“زمانے کی سب سے بڑی ایجاد۔ ہوا سے ہلکی، مٹی سے سستی، بھینسے سے مضبوط”۔ نئی ایجاد کا 1875 میں یہ اشتہار (معمولی ترمیم کے ساتھ) کسی دیوانے کی بڑ لگے لیکن خاردار تار کی ایجاد نے بہت کچھ بدل دیا تھا۔
امریکی صدر ابراہام لنکن نے 1862 میں
ہوم سٹیڈ ایکٹ منظور کیا تھا۔ کوئی بھی مرد اور عورت، کوئی بھی آزاد کردہ غلام امریکہ کے مغرب میں 160 ایکڑ تک کا رقبہ آباد کر سکتے ہیں۔ مسئلہ یہ تھا کہ یہ علاقہ اونچی سخت گھاس کے میدان تھے۔ اس میں خانہ بدوش تو رہ سکتے تھے، آبادکار
نہیں۔ یہاں کاوٗبوائے گھوما کرتے تھے جو ان میدانوں پر مویشی چرایا کرتے تھے۔
آبادکاروں کو باڑ کی ضرورت تھی تا کہ ان گھومتے پھرتے مویشیوں سے اپنی فصلیں بچا سکیں۔ اور اس کے لئے یہاں پر لکڑی
موجود نہیں تھی۔ کسانوں نے کانٹے دار جھاڑیوں لگانے کی کوشش کی۔ لیکن یہ آہستہ اگتی تھیں اور لچکدار نہیں تھیں۔ عام تاروں نے کام نہیں کیا۔ مویشی ان سے آسانی سے گزر جاتے تھے۔
اس مسئلے کو حل درکار تھا۔ اور یہ خاردار
تار تھی۔ اس کی موجودگی سے پہلے میدانوں کی حدبندی نہیں ہو سکتی تھی اور قانون پر عملدرآمد ناممکن تھا۔ نجی ملکیت کا کوئی فائدہ نہیں، اگر اس پر عملدرآمد نہیں کیا جا سکتا تھا۔
ایک دوسرے پر لپٹی دو سیدھی تاریں جن
میں کچھ فاصلے پر نوکیلے خار لگے ہوں۔ پہلے سال ایسی بتیس میل لمبی تار تیار ہوئی۔ اس نے کاوٗبوائے کے مویشیوں کے گھاس چرتے ہوئے کاشتکاروں کی فصل کو مسل دینا ختم کر دیا جس سے امریکی مغرب میں کاشتکاری ہو سکتی تھا۔ اس کے
کانٹے جانوروں کو تار پر زور لگانے کی کوشش سے روکتے تھے۔ کھلی ہونے کی وجہ سے یہ تیز آندھی میں گرتی نہیں تھی۔ یہ نئی ایجاد بہت ہی جلد مقبول ہو گئی۔
اس نے نئے تنازعات کھڑے کر دئے۔ کسی کے
لئے پانی کی رسائی رک گئی۔ کہاں باڑ لگائی جا سکتی ہے اس کی وجہ سے زخمی ہونے یا مرنے والے جانور کا ذمہ دار کون ہے۔ چراہ گاہوں، دریاوٗں تک راستے رک گئے۔ کاوٗ بوائے، مقامی جانوروں اور مقامی امریکیوں
کے لئے یہ بری خبر تھی۔ اس کو “شیطان کی رسی” کہا گیا۔ مسلح لوگ اس کو کاٹ جاتے اور واپس لگانے پر مار دینے کی دھمکیاں دیتے۔ ان لڑائیوں میں کئی اموات ہوئیں۔ باڑ کاٹنا جرم قرار پایا۔ اس نے مقامی امریکیوں کی زمین چھین لی۔ کاوٗ
بوائے کی ضرورت ختم کر دی۔ وائلڈ ویسٹ کا کلچر ختم ہوا۔ نو آباد کار اور آزاد کردہ غلام اس میں جیت گئے۔ ریڈ انڈین اور کاوٗبوائے ہار گئے۔
یہ بہت جلد دنیا بھر میں پھیل گئی اور اس نے نئی بحثیں چھیڑ دیں جو ملکیتی
حقوق کے بارے میں تھیں۔ ان کا نتیجہ نجی ملکیتی حقوق کی ڈیفی نیشن کی صورت میں نکلا، خواہ وہ کسی زمین کے ہوں، کسی مکان کے یا پھر کسی نام اور کسی کی تصویر کے استعمال کے۔
ان بحثوں کے ساتھ ساتھ، اس کی ایجاد
کے چھ سال بعد ڈیکالب کی فیکٹری میں 263000 میل لمبی خاردار تار بنائی گئی۔ اتنی لمبی کہ زمین کے گرد دس چکر لگا سکتی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جانوروں کو حد پار نہ کرنے دینے کی اس
ایجاد کا سب سے زیادہ استعمال انسانوں کو دور رکھنے کے لئے ہوا ہے۔ خود کو بچانے کے لئے بھی اور انسانوں کو مقید رکھنے کے لئے بھی۔
جنگوں کا ایک اہم ہتھیار خاردار تار رہی۔ اسے بمباری، گولیوں اور گرینیڈ سے زیادہ
فرق نہیں پڑتا تھا۔ جہاں کچھ نقصان پہنچتا، فوری مرمت آسان تھی۔ روس اور جاپان کی جنگ، پرتگال کی افریقہ میں جنگ اور جنگِ عظیم اول میں اس نے بہت اہم کردار ادا کیا۔ ٹینکوں کی آمد نے اس کا
جنگ میں اثر کم کیا لیکن عسکری میدانوں میں یہ ابھی بھی کردار ادا کرتی ہے۔
جیل خانوں، عقوبت خانوں، مہاجر کیمپوں میں لوگوں کو بند رکھنے، قومی سرحدوں، گھروں، اداروں، نجی ملکیت کی
حفاظت، قانون نافذ کرنے والے اداروں کی بڑی مددگار یہ ایجاد تاریخ کی اہم ایجادات میں سے ہے۔
مختصر معلوماتی اسلامی اور تاریخی اردو تحریریں پڑھنے کیلئے
دوسرا اکاؤنٹ فالو کریں 👈 @Pyara_PAK
جاپانی سب سے زیادہ عزت پاکستانیوں کی کرتے ہیں, بزنس کمیونٹی میں بھی وہاں پاکستانی تاجروں کو خاص اہمیت دی جاتی ہے,پاکستانی تاجر وہاں استعمال شدہ گاڑیوں کے سب بڑے خریدار ہیں اور ان کی بہت بہترین ساکھ ہے اس کاروبار میں, ہر
نیلامی میں پاکستانی شامل ہوتے ہیں اور پاکستانیوں بغیر زر ضمانت بولی میں حصہ لینے کی اجازت ہے کیونکہ پاکستانی زبان کے پکے مانے جاتے ہیں,
جب جاپان میں سونامی آیا۔ دنیا کے ہر
ترقی یافتہ اور غیر ترقی یافتہ ممالک نے اپنے شہریوں کو واپس بلا لیا۔ یہاں تک کہ بنگلہ دیش نے بھی دو جہاز بھیجے اور اپنے شہریوں کو لے گیا‘ لیکن آفت کی اس گھڑی میں پاکستانی وہ واحد قوم تھی جو
یہ تو ہم سب جانتے ہیں
کہ بیوی کی بہن کے لئے ہمارے معاشرے میں لفظ *سالی* مستعمل ہے
لفظ اگرچہ کچھ مناسب نہیں لگتا
لیکن اسی نام سے بات شروع کرتے ہیں
عموماًبیوی کی بڑی بہنیں شادی شدہ ہوتی ہیں اور اگر غیر شادی شدہ بھی ہوں تو
وقت کے ساتھ طبیعت میں سنجیدگی اور بردباری آچکی ہوتی ہے
جبکہ بیوی کی چھوٹی بہنیں عمر کے اس مرحلے میں ہوتی ہیں جب زندگی کا ہر رُخ خوبصورت اور ہر موڑ دلکش معلوم ہوتا ہے
ایسے میں بہن کا شادی ہونا اور ایک نئے
فرد یعنی بہنوئی کا گھر سے تعلق ہونا بھی ایک منفرد رنگ لئے ہوتا ہے
معاشرے کے عام چلن کی وجہ سے عموماًیہ چھوٹی سالیا ں اپنے بہنوئی سے ہنسی مذاق کی باتیں بھی کرتی ہیں اور اپنے بہنوئی کا خیال بھی بہت رکھتی ہیں
ایک صاحب کو انگور بہت پسند تھے… صبح اپنی فیکٹری جاتے ہوئے انہیں راستے میں اچھے انگور نظر آئے…انہوں نے گاڑی روکی اور دوکلو انگور خرید کر نوکر کے ہاتھ گھر بھجوا دئیے اور خود اپنی تجارت پر چلے گئے… دوپہر کو کھانے کے لئے واپس گھر آئے…دستر خوان پر سب کچھ موجود
تھا مگر انگور غائب… انہوں نے انگوروں کا پوچھا… گھر والوں نے بتایا کہ وہ تو بچوں نے کھا لئے…کچھ ہم نے چکھ لئے…معمولی واقعہ تھا مگر بعض معمولی جھٹکے انسان کو بہت اونچا کر دیتے ہیں… اور اس کے دل کے تالے کھول دیتے ہیں… وہ صاحب فوراً
دستر خوان سے اٹھے… اپنی تجوری کھولی، نوٹوں کی بہت سی گڈیاں نکال کر بیگ میں ڈالیں اور گھر سے نکل گئے… انہوںنے اپنے کچھ ملازم بھی بلوا لئے …پہلے وہ ایک پراپرٹی والے کے پاس گئے … کئی پلاٹوں میں سے ایک پلاٹ منتخب کیا…
بلیو وہیل دنیا کا سب سے بڑا جانور ہے جس کا وزن 190 ٹن اور لمبائی 33 میٹر تک ہو سکتی ہے۔ یہ موجودہ جانداروں میں سب سے بڑی جسامت کا حامل اور اب تک کے تمام جانداروں میں سب سے زیادہ وزن رکھنے والا جانور تصور کیا جاتا ہے۔ نیلی وھیل سمندروں میں رہتی ہے اور اس کا
رنگ سرمئی مائل نیلا ہوتا ہے۔ اس کی کم از کم تین مزید نوع پائی جاتی ہیں اور دیگر بالینی حوت کی طرح نیلی وھیل کی خوراک بھی صرف ایک چھوٹے سے شرمپ کی طرح کے آبی جاندار کرل پہ مشتمل ہوتی ہے۔ بیسویں صدی عیسوی سے پہلے تک نیلی وھیل تقریباً تمام بڑے سمندروں
میں وافر تعداد میں پائی جاتی تھیں لیکن ان کے کثیر شکار سے ان کی تعداد خطرناک حد تک کم ہو گئی تھی۔ 1966ء کے بعد سے ان کے شکار میں کمی واقع ہوئی ہے۔ 2002ء کی ایک رپورٹ کے مطابق ان کی کُل تعداد 5000 سے 12000 کے درمیان ہے نیلی وھیل کا جسم دیگر وھیل مچھلیوں