سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ
کی تلوار کا وزن 35 کلو تھا
یہ وہ زمانہ تھا جب لوہا استعمال ہوتا تھا ،بھٹھیاں کم حرارت
کی ہوتیں لوہار کئي دن کی محنت سے تلوار بناتے
سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ اکثر دو تلواریں استعمال فرماتے
ایک داہنے ہاتھ میں ایک بائیں ہاتھ میں ،یعنی ستر کلو
آجکل کے لوگ میں سے شائيد ننانوے فیصد وہ تلوار اٹھا نہ سکیں
مارنا تو درکنار ،پھر جنگ متواتر صبح سے شام تک ہوتی ،سارا دن
اتنا وزن اٹھانا ،اکثر صحابہ کرام رضوان کے بازو شل ہو جاتے
ایک عام مثال سمجھ لیں آجکل لوہا کوٹنے والے ہتھوڑا چھوٹا
پانچ کلو کا ہوتا ہے ،بڑا دس کلو ،جو ہتھوڑا مشین استعمال کرتی
ہے بیس کلو کا ہوتا ہے
سادہ الفاظ میں دو تھیلے آٹے کے ایک ہاتھ میں اٹھا کر اوپر لے جانے
ہیں اگر آپ ایسا ایک ہاتھ سے کر سکتے ہیں ،تو وہ تلوار صرف
اٹھا سکتے ہیں ،انسان جو وزن اٹھاتا ہے قوت صرف کرتا ہے
جتنی قوت اٹھانے میں لگتی ہے اس سے دوگنا قوت مارنے میں
صرف ہوتی ہے ،پھر اگر زرہ پہنی ہو تو کہنیوں تک وہ ہوتی ہے
ڈھال کا وزن بھی اچھا خاصہ ہوتا ہے
آجکل ایک پوری طرح تیار فوجی 25 کلو وزن اٹھاتا ہے جس میں
بندوق کا وزن صرف ساڑھے تین کلو ہے ،پانی دو لٹر باقی بارود
اور تھوڑی سی خوراک
لیکن 35 کلو کی دو تلواریں یعنی ستر کلو اٹھا کر گھوڑا بھی قابو
کرنا اسکو ہدف کی طرف موڑنا اور تلوار سے گردن اڑانا
یہ صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے شیروں کا ہی
کام تھا
• • •
Missing some Tweet in this thread? You can try to
force a refresh
کار کا انعام، حافظ نسیم الدین
اور نیلام گھر کا پاکستان !
یہ 1985 کے اوائل کی بات ہے، ٹی وی کا صرف ایک چینل تھا اور اس پہ ہفتہ وار ایک ہی معلوماتی اور تفریحی شو 'نیلام گھر' ہوا کرتا تھا، جو ہر گھر دیکھا جانے والا ایک مقبول شو تھا۔ معلوماتی مقابلے
جیتنے والوں کو اکثر چھوٹے بڑے انعامات ملتے تھے، لیکن عوامی اشتیاق اس وقت بہت بڑھا جب پہلی بار گاڑی کے انعام کا اعلان ہوا۔ اور اس بڑے انعام کے لیے ایک مشکل شرط رکھی گئی کہ جیتنے والے کو لگاتار سات ہفتے ناقابل شکست رہنا پڑے گا۔ کئی مہینوں تک اس کڑے امتحان میں بہت
سے قابل شرکاء نے قسمت آزمائی کی، لیکن کوئی بھی دو ہفتے سے زیادہ مسلسل جیت نہیں سکا۔
حافظ نسیم الدین، ایک نابینا نوجوان تھا۔ ان کے والد کی کراچی کے علاقے کورنگی میں کتابوں کی دکان تھی ۔ بصارت سے
ایک غیرت مند لڑکی کبھی بھی اپنی تصاویر کسی کو نہیں دیتی،اپنی تصویر کسی کو دینا ایسا ہے جیسے کسی کو اپنے گھر کی چابی دے دینا،جسکا وہ کبھی بھی غلط استعمال کر کے کچھ بھی کر سکتا ہے،ایسا اکثر آج کی نوجوان نسل میں
دیکھنے کو ملتا ہے کہ لڑکیاں بےوقوفی میں آ کر اپنی تصاویر ہی نہیں بلکہ اپنے عاشق کے کہنے پر جسم بھی ننگا کر کے دیکھا دیتی ہیں،غور دکیجئے گا 😔 میں ایک سادی تصویر نا دینے کی بات کرہا ہوں،خود ہی اندازہ لگا لی جئے گا کہ پرسنل تصاویر کا کتنا نقصان ہوسکتا ہے۔ 🙏
#
تصویر_کا_غلط_استعمال_ایسے_بھی_ہوسکتا_ہے
جس شخص کو آپ تصویر بھیج رہی ہو،وہ آپ کا چہرہ لے کر کسی کے بھی ننگے بدن کو لگا کر یہ دیکھا سکتا ہے کہ وہ آپ کی مکمل تصویر ہے اور بلیک میل کرنا شروع کر سکتا ہے،ایسا ہوتا آیا ہے،کیونکہ ایک
مالدیپ🇲🇻
بحر ھند میں واقع ایک سیاحتی ملک ہے،یہ ملک 1192 چھوٹے جزیروں پر مشتمل ہے جن میں سے صرف 200 جزیروں پر انسانی آبادی پائی جاتی ہے.
مالدیب کی 100% آبادی مسلمان ہے جب کہ یہاں کی شہریت لینے کے لئے مسلمان ہونا ضروری ہے.
عجیب بات یہ ہے کہ مالدیب بدھ مت کے پیروکاروں کا ملک تھا صرف 2 ماہ کے اندر اس ملک کا بادشاہ،عوام اور خواص سب دائرہ اسلام میں داخل ہوئے.
مگر یہ معجزہ کب اور کیسے ہوا ؟
یہ واقعہ مشہور سیاح ابن بطوطہ نے مالدیب کی سیاحت کے بعد اپنی کتاب میں
لکھا ہے ابن بطوطہ ایک عرصے تک
مالدیب میں بطور قاضی کام کرتے بھی رہے ہیں.
وہ اپنی کتاب ' تحفة النظار في غرائب الأمصار وعجائب الأمصار ' میں لکھتے ہیں کہ
مالدیب کے لوگ بدھ مت کے پیروکار تھے
ایک دفعہ ایک گھوڑا ایک گہرے گڑھے میں جا گرا اور زور زور سے آوازیں نکالنےلگا
گھوڑے کا مالک کسان تھا جو کنارے پہ کھڑا اسے بچانے کی ترکیبیں سوچ رہا تھا
جب اسے کوئی طریقہ نہیں سوجھا تو ہار مان کر دل کو تسلی دینے لگا کہ گھوڑا تو اب بوڑھا ہو چکا ہے
وہ اب میرے کام کا بھی نہیں رہا چلو اسے یوں ہی چھوڑ دیتے ہیں اور گڑھے کو بھی آخر کسی دن بند کرنا ہی پڑے گا اس لیے اسے بچا کر بھی کوئی خاص فائدہ نہیں
یہ سوچ کر اس نے اپنے
اپنے پڑوسیوں کی مدد لی اور گڑھا بند کرنا شروع کر دیا
سب کے ہاتھ میں ایک ایک بیلچہ تھا جس سے وہ مٹی بجری اور کوڑا کرکٹ گڑھےمیں ڈال رہے تھے
گھوڑا اس صورت حال سے بہت پریشان ہوا
اس نے اور تیز آواز نکالنی شروع کر دی
کچھ ہی لمحے بعد گھوڑا بالکل خاموش سا ہو گیا
جب کسان نے جھانکا تو یہ دیکھ کر حیران
ضلع تھر پار کر میں ایک بزرگ مستری برکت علی تھے
جو لوہار کا کام کرتے تھے ۔
ایک دن ان کے پاس ایک مرزائی آیا
اور آتے ہی اس نے مرزا قادیانی کو نبی ماننے
اور سچا نبی ہونے پر یقین رکھنے اور پھر
اس کے دین میں مستری صاحب کو داخل کرنے کے لیے تبلیغ شروع کر دی۔
مستری صاحب اس وقت بیٹھے اپنے ہاتھ سے بنائی
ایک کلہاڑی کی دھار تیز کرنے میں مصرو ف تھے۔
مرزائی جب تک بولتا رہا یہ کلہاڑی کی دھار
تیز کرنے میں مصروف رہے۔ جب دھار خوب تیز ہو گئی تو
یک دم اٹھے اور کلہاڑی کو اس مرزائی کی گردن پر رکھ دیا
اور کہا:
کہو! مرزا قادیانی بےایمان اور جھوٹا تھا اور ایسا ویسا تھا۔