#searchthetruth
@SearchTheTruth5
"غامدی مذہب کی پوری تاریخ"
غامدی مذہب سے دلچسپی رکھنے والوں کے لئے۔۔۔
جناب جاوید احمد غامدی صاحب کون ہیں؟
ان کا علمی پس منظر کیا ہے؟
انہوں نے کہاں پڑھا؟ کیا پڑھا؟
ان کے پاس دینی و عصری علوم کی کوئی سند یا ڈگری ہے یا نہیں؟
وہ کس کے تربیت یافتہ ہیں؟
وہ کن کے علوم و افکار سے متاثر ہیں؟
ان کے اساتذہ کون تھے؟ وہ ایک دم کہاں سے نمودار ہوئے؟ اور دیکھتے ہی دیکھتے کیسے شہرت کی بلندیوں پر پہنچ گئے؟
ان کو ٹی وی پر کون لایا؟ وہ اسلامی نظریاتی کونسل میں کیسے داخل ہوئے؟ ؟
انہیں اپنی فکر و فلسفہ کے
پروان چڑھانے میں کن لوگوں نے تعاون کیا؟
یہ وہ سوالات ہیں جن سے غامدی صاحب کے بہت سے سامعین ، قارئین و عاشقین بے خبر ہیں !۔
کہتے ہیں کہ انسان اپنے استاذوں سے اور استاذ اپنے شاگردوں سے پہچانا جاتا ہے۔ آیئے! اس حوالے سے ایک شاگرد، استاذ اور استاذ الاساتذہ کی سوانح اور کردار وعمل
کا جائزہ لیتے ہیں ۔
"حمیدالدین فراہی "
یہ 1900ء کا ذکر ہے۔ ہندوستان پر برطانوی سامراج کی دوسری صدی چل رہی تھی۔ ہندوستان کا وائسرائے مشہور ذہین اور شاطر دماغ یہودی ''لارڈ کرزن'' تھا۔ ان صاحب کو مسلمانوں سے خدا واسطے کا بیر اور صہیونی مقاصد کی تکمیل کا شیطانی شغف تھا۔
انگریز نے برصغیر کی زمین پاؤں تلے سے کھسکتے دیکھ لی تھی۔ سونے کی ہندوستانی چڑیا کے پر وہ نوچ چکا تھا۔ اب مشرقِ وسطیٰ میں تیل کی دریافت اور ارض اسلام کو اپنے گماشتوں میں تقسیم کرنے کا مرحلہ درپیش تھا۔
لارڈ کرزن کو انگریز سرکار کی جانب سے حکم ملا تھا
کہ وہ خلیج عرب کے ساحلی علاقوں میں مقیم عرب سرداروں سے ملاقات کرے اور مطلب کے لوگوں کی فہرست بنائے۔ خلیج عرب کے ساحلی علاقوں سے مراد کویت، سعودی عرب کا تیل سے لبالب مشرقی حصہ جو اس وقت آل سعود کے زیرنگیں تھا، نیز
بحرین، قطر، متحدہ عرب امارات میں شامل سات مختلف ریاستیں اور عمان ہے۔ برطانیہ کے وزیراعظم ونسٹن چرچل اور امریکی صدر فرینکلن روز ویلٹ ریت پر لکیریں کھینچ کر ''جتنا کم اتنا لذیذ'' کے اُصول پر عمل کرتے ہوئے جس طرح کیک کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کرتے ہیں اسی طرح ''جتنا مالدار اتنا چھوٹا''
کے اصول پر عرب ریاستیں اپنے دوست عرب سرداروں میں تقسیم کرچکے تھے۔ اب اس تقسیم کو عملی جامہ پہنانے کے لیے فیلڈ ورک کی ضرورت تھی اور لارڈ کرزن اپنے مخصوص یہودی پس منظر کے سبب یہ کام بخوبی کرسکتا تھا۔
لارڈ کرزن خلیج عرب کے خفیہ دورے پر فوری روانہ ہونا چاہتا تھا
اور اسے کسی معتمد اور رازدار عربی ترجمان کی ضرورت تھی۔ برصغیر میں عربی اس وقت دو جگہ تھی۔ یا تو دارالعلوم دیوبند اور اس سے ملحقہ دینی مدارس، یا پھر علی گڑھ کا شعبہ عربی۔ اول الذکر سے تو ظاہر ہے کوئی ایسا ٹاؤٹ ملنا دشوار تھا۔ لارڈ کرزن کی نظر انتخاب اسی طرح کی مشکلات کے حل کے لیے
قائم کیے گئے ادارہ علی گڑھ پر پڑی وہاں ایک مانگو تو چار ملتے تھے۔ مسئلہ چونکہ وائسرائے ہند کے ساتھ خفیہ ترین دورے پر جانے کا تھا جس کے مقاصد اور کارروائی کو انتہائی خفیہ قرار دیا گیا تھا اس لیے کسی معتمد ترین شخص کی ضرورت تھی
جو عقل کا کورا اور ضمیر کا مارا ہوا ہو۔ سفارشوں پر سفارشیں اور عرضیوں پر عرضیاں چل رہی تھیں کہ خفیہ ہاتھ نے کارروائی دکھائی اور علی گڑھ کے سر پرستان اعلیٰ کی جانب سے ایک نوجوان فاضل کا انتخاب کرلیا گیا۔
لارڈ کرزن صاحب کو ان کی عربی دانی سے زیادہ سرکار سے وفاداری کی غیرمشروط یقین دہانی کرادی گئی اور یوں یہ عجمی عربی دان مسلمان ہوکر بھی اس تاریخی سفر پر انگریز وائسرائے کا خادم اور ترجمان بننے پر راضی ہوگیا جس کے نتیجے میں آج خلیجی ریاستوں میں استعمار کے مفادات کے محافظ حکمران کلا
گاڑے بیٹھے ہیں اور امریکی وبرطانوی افواج کو تحفظ اور خدمات فراہم کررہے ہیں۔
یہ نوجوان فاضل حمید الدین فراہی تھے۔ جو اُترپردیش کے ضلع اعظم گڑھ میں ایک گاؤں ''فراہا'' میں پیدا ہوئے۔ آپ مشہور مؤرخ علامہ شبلی نعمانی (1858-1914) کے کزن تھے۔
علی گڑھ یونیورسٹی میں تعلیم پائی اور MAO کالج میں عربی پڑھاتے رہے۔ لارڈ کرزن کی ہم راہی کے لیے ان کے انتخاب میں علی گڑھ میں موجود ایک جرمنی پروفیسر ''جوزف ہوروز'' کی سفارش کا بڑا دخل تھا جو یہودی النسل تھا اور آپ پر اس کی خاص نظر تھی۔ آپ نے اس سے عبرانی زبان سیکھی تھی تاکہ تورات
کا مطالعہ اس کی اصل زبان میں کرسکیں۔
لارڈ کرزن صاحب جناب فراہی کی صلاحیت اور کارکردگی سے بہت خوش تھے چنانچہ واپسی پر انہیں انگریزوں کی منظور نظر ریاست حیدر آباد میں سب سے بڑے سرکاری مدرسہ میں اعلیٰ مشاہرے پر رکھ لیا گیا
اور آپ نے وہاں سے اس کام کا آغاز کیا جو قسمت کا مارا یہودیوں کا پروردہ ہر وہ شخص کرتا ہے جسے عربی آتی ہو۔ آپ نے اپنے آپ کو قرآن کریم کی ''مخصوص انداز'' میں خدمت کے لیے وقف کرلیا۔ مخصوص انداز سے مراد یہ ہے کہ تمام مفسرین سے ہٹ کر نئی راہ اختیار کی کہ قرآن کریم کو محض لغت کی مدد سے
سمجھا جائے۔ یہ لغت پرست مفسرین دراصل اس راستے سے قرآنی آیات کو وہ معنی پہنانا چاہتے تھے جس کی ان کو ضرورت محسوس ہو اگرچہ دوسری آیات یا احادیث، مفسرین صحابہ وتابعین کے اقوال اس کی قطعی نفی کرتے ہوں۔ درحقیقت قرآن سے ان حضرات کا تعلق، انکار حدیث پر پردہ ڈالنے کی کوشش ہوتا ہے
جیسا کہ تمام منکرین حدیث کا خاصہ ہے کہ وہ اپنے اس عیب کو چھپانے کے لیے قرآن کریم سے بڑھ چڑھ کر تعلق اور شغف کا اظہار کسی نہ کسی بہانے کرتے رہتے ہیں۔ واضح رہے کہ یہ وہی حیدر آباد ہے جہاں شاعرِ مشرق علامہ اقبال جیسے فاضل شخص کو محض اس لیے ملازمت نہ مل سکی کہ وہ مغرب دشمن شاعری کے
کے مرتکب تھے لیکن فراہی صاحب پر لارڈ کرزن کا دست کرم تھا کہ حیدر آباد کی آغوش ان کے لیے خود بخود وا ہوگئی اور انہیں ایک بڑے ''علمی منصوبے'' کے لیے منتخب کرلیا گیا۔
اس منصوبے نے جو برگ وبار لائے انہیں مسلمانان برصغیر بالخصوص آج کے دور کے اہالیان پاکستان خوب خوب بھگت رہے ہیں۔
فراہی صاحب نے ''تفسیر نظام القرآن'' لکھی جس کی مقبولیت کا یہ عالم ہے کہ کتب خانوں میں تلاش کرنے سے بھی مل کے نہیں دیتی۔ علامہ شبلی نعمانی، فراہی صاحب کے بارے میں اس وقت شدید تحفظات کا شکار ہوگئے تھے جب ان کی بعض غیر مطبوعہ تحریر ''دارالمصنفین'' میں شائع ہونے کے لیے آئیں
لیکن ان کی طباعت سے انکار کردیا گیا کہ زبردست فتنہ پھیلنے کا خطرہ تھا۔ فراہی صاحب اپنے پیچھے چند شاگرد، چند کتابیں اور بے شمار شکوک وشبہات چھوڑ کر 1930ء میں دنیا سے رُخصت ہوگئے۔
"امین احسن اصلاحی "
فراہی صاحب نے حیدر آباد سے منتقل ہونے کے بعد اعظم گڑھ کے ایک قصبے ''سرائے میر''
میں ''مدرسۃ الاصلاح'' نامی ادارہ قائم کیا۔ نام سے ہی معلوم ہوتا تھا کہ وہ تفسیر کے مسلّمہ اُصولوں کی اصلاح کرکے نئی جہتیں پیدا کرنا چاہتے تھے۔ آپ کے اس مدرسے میں 1922ء میں ایک نوجوان فارغ ہوا جو اساتذہ کا منظور نظر اور چہیتا تھا۔ فراہی صاحب نے اسے دعوت دی کہ وہ ان کے ساتھ مل کر
''قرآن کریم کا مطالعہ'' کرے۔ یہ نوجوان آگے چل کر فراہی صاحب کا ممتازترین شاگرد اور ان کے نظریات وافکار کی اشاعت کا سب سے بڑا ذریعہ بنا۔
یہ جب مدرسۃ الاصلاح میں داخل ہوا تو امین احسن تھا، فارغ ہوا تو ''امین احسن اصلاحی'' (1904-1997) بن چکا تھا۔
اس نے فراہی صاحب کی وفات کے بعد آپ کی یاد میں رسالہ ''الاصلاح'' جاری اور ''دائرہ حمیدیہ'' قائم کیا۔
اصلاحی صاحب انکار حدیث اور اجماع امت کا منکر ہونے کے علی الرغم جماعت اسلامی کے بانیوں میں سے تھے۔ قیام کے دوران مجلس شوریٰ کے رکن رہے۔ 1958ء میں مودودی صاحب سے اختلافات کی بنا پر
جماعت سے علیحدہ ہوئے اور وہی کام شروع کیا جو ان کے استاذ نے آخری عمر میں کیا تھا۔
آپ نے ''حلقہء تدبر قرآن'' قائم کیا جس میں کالج کے طلبہ کو قرآن کریم اور عربی پڑھائی جاتی تھی۔ ساتھ ساتھ ''تدبر قرآن'' کے نام سے تفسیر لکھنے میں بھی کامیابی حاصل کی لیکن اسے مقبول کروانے میں بری
طرح ناکام ہوئے۔ فراہی صاحب بہرحال عالم فاضل شخص تھے لیکن اصلاحی صاحب اس پائے کے عالم نہ تھے۔ مغربی علوم تو کیا وہ شرعی علوم سے بھی کماحقہ، واقف نہ تھے۔ ان کی تفسیر میں کئی بچگانہ غلطیاں ہیں جن میں سے کچھ اگلے مضمون میں قارئین کے سامنے پیش کی جائیں گی ۔
اصلاحی صاحب ہفتہ وار درس بھی دیتے تھے لیکن انکار حدیث، تجدد پسندی اور لغت پرستی نے انہیں اپنے پیش رو استاذ کی طرح کہیں کا بھی نہ چھوڑا تھا۔آخر خالد سعود اور جاوید غامدی جیسے شاگرد تیار کرکے 1997ء میں اس دارِ فانی سے رخصت ہوگئے۔
"محمد شفیق المعروف جاوید احمد غامدی"
قیام پاکستان کے ابتدائی دور میں پاک پتن کے گاؤں میں ایک پیرپرست اور مزار گرویدہ قسم کا شخص رہتا تھا۔ مزاروں والا خصوصی لباس، گلے میں مالائیں ڈالنا، ہاتھ میں کئی انگوٹھیاں پہننا اور لمبی لمبی زلفیں بغیر دھوئے تیل لگائے رکھنا اس کی پہچان تھی۔
18 اپریل 1951ء کو اس کے ہاں ایک لڑکا پیدا ہوا۔ نام تو اس کا محمد شفیق تھا لیکن باپ کے مخصوص مزاج کی وجہ سے اس کا عرف کاکوشاہ پڑگیا۔ یہ خاندان ککّے زئی کہلاتا تھا۔ اس طرح اس کا پورا عرفی نام ''کاکوشاہ ککّے زئی'' بنا۔
محمد شفیق عرف کاکوشاہ ککّے زئی جب گاؤں کی تعلیم کے بعد لاہور
آیا تو اسے اپ ٹوڈیٹ قسم کا نام رکھنے کی فکر لاحق ہوئی۔ اس نام کے ساتھ تو وہ ''لہوریوں'' کا سامنا نہ کرسکتا تھا۔ سوچ سوچ کر اسے ''جاوید احمد'' نام اچھا معلوم ہوا کہ ماڈرن بھی تھا اور رعب دار بھی۔ اس نے محمد شفیق سے تو جان چھڑالی اب ''کاکو شاہ ککے زئی'' کے لاحقے کا مسئلہ تھا
جو کافی سنگین اور مضحکہ خیز تھا۔ لیکن فی الحال اسے اس کی خاص فکر نہ تھی۔
اس زمانے میں اس کا ایک قریبی دوست ہوتا تھا۔"جناب رفیق احمد چوہدری"۔ وہ ان دنوں اور اس روئیداد کے عینی گواہ ہیں۔ سقوطِ ڈھاکہ کے بعد 1972ء کا دور تھا۔ کاکوشاہ لاہور گورنمنٹ کالج سے بی اے آنرز کرنے کے بعد
معاشرے میں مقام بنانے کی جدوجہد کررہا تھا۔ اس کی انگریزی تو یوں ہی سی تھی لیکن قدرت نے اسے ایک صلاحیت سے خوب خوب نوازا تھا۔۔ وہ تھی طاقت لسانی۔ اس کے بل بوتے پر وہ تعلقات بنانے اور آگے بڑھنے کی سعی میں مصروف تھا۔
آخر کار اس کی جدوجہد رنگ لائی اور وہ اپنی چرب زبانی سے پنجاب کے ایڈمنسٹریٹر اوقاف جناب مختار گوندل کو متاثر کرکے اوقاف کے خرچ پر 29جے ماڈل ٹاؤن لاہور میں ''دائرۃ الفکر'' کے نام سے ایک تربیتی اور تحقیقی ادارہ کی داغ بیل ڈالنے میں کامیاب ہوگیا۔
پھر جلد ہی قدرت نے اسے مولانا مودودی مرحوم کے سایہ عاطفت میں ڈال دیا تو جاوید احمد کو فوری طورپر جماعتِ اسلامی میں پذیرائی ملی۔ رکنیت مجلس شوریٰ تو چھوٹی شے ہے، اس کے حواری اسے مولانا مودودی کا ''جانشین'' بتانے لگے ۔
آخرکار جب جاوید احمد کو جماعت اسلامی سے 1957ء میں الگ ہونے والے مولانا امین اصلاحی سے روابط کا شوق مولانا کے قریب تر اور جماعت اسلامی سے مزید دور لے جانے کا باعث بنا۔
آہستہ آہستہ وہ جاوید احمد سے جاوید احمد غامدی ہوگیا۔
اس لقب کی جناب 'جاوید احمد غامد ی صاحب ' دو چار وجوہات بیان کرتے ہیں اور صحیح ایک کو بھی ثابت نہیں کرسکتے۔ حال ہی میں ان کے ایک شاگرد خاص نے یہ وجہ بیان کی ہے کہ ''اصل میں وہ اصلاحی صاحب سے عقیدت کی وجہ سے اصلاحی لقب رکھنا چاہتے تھے
لیکن ''مدرسۃ الاصلاح'' سے فارغ نہ تھے۔ اس لیے غامدی نام رکھ لیا۔'' سبحان اللہ! چھوٹے میاں کو یہ بھی نہیں پتہ کہ غامدی نہ اصلاحی کے ہم وزن ہے نہ ہم معنی! آخر کس طرح سے اصلاحی سے غامدی تک چھلانگ لگادی گئی؟؟؟ گویا یہ پانچویں وجہ بھی عار ہی عار ہے
اور پورا مکتب فکر مل کر اپنے بانی کے نام کی درست توجیہ کرنے سے قاصر ہے۔
2001ء سے قبل غامدی صاحب کی تحریک پروان چڑھ رہی تھی لیکن اسے کسی لارڈ کرزن کی سرپرستی دستیاب نہ تھی۔ 2001ء میں یہ کمی بھی پوری ہوگئی اور ان کے سرپر عصر حاضر کے
لارڈ کرزن کا دست شفقت کچھ ایسا جم کرٹکا کہ وہ شخص جو دینی اور مذہبی علم کسی باقاعدہ مسلمہ دینی درس گاہ کا مرہون منت نہیں، بلکہ اس کا علم جنگلی گھاس کی طرح خود رو ہے،
اور ان کی عقل و فہم کسی مسلمہ ضابطہ کی پابند نہیں ہے، جو عربی کی دوسطریں سیدھی نہیں لکھ سکتا، جو انگریزی کی چار نظموں اور 4مصرعوں کی پونجی میں آدھے سے زیادہ مصرع چوری کرکے ٹانکتا ہے،
جس کی اکثر اردو تحریریں سرقہ بازی کا نتیجہ ہے(ان باتوں کی تفصیل اگلی تحریر میں آئے گی )، وہ آج ملک کا مشہور ومعروف اسکالر ہے اور اس کا فرمایا ہوا مستند سمجھا جاتا ہے۔ ''ککّے زئی سے غامدی تک'' کے سفر کی روداد عبرت ناک بھی اور الم ناک بھی۔
سچ ہے استاذ اپنے شاگردوں سے ہی پہچانا جاتا ہے اور شاگرد اپنے استاذ کی پہچان کا ذریعہ ہوتے ہیں۔
''فراہی سے اصلاحی اور اصلاحی سے غامدی تک'' استاذی شاگردی کا سلسلہ اس مقولے کی صداقت کے لیے کافی سے زیادہ شافی، اور درکار ضرورت سے زیادہ پکی سچی گواہی ہے۔
غامدی صاحب کے متعلق اوپر جو باتیں لکھی گئیں یقینا یہ ان کے بہت سے محبین کے لئے نئی ہونگی ، ایسا ہوتا ہے جو لوگ اسلام اور مسلمانوں کے عقائد و نظریات، قرآن و سنت، اجماع امت اور دین و مذہب کو بگاڑنے، اکابر و اسلافِ امت کے خلاف بغاوت کرنے اور ان کے خلاف زبان درازی کرنے کی ہمت رکھتے
ہوں، وہ دنیا بھر کی اسلام دشمن قوتوں اور مذہب بیزار لابیوں کے منظور نظر بن جاتے ہیں، ان کے تمام عیوب ونقائص نہ صرف چھپ جاتے ہیں بلکہ اعدائے اسلام ان کی سرپرستی میں ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کو اپنا فرض اور اعزاز سمجھتے ہیں
اور ان کی حمایت و سرپرستی کے لئے اپنے اسباب، وسائل، مال و دولت اور خزانوں کے منہ کھول دیتے ہیں، صرف یہی نہیں بلکہ نظری، بصری میڈیا کے ذریعے ان کا ایسا تعارف کرایا جاتا ہے کہ دنیا ان کے ”قدوقامت“ اور نام نہاد علمی شوکت و صولت کے سامنے ڈھیر ہوجاتی ہے
۔جس طرح آج سے ایک صدی پیشتر ضلع گورداس پور کی بستی قادیان کے میٹرک فیل اور مخبوط الحواس انسان غلام احمد قادیانی کو استعمار نے اٹھایا، اس کی سرپرستی کی اور اس سے دعویٰ نبوت کرایا،
ٹھیک اسی طرح دورِ حاضر کے نام نہاد اسکالر جاوید احمد غامدی کا قضیہ ہے،
جس طرح غلام احمد قادیانی کا کوئی پس منظر نہیں تھا اور اس میں اس کے سوا کوئی کمال نہیں تھا کہ اس نے مسلمانوں کے قرآن کے مقابلہ میں نیا قرآن، مسلمانوں کے دین کے مقابلہ میں نیا دین اور مسلمانوں کے نبی کے مقابلہ میں نئی نبوت کا اعلان کیا،
جہاد جیسے دائمی فریضہ کو حرام قرار دیا اور حیات و نزول عیسیٰ علیہ السلام کے قطعی عقیدہ کا انکار کیا، ٹھیک اسی طرح جناب جاوید احمد غامدی صاحب بھی دین اسلام کے مقابلہ میں نئے ترمیم شدہ دین اور مذہب کی ایجاد کی کوشش میں ہیں اور
اور انہوں نے بھی اپنے پیش روؤں کی طرح منصوص دینی مسلمات کے انکار پر کمر ہمت باندھی ہوئی ہے۔

• • •

Missing some Tweet in this thread? You can try to force a refresh
 

Keep Current with داعی الی الخیر و خادم ختم نبوت

داعی الی الخیر و خادم ختم نبوت Profile picture

Stay in touch and get notified when new unrolls are available from this author!

Read all threads

This Thread may be Removed Anytime!

PDF

Twitter may remove this content at anytime! Save it as PDF for later use!

Try unrolling a thread yourself!

how to unroll video
  1. Follow @ThreadReaderApp to mention us!

  2. From a Twitter thread mention us with a keyword "unroll"
@threadreaderapp unroll

Practice here first or read more on our help page!

More from @Khalidi75

13 Nov
#SearchTheTruth
@SearchTheTruth5
ختم نبوّت کی اہمیت اور فضیلت
،💫حضرت مولانا مفتی محمد حسن مدظلہ🌷
*
اس دور قحط الرجال میں حضرت مولانا محمد حسن مدظلہ کی شخصیت روشنی کی روشن قندیل ہے۔
آپ نے خود کو تحفظ ختم نبوت صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے وقف کر رکھا ہے آپ جس جذبے سے اپنے شاگردوں
کو اس محاذ پر تیار کر رہے ہیں اس کی مثال ملنی محال ہے آپ نے اپنی تحریر میں فرمایا ہے کہ "دین اسلام کے بنیادی عقائد میں سے ایک اہم ترین عقیدہ عقیدہ ختم نبوت صلی اللہ علیہ وسلم ہے اس مبارک عقیدے کی عظمت کو بیان کرنے کے لیے صرف اتنا کہہ دینا ہی کافی ہے کہ یہ عقیدہ پورے دین اسلام کی
روح ہے جسے روح کے بغیر جسم کی کوئی حیثیت نہیں ایسے ہی عقیدہ ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بغیر کسی عمل کی کوئی اہمیت نہیں اگرچہ لاکھ نماز پڑھنے روزے رکھے حج کرے سب بیکار ہے
یہ قرب قیامت کا دور ہے روز بروز نت نئے مختلف فتنے رونما ہو رہے ہیں ان میں سے سب سے خطرناک ترین فتنہ
Read 17 tweets
11 Nov
#searchthetruth
@SearchTheTruth5
🚨قادیانیت کا غلبہ"..2023 میں🚨
✍️📚از :مرتب سہیل باوا خادم
✅ ختم نبوت لندن ﴿قسط 8️⃣﴾
یہ جارحانہ انکار ختم نبوت کا گروہ کی عمر اس وقت 120سال ہوچکی ہے اس سے پہلے بھی ایک دور تھا جو ۱۹۱۴ء کو ختم ہوا ۔دوسرا دور محمودی استبداد کا تھا
۔اس کی عمر پچاس سال تھی ۔جونہی حکیم نوالدین کی وفات ہوئی محمودی دسیہ کاری کا ابوالہلول نمودارہوا قادیان اس کے بعد ربوہ کی فضا بڑی سازگار ثابت ہوئی محمود کے سارے پروگراموں کا مفاد اس کی اپنی اپنی آمریت کو قائم کرنا اور جماعت میں سمعنا و اطعنا کی ذہنیت پیدا کرنا تھا
جماعت میں سمعنا و اطعنا کی ذہنیت پیدا کرنا تھا
**اس نے جماعت میں اپنے لئے وہی مرتبہ پیدا کیا جو مذہب میں نبی اور سیاست میں ڈکٹیٹر کا ہوتا ہے اس تخریبی اورابلیسی تربیت کے لیے اس نے خواب اور رؤیا کا سہارا لیا کیونکہ ان کے سامنے دلیل اور حجت کی گنجائش تو تھی نہیں
Read 15 tweets
11 Nov
#searchthetruth
@SearchTheTruth5
ختم نبوت کی اہمیت اور فضیلت
🌺سر عمرحیات ٹوانہ⚡
حضرت خواجہ خان محمد رحمہ اللہ علیہ نے ایک مرتبہ فرمایا کہ ایک مرتبہ مولانا محمد علی جالندھری رحمۃ اللہ علیہ نے انہیں بتایا کہ خضر حیات کے والد سر نواب عمرحیات ٹوانا ایک مرتبہ لندن گرمیوں کی
چھٹیاں گزارنے گئے چونکہ نواب صادق بہاولپور بھی گرمیاں لندن میں گزارا کرتے تھے تو وہاں پر ان دونوں کی ملاقات ہوئی جس میں والی بہاولپور نے ان سے مشورہ کیا کہ انگریزوں کا میرے پر بہت دباؤ ہے کہ قادیانیوں کا مقدمہ ریاست بہاولپور سے ختم کرا دیا جائے تو ان حالات میں کیا کیا جائے؟
اس پر عمر حیات ٹوانہ نےان کو مشورہ دیا کہ ہم انگریز کے وفادار ضرور ہیں مگر اپنا ایمان اور عشق رسول حضرت محمد صلی اللہ وسلم کا سودا تو ہم ان سے نہیں کر سکتے۔آپ ان سے کہیں کہ عدالت جو بھی فیصلہ حق بات پر دے گی میں اس کا ساتھ دوں گا آپ ڈٹے رہیے حضور پاک صلی اللہ وسلم کی عزت سے بڑھ
Read 9 tweets
10 Nov
#searchthetruth
@SearchTheTruth5
دنیا میں اس وقت 28092 سے زائد یونیورسٹیاں قائم ہیں لیکن اس یونیورسٹی کو دنیا کی پہلی اور قدیم ترین یونیورسٹی ہونے کا اعزاز حاصل ہے.
یونیسکو کے ریکارڈ کے مطابق پچھلے 1200 سالوں میں ایک دن کیلئے بھی یہ یونیورسٹی بند نہیں ہوئی ہے.
دنیا میں سب سے پہلے تعلیمی ڈگری کا اجرا بھی اسی یونیورسٹی نے کیا تھا.
اس یونیورسٹی کی جامع مسجد میں بیک وقت 22 ہزار افراد کے نماز ادا کرنے کی گنجائش تھی.
بلا تفریق نسل و مذہب دنیا کے کونے کونے سے لوگ اس یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرنے آتے تھے.
علامہ ابن خلدون،لسان الدین الخطیب،محمد الادریسی سمیت نامور مسلم و غیر مسلم اسکالر اسی یونیورسٹی سے
فارغ التحصیل ہوئے تھے.
اس یونیورسٹی کا نام گینیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں دنیا کی سب سے پہلی یونیورسٹی کے طور موجود ہے.
آپ جانتے ہیں اس یونیورسٹی کا نام کیا ہے اور اسے کس نے کب اور
Read 7 tweets
9 Nov
#SesrchTheTruth
@SearchTheTruth5
ختم نبوت کی اہمیت اور فضیلت
🌷حضرت مولانا محمد یوسف المعروف حضرت جی🌴
*
تبلیغی جماعت کے رہنما اور بانی جید عالم دین اور زبردست روحانی شخصیت حضرت یوسف جی کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں ۔
آپ نے بہت عرصہ تک مسلسل جدو جہد ،مسلسل دعوت ،مسلسل تبلیغاور مسلسل سفر محض اللہ کے واسطے سرانجام دیئے ہیں۔ ایک دفعہ تحفظ ختم نبوت کے حوالے سے بات کرتے ہوئے آپ نے فرمایا
ہمارے اکابر جیسا کہ حضرت مولانا انور شاہ کشمیری اور دیگر علماء بلاوجہ قادیانیت کی مخالفت نہیں کرتے
انگلینڈ میں کوئی بھی مشین کتنی ہی تیز حرکت کیوں نہ کرتی ہوں اتنی تیز نہیں جتنی تیزی سے قادیانی مشینری مسلمانوں کو مرتد بنا رہی ہے مرزائی مبلغین دلائل کا رنگ چڑھا کر ،مکر و فریب کی استری کرکے مسلمانوں کے ایمان کا جنازہ تیار کر رہے ہیں۔ قادیانی مذہب مکر و فریب،کذب وافتراء کا
Read 10 tweets
5 Nov
#SearchTheTruth
@SearchTheTruth5
🚨*قادیانیت کا غلبہ"..2023 میں*🚨
✍️📚از :*مرتب سہیل باوا خادم*
✅*ختم نبوت لندن* ﴿*قسط 5️⃣*﴾
*مرزا قادیانی کے پیروکاروں کا حالیہ بیانیہ کی حقیقت صرف اورصرف مسافر کے سراب کی فریب کاریوں سے زیادہ نہیں ہے*۔*
ان کا حال انکار ختم نبوت کے بیابان میں ان کے سربراہ کے دعوؤں کے سراب کے جلوہ بے حقیقت کے اثر کے نیچے عقل معطل ہو کر رہ گئی ہے*۔
جماعت قادیان کے نزدیک خلافت ایک دنیاوی بادشاہت کی حیثیت رکھتی ہے۔ ایسا لگتا ہےکہ
سیاست بازی خلیفہ جی کی گھر کی لونڈی ہے۔مذہب یا تو زیب داستان کے لئے تھایا اس کا مصرف صرف سیاست کی پردہ داری تھی۔کبھی ان پر سیاست کا ایسا جنون مسلط ہوجاتا تھا کہ وہ جزن و احتیاط کے سارے پردے چاک کر کے برملا کہہ دیتا تھا۔۔
Read 11 tweets

Did Thread Reader help you today?

Support us! We are indie developers!


This site is made by just two indie developers on a laptop doing marketing, support and development! Read more about the story.

Become a Premium Member ($3/month or $30/year) and get exclusive features!

Become Premium

Too expensive? Make a small donation by buying us coffee ($5) or help with server cost ($10)

Donate via Paypal Become our Patreon

Thank you for your support!

Follow Us on Twitter!