#garrisonstate
پانچویں قسط
دیہی فوجی اشرافیہ اور انگریز حکومت کے مابین چپقلش
انگریز نے ان قوموں کو راضی رکھنے کے لیے بعض اوقات سر بھی جھکایا جیسا کہ لینڈ ایکٹ منظور ہونے کے موقع پہ ہوا انگریز فوج کی زیادہ تر بھرتی دیہی علاقوں سے ہو رہی تھی اسلیے انگریز بہرصورت اس طبقے کو اسی
حالت پہ قائم رکھنا اور انہیں شہری تہذیب اور شہری ذہنیت سے دور رکھنا چاہتا تھا اسی لیے جب دیہات کے لوگوں نے معاشی تنگی کے باعث اپنی زمینیں شہری لوگوں کے ہاتھ فروخت کرنا شروع کیں تو انگریز کو یہ بات ناگوار گزری اسکے سدباب کے لیے انگریز نے 1900 میں انتقال اراضی کا قانون پاس کیا
جسکے تحت غیر کسان نسلوں کو زمین کی فروخت ممنوع قرار پائی یہی صورتحال دیہی فوجی طبقے کے لیے قائم کردہ چناب کالونیوں میں بھی دیکھنے کو ملی آغاز میں یہ کالونیاں بڑی منظم اور صاف ستھری تھیں اور انکی ملکیت ایک ہی طبقے یعنی دیہی فوجی اشرافیہ کے ہاتھ میں تھی لیکن جب یہاں اراضی کی
فروخت کا عمل شروع ہوا تو ان کالونیوں کی صورت حال بگڑنے لگی جسکی وجہ سے حکومت نے 1906 میں پنجاب کالونائزیشن ایکٹ میں ترامیم کا اعلان کیا ان ترامیم کے ضمن میں اراضی کی فروخت کو اس دیہی طبقے میں مقید کر دیا گیا اور اس طبقے سے باہر فروخت کرنے پہ جرمانے عائد کیے گئے ان قوانین کے
نفاذ پہ دیہی فوجی اشرافیہ میں احتجاج کی لہر پیدا ہوئی ساتھ ہی حکومت نے باری دو آب نہر کے پانی کے نرخ پچیس تا پچاس فیصد بڑھا دیئے جس سے سکھ جاٹوں میں بھی احتجاج شروع ہو گیا آریا سماج پارٹی کے رہنما اجیت سنگھ نے حالات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے سکھ فوجیوں سے گوروں کی نوکری چھوڑنے کی
اپیل کر دی جب حکومت برطانیہ نے اس احتجاج کو روکنے کے لیے کچھ نمایاں شخصیات کو گرفتار کیا اور تشدد کا استعمال کیا تو حالات مزید بگڑ گئے امرتسر لاہور اور راولپنڈی میں جھڑپیں پھوٹ پڑیں انگریز فوج کا کمانڈر کچنر کسی صورت فوجی بھرتی کے ان علاقوں کو متاثر نہیں ہونے دینا چاہتا تھا
اسلیے اس نے وائسرائے لارڈ منٹو سے سفارش کی کہ وہ دیہاتیوں کے مطالبات مانتے ہوئے ان ترامیم کو واپس لے لے وائسرائے نے یہ ترمیمی بل ویٹو کر کے منسوخ کر دیا اور اسے چھوٹی برائی سمجھتے ہوئے قبول کر لیا مگر ان دیہی اقوام کو ناراض نہیں ہونے دیا جن پہ فوج کی بھرتی کا دارومدار تھا
پنجاب اور پہلی جنگ عظیم
پہلی جنگ عظیم کے دوران برطانوی مقبوضہ ہند سے کل پندرہ لاکھ فوج گئی اور جنگ میں برطانیہ کی مدد کے لیے کل 479 ملین پونڈ ٹیکس اور چندہ جمع ہوا ان پندرہ لاکھ فوجیوں میں لڑاکا کردار ادا کرنے والوں کی تعداد چھ لاکھ تراسی ہزار ایک سو انچاس تھی اور اس تعداد کا
ساٹھ فیصد پنجاب نے فراہم کیا تھا اسی طرح زرمال میں سے بھی نو کروڑ اکیس لاکھ اٹھارہ ہزار چھ سو چونسٹھ روپے پنجاب نے ادا کیے تھے
جنگ کے آغاز میں ہندوستان کی برطانوی حکومت نے مرکزی حکومت کو پیغام دیا کہ ہم دو پیادہ ڈویژن اور ایک گھڑ سوار بریگیڈ فراہم کر سکتے ہیں اس سے زیادہ کی
صورت میں یہاں ہند میں ہماری قوت کمزور پڑ جائے گی ہندی شاہی فوج کی تعداد اسوقت ڈیڑھ لاکھ تھی
1914 میں جب برطانوی وار آفس نے فوج کا مطالبہ کیا تو لہور اور میرٹھ کی دو ڈویژن روانہ کر دی گئیں اسکے علاوہ کچھ فوج افریقہ اور زنجبار میں جرمن فوج کے خلاف بھیجی گئی تاکہ ممباسا اور نیروبی
کے درمیاں بچھی ریلوے لائن کی حفاظت کی جا سکے برطانیہ کی اپنی فوج چونکہ یورپ میں مصروف تھی اسلیے نہر سویز اور عراق کے تیل کے کنووں کو خلافت عثمانیہ کے فوجی حملوں سے بچانے کے لیے ہندوستان سے مزید دو ڈویژن فوج روانہ کی گئی یوں جون 1915 تک ہندوستان کے اسی ہزار فوجی میدان جنگ میں
اتر چکے تھے بوجھ مزید بڑھا تو بیس مزید کمپنیاں فوری طور پر بنانے کا فیصلہ ہوا فرانس میں لڑائی کے دوران لاہور کی ڈویژن میں شامل فیروز پور اور جالندھر کی بریگیڈ پہلے چند ہفتوں میں ماری جا چکی تھیں ستاون رائفلز اور انتیس بلوچ رجمنٹ سب سے پہلے جرمنوں سے ٹکرائی اور ایک ہفتے
کے اندر اندر ایک کے دو سو نوے اور دوسری کے دو سو پینتیس نفر مارے گئے جبکہ دونوں کی کل تعداد 750 تھی دوسری لڑائی وائپرس میں اپریل 1915 میں ہوئی جرمنی نے زہریلی گیس استعمال کر کے لہور ڈویژن کے تیس فیصد سپاہی 3889 ایک رات میں مار دیئے اسی طرح بغداد کے قریب عثمانی فوجوں سے لڑتے
ہوئے گیلی پولی اور قوت الامارہ میں بھی ہندوستانی فوجیوں کو خاصی مار پڑی
جنگ کے آغاز میں کل 69 رجمنٹیں بھیجی گئی تھیں جن میں 41 پنجابی تھیں 1914 کے آخری مہینوں میں اٹھائیس ہزار مزید بھرتیاں ہوئیں جنکا نصف پنجاب نے فراہم کیا نیز جولائی 1915 تک بھرتیوں کی کل تعداد بڑھ کر چھہتر ہزار
دو سو بتیس ہو گئی جن میں سے سینتیس ہزار پانچ سو اکانوے بھرتیاں پنجاب سے تھیں جنگ کے آغاز میں بھرتیوں میں بڑا جوش و خروش دیکھنے کو ملا جسکی وجہ تنخواہ کے علاوہ بونس بیرون ملک سفر کا لالچ اور جنگ کیوجہ سے معاشی بحران اور اسکے نتیجے میں پیدا ہونے والی مہنگائی تھی لیکن آہستہ آہستہ
یہ جذبہ کچھ کم ہونا شروع ہو گیا کیونکہ وائپرس اور نیوچیپلی میں جرمنوں سے واسطہ پڑا جو بھاری اسلحے سے لیس تھے جبکہ ہندوستانیوں نے ایسی جنگ اس سے پہلے نہیں دیکھی تھی اسلیے جذبہ ٹھنڈا پڑنے لگا اور محاذ جنگ سے فوجیوں کے مایوسی بھرے خطوط آنا شروع ہو گئے بعض خطوط میں الزام لگا کہ
گورے خود پیچھے بیٹھے رہتے ہیں اور ہندوستانیوں کو مروا رہے ہیں
سول انتظامیہ کو فوج کے تابع بنانے کا آغاز
حالات بگڑنے کے سبب مزید فوج کی ضرورت برابر بڑھتی جا رہی تھی ساتھ ہی تاج برطانیہ کو یہ احساس ہو گیا کہ جوش و خروش ٹھنڈا پڑ جانے کے بعد سول انتظامیہ کے تعاون کے بغیر مطلوبہ
تعداد میں بھرتیاں ناممکن ہیں چنانچہ پنڈی کے کمشنر لیفٹیننٹ جنرل فرینک پوفیم ینگ کے مشورے پر ضلعی سطح پر سول افسران بھرتی افسران تعینات کیے گئے 1916 میں ہندوستان کے وائسرائے لارڈ چیمسفورڈ نے سول انتظامیہ کو حکم دیا کہ وہ رنگروٹوں کی بھرتی کے سلسلے میں فوج کا پورا پورا ساتھ
دے پنجاب کے انگریز گورنر ایڈوائر نے اس حکم کو فوری قبول کیا بھرتی کا نیا نظام متعارف کروایا اور بھرتی کا دائرہ فوجی نسلوں سے باہر بھی بڑھا دیا دہلی میں سول انتظامیہ کے تحت مرکزی بھرتی بورڈ بنایا گیا اور پورے ہندوستان میں بھرتی کا کنٹرول اس کے ہاتھ میں دے دیا گیا اس بورڈ میں
ایڈجوننٹ جنرل وائسرائے کونسل کا مشیر مالیات فوجی شعبے کا سیکرٹری گورنر پنجاب اور دو ہندوستانی راجے شامل تھے بھرتی کے پرانے نسلی نظام کی جگہ بھرتی کا نیا علاقائی نظام متعارف کروایا گیا ضلع کی سطح پہ بھرتی دفتر بنانے گئے جسکا سربراہ عموماً انگریزی بولنے والا مقامی سول افسر ہوتا
تھا اسکے اوپر ڈویژن کی سطح پہ ایک افسر ہوتا تھا جو بورڈ کو جوابدہ ہوتا تھا اس سے شاہی ہندی فوج کو یہ فائدہ ہوا کہ عوام تک براہ راست رسائی کا حامل سول نظام براہ راست فوج کے مفاد میں استعمال ہونے لگا پنجاب کے تمام اٹھائیس اضلاع میں بھرتیاں شروع ہو گئیں 1917 کے اختتام تک
بائیس نئی پنجابی قوموں سے بھی فوج میں بھرتیاں کی گئیں جون 1917 تک اسی نظام کو مزید بہتر بنانے کے لیے لہور میں صوبائی بھرتی بورڈ بنایا گیا جسکا صدر پنجاب کے گورنر کو بنایا گیا اور ممبران میں کمشنر برائے مالیات، ڈویژنوں کے کمشنر، ضلعی بھرتی افسران کچھ نمایاں جاگیردار اور
قوموں کے کچھ سردار مثلاً خان بہادر ملک محمد امیر خان آف شمس آباد خان بہادر سید مہدی شاہ آف گوجرہ، سر ملک عمر حیات خان ٹوانہ آف کالڑہ شامل تھے
یہ سول نظام تحصیلدار، ذیلدار، لمبردار کے ذریعے معاشرے کے عین قلب تک رسائی رکھتا تھا اس پورے نظام کو بھرتی اور محصول کی وصولی کے لیے
حرکت میں لایا گیا ساتھ ہی ان تینوں سطحوں پر کام کرنے افسران کو دھمکی دی گئی کہ مطلوبہ نتائج حاصل نا ہونے کی صورت میں انکی چھٹی کروا دی جائے گی بیواؤں وغیرہ کے مسایل سے نمٹنے کے لئے فوجی فلاحی پنچایتیں بنائی گئیں جنھوں نے متاثرہ خاندانوں میں رقوم اور زمینیں تقسیم کیں
پنجاب حکومت نے اس مقصد کے لیے فوج کے کمانڈر انچیف کو ایک لاکھ اسی ہزار ایکڑ زمین پیش کی تاکہ وہ فوجیوں میں بانٹی جا سکے مزید پندرہ ہزار ایکڑ ان لوگوں کو بطور رشوت دیئے گئے جو بھرتیوں کے کام میں چستی دکھا رہے تھے 1917 کے وسط میں رنگروٹ بھرتی ہونے پر پچاس روپے کا بونس بھی مقرر
کر دیا گیا یوں بھرتی کے نظام کو ہر قیمت پہ فعال رکھا گیا
پنجاب کے جاگیردار جاگیردار کیسے بنے
1918 میں جنگ کے اختتامی مراحل تک تنہا پنجاب سے تقریباً دو لاکھ فوجی بھرتی ہو چکے تھے حالانکہ جنگ کے آغاز میں شاہی ہندی فوج کی کل تعداد محض ڈیڑھ لاکھ تھی پنجاب کے انگریز گورنر کا موقف
تھا کہ بھرتیاں جاری رکھنے کے لیے مغربی پنجاب کے جاگیرداروں اور قبائلی سرداروں، مشرق کے پیر صاحبان اور قوم کے بڑوں کو ہاتھ. میں رکھنا لازم ھے
گورنر کے اس موقف کو سمجھنے کے لیے یہ مثال کافی ھے
دہلی سے برطانوی سرکار کا حکم آیا کہ بغداد میں عثمانیوں کے خلاف
ساڑھے تین ہزار گدھوں، نیز اونٹ چرانے والے افراد کی ضرورت ہے حکومت پنجاب نے یہ کام ملک خدا بخش ٹوانہ، شیخ نجم الدین، خان صاحب محمد ظفر خان اور لالہ رام چند کے ذمے لگایا کہ وہ اپنے روابط استعمال کر کے مطلوبہ تعداد فراہم کریں ان لوگوں نے ایک ہفتے کے اندر اندر ساڑھے آٹھ ہزار بندے
فراہم کر دیئے اس قسم کی خدمات دینے کا آغاز شاہ پور کے ملک فتح شیر خان نے پہلی سکھ انگریز جنگ کے دوران کیا تھا اس نے انگریزوں کو چار سو گھڑسوار فراہم کیے تھے ان بڑے سرداروں کو انکی خدمات کے عوض فوج میں براہ راست اعزازی کمیشن دیئے گئے بعض کو اعزازی طور پر مجسٹریٹ بنایا دیا گیا
اور ان میں زمینیں بھی تقسیم کی گئیں
جاری ھے

• • •

Missing some Tweet in this thread? You can try to force a refresh
 

Keep Current with رانا علی

رانا علی Profile picture

Stay in touch and get notified when new unrolls are available from this author!

Read all threads

This Thread may be Removed Anytime!

PDF

Twitter may remove this content at anytime! Save it as PDF for later use!

Try unrolling a thread yourself!

how to unroll video
  1. Follow @ThreadReaderApp to mention us!

  2. From a Twitter thread mention us with a keyword "unroll"
@threadreaderapp unroll

Practice here first or read more on our help page!

More from @PunjabiWarriorr

15 Nov
#garrisonstate
چھٹی قسط
انگریز کو نمایاں خدمات فراہم کرنے کی ایک نمایاں مثال شاہ پور کے مٹھہ ٹوانوں نے قائم کی انکے بڑے ، ملک صاحب خان بہادر کو نو ہزار ایکڑ زمین کالڑے میں دی گئی اور تاحیات بارہ سو کی جاگیر سے نوازا گیا کیونکہ اس نے 1857 کی جنگ آزادی میں انگریز سرکار کی مدد کی
تھی انعام ملنے پہ خان بہادر نے ذاتی نہر کھدوائی اور علاقے کا بڑا وڈیرہ بن گیا 1879 میں خان بہادر کی موت واقع ہوئی تو اسکا بیٹا عمر حیات خان ٹوانہ ابھی نابالغ تھا اسکے بڑے ہونے تک court of wards نے اسکی ساری جاگیر کی دیکھ بھال کی اور عمر حیات کے بڑے ہونے پر اسکے حوالے کی 1903
میں عمر حیات خان کو اٹھارہویں ٹوانہ لانسرز میں اعزازی لیفٹیننٹ بنا دیا گیا تین سال بعد اسے پنجاب کی قانون ساز کونسل کا رکن بنایا گیا 1910 میں اسے وائسرائے کی قانون ساز کونسل کا رکن بنایا گیا اور ساتھ ہی ذیلدار اور مجسٹريٹ کا اعزازی عہدہ بخشا گیا اسی کے
Read 16 tweets
15 Nov
مـــــــیــــــــــــاں مــــــــحــــــمــــــد بــــــخــــــــشؒ

‌🇻‌🇪‌🇷‌🇾
‌🇮‌🇲‌🇵‌🇴‌🇷‌🇹‌🇦‌🇳‌🇹
🇵‌🇴‌🇸‌🇹 Image
میاں محمد بخشؒ کی یہ دو نظمیں اُس دور کا کمال نقشہ کھینچتی ہیں اس میں آپکو پنجاب میں اُس وقت بھی پنجابیوں کا پنجابی زبان کے ساتھ سوتیلے رویے کا اندازہ ہوگا اس میں کشمیر، لاہور، پشاور کا بھی ذکر ہے(کیونکہ اُس دور میں کشمیر لاہور پشاور ایک ہی مُلک پنجاب کے مختلف علاقے تھے پھر
انگریز نے۹۴۸۱؁ میں کشمیر پنجاب کی ایک اور ریاست جموں کے راجہ گلاب سنگھ کو بیچ دیا اور ۱۰۹۱؁ میں پنجاب کے پانچ ڈویژنوں کو توڑ کر لارڈ کروژن نے صوبہ سرحد بنا دیا)نیز اس نظم میں جہلم اور میرپور کا بھی ذکر ہے اور میاں صاحبؒ نے اُس دور میں پنجابیوں کے اپنی زبان کے ساتھ منفی رویے کا
Read 5 tweets
13 Nov
#garrisonstate
چوتھی قسط
اس تشکیل نو کیوجہ سے بڑی تبدیلی یہ آئی کہ پنجاب کی اپنی علیحدہ کمان بن گئی اور افغانستان کے حالات کیوجہ سے پنجاب کو مرکزی حیثیت حاصل ہو گئی سن 1900 تک یہ صورتحال تھی کہ شاہی ہندی فوج کو آدھی سے زیادہ نفری پنجاب فراہم کر رہا تھا بیسویں صدی کے آغاز تک
پنجاب "فوجی مزدوروں کی منڈی" میں تبدیل ہو چکا تھا 1914 تک فوج میں 20 گورکھا 15 شمال وسطی 57 پنجابی اور سرحدی 18 بمبئی اور 11 مدراس کی یونٹیں تھیں گویا تقریباً آدھی فوج پنجابیوں پہ مشتمل تھی
پنجابی مسلمانوں کی بھرتی کو پنڈی اٹک اور جہلم کے اضلاع تک محدود رکھا گیا اور ان میں بھی راجپوت گکھڑ جنجوعہ اور اعوان اقوام کو ترجیح دی جاتی تھی تقریباً نوے فیصد رنگروٹ انھی علاقوں اور انھی قبیلوں سے تھے اس سب پر مزید یہ کہ قومی تعصب کو برقرار رکھا گیا اور سکھوں کو
Read 13 tweets
13 Nov
ہمارا ایک منگول دوست یہ بات منوانے کے لیے بضد ہے کہ یہ کرہ ارض اپنے روز اول سے سرایکی تھی
بابلیوں کی اولین داستان تخلیق گل گامش میں بھی سرایکستان کا ذکر ہوا ہے
کہ جب گل گامش اپنی کشتی پر دریا ہاکڑا سے گزرا تو تونسہ کے قریب ایک شریر لڑکے نے اسے کہاں " مسات آ ونج تیکوں داجل دے پیڑے ڈیناں "
اس کے علاوہ جتنی بھی مذہبی اساطیر لکھی گئی ان سب میں سرایکستان کا ذکر بڑے بڑے اکشروں میں ہوا ہے
حتی کہ چاروں ویدوں اور اپنشدوں میں بھی سرایکستان کا ذکر موجود ہے نیز یہ کہ
اس وقت کی ویدیں اور اپنشد ظہور دھریجوں کے ہکڑشکڑ دادا نے لکھی تھی
Read 7 tweets
13 Nov
"بھوک"اور کشمور واقعہ
جب تک مکمل بیروزگاری ختم نہیں ہوگی تب تک ایسے ہی لوگ تشدد کا سامنا کرتے رہینگے جنسی تشدد ، جسمانی تشدد ، زہنی تشدد اور سب سے خطرناک دو وقت کی روٹی میں سرگرداں در بدر ٹوکرے کھانے والوں پر معاشرے کی جانب سے اجتماعی اور مجموعی تشدد ۔ Image
کشمور میں بدترین وقت سے گزرنے والی خاتون اور اسکی کمسن بچی ہر طرح کے تشدد سے گزرچکی ہیں
جنسی ، جسمانی ، ذہنی تشدد اور یہ سرمایہ دار ظالم سماج کا اپنے مفادات کے لیے خود ساختہ ایجاد کردہ " بھوک "
ایک بات یاد رکھیں ہمارے ہزار قسم کے اختلاف ہوسکتے ہیں مذہبی ، نسلی ، لسانی اور رہن
سہن کی تفریق لیکن ان تمام مسائل کی جڑ بھوک ہیں جس دن ہم نے بھوک کو ختم کرنے کے وسائل اور اختیار اپنے ہاتھ لیا اس دن ہمارے سماج سے % 95 جرائم خود بخود ختم ہوجائے گے
Read 4 tweets
12 Nov
@SehrishKamal9

فارسی لوگ پنجابیوں کے ہم نسل اور صدیوں سے پڑوسی ہونے کی وجہ سے فارسی زبان اور پنجابی زبان ایک ہی لسانی خاندان سے ہونے کی وجہ سے سندھو کی جگہ ندی اور ندی کی جگہ آب ہونا کوئی اچنبے کی بات نہیں اس پورے برصغیر کو ہزاروں سال قبل ❞آریہ ورت❝ بھی کہا جاتا تھا جس کا
مطلب وہی ہے جو ایران کا مطلب ہے یعنی آریہ نسل کی سرزمین، پارسیوں کی ہزاروں سال پرانی مذہبی کتاب ویند اوستا میں پنجاب کا اس طرح ذکر ہے کہ ❞میں آہورامزدہ نے پندرہ بہترین سرزمینوں میں سے ایک سرزمین وہ بنائی جہاں سات دریا بہتے ہیں❝ یہ ظہور دھریجہ اور وادئی وادئی سندھ کا الاپ
کرکے پنجاب کو صوبہ سندھ کے کھاتے میں ڈالنے والوں کے منہ پر بھی تمانچہ ہے کہ اگر ہندوؤں کی تہذیب کا آغاز صوبہ سندھ سے ہوا ہوتا تو رِگ وید میں فقط سندھو کا ذکر ہوتا جبکہ رِگ وید اور ویند اوستا دونوں میں سات دریاؤں کی سرزمین کہہ کر پکارنا یہ پکی دلیل ہے کہ ہندوؤں کی تہذیب کا آغاز
Read 7 tweets

Did Thread Reader help you today?

Support us! We are indie developers!


This site is made by just two indie developers on a laptop doing marketing, support and development! Read more about the story.

Become a Premium Member ($3/month or $30/year) and get exclusive features!

Become Premium

Too expensive? Make a small donation by buying us coffee ($5) or help with server cost ($10)

Donate via Paypal Become our Patreon

Thank you for your support!

Follow Us on Twitter!