پنجاب یونیورسٹی کی طالبہ جس نے اپنی یونیورسٹی پر ہی کیس کیا جس میں 17 سال بعد کامیابی ملی

آج سے 18 سال قبل پنجاب یونیورسٹی کی ایک طالبہ، وجیہہ عروج، نے یونیورسٹی پر ایک بہت دلچسپ کیس کیا۔ انہیں ایک پرچے میں غیر حاضر قرار دیا گیا تھا جبکہ وہ اس دن
پرچہ دے کر آئیں تھیں۔ یہ صاف صاف ایک کلرک کی غلطی تھی۔

وجیہہ اپنے والد کے ہمراہ ڈپارٹمنٹ پہنچیں تاکہ معاملہ حل کر سکیں۔ وہاں موجود ایک کلرک نے ان کے والد سے کہا’آپ کو کیا پتہ آپ کی بیٹی پیپر کے بہانے کہاں جاتی ہے۔‘
یہ جملہ وجیہہ پر پہاڑ بن کر گرا۔ وہ کبھی کلرک کی شکل دیکھتیں تو کبھی اپنے والد کی۔ انہیں سمجھ نہ آیا کہ وہ کیا کریں۔ وہ اپنے ہی گھر والوں کے سامنے چور بن گئیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ان کی والدہ بھی انہیں
عجیب نظروں سے دیکھنا شروع ہو گئیں تھیں۔

کیا ہی اچھا ہوتا کہ کلرک صرف اپنے کام سے کام رکھتا۔ وجیہہ کے بارے میں اپنی رائے دینے کی بجائے وہ حاضری رجسٹر چیک کرتا یا اس دن کے
پرچوں میں ان کا پرچہ ڈھونڈتا۔ لیکن اس نے اپنے کام کی بجائے وجیہہ کے بارے میں رائے دینا زیادہ ضروری سمجھا، یہ سوچے بغیر کہ اس کا یہ جملہ وجیہہ کی زندگی کس قدر متاثر کر سکتا ہے۔

وجیہہ نے یونیورسٹی پر کیس کرنے کا
فیصلہ کیا۔ اس کیس میں ان کا ساتھ ان کے والد نے دیا۔ کیس درج ہونے کے چار ماہ بعد یونیورسٹی نے اپنی غلطی تسلیم کرتے ہوئے عدالت میں ان کا حل شدہ پرچہ پیش کر دیا لیکن معاملہ اب ایک ڈگری سے کہیں
بڑھ کر تھا۔ وجیہہ نے یونیورسٹی سے اپنے کردار پر لگے دھبے کا جواب مانگا۔ یہ قانونی جنگ 17 سال چلتی رہی۔ گذشتہ سال عدالت نے وجیہہ کے حق میں فیصلہ سنایا اور یونیورسٹی کو آٹھ لاکھ روپے جرمانہ ادا کرنے کا حکم دیا۔
وجیہہ نے اس ایک جملے کا بھار17 سال تک اٹھایا۔ وہ تو جی دار تھیں، معاملہ عدالت تک لے گئیں۔ ہر لڑکی ایسا نہیں کر سکتی۔ خاندان کی عزت ان کے بڑھتے قدم تھام لیتی ہے ورنہ یقین مانیں ہم میں سے ہر
کوئی عدالت کے چکر کاٹتا پھرے اور اپنے منہ سے کسی لڑکی کے بارے میں نکلے ایک ایک جملے کی وضاحت دیتا پھرے۔

وجیہہ کے والدین نے ان کی ڈگری مکمل ہوتے ہی ان کی شادی کر دی۔ انہیں ڈر تھا
کہ بات مزید پھیلی تو کہیں وجیہہ کے رشتے آنا ہی بند نہ ہو جائیں۔
وجیہہ بہت کچھ کرنا چاہتی تھیں
لیکن اس ایک جملے کی وجہ سے انہیں وہ سب نہیں کرنے دیا
گیا۔ وہ اپنی زندگی سے مطمئن ہیں لیکن ان کے دل میں کچھ نہ کر پانے کی کسک بھی موجود ہے۔

مختصر معلوماتی اسلامی اور تاریخی اردو تحریریں پڑھنے کیلئے
دوسرا اکاؤنٹ فالو کریں 👈🏻 @AliBhattiTP

ہمارا فیس بک گروپ جوائن کریں ⁦👇🏻👇🏻
bit.ly/2FNSbwa

• • •

Missing some Tweet in this thread? You can try to force a refresh
 

Keep Current with علـــمـــی دنیــــــا

علـــمـــی دنیــــــا Profile picture

Stay in touch and get notified when new unrolls are available from this author!

Read all threads

This Thread may be Removed Anytime!

PDF

Twitter may remove this content at anytime! Save it as PDF for later use!

Try unrolling a thread yourself!

how to unroll video
  1. Follow @ThreadReaderApp to mention us!

  2. From a Twitter thread mention us with a keyword "unroll"
@threadreaderapp unroll

Practice here first or read more on our help page!

More from @Pyara_PAK

15 Nov
الفریڈ نوبیل جس نے تقریباً 250 ملین ڈالرز سے زیادہ انسانی فلاح و بہبود کے لئے وقف کر دی تھی

بہت عرصہ پہلے ایک امیر کبیر شخص نے صبح کافی پیتے ہوئے اخبار اٹھایا اور صفحہ گردانی شروع کی.
اخبار کے پہلے صفحے ہر ہی ایک فوتگی کا اعلان پڑھ کر Image
کافی کا کپ اس کے ہاتھوں سے گرتے گزرتے بچا. اخبار میں اسے کے اپنے مرنے کی خبر تھی. اخبار نے غلط خبر لگا دی تھی. موت کی خبر سے بھی زیادہ صدمہ اسے اپنے بارے میں لکھی اخباری سرخی سے ہوا:
" بارود کا شہنشاہ دنیا سے رخصت ہوگیا"
اس کے نیچے لکھا تھا:
" موت کا بیوپاری اگلی دنیا کو سدھار گیا"
خبر کی مزید تفصیل بتاتی تھی کہ مرنے والے نے دنیا میں کیا کیا تباہ کاریاں مچائی
Read 11 tweets
14 Nov
سابق گورنر اور صدر پاکستان سکندر مرزا
سکند مرزا میر جعفر کے پڑپوتے تھے۔ ان کے پر دادا میر جعفر نے نواب سراج الدولہ سے غداری کر کے انگزیزوں کی جیت کا راستہ ہموار کیا تھا۔
انہوں الفنسٹن کالج بمبئی میں تعلیم پائی۔
کالج کی تعلیمی زندگی میں ہی رائل ملٹری
کالج سینڈہرسٹ میں داخلہ مل گیا۔
وہاں سے کامیاب ہو کر 1919ء میں واپس ہندوستان آئے۔
1921ء میں کوہاٹ کے مقام پر دوسری سکاٹش رائفل رجمنٹ میں شریک ہوئے اور خداداد خیل میں لڑائی میں حصہ لیا۔
1924ء میں وزیرستان کی لڑائی میں
شریک ہوئے۔
1922 سے 1924ء تک پونا ہارس رجمنٹ میں رہے جس کا صدر مقام جھانسی تھا۔
1926ء میں انڈین پولیٹیکل سروس کے لیے منتخب ہوئے اور ایبٹ آباد، بنوں، نوشہرہ، اور ٹانک میں بطور اسسٹنٹ
Read 10 tweets
13 Nov
کشمور صوبہ سندھ میں ایک واقعہ رپورٹ ہوا کراچی سے ایک خاتون کو اس کی 4 سالہ بیٹی سمیت اغوا کر کے کشمور لایا گیا جہاں رفیق ملک نامی ایک حیوان نے اپنے ساتھیوں سمیت ماں کی عزت ہی پامال نہ کی بلکہ 4 سالہ معصوم بچی کو بھی نہ
بخشا اور ماں کے سامنے اس کومل کلی کو روند ڈالا۔

ان درندوں نے بیٹی کو اپنے پاس رکھ کر ماں کو اس شرط پر چھوڑا کہ جاو ہمیں کوئی اور لڑکی لا کر دو تو اپنی بچی لے جاؤ۔
لٹی پٹی ماں نے پولیس سے رابطہ کیا اور فریاد گذاری کہ وہ کہاں سے لڑکی کا بندوبست کرے۔ پولیس یوں تو پنجاب کی ہو یا سندھ کی ان سے کسی بھلائی کی توقع کم کم ہی ہوتی ہے لیکن کچھ خوف
Read 11 tweets
13 Nov
شیر دلیر سب انسپکٹر محمد بخش کی دلیری

کراچی سے ایک مجبور خاتون کو نوکری کا جھانسہ دیکر 4 سالہ بیٹی کے ہمراہ کشمور لے جایا گیا۔ وہاں پہلے 3 ملزمان نے عورت کا مسلسل ریپ کیا۔ پھر ملزمان نے بچی روک کر خاتون سے کہا کہ کراچی میں آپ
کے ساتھ جو دوسری خاتون تھی، اس کو لاؤ تو بچی آپ کو واپس کریں گے۔
خاتون باہر نکل کر سوچ بچار کے بعد پولیس کے پاس چلی گئی۔ ڈیوٹی پر موجود اسسٹنٹ سب انسپکٹر محمد بخش
نے اس کی روداد سنی اور گھر سے اپنی بیٹی کو بلایا۔ اس کو ’دوسری خاتون‘ بناکر متاثرہ خاتون کے ساتھ روانہ کردیا اور خود نفری لیکر پیچھے چل پڑا۔ جیسے ہی دونوں خواتین اندر گئیں، پیچھے سے پولیس بھی
Read 6 tweets
12 Nov
خاتمہ بالایمان ۔۔۔۔

سعودی عرب کے ایک بزنس مین نے خواب میں دیکھا کہ ایک شخص اس سے کہہ رہا ہے کہ تمہاری کمپنی کے آفس کے مین گیٹ کے سامنے فلاں شخص جو پھل بیچتا ہے اس کو عمرہ کرا دو ۔۔۔
نیند سے بیدار ہوا تو اسے خواب اچھی طرح یاد تھا Image
مگر اس نے وہم جانا اور خواب کو نظر انداز کردیا ۔۔۔
تین دن مسلسل ایک ہی خواب نظر آنے کے بعد وہ شخص اپنےعلاقے کی جامع مسجد کے امام کے پاس گیا اور اسے خواب سنایا ۔۔۔
امام مسجد نے کہا اس شخص سے رابطہ کرو اور اسے عمرہ کروا دو ۔۔۔
اگلے روز اس شخص نے اپنی اس کمپنی کے ایک ملازم سے اس پھل فروش کا نمبر معلوم کرنے کو کہا ۔۔۔
بزنس مین نے فون پر اس پھل فروش سے رابطہ کیا اور کہا کہ مجھے خواب میں کہا گیا ہے کہ میں تمہیں عمرہ کرواوٴں ، لہذا
Read 18 tweets
12 Nov
آپ سب سے درخواست ہے یہ ضرور پڑھیں

گھریلو آسودگی
ﺍﯾﮏ ﺑﺎﺩﺷﺎﻩ ﺍﭘﻨﮯ ﻭﺯﯾﺮ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺳﯿﺮ ﮐﺮ ﺭہا ﺗﮭﺎ، ﺍﭼﺎﻧﮏ ﺍﺱ ﮐﯽﻧﻈﺮ ﺍﯾﮏ ﻣﺰﺩﻭﺭ ﭘﺮ ﭘﮍﯼ ﺟﻮ ﺯﻣﯿﻦ ﺳﮯ ﺍﯾﻨﭧ ﭘﮭﯿﻨﮑﺘﺎ ﺍﻭﺭ ﻭﻩ ﺍﯾﻨﭧ ہوﺍ
ﻣﯿﮟ ﻗﻼﺑﺎﺯﯾﺎﮞ ﮐﮭﺎﺗﯽ ہوﺋﯽ ﺗﯿﺴﺮﯼ ﻣﻨﺰﻝ ﭘﺮ جا پہنچتی.

ﺑﺎﺩﺷﺎﻩ ﻧﮯ ﺣﯿﺮﺍﻥ ہو ﮐﺮ ﻭﺯﯾﺮ ﺳﮯ پوچھا کہ ﮐﯿﺎ ﻭجہ ہے کہ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺯﻣﯿﻦ ﭘﺮ ﮐﮭﮍﮮ ہو ﮐﺮ ﭘﮭﯿﻨﮑﯽ ہوﺋﯽ ﺍﯾﻨﭧ ﺗﯿﺴﺮﯼ ﻣﻨﺰﻝ ﭘﺮ پہنچ جاتی ہے... ؟؟
ﮐﯿﺎ یہ ﺍﺗﻨﺎ ﻃﺎﻗﺘﻮﺭ ھے ؟؟

ﻭﺯﯾﺮ ﻧﮯ ﺑﺎﺩﺷﺎﻩ ﺳﮯ ﻋﺮﺽ ﮐﯿﺎ کہ:

ﺣﻀﻮﺭ ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﻃﺎﻗﺖ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺳﺎﺗﮫ ﺍﯾﮏ ﺍﻭﺭ ﻋﻤﻞ ﮐﺎﺭ ﻓﺮﻣﺎ ھے،ﺍﮔﺮ ﺟﺎﻥ ﮐﯽ ﺍﻣﺎﻥ ﭘﺎﺅﮞ ﺗﻮ

ﻋﺮﺽ ﮐﺮﻭﮞ؟
Read 18 tweets

Did Thread Reader help you today?

Support us! We are indie developers!


This site is made by just two indie developers on a laptop doing marketing, support and development! Read more about the story.

Become a Premium Member ($3/month or $30/year) and get exclusive features!

Become Premium

Too expensive? Make a small donation by buying us coffee ($5) or help with server cost ($10)

Donate via Paypal Become our Patreon

Thank you for your support!

Follow Us on Twitter!