باتیں کرنے لگے، پُوچھا کہ بڑے ہو کے کیا بننا ہے، بچّوں نے کہا ڈاکٹر ، انجنیئر ، آرمی
آفیسر ، پائلٹ ، وغیرہ وغیرہ۔
وہ کچھ خاموش ہو گئے.
پھر لنچ پر ایوب خان سے کہا کہ آپ کو اپنے ملک کے مستقبل کا کچھ سوچنا چاہیے۔ میں نے بیس بچّوں سے بات کی۔ کسی نے یہ نہیں کہا کہ اسے ٹیچر بننا ھے
اور یہ بہت خطرناک ھے...
ایوب خان صرف مسکرا دیے۔ کچھ جواب نہ دے سکے اور یہ ہمارے لیے لمحہ فکریہ ھے۔
تاریخ کی کتابوں میں لکھا ھے کہ جب ہندوستان کی انگریز حکومت نے حضرت