غیرت اور قہر کی علامت، حجاج بن یوسف ، زبیر کو بے وقت دیکھ کر کچھ فکر مند ہوگیا زبیر گھوڑے سے اترا اور بغیر بات کیے ایک سفید رومال، اپنی جیب سے نکال کر اسے پیش کیا، پھر بغیر آنکھ ملائے کہا
آپ کے نام یہ خط ابوالحسن کی لڑکی ناہید نے اپنے خون سے لکھا کہ اگر حجاج
👇
کا خون منجمد ہوچکا ہوتو میرا یہ خط پیش کردینا ورنہ اس کی ضرورت نہیں
حجاج رومال پر خون سے لکھی ہوئی تحریر کی چند سطور پڑھ کر کپکپا اٹھا اس کی آنکھوں کے شعلے پانی میں تبدیل ہونے لگے۔اس نے رومال پاس کھڑے اپنے داماد محمد بن قاسم کے ہاتھ میں دیا اور خود دیوار کے پاس جاکر ہندوستان
👇
کا نقشہ دیکھنے لگا۔ حجاج کی شقی القلبی، غصہ اور انتقام محمد نے دیکھ رکھا تھا لیکن چہرے کا یہ رنگ پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا محمد بن قاسم نے شروع سے لے کر آخر تک یہ مکتوب پڑھا،
”مجھے یقین ہے کہ والی بصرہ قاصد کی زبانی مسلمان بچوں اور عورتوں کا حال سن کر اپنی فوج کے غیور سپاہیوں
👇
کو گھوڑوں پر زینیں ڈالنے کا حکم دےچکا ہوگا اور قاصد کو میرا یہ خط دیکھانے کی ضرورت پیش نہیں آئے گی۔ اگر حجاج بن یوسف کا خون منجمد ہوچکا ہے تو شاید میری تحریر بھی بے سود ثابت ہو۔ میں ابوالحسن کی بیٹی ہوں۔ میں اور میرا بھائی ابھی تک دشمن کی دسترس سے محفوظ ہیں لیکن ہمارے ساتھی
👇
ایک ایسے دشمن کی قید میں ہیں جس کے دل میں رحم کے لیے کوئی جگہ نہیں۔ قید خانے کی اس تاریک کوٹھری کا تصور کیجیے۔ جس کے اندر اسیروں کے کان مجاہدینِ اسلام کے گھوڑوں کی ٹاپوں کی آواز سننے کے لیے بیقرار ہیں ممکن ہے کہ میرا زخم مجھے موت کی نیند سلا دے اور میں عبرتناک انجام سے بچ جاؤں
👇
لیکن مرتے وقت مجھے یہ افسوس ہوگا کہ وہ صبا رفتار گھوڑے جن کے سوار ترکستان اور افریقہ کے درواے کھٹکھٹا رہے ہیں. اپنی قوم کے غریب اور بے بس بچوں کی مدد کو نا پہنچ سکے کیا یہ ممکن ہے کہ وہ تلوار جو روم اور ایران کے مغرور تاجداروں کے سر پر صاعقہ بن کر کوندی سندھ کے مغرور راجہ کے
👇
سامنے کند ہوگئی۔ میں موت سے نہیں ڈرتی لیکن اے حجاج ! اگر تم زندہ ہو تو اپنی غیور قوم کے یتیموں اور بیواؤں کی مدد کو پہنچو !!!
ایک غیور قوم کی بے بس بیٹی
محمد بن قاسم نے رومال لپیٹ کر زبیر کے حوالے کیا اور حجاج کی طرف دیکھنے لگا۔سب ہی کی نظریں حجاج کی طرف تھیں
سب ہی حجاج کے
👇
جلال اور دبدبے سے واقف تھے۔ اسکے اگلے الفاظ سندھ کی تقدیر کا فیصلہ کرنے والے تھے۔
بالآخر طویل سکوت ٹوٹا“ حجاج بن یوسف نے خنجر نکالا اور اس کی نوک دیوار پر لگے سندھ کے نقشے کے سینے میں پیوست کرتے ہوئے کہا،
👇
👇
وقت آگیا ہے کہ سندھ اور اسکے راجہ کو
پاپاجونز پیزا کھلایاجائے آج سے پورے بغداد میں جمعہ کی نماز کے بعد آدھے گھنٹے کا احتجاج ختم
زبیر، فوراً سندھ میں ایک فرنچائز بناؤ
یہ کہہ کر حجاج گھوڑے پر بیٹھا اور اسے سر پٹ دوڑاتا ہوا ڈیفینس ہاوسنگ سوسائٹی بغداد کا معائنہ کرنے نکل گیا
😜😜
• • •
Missing some Tweet in this thread? You can try to
force a refresh
ایک شخص صبح سویرے اٹھا صاف ستھرے کپڑے پہنے اور مسجد کى طرف چل پڑاتاکہ فجر کى نماز باجماعت ادا کرسکوں۔ راستے میں ٹھوکر کھا کر گر پڑا اور سارے کپڑے کیچڑ سے بھر گئے۔
👇
واپس گھر آیا لباس بدل کر واپس مسجد کى طرف روانہ ہوا پھر ٹھیک اسی مقام پر ٹھوکر کھا کر گِرا اور کپڑے گندے ھو گئے پھر واپس گھر آیا اور لباس بدل کر دوباره مسجد کو روانہ ہوا.
👇
جب تیسری مرتبہ اس مقام پہ پہنچا تو کیا دیکھتا ہے کہ ایک شخص چراغ ہاتھ میں لے کر کھڑا ہے اور اسے اپنے پیچھے چلنے کہہ رہا ہے وه شخص اسے مسجد کے دروازے تک لے آیا.پہلے شخص نے اسے کہا کہ آپ بھى آ کر نماز پڑھ لیں.
👇
اس بچے کا نام محمد حزیر اعوان ہے۔ یہ وہ بچہ ہے جو *ساڑھے 8 سال کی عمر میں دنیا کا کم عمر ترین ICDL/ECDL آئی ٹی سیکیورٹی سرٹیفائیڈ تھا یعنی اس بچے نے ارفع کریم کا ریکارڈ بریک کیا تھا
*سات سال کی عمر میں MCITP سرٹیفائیڈ پروفیشنل تھا،
*اور سات سال کی عمر میں ہی مائیکروسافٹ
👇
میں مزید 6 انٹرنیشنل سرٹیفیکیشنز تھیں جن کی تفصیلات میرے پاس موجود ہیں لیکن اختصار کی وجہ سے یہاں نہیں لکھ رہا
*چیف منسٹر یوتھ موبیلازیشن کمیٹی کی طرف سے National Icon کا ایوارڈ دیا گیا
*اسے UNICEF کی طرف سے یونیسیف اڈول سینس چیمپیئن کے ایوارڈ سے نوازا گیا
*مزید تقریباً 10
👇
ایوارڈ اور اعزازات ایسے ہیں جو گورنمنٹ کی طرف سے دیئے گئے *درجن سے زائد پاکستان کی ٹاپ یونیورسٹیز کی فہرست میرے پاس موجود ہے جہاں یہ لیکچرز دے چکے ہیں حزیر نے بتایا کہ یونیورسٹیز کی تعداد بہت زیادہ ہے یہ ڈاکومنٹ پرانا بنا ہوا ہے اس لیے اس میں اتنی ہی درج ہیں۔
👇
ایک قاضی نے اپنے شاگردوں کا امتحان لینے کے لیے ان کے سامنے ایک مقدمہ رکھا اور ان کو اپنی رائے لکھنے کو کہا
ایک شخص کے گھر مہمان آئے اس نے ان کی خاطر مدارت کی اپنے ملازم کو دودھ لینے بھیجا تاکہ مہمانوں کے لیئے کھیر بنائی جائے
ملازم دودھ کا برتن سر پر رکھے
👇
آرھا تھا کہ اوپر سے ایک چیل گزری جس کے پنجوں میں سانپ تھا سانپ کے منہ سے زہر کے قطرے نکلے جو دودھ میں جا گرے مہمانوں نے کھیر کھائی تو سب ہلاک ہو گئے اب اس کا قصور وار کون ھے؟
پہلے شاگرد نے لکھا یہ غلطی ملازم کی ھے اسے برتن ڈھانپنا چاہیئے تھا لہذا مہمانوں کا قتل اس کے ذمے ہے
👇
اسے سزا دی جائے
قاضی نے کہا کہ یہ بات درست ہے کہ ملازم کو برتن ڈھانپنا چاہیئے تھا لیکن یہ اتنا بڑا قصور نہیں کہ اسے موت کی سزا دی جائے
دوسرے شاگرد نے لکھا : اصل مجرم گھر کا مالک ھے اسے پہلے خود کھیر چھکنی چاہیئے تھی پھر مہمانوں کو پیش کرنی تھی
قاضی نے یہ جواز بھی مسترد کردیا
👇
حاجی صاحب مالش کرنے والے سے مالش کروا رہے تھے کہ اتنے میں ایک آدمی آیا اور کہنے لگا:
" کیا حال ہے حاجی صاحب... آپ نظر نہیں آتے آج کل؟ "
حاجی صاحب نے اس کی بات سنی ان سنی کر دی. وہ بندہ کہنے لگا:
" حاجی صاحب... میں آپ کی سائیکل لے کے جا رہا ہوں"
👇
وہ سائیکل مالشی کی تھی. کافی دیر ہو گئی تو مالشی کہنے لگا:
" حاجی صاحب... آپ کا دوست آیا نہیں ابھی تک واپس میری سائیکل لے کر؟ "
حاجی صاحب بولے :
" وہ میرا دوست نہیں تھا"
مالشی بولا:
" مگر وہ تو آپ سے باتیں کر رہا تھا"
حاجی صاحب بولے:
" میں تو اس کو جانتا ہی نہیں ہوں.
👇
میں تو سمجھا تھا کہ وہ تمہارا دوست ہے"
مالشی بولا:
" حاجی صاحب... میں غریب آدمی ہوں. میں تو لٹ گیا"
حاجی حاحب بولے:
" اچھا تو رو مت. میں تجھے نئی سائیکل لے دیتا ہوں. تم سائیکل والی روکان پر جا کے پسند کر لو.
مالشی نے ایک سائیکل پسند کی
اور چکر لگا کے دیکھا. واپسی پر آکر
👇
کبیر بادشاہ کا عزیز ترین حجام تھا, یہ روزانہ بادشاہ کے پاس حاضر ہوتاتھا اور دو تین گھنٹے اس کے ساتھ رہتاتھا‘ اس دوران بادشاہ سلطنت کے امور بھی سرانجام دیتا رہتا اور حجامت اور شیو بھی کرواتا رہتا تھا۔ ایک دن کبیر نائی نے بادشاہ سے عرض کیا۔
👇
”حضور میں وزیر کے مقابلے میں آپ کے زیادہ قریب ہوں, میں آپ کا وفادار بھی ہوں, آپ اس کی جگہ مجھے وزیر کیوں نہیں بنا دیتے. بادشاہ مسکرایا اور اس سے کہا, میں تمہیں وزیر بنانے کیلئے تیار ہوں لیکن تمہیں اس سے پہلے امتحان دینا ہوگا, پہلے امتحان دینا ہوگا,
👇
کبیرنائی نے سینے پر ہاتھ باندھ کر کہا, بادشاہ سلامت آپ حکم کیجئے, بادشاہ بولا بندرگاہ پر ایک بحری جہاز آیا ہے مجھے اس کے بارے میں معلومات لا کر اس کے بارے میں معلومات لا کر دو نائی بھاگ کر بندرگاہ پر گیا اور واپس آ کر بولا جی جہاز وہاں کھڑا ہے بادشاہ نے پوچھا یہ جہاز کب آیا,
👇
محبت کی داستان جب بھی لکھی جائے گی ان دونوں کو یاد رکھا جائے گا
عمار اور زینب 2011 میں پنجاب یونیورسٹی میں سوفٹویر انجینئرنگ کے لیے گئے اور آپس میں محبت ہو گئی اور دونوں خاندانوں میں شادی کا معاملہ طے ہو گیا اور 10 اگست 2018 کی تاریخ
👇
مقرر ہوئی تو ٹھیک نکاح سے 10 دن پہلے زینب کو تکلیف محسوس ہوئی تو چیک اپ کروایا تو پتہ چلا کہ زینب کو بلڈ کینسر ہے، جب عمار کو پتہ چلا کہ کینسر ہے پھر اس نے زینب کو چھوڑنے کی بجائے پکا عہد کر لیا کہ اب شادی کرنی ہے تو زینب سے ہی کرنی ہے بس اور اسکے علاج کا فیصلہ کیا
👇
عمار نے زینب سے 10 اگست کو شرعی نکاح کیا اور شوکت خانم سے علاج کروایا.. لیکن ئے بیمارے خطرناک اسٹیج تک پہنچ چکی تھی تو پھر اس علاج کے لیے انہیں چائینہ جانا پڑا 7 کروڑ روپے اس علاج کا خرچہ آیا اور 2 ماہ چائنا میں رہ کر زینب کا علاج کیا گیا.
عمار کے بھائیوں نے بیرون ملک اپنا
👇