سابق گورنر اور صدر پاکستان سکندر مرزا
سکند مرزا میر جعفر کے پڑپوتے تھے۔ ان کے پر دادا میر جعفر نے نواب سراج الدولہ سے غداری کر کے انگزیزوں کی جیت کا راستہ ہموار کیا تھا۔
انہوں الفنسٹن کالج بمبئی میں تعلیم پائی۔
کالج کی تعلیمی زندگی میں ہی رائل ملٹری
کالج سینڈہرسٹ میں داخلہ مل گیا۔
وہاں سے کامیاب ہو کر 1919ء میں واپس ہندوستان آئے۔
1921ء میں کوہاٹ کے مقام پر دوسری سکاٹش رائفل رجمنٹ میں شریک ہوئے اور خداداد خیل میں لڑائی میں حصہ لیا۔
1924ء میں وزیرستان کی لڑائی میں
شریک ہوئے۔
1922 سے 1924ء تک پونا ہارس رجمنٹ میں رہے جس کا صدر مقام جھانسی تھا۔
1926ء میں انڈین پولیٹیکل سروس کے لیے منتخب ہوئے اور ایبٹ آباد، بنوں، نوشہرہ، اور ٹانک میں بطور اسسٹنٹ
کمشنر کام کیا۔
1931ء سے 1936ء تک ہزارہ اور مردان میں ڈپٹی کمشنر رہے۔
1938ء میں خیبر میں پولیٹکل ایجنٹ مامور ہوئے۔ انتظامی قابلیت اور قبائلی امور میں تجربے کے باعث 1940ء میں پشاور کے ڈپٹی کمشنر مقرر ہوئے۔
یہاں 1945ء تک رہے۔
پھر ان کا تبادلہ اڑیسہ کر دیا گیا۔
1942ء میں حکومت ہند کی وزارت دفاع میں جوائنٹ سیکرٹری مقرر ہوئے۔
قیام پاکستان کے بعد سکندر مرزاحکومت پاکستان کی وزارت دفاع کے پہلے سیکرٹری
نامزد ہوئے۔
مئی 1954 میں مشرقی پاکستان کے گورنر بنائے گئے،
پھر وزیر داخلہ بنے۔
ریاستوں اور قبائلی علاقوں کے محکمے بھی ان کے سپرد کیے گئے۔
ملک غلام محمد کی صحت کی خرابی کی
بنا پر 6 اگست 1955 کو قائم مقام گورنر بن گئے۔
5 مارچ 1956ء کو اسلامی جمہوریہ پاکستان کے پہلے صدر منتخب ہوئے۔
23 مارچ 1956ء کو اسلامی جمہوریہ پاکستان کے صدر کے منصب پر فائز ہوئے،
سیاسی بحران کے سبب 7 اکتوبر 1958ء کو پہلا ملک گیر مارشل لاء نافذ کیا۔
بیس دن بعد 27 اکتوبر1958ء کو چیف مارشل لا ایڈمنسٹریڑ فیلڈ مارشل ایوب خان نے انہیں برطرف کر کے جلا وطن کر دیا جس کے بعد سکندر مرزا نے اپنی زندگی
کے باقی ایام لندن میں گزارے۔
ایوب خان کی معزولی کے بعد سکندر مرزا نے وطن واپس آنے کی کوشش کی لیکن انہیں اس کی اجازت نہیں ملی ۔ بالآخر 13 نومبر 1969ء کو ان کی سترویں سالگرہ کے دن لندن ہی میں ان کا
انتقال ہوگیا۔
15 نومبر 1969ء کو انہیں پورے سرکاری اعزازات کے ساتھ تہران میں دفن کردیا گیا
مختصر معلوماتی اسلامی اور تاریخی اردو تحریریں پڑھنے کیلئے
دوسرا اکاؤنٹ فالو کریں 👈🏻 @AliBhattiTP
الفریڈ نوبیل جس نے تقریباً 250 ملین ڈالرز سے زیادہ انسانی فلاح و بہبود کے لئے وقف کر دی تھی
بہت عرصہ پہلے ایک امیر کبیر شخص نے صبح کافی پیتے ہوئے اخبار اٹھایا اور صفحہ گردانی شروع کی.
اخبار کے پہلے صفحے ہر ہی ایک فوتگی کا اعلان پڑھ کر
کافی کا کپ اس کے ہاتھوں سے گرتے گزرتے بچا. اخبار میں اسے کے اپنے مرنے کی خبر تھی. اخبار نے غلط خبر لگا دی تھی. موت کی خبر سے بھی زیادہ صدمہ اسے اپنے بارے میں لکھی اخباری سرخی سے ہوا:
" بارود کا شہنشاہ دنیا سے رخصت ہوگیا"
اس کے نیچے لکھا تھا:
" موت کا بیوپاری اگلی دنیا کو سدھار گیا"
خبر کی مزید تفصیل بتاتی تھی کہ مرنے والے نے دنیا میں کیا کیا تباہ کاریاں مچائی
پنجاب یونیورسٹی کی طالبہ جس نے اپنی یونیورسٹی پر ہی کیس کیا جس میں 17 سال بعد کامیابی ملی
آج سے 18 سال قبل پنجاب یونیورسٹی کی ایک طالبہ، وجیہہ عروج، نے یونیورسٹی پر ایک بہت دلچسپ کیس کیا۔ انہیں ایک پرچے میں غیر حاضر قرار دیا گیا تھا جبکہ وہ اس دن
پرچہ دے کر آئیں تھیں۔ یہ صاف صاف ایک کلرک کی غلطی تھی۔
وجیہہ اپنے والد کے ہمراہ ڈپارٹمنٹ پہنچیں تاکہ معاملہ حل کر سکیں۔ وہاں موجود ایک کلرک نے ان کے والد سے کہا’آپ کو کیا پتہ آپ کی بیٹی پیپر کے بہانے کہاں جاتی ہے۔‘
یہ جملہ وجیہہ پر پہاڑ بن کر گرا۔ وہ کبھی کلرک کی شکل دیکھتیں تو کبھی اپنے والد کی۔ انہیں سمجھ نہ آیا کہ وہ کیا کریں۔ وہ اپنے ہی گھر والوں کے سامنے چور بن گئیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ان کی والدہ بھی انہیں
کشمور صوبہ سندھ میں ایک واقعہ رپورٹ ہوا کراچی سے ایک خاتون کو اس کی 4 سالہ بیٹی سمیت اغوا کر کے کشمور لایا گیا جہاں رفیق ملک نامی ایک حیوان نے اپنے ساتھیوں سمیت ماں کی عزت ہی پامال نہ کی بلکہ 4 سالہ معصوم بچی کو بھی نہ
بخشا اور ماں کے سامنے اس کومل کلی کو روند ڈالا۔
ان درندوں نے بیٹی کو اپنے پاس رکھ کر ماں کو اس شرط پر چھوڑا کہ جاو ہمیں کوئی اور لڑکی لا کر دو تو اپنی بچی لے جاؤ۔
لٹی پٹی ماں نے پولیس سے رابطہ کیا اور فریاد گذاری کہ وہ کہاں سے لڑکی کا بندوبست کرے۔ پولیس یوں تو پنجاب کی ہو یا سندھ کی ان سے کسی بھلائی کی توقع کم کم ہی ہوتی ہے لیکن کچھ خوف
کراچی سے ایک مجبور خاتون کو نوکری کا جھانسہ دیکر 4 سالہ بیٹی کے ہمراہ کشمور لے جایا گیا۔ وہاں پہلے 3 ملزمان نے عورت کا مسلسل ریپ کیا۔ پھر ملزمان نے بچی روک کر خاتون سے کہا کہ کراچی میں آپ
کے ساتھ جو دوسری خاتون تھی، اس کو لاؤ تو بچی آپ کو واپس کریں گے۔
خاتون باہر نکل کر سوچ بچار کے بعد پولیس کے پاس چلی گئی۔ ڈیوٹی پر موجود اسسٹنٹ سب انسپکٹر محمد بخش
نے اس کی روداد سنی اور گھر سے اپنی بیٹی کو بلایا۔ اس کو ’دوسری خاتون‘ بناکر متاثرہ خاتون کے ساتھ روانہ کردیا اور خود نفری لیکر پیچھے چل پڑا۔ جیسے ہی دونوں خواتین اندر گئیں، پیچھے سے پولیس بھی
سعودی عرب کے ایک بزنس مین نے خواب میں دیکھا کہ ایک شخص اس سے کہہ رہا ہے کہ تمہاری کمپنی کے آفس کے مین گیٹ کے سامنے فلاں شخص جو پھل بیچتا ہے اس کو عمرہ کرا دو ۔۔۔
نیند سے بیدار ہوا تو اسے خواب اچھی طرح یاد تھا
مگر اس نے وہم جانا اور خواب کو نظر انداز کردیا ۔۔۔
تین دن مسلسل ایک ہی خواب نظر آنے کے بعد وہ شخص اپنےعلاقے کی جامع مسجد کے امام کے پاس گیا اور اسے خواب سنایا ۔۔۔
امام مسجد نے کہا اس شخص سے رابطہ کرو اور اسے عمرہ کروا دو ۔۔۔
اگلے روز اس شخص نے اپنی اس کمپنی کے ایک ملازم سے اس پھل فروش کا نمبر معلوم کرنے کو کہا ۔۔۔
بزنس مین نے فون پر اس پھل فروش سے رابطہ کیا اور کہا کہ مجھے خواب میں کہا گیا ہے کہ میں تمہیں عمرہ کرواوٴں ، لہذا