#garrisonstate
چھٹی قسط
انگریز کو نمایاں خدمات فراہم کرنے کی ایک نمایاں مثال شاہ پور کے مٹھہ ٹوانوں نے قائم کی انکے بڑے ، ملک صاحب خان بہادر کو نو ہزار ایکڑ زمین کالڑے میں دی گئی اور تاحیات بارہ سو کی جاگیر سے نوازا گیا کیونکہ اس نے 1857 کی جنگ آزادی میں انگریز سرکار کی مدد کی
تھی انعام ملنے پہ خان بہادر نے ذاتی نہر کھدوائی اور علاقے کا بڑا وڈیرہ بن گیا 1879 میں خان بہادر کی موت واقع ہوئی تو اسکا بیٹا عمر حیات خان ٹوانہ ابھی نابالغ تھا اسکے بڑے ہونے تک court of wards نے اسکی ساری جاگیر کی دیکھ بھال کی اور عمر حیات کے بڑے ہونے پر اسکے حوالے کی 1903
میں عمر حیات خان کو اٹھارہویں ٹوانہ لانسرز میں اعزازی لیفٹیننٹ بنا دیا گیا تین سال بعد اسے پنجاب کی قانون ساز کونسل کا رکن بنایا گیا 1910 میں اسے وائسرائے کی قانون ساز کونسل کا رکن بنایا گیا اور ساتھ ہی ذیلدار اور مجسٹريٹ کا اعزازی عہدہ بخشا گیا اسی کے
رشتے دار نواب خدا بخش ٹوانہ نے اپنے ہر مزارع کے لیے پچیس روپے کے بونس اور نہری پانی کے نرخوں میں کمی کا اعلان کیا اور جنگ کے آغاز میں پانچ سو افراد مہیا کیے
فرانس جانے والے پہلے دستے میں عمر حیات ٹوانہ خود موجود تھا پھر اسے بغداد بھیجا گیا جہاں مسلمان فوجیوں کو مطمئن رکھنے کا
کام اسکے ذمے لگایا گیا اسکے بعد اسے میجر کے اعزازی عہدے سے نوازا گیا اور ساتھ ہی بھرتی افسر کا اعزازی عہدہ بھی ملا دو سو افراد تو اس نے خود اپنی زمین سے بھیجے تاکہ وہ خلافتِ عثمانیہ کے خلاف جنگ میں شریک ہوں
پہلی جنگ عظیم کے دوران پنجاب میں تقسیم کردہ انعامات
ضلع خطابات اعزازی تلوار جاگیر(روپوں میں) زمین مربع
لاہور 39 3 1000 101
سیالکوٹ 4 - 250 83
ڈیرہ غازی 10 1 - 207
وڈیروں کے ساتھ ساتھ پنجاب میں ایک بڑا کردار پیروں اور سجادہ نشینوں کا بھی رہا یہ لوگ بیک وقت پیر بھی تھے سرکاری عہدیدار بھی اور زمیندار بھی ۔ اٹک کے پیر غلام عباس مکھڈ نے چار ہزار مریدوں کو شاہی فوج میں بھرتی
کرایا جنگ کے بعد ان لوگوں میں انکی کارکردگی کے مطابق جاگیریں اور میڈل تقسیم ہوئے اور انہیں خطابات سے نوازا گیا اس ضمن میں خدا بخش ٹوانے کو 415 ایکڑ زمین بخشش ہوئی
اس سارے عمل کے نتیجے میں ایک نیا جاگیردار طبقہ وجود میں آیا جو پوری طرح تاج برطانیہ کا وفادار تھا اور جس نے پنجاب
میں فرنگی کی گرفت کو مضبوط تر کر دیا یہی لوگ پنجاب کی دیہی اشرافیہ کہلائے
ضلع جنگ کے دوران اندراج کرانے والوں کی تعداد
راولپنڈی 31291
جہلم 27743
گجرات 22071
اٹک 14815
میاں محمد بخشؒ کی یہ دو نظمیں اُس دور کا کمال نقشہ کھینچتی ہیں اس میں آپکو پنجاب میں اُس وقت بھی پنجابیوں کا پنجابی زبان کے ساتھ سوتیلے رویے کا اندازہ ہوگا اس میں کشمیر، لاہور، پشاور کا بھی ذکر ہے(کیونکہ اُس دور میں کشمیر لاہور پشاور ایک ہی مُلک پنجاب کے مختلف علاقے تھے پھر
انگریز نے۹۴۸۱ میں کشمیر پنجاب کی ایک اور ریاست جموں کے راجہ گلاب سنگھ کو بیچ دیا اور ۱۰۹۱ میں پنجاب کے پانچ ڈویژنوں کو توڑ کر لارڈ کروژن نے صوبہ سرحد بنا دیا)نیز اس نظم میں جہلم اور میرپور کا بھی ذکر ہے اور میاں صاحبؒ نے اُس دور میں پنجابیوں کے اپنی زبان کے ساتھ منفی رویے کا
#garrisonstate
پانچویں قسط
دیہی فوجی اشرافیہ اور انگریز حکومت کے مابین چپقلش
انگریز نے ان قوموں کو راضی رکھنے کے لیے بعض اوقات سر بھی جھکایا جیسا کہ لینڈ ایکٹ منظور ہونے کے موقع پہ ہوا انگریز فوج کی زیادہ تر بھرتی دیہی علاقوں سے ہو رہی تھی اسلیے انگریز بہرصورت اس طبقے کو اسی
حالت پہ قائم رکھنا اور انہیں شہری تہذیب اور شہری ذہنیت سے دور رکھنا چاہتا تھا اسی لیے جب دیہات کے لوگوں نے معاشی تنگی کے باعث اپنی زمینیں شہری لوگوں کے ہاتھ فروخت کرنا شروع کیں تو انگریز کو یہ بات ناگوار گزری اسکے سدباب کے لیے انگریز نے 1900 میں انتقال اراضی کا قانون پاس کیا
جسکے تحت غیر کسان نسلوں کو زمین کی فروخت ممنوع قرار پائی یہی صورتحال دیہی فوجی طبقے کے لیے قائم کردہ چناب کالونیوں میں بھی دیکھنے کو ملی آغاز میں یہ کالونیاں بڑی منظم اور صاف ستھری تھیں اور انکی ملکیت ایک ہی طبقے یعنی دیہی فوجی اشرافیہ کے ہاتھ میں تھی لیکن جب یہاں اراضی کی
#garrisonstate
چوتھی قسط
اس تشکیل نو کیوجہ سے بڑی تبدیلی یہ آئی کہ پنجاب کی اپنی علیحدہ کمان بن گئی اور افغانستان کے حالات کیوجہ سے پنجاب کو مرکزی حیثیت حاصل ہو گئی سن 1900 تک یہ صورتحال تھی کہ شاہی ہندی فوج کو آدھی سے زیادہ نفری پنجاب فراہم کر رہا تھا بیسویں صدی کے آغاز تک
پنجاب "فوجی مزدوروں کی منڈی" میں تبدیل ہو چکا تھا 1914 تک فوج میں 20 گورکھا 15 شمال وسطی 57 پنجابی اور سرحدی 18 بمبئی اور 11 مدراس کی یونٹیں تھیں گویا تقریباً آدھی فوج پنجابیوں پہ مشتمل تھی
پنجابی مسلمانوں کی بھرتی کو پنڈی اٹک اور جہلم کے اضلاع تک محدود رکھا گیا اور ان میں بھی راجپوت گکھڑ جنجوعہ اور اعوان اقوام کو ترجیح دی جاتی تھی تقریباً نوے فیصد رنگروٹ انھی علاقوں اور انھی قبیلوں سے تھے اس سب پر مزید یہ کہ قومی تعصب کو برقرار رکھا گیا اور سکھوں کو
ہمارا ایک منگول دوست یہ بات منوانے کے لیے بضد ہے کہ یہ کرہ ارض اپنے روز اول سے سرایکی تھی
بابلیوں کی اولین داستان تخلیق گل گامش میں بھی سرایکستان کا ذکر ہوا ہے
کہ جب گل گامش اپنی کشتی پر دریا ہاکڑا سے گزرا تو تونسہ کے قریب ایک شریر لڑکے نے اسے کہاں " مسات آ ونج تیکوں داجل دے پیڑے ڈیناں "
اس کے علاوہ جتنی بھی مذہبی اساطیر لکھی گئی ان سب میں سرایکستان کا ذکر بڑے بڑے اکشروں میں ہوا ہے
حتی کہ چاروں ویدوں اور اپنشدوں میں بھی سرایکستان کا ذکر موجود ہے نیز یہ کہ
اس وقت کی ویدیں اور اپنشد ظہور دھریجوں کے ہکڑشکڑ دادا نے لکھی تھی
"بھوک"اور کشمور واقعہ
جب تک مکمل بیروزگاری ختم نہیں ہوگی تب تک ایسے ہی لوگ تشدد کا سامنا کرتے رہینگے جنسی تشدد ، جسمانی تشدد ، زہنی تشدد اور سب سے خطرناک دو وقت کی روٹی میں سرگرداں در بدر ٹوکرے کھانے والوں پر معاشرے کی جانب سے اجتماعی اور مجموعی تشدد ۔
کشمور میں بدترین وقت سے گزرنے والی خاتون اور اسکی کمسن بچی ہر طرح کے تشدد سے گزرچکی ہیں
جنسی ، جسمانی ، ذہنی تشدد اور یہ سرمایہ دار ظالم سماج کا اپنے مفادات کے لیے خود ساختہ ایجاد کردہ " بھوک "
ایک بات یاد رکھیں ہمارے ہزار قسم کے اختلاف ہوسکتے ہیں مذہبی ، نسلی ، لسانی اور رہن
سہن کی تفریق لیکن ان تمام مسائل کی جڑ بھوک ہیں جس دن ہم نے بھوک کو ختم کرنے کے وسائل اور اختیار اپنے ہاتھ لیا اس دن ہمارے سماج سے % 95 جرائم خود بخود ختم ہوجائے گے
فارسی لوگ پنجابیوں کے ہم نسل اور صدیوں سے پڑوسی ہونے کی وجہ سے فارسی زبان اور پنجابی زبان ایک ہی لسانی خاندان سے ہونے کی وجہ سے سندھو کی جگہ ندی اور ندی کی جگہ آب ہونا کوئی اچنبے کی بات نہیں اس پورے برصغیر کو ہزاروں سال قبل ❞آریہ ورت❝ بھی کہا جاتا تھا جس کا
مطلب وہی ہے جو ایران کا مطلب ہے یعنی آریہ نسل کی سرزمین، پارسیوں کی ہزاروں سال پرانی مذہبی کتاب ویند اوستا میں پنجاب کا اس طرح ذکر ہے کہ ❞میں آہورامزدہ نے پندرہ بہترین سرزمینوں میں سے ایک سرزمین وہ بنائی جہاں سات دریا بہتے ہیں❝ یہ ظہور دھریجہ اور وادئی وادئی سندھ کا الاپ
کرکے پنجاب کو صوبہ سندھ کے کھاتے میں ڈالنے والوں کے منہ پر بھی تمانچہ ہے کہ اگر ہندوؤں کی تہذیب کا آغاز صوبہ سندھ سے ہوا ہوتا تو رِگ وید میں فقط سندھو کا ذکر ہوتا جبکہ رِگ وید اور ویند اوستا دونوں میں سات دریاؤں کی سرزمین کہہ کر پکارنا یہ پکی دلیل ہے کہ ہندوؤں کی تہذیب کا آغاز