ہمارا ایک منگول دوست یہ بات منوانے کے لیے بضد ہے کہ یہ کرہ ارض اپنے روز اول سے سرایکی تھی
بابلیوں کی اولین داستان تخلیق گل گامش میں بھی سرایکستان کا ذکر ہوا ہے
کہ جب گل گامش اپنی کشتی پر دریا ہاکڑا سے گزرا تو تونسہ کے قریب ایک شریر لڑکے نے اسے کہاں " مسات آ ونج تیکوں داجل دے پیڑے ڈیناں "
اس کے علاوہ جتنی بھی مذہبی اساطیر لکھی گئی ان سب میں سرایکستان کا ذکر بڑے بڑے اکشروں میں ہوا ہے
حتی کہ چاروں ویدوں اور اپنشدوں میں بھی سرایکستان کا ذکر موجود ہے نیز یہ کہ
اس وقت کی ویدیں اور اپنشد ظہور دھریجوں کے ہکڑشکڑ دادا نے لکھی تھی
جسے بعد میں پنجابی سامراج نے تحریف کرکے سنسکرت میں بدل دیا
اور اس دن کے بعد مشرق سے مغرب تک پھیلی سرایکی سلطنت سمٹنا شروع ہوگئی اور پنجابی سامراج نے اسے مختلف خطوں اور ملکوں کے نام پر تقسیم کردیا
جبکہ خود پنجاب کا نام پنجاب 1900 میں پڑا اس سے پہلے پنجاب کا نام و نشان ہی نہیں تھا ۔
اس کے علاوہ جہلم سرایکی میں جو الیگزنڈر سرایکی اور پورس سرایکی کے درمیان جنگ ہوی اس کا ذمہ دار بھی پنجابی سامراج تھا ورن یونانی سرایکی رومن سرائیکی اور ایرانی سرایکوں کے ساتھ امن کے ساتھ رہ رہے تھے ۔
قصہ مختصر دنیا میں ایجاد ہونے والی پہلی الف سے پہلی روح تک سب سرایکی تھا سرایکی ہے اور سرایکی رہے گا۔
• • •
Missing some Tweet in this thread? You can try to
force a refresh
#garrisonstate
چھٹی قسط
انگریز کو نمایاں خدمات فراہم کرنے کی ایک نمایاں مثال شاہ پور کے مٹھہ ٹوانوں نے قائم کی انکے بڑے ، ملک صاحب خان بہادر کو نو ہزار ایکڑ زمین کالڑے میں دی گئی اور تاحیات بارہ سو کی جاگیر سے نوازا گیا کیونکہ اس نے 1857 کی جنگ آزادی میں انگریز سرکار کی مدد کی
تھی انعام ملنے پہ خان بہادر نے ذاتی نہر کھدوائی اور علاقے کا بڑا وڈیرہ بن گیا 1879 میں خان بہادر کی موت واقع ہوئی تو اسکا بیٹا عمر حیات خان ٹوانہ ابھی نابالغ تھا اسکے بڑے ہونے تک court of wards نے اسکی ساری جاگیر کی دیکھ بھال کی اور عمر حیات کے بڑے ہونے پر اسکے حوالے کی 1903
میں عمر حیات خان کو اٹھارہویں ٹوانہ لانسرز میں اعزازی لیفٹیننٹ بنا دیا گیا تین سال بعد اسے پنجاب کی قانون ساز کونسل کا رکن بنایا گیا 1910 میں اسے وائسرائے کی قانون ساز کونسل کا رکن بنایا گیا اور ساتھ ہی ذیلدار اور مجسٹريٹ کا اعزازی عہدہ بخشا گیا اسی کے
میاں محمد بخشؒ کی یہ دو نظمیں اُس دور کا کمال نقشہ کھینچتی ہیں اس میں آپکو پنجاب میں اُس وقت بھی پنجابیوں کا پنجابی زبان کے ساتھ سوتیلے رویے کا اندازہ ہوگا اس میں کشمیر، لاہور، پشاور کا بھی ذکر ہے(کیونکہ اُس دور میں کشمیر لاہور پشاور ایک ہی مُلک پنجاب کے مختلف علاقے تھے پھر
انگریز نے۹۴۸۱ میں کشمیر پنجاب کی ایک اور ریاست جموں کے راجہ گلاب سنگھ کو بیچ دیا اور ۱۰۹۱ میں پنجاب کے پانچ ڈویژنوں کو توڑ کر لارڈ کروژن نے صوبہ سرحد بنا دیا)نیز اس نظم میں جہلم اور میرپور کا بھی ذکر ہے اور میاں صاحبؒ نے اُس دور میں پنجابیوں کے اپنی زبان کے ساتھ منفی رویے کا
#garrisonstate
پانچویں قسط
دیہی فوجی اشرافیہ اور انگریز حکومت کے مابین چپقلش
انگریز نے ان قوموں کو راضی رکھنے کے لیے بعض اوقات سر بھی جھکایا جیسا کہ لینڈ ایکٹ منظور ہونے کے موقع پہ ہوا انگریز فوج کی زیادہ تر بھرتی دیہی علاقوں سے ہو رہی تھی اسلیے انگریز بہرصورت اس طبقے کو اسی
حالت پہ قائم رکھنا اور انہیں شہری تہذیب اور شہری ذہنیت سے دور رکھنا چاہتا تھا اسی لیے جب دیہات کے لوگوں نے معاشی تنگی کے باعث اپنی زمینیں شہری لوگوں کے ہاتھ فروخت کرنا شروع کیں تو انگریز کو یہ بات ناگوار گزری اسکے سدباب کے لیے انگریز نے 1900 میں انتقال اراضی کا قانون پاس کیا
جسکے تحت غیر کسان نسلوں کو زمین کی فروخت ممنوع قرار پائی یہی صورتحال دیہی فوجی طبقے کے لیے قائم کردہ چناب کالونیوں میں بھی دیکھنے کو ملی آغاز میں یہ کالونیاں بڑی منظم اور صاف ستھری تھیں اور انکی ملکیت ایک ہی طبقے یعنی دیہی فوجی اشرافیہ کے ہاتھ میں تھی لیکن جب یہاں اراضی کی
#garrisonstate
چوتھی قسط
اس تشکیل نو کیوجہ سے بڑی تبدیلی یہ آئی کہ پنجاب کی اپنی علیحدہ کمان بن گئی اور افغانستان کے حالات کیوجہ سے پنجاب کو مرکزی حیثیت حاصل ہو گئی سن 1900 تک یہ صورتحال تھی کہ شاہی ہندی فوج کو آدھی سے زیادہ نفری پنجاب فراہم کر رہا تھا بیسویں صدی کے آغاز تک
پنجاب "فوجی مزدوروں کی منڈی" میں تبدیل ہو چکا تھا 1914 تک فوج میں 20 گورکھا 15 شمال وسطی 57 پنجابی اور سرحدی 18 بمبئی اور 11 مدراس کی یونٹیں تھیں گویا تقریباً آدھی فوج پنجابیوں پہ مشتمل تھی
پنجابی مسلمانوں کی بھرتی کو پنڈی اٹک اور جہلم کے اضلاع تک محدود رکھا گیا اور ان میں بھی راجپوت گکھڑ جنجوعہ اور اعوان اقوام کو ترجیح دی جاتی تھی تقریباً نوے فیصد رنگروٹ انھی علاقوں اور انھی قبیلوں سے تھے اس سب پر مزید یہ کہ قومی تعصب کو برقرار رکھا گیا اور سکھوں کو
"بھوک"اور کشمور واقعہ
جب تک مکمل بیروزگاری ختم نہیں ہوگی تب تک ایسے ہی لوگ تشدد کا سامنا کرتے رہینگے جنسی تشدد ، جسمانی تشدد ، زہنی تشدد اور سب سے خطرناک دو وقت کی روٹی میں سرگرداں در بدر ٹوکرے کھانے والوں پر معاشرے کی جانب سے اجتماعی اور مجموعی تشدد ۔
کشمور میں بدترین وقت سے گزرنے والی خاتون اور اسکی کمسن بچی ہر طرح کے تشدد سے گزرچکی ہیں
جنسی ، جسمانی ، ذہنی تشدد اور یہ سرمایہ دار ظالم سماج کا اپنے مفادات کے لیے خود ساختہ ایجاد کردہ " بھوک "
ایک بات یاد رکھیں ہمارے ہزار قسم کے اختلاف ہوسکتے ہیں مذہبی ، نسلی ، لسانی اور رہن
سہن کی تفریق لیکن ان تمام مسائل کی جڑ بھوک ہیں جس دن ہم نے بھوک کو ختم کرنے کے وسائل اور اختیار اپنے ہاتھ لیا اس دن ہمارے سماج سے % 95 جرائم خود بخود ختم ہوجائے گے
فارسی لوگ پنجابیوں کے ہم نسل اور صدیوں سے پڑوسی ہونے کی وجہ سے فارسی زبان اور پنجابی زبان ایک ہی لسانی خاندان سے ہونے کی وجہ سے سندھو کی جگہ ندی اور ندی کی جگہ آب ہونا کوئی اچنبے کی بات نہیں اس پورے برصغیر کو ہزاروں سال قبل ❞آریہ ورت❝ بھی کہا جاتا تھا جس کا
مطلب وہی ہے جو ایران کا مطلب ہے یعنی آریہ نسل کی سرزمین، پارسیوں کی ہزاروں سال پرانی مذہبی کتاب ویند اوستا میں پنجاب کا اس طرح ذکر ہے کہ ❞میں آہورامزدہ نے پندرہ بہترین سرزمینوں میں سے ایک سرزمین وہ بنائی جہاں سات دریا بہتے ہیں❝ یہ ظہور دھریجہ اور وادئی وادئی سندھ کا الاپ
کرکے پنجاب کو صوبہ سندھ کے کھاتے میں ڈالنے والوں کے منہ پر بھی تمانچہ ہے کہ اگر ہندوؤں کی تہذیب کا آغاز صوبہ سندھ سے ہوا ہوتا تو رِگ وید میں فقط سندھو کا ذکر ہوتا جبکہ رِگ وید اور ویند اوستا دونوں میں سات دریاؤں کی سرزمین کہہ کر پکارنا یہ پکی دلیل ہے کہ ہندوؤں کی تہذیب کا آغاز