دوکان بند میں کہیں سے گھومتا پھرتا ایک سانپ گھس آیا ۔یہاں سانپ کی دلچسپی کی کوئی چیز نہیں تھی۔اس کا جسم وہاں پڑی ایک آری ٹکر کر بہت معمولی سا زخمی ہوگیا ۔گھبراہٹ میں سانپ نے پلٹ کر آری
پر پوری قوت سے ڈنگ مارا۔سانپ کے منہ سے خون بہنا شروع ہوگیا ۔ اگلی بار سانپ نے اپنی سوچ کے مطابق آری کے گرد لپیٹ کر اسے جکڑ کر اور دم گھونٹ کر مارنے کی پوری کوشش کر ڈالی۔دوسری دن جب
دوکاندار نے ورکشاپ کھولی تو ایک سانپ کو آری کے گرد لپٹے مردہ پایا جو کسی اور وجہ سے نہیں محض اپنی طیش اور غصے کی بھینٹ چڑھ گیا تھا ۔بعض اوقات غصہ میں ہم دوسروں کو نقصان پہنچانے کی
کوشش کرتے ہیں ۔ مگر وقت گزرنے کے بعد ہمیں پتہ چلتا ہے کہ ہم نے اپنے آپ کا کتنا نقصان کیا ہے۔
اچھی زندگی گزارنے کے لیے بعض اوقات ہمیں
کچھ چیزوں کو
کچھ لوگوں کو
کچھ کاموں کو
کچھ باتوں کو
نظرانداز کرنا چاہیے ۔۔۔۔
اپنے آپ کو ذہانت کے ساتھ نظرانداز کرنے کا عادی بنائیے ۔ ضروری نہیں کہ ہم ہر عمل کا ایک ردعمل دکھائیں ۔ ہمارے کچھ ردعمل
ہمیں محض نقصان ہی نہیں دینگے بلکہ ہوسکتا ہے کہ ہماری جان بھی لے لیے۔۔۔
بس سب سی بڑی قوت۔۔۔۔۔۔۔ قوت برداشت ہے۔
صبر ایسی سواری ہے جو اپنے سوار کو
کبھی گرنے نہیں دیتی ۔ نہ کسی کے قدموں ۔۔۔۔۔ نہ کسی کی نظروں میں ۔۔۔۔۔
مختصر معلوماتی اسلامی اور تاریخی اردو تحریریں پڑھنے کیلئے
دوسرا اکاؤنٹ فالو کریں 👈 @Pyara_PAK
حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانے میں ایک گنہ گار شخص تھا ، جس سے لوگوں نے بیزار ہو کر اس کو اپنے شہر سے نکال دیا ۔ وہ ایک ویرانے میں رہنے لگا تھا اور جب اس کی موت کا وقت ہوا اور وہ انتقال کر گیا ، تو حضرت موسیٰ علیہ السلام پر
وحی آئی کہ ہمارے ایک ولی کی فلاں جگہ وفات ہو گئی ہے ، آپ اس کو غسل و کفن دے کر نماز جنازہ پڑھیں اور لوگوں کو بتادیں کہ جس کے گناہ زیادہ ہوں ، وہ لوگ اگر اس کے جنازے میں شریک ہوں ، تو میں ان کی بھی مغفرت کردوں گا ۔
حضرت موسی علیہ السلام نے بنی اسرائیل میں اعلان کر دیا اور کثیر تعداد میں لوگ جمع ہو گئے اور جب لوگوں نے اس کی لاش کو دیکھا ، تو اس کو پہچان لیا اور کہا کہ حضرت ! یہ تو بڑا گنہ گار شخص تھا اور ہم نے
غزوہ دومۃ الجندل ان غزوات میں سے ہے جس میں کسی بھی سپاہی کا خون نہیں بہا اور بغیر کسی لڑائی کے مال غنیمت مسلمانوں کے ہاتھ آیا،
اور یہ جگہ تاریخ میں کئی مناسبتوں کے لحاظ سے مشہور ہے۔
غزوہ دومتہ الجندل 25 ربیع الاول 5 ہجری
کو پیش آیا۔ دومتہ الجندل اس وقت حکومت روم کی حدود میں صوبہ شام کا ایک سرحدی شہر تھا۔
اس وقت دومة الجندل سعودی عرب کے شمال مغربی حصے صوبہ الجوف میں میں واقع ہے۔
دومتہ الجندل شمال کی جانب اردن کے
ساتھ، جنوب کی جانب سے تبوک کے ساتھ اور شمال مشرق کی جانب سے صوبہ "حدود" کے ساتھ متصل ہے۔
یہ علاقہ شہر "سکاکا" کے جنوب میں واقع ہے اور خشک صحرائی اور صوبے کا گرم ترین علاقہ ہے۔
دومۃ الجندل سے دارالحکومت ریاض کا
رات کو میں موبائل چارجنگ لگا کر سوگیا۔
صبح اٹھا تو بیٹری لو ہونے کی وجہ سے موبائل بند ہوچکا تھا۔ بہت زیادہ غصہ آیا کہ موبائل کو کس نے ہلایا تھا۔
۔
ابھی میں زور سے چلا کر پورے گھر کو سر پر
اٹھانے ہی والا تھا کہ میری نظر سامنے لگے سوئچ بورڈ پر پڑی اور یہ دیکھ کر میں نے اپنی آواز حلق میں ایسے ہی دبا لی جیسے کسی نے غریب کے پیسے دبا لئے ہوں. کیونکہ میں نے موبائل تو چارجنگ لگا دیا
البتہ سوئچ کا بٹن دبانا بھول گیا.
اپنی اس غلطی کو میں نے گردے پھپھڑوں پر نا لاتے ہوئے نظر انداز کرکے موبائل کو دوبارہ چارجنگ لگا دیا البتہ اس دن میں نے ایک سبق سیکھا کہ
۔
۔
جاپانی سب سے زیادہ عزت پاکستانیوں کی کرتے ہیں, بزنس کمیونٹی میں بھی وہاں پاکستانی تاجروں کو خاص اہمیت دی جاتی ہے,پاکستانی تاجر وہاں استعمال شدہ گاڑیوں کے سب بڑے خریدار ہیں اور ان کی بہت بہترین ساکھ ہے اس کاروبار میں, ہر
نیلامی میں پاکستانی شامل ہوتے ہیں اور پاکستانیوں بغیر زر ضمانت بولی میں حصہ لینے کی اجازت ہے کیونکہ پاکستانی زبان کے پکے مانے جاتے ہیں,
جب جاپان میں سونامی آیا۔ دنیا کے ہر
ترقی یافتہ اور غیر ترقی یافتہ ممالک نے اپنے شہریوں کو واپس بلا لیا۔ یہاں تک کہ بنگلہ دیش نے بھی دو جہاز بھیجے اور اپنے شہریوں کو لے گیا‘ لیکن آفت کی اس گھڑی میں پاکستانی وہ واحد قوم تھی جو
“زمانے کی سب سے بڑی ایجاد۔ ہوا سے ہلکی، مٹی سے سستی، بھینسے سے مضبوط”۔ نئی ایجاد کا 1875 میں یہ اشتہار (معمولی ترمیم کے ساتھ) کسی دیوانے کی بڑ لگے لیکن خاردار تار کی ایجاد نے بہت کچھ بدل دیا تھا۔
امریکی صدر ابراہام لنکن نے 1862 میں
ہوم سٹیڈ ایکٹ منظور کیا تھا۔ کوئی بھی مرد اور عورت، کوئی بھی آزاد کردہ غلام امریکہ کے مغرب میں 160 ایکڑ تک کا رقبہ آباد کر سکتے ہیں۔ مسئلہ یہ تھا کہ یہ علاقہ اونچی سخت گھاس کے میدان تھے۔ اس میں خانہ بدوش تو رہ سکتے تھے، آبادکار
نہیں۔ یہاں کاوٗبوائے گھوما کرتے تھے جو ان میدانوں پر مویشی چرایا کرتے تھے۔
آبادکاروں کو باڑ کی ضرورت تھی تا کہ ان گھومتے پھرتے مویشیوں سے اپنی فصلیں بچا سکیں۔ اور اس کے لئے یہاں پر لکڑی