ترکوں نے مسجد نبوی کی تعمیر کتنے ادب سے کی ؟
(ایمان افروز واقعہ)

ﻟﻮﮒ ﺗﺎﺝ ﻣﺤﻞ ﮐﻮ ﻣﺤﺒﺖ ﮐﯽ ﻋﻼﻣﺖ ﻗﺮﺍﺭ ﺩﯾﺘﮯ ﮬﯿﮟ !!
ﻣﮕﺮ تاریخ سے پتہ چلتا ہے :
ﮐﮧ
خلافتِ عثمانیہ کے دور ﻣﯿﮟ ﻣﺴﺠﺪ نبوی ﷺ ﮐﯽ ﺗﻌﻤﯿﺮ ، ﺗﻌﻤﯿﺮﺍﺕ ﮐﯽ ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﻣﺤﺒﺖ ﺍﻭﺭ ﻋﻘﯿﺪﺕ ﮐﯽ ﻣﻌﺮﺍﺝ ﮬﮯ، ذﺭﺍ پڑھیے ﺍﻭﺭ ﺍﭘﻨﮯ ﺩﻟﻮﮞ ﮐﻮ ﻋﺸﻖ ﻧﺒﯽ ﺳﮯ ﻣﻨﻮﺭ ﮐﺮﯾﮟ ۔
ﺗﺮﮐﻮﮞ ﻧﮯ ﺟﺐ ﻣﺴﺠﺪ ﻧﺒﻮﯼ ﷺ ﮐﯽ ﺗﻌﻤﯿﺮ ﮐﺎ ﺍﺭﺍﺩﮦ ﮐﯿﺎ ﺗﻮ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﻭﺳﯿﻊ و ﻋﺮﯾﺾ ﺭﯾﺎﺳﺖ ﻣﯿﮟ ﺍﻋﻼﻥ ﮐﯿﺎ ﮐﮧ ﺍﻧﮭﯿﮟ ﻋﻤﺎﺭﺕ ﺳﺎﺯﯼ ﺳﮯ ﻣﺘﻌﻠﻖ ﻓﻨﻮﻥ ﮐﮯ ﻣﺎﮨﺮﯾﻦ ﺩﺭﮐﺎﺭ ﮬﯿﮟ ﺍﻋﻼﻥ ﮐرنے
ﺩﯾﺮ ﺗﮭﯽ ﮐﮧ ﮬﺮ ﻋﻠﻢ ﮐﮯ ﻣﺎﻧﮯ ﮬﻮﮮٔ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﺧﺪﻣﺎﺕ ﭘﯿﺶ ﮐﯿﻦ،
ﺳﻠﻄﺎﻥ ﮐﮯ ﺣﮑﻢ ﺳﮯ ﺍﺳﺘﻨﺒﻮﻝ ﮐﮯ ﺑﺎﮨﺮ ﺍﯾﮏ ﺷﮩﺮ ﺑﺴﺎﯾﺎ ﮔﯿﺎ ﺟﺲ ﻣﯿﮟ ﺍﻃﺮﺍﻑ ﻋﺎﻟﻢ ﺳﮯ
ﺁﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﺍﻥ ﻣﺎﮨﺮﯾﻦ ﮐﻮ ﺍﻟﮓ ﺍﻟﮓ ﻣﺤﻠﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺑﺴﺎﯾﺎ ﮔﯿﺎ،
ﺍﺱ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﻋﻘﯿﺪﺕ ﺍﻭﺭ ﺣﯿﺮﺕ ﮐﺎ ﺍﯾﺴﺎ ﺑﺎﺏ ﺷﺮﻭﻉ ﮬﻮﺍ ﺟﺲ ﮐﯽ ﻧﻈﯿﺮ ملنا ﻣﺸﮑﻞ ﮬﮯ،
خلیفہ وﻗﺖ ﺟﻮ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﺎ ﺳﺐ ﺳﮯ ﺑﮍﺍ
ﻓﺮﻣﺎﻧﺮﻭﺍ ﺗﮭﺎ ، وہ نئے
ﺷﮩﺮ ﻣﯿﮟ ﺁﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﮬﺮ ﺷﻌﺒﮯ ﮐﮯ ﻣﺎﮨﺮ ﮐﻮ ﺗﺎﮐﯿﺪ ﮐﯽ ﮐﮧ ﺍﭘﻨﮯ ﺫﮬﯿﻦ ﺗﺮﯾﻦ ﺑﭽﮯ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﺎ ﻓﻦ ﺍﺱ ﻃﺮﺡ ﺳﮑﮭﺎﮮٔ ﮐﮧ ﺍﺳﮯ ﯾﮑﺘﺎ ﻭ ﺑﯿﻤﺜﺎﻝ ﮐﺮ ﺩﮮ،
ﺍسی ﺍﺛﻨﺎ ﻣﯿﮟ ﺗﺮﮎ ﺣﮑﻮمت
حافظ ﻗﺮﺁﻥ ﺍﻭﺭ ﺷﮩﺴﻮﺍﺭ ﺑﻨﺎﮮٔ ﮔﯽ،
ﺩﻧﯿﺎ ﮐﯽ ﺗﺎﺭﯾﺦ ﮐﺎ ﯾﮧ ﻋﺠﯿﺐ ﻭ ﻏﺮﯾﺐ ﻣﻨﺼﻮﺑﮧ کئی ﺳﺎﻝ ﺟﺎﺭﯼ ﺭﮬﺎ ، 25 ﺳﺎﻝ ﺑﻌﺪ ﻧﻮﺟﻮﺍﻧﻮﮞ ﮐﯽ ﺍﯾﺴﯽ ﺟﻤﺎﻋﺖ ﺗﯿﺎﺭ ﮬﻮئی ﺟﻮ ﻧﮧ
ﺻﺮﻑ ﺍﭘﻨﮯ ﺷﻌﺒﮯ ﻣﯿﮟ ﯾﮑﺘﺎ ﮮٔ ﺭﻭﺯﮔﺎﺭ ﺗﮭﮯ ﺑﻠﮑﮧ ﮬﺮ ﺷﺨﺺ حاﻓﻆ ﻗﺮﺁﻥ ﺍﻭﺭ ﺑﺎ ﻋﻤﻞ ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﺑﮭﯽ ﺗﮭﺎ، ﯾﮧ ﻟﮓ ﺑﮭﮓ 500 ﻟﻮﮒ ﺗﮭﮯ،
ﺍﺳﯽ ﺩﻭﺭﺍﻥ ﺗﺮﮐﻮﮞ ﻧﮯ ﭘﺘﮭﺮﻭﮞ ﮐﯽ ﻧﯽٔ
ﮐﺎﻧﯿﮟ ﺩﺭﯾﺎﻓﺖ ﮐﯿﮟ، نئے ﺟﻨﮕﻠﻮﮞ ﺳﮯ ﻟﮑﮍﯾﺎﮞ ﮐﭩﻮﺍئیں، ﺗﺨﺘﮯ حاﺻﻞ ﮐﯿﮯٔ گئے ، ﺍﻭﺭ ﺷﯿﺸﮯ ﮐﺎ ﺳﺎﻣﺎﻥ ﺑﮩﻢ ﭘﮩﻨﭽﺎﯾﺎ ﮔﯿﺎ،
ﯾﮧ ﺳﺎﺭﺍ ﺳﺎﻣﺎﻥ ﻧﺒﯽ ﮐﺮﯾﻢ ﷺ ﮐﮯ ﺷﮩﺮ ﭘﮩﻨﭽﺎﯾﺎ ﮔﯿﺎ ﺗﻮ ﺍﺩﺏ ﮐﺎ ﯾﮧ ﻋﺎلم
ﮐﮧ ﺍﺳﮯ ﺭﮐﮭﻨﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﮯٔ ﻣﺪیںہ منورہ ﺳﮯ ﺩﻭﺭ ﺍﯾﮏ ﺑﺴﺘﯽ ﺑﺴﺎئی ﮔﯽٔ ﺗﺎ ﮐﮧ ﺷﻮﺭ ﺳﮯ حضور اکرم ﷺ کی بارگاہ کی بے ادبی اور ﻣﺪینہ منورہ ﮐﺎ ﻣﺎﺣﻮﻝ ﺧﺮﺍﺏ ﻧﮧ ﮬﻮ، ﻧﺒﯽ ﷺ ﮐﮯ
ﺍﺩﺏ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ انہیں حکم تھا ﺍﮔﺮ ﮐﺴﯽ
ﮐﭩﮯ ﭘﺘﮭﺮ کو اپنی جگہ بٹھانے کے لئے چوٹ لگانےکی ضرورت پیش آئے تو موٹے کپڑے کو پتھر پر تہ بتہ یعنی کئی بار فولڈ کر کے رکھیں
پھر لکڑی کے ہتھوڑے سے آہستہ آہستہ سے چوٹ لگائیں تاکہ آواز پیدا نہ ہو اور اگر ﺗﺮﻣﯿﻢ ﮐﯽ ﺿﺮﻭﺭﺕ ہو ﺗﻮ ﺍﺳﮯ ﻭﺍﭘﺲ ﺍﺳﯽ ﺑﺴﺘﯽ
ﺑﮭﯿﺠﺎ ﺟﺎئے وہاں اسے کاٹ کر درست کیا جائے
، ﻣﺎﮬﺮﯾﻦ ﮐﻮ ﺣﮑﻢ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﮬﺮ ﺷﺨﺺ ﮐﺎﻡ ﮐﮯ ﺩﻭﺭﺍﻥ ﺑﺎ ﻭﺿﻮ ﺭﮬﮯ ﺍﻭﺭ ﺩﺭﻭﺩ ﺷﺮﯾﻒ ﺍﻭﺭ ﺗﻼﻭﺕ ﻗﺮﺁﻥ ﻣﯿﮟ ﻣﺸﻐﻮﻝ ﺭﮬﮯ،
ﮬﺠﺮﮦ ﻣﺒﺎﺭﮎ ﮐﯽ ﺟﺎﻟﯿﻮﮞ ﮐﻮ ﮐﭙﮍﮮ ﺳﮯ
ﻟﭙﯿﭧ ﺩﯾﺎ ﮔﯿﺎ ﮐﮧ ﮔﺮﺩ ﻏﺒﺎﺭ ﺍﻧﺪﺭ ﺭﻭﺿﮧ ﭘﺎﮎ ﻣﯿﮟ ﻧﮧ ﺟﺎﮮٔ، ﺳﺘﻮﻥ ﻟﮕﺎﮮٔ ﮔﯿﮯٔ ﮐﮧ ﺭﯾﺎﺽ ﺍلجنۃ ﺍﻭﺭ ﺭﻭﺿﮧ ﭘﺎﮎ ﭘﺮ
ﻣﭩﯽ ﻧﮧ ﮔﺮﮮ ، ﯾﮧ ﮐﺎﻡ ﭘﻨﺪﺭﮦ ﺳﺎﻝ ﺗﮏ ﭼﻠﺘﺎ
ﺭﮬﺎ ﺍﻭﺭ ﺗﺎﺭﯾﺦ ﻋﺎﻟﻢ ﮔﻮﺍﮦ ﮬﮯ :
ﺍﯾﺴﯽ ﻣﺤﺒﺖ ﺍﯾﺴﯽ ﻋﻘﯿﺪﺕ ﺳﮯ ﮐﻮئی ﺗﻌﻤﯿﺮ ﻧﮧ ﮐﺒﮭﯽ ﭘﮩﻠﮯ ھوئیﺍﻭﺭ ﻧﮧ ﮐﺒﮭﯽ ﺑﻌﺪ ﻣﯿﮟ ﮬﻮ ﮔﯽ ۔

• • •

Missing some Tweet in this thread? You can try to force a refresh
 

Keep Current with ادبــی محــفـــل

ادبــی محــفـــل Profile picture

Stay in touch and get notified when new unrolls are available from this author!

Read all threads

This Thread may be Removed Anytime!

PDF

Twitter may remove this content at anytime! Save it as PDF for later use!

Try unrolling a thread yourself!

how to unroll video
  1. Follow @ThreadReaderApp to mention us!

  2. From a Twitter thread mention us with a keyword "unroll"
@threadreaderapp unroll

Practice here first or read more on our help page!

More from @Ehl_e_Muslim

29 Nov
سخاوت کی بہترین مثال
بھائ مجھے تھوڑا سا شہد دے دیں.....مجھے شدید ضرورت ہے ، میری چھوٹی سی بیٹی بیمار ہے.....اس کا علاج شہد سے ممکن ہے ۔*
*افسوس ! میرے پاس اس وقت شہد نہیں ہے.....ویسے شہد آپ کو مل سکتا ہے
.....لیکن آپ کو کچھ دور جانا پڑےگا ، ملک شام سے ایک بڑے تاجر کا تجارتی قافلہ آرہا ہے.....وہ تاجر بہت اچھے انسان ہیں.....مجھے امید ہے ، وہ آپ کی ضرورت کے لیے شہد ضرور دے دیں گے ۔*
*ضرورت مند نے ان کا شکریہ ادا کیا اور شہر سے باہر نکل آیا تاکہ قافلہ وہاں پہنچے
تو تاجر سے شہد کے لیے درخواست کر سکے ۔*
*آخر قافلہ آتا نظر آیا ۔ وہ فوراً اٹھا اور اس کے نزدیک پہنچ گیا ۔ اس قافلے کے امیر کے بارے میں پوچھا ۔ لوگوں نے ایک خوبصورت اور بارونق چہرے والے شخص کی طرف اشارہ کیا ۔ ان کی خدمت میں
Read 10 tweets
28 Nov
منسا موسیٰ کو سب سے زیادہ شہرت اس کے سفرِ حج کی وجہ سے ہوئی جو اس نے 1324ء میں کیا تھا۔ یہ سفر اتنا پرشکوہ تھا کہ اس کی وجہ سے منسا موسیٰ کی شہرت نہ صرف اسلامی دنیا کے ایک بڑے حصے میں پھیل گئی بلکہ تاجروں کے ذریعے یورپ تک اس کا نام پہنچ گیا۔ اس
سفر میں منسا موسیٰ نے اس کثرت سے سونا خرچ کیا کہ مصر میں سونے کی قیمتیں کئی سال تک گری رہیں۔ اس زمانے میں غالباً مغربی افریقا کے اس علاقے میں سونا بہت زیادہ پایا جاتا تھا جہاں منسا موسیٰ کی حکومت تھی۔ حج کے اس سفر میں موسیٰ کے ہمراہ 60 ہزار فوجی اور 12
ہزار غلام تھے جنہوں نے چار چار پاونڈ سونا اٹھا رکھا تھا۔ اس کے علاوہ 80 اونٹوں پر بھی سونا لدا ہوا تھا۔ اندازہ ہے کہ موسیٰ نے 125 ٹن سونا اس سفر میں خرچ کیا۔ اس سفر کے دوران وہ جہاں سے بھی گزرا، غربا اور مساکین کی مدد کرتا رہا اور ہر جمعہ کو ایک نئی مسجد بنواتا رہا۔

منسا
Read 7 tweets
27 Nov
یہ 14 سالہ لڑکا، مصطفی حسین، سابق عراقی صدر صدام حسین کا پوتا ھے۔ جو کہ غاصب امریکی فوج کیساتھ آخری لمحے تک لڑتا رھا۔
آپریشن میں حصہ لینے والے امریکی سپاہیوں کے مطابق جب انہوں نے آپریشن شروع کیا تو مصطفی حسین نے ان پر
فائرنگ شروع کی۔اور 400 امریکی فوجیوں کی پیش قدمی اکیلے سر روک دی۔
بچے کے سامنے والد اور چچا کی لاشیں پڑی تھیں۔ اور اس نے سنگل رائفل سے 14 امریکی میرینز ھلاک کئے۔
400 امریکی میرینز کیساتھ فائرنگ کا یہ
سلسلہ 6 گھنٹے تک جاری رھا۔ آخرکار اسکو شھید کیا۔ جب اندر داخل ھوگئے تو امریکی فوج کو یقین نہیں آرھا تھا کہ وہ تو ایک چھوٹا بچہ تھا اور اس سے بڑی حیرانگی کی بات یہ تھی کہ وہ اکیلا انکے خلاف لڑ رھا تھا۔
نیویارک ٹائمز کے آرٹیکل " مصطفی حسین"
Read 4 tweets
26 Nov
السلام علیکم میرے بھائیوں بہنوں
محکمہ زراعت ملتان میں پرموشن پر
آج میرٹ کی دھجیاں اڑا دیں گیئں
میرے بابا جو کہ اس سنیارٹی لسٹ میں میں پہلے نمبر پر موسٹ ترین سینئر تھے جو کہ پر موشن کا حق ان کا بنتا تھا تھا لیکن کچھ کالی بھیڑیں اس محکمہ زراعت ImageImageImage
میں ایسی تھی جنہوں نے میرے بابا کو یہ حق نہیں دیا اور اس لسٹ میں تقریبا بیس لوگ تھے ان میں سے پہلے پانچ لوگوں کو کرنا تھا
لیکن حکام بالا اور افسران کی کی ستم ظریفی دیکھئے
انہوں نے جو بندہ پہلے نمبر پر پر موجود
ہے ہر لحاظ سے ان کی پرموشن نہیں کی اور ایک ایسا بندہ جس کا نمبر اینڈ میں 19 ویں نمبر پر آتا ہے اور اس کی سروس ایک سال بیس دن بنتی ہے جو کہ کہ اس لسٹ میں رول کے مطابق آ ہی نہیں سکتا کیونکہ پرموشن کے لئے تقریبا 3سال کی سروس ہونا ضروری ہے لیکن میرے بابا
Read 6 tweets
25 Nov
کار کا انعام، حافظ نسیم الدین
اور نیلام گھر کا پاکستان !

یہ 1985 کے اوائل کی بات ہے، ٹی وی کا صرف ایک چینل تھا اور اس پہ ہفتہ وار ایک ہی معلوماتی اور تفریحی شو 'نیلام گھر' ہوا کرتا تھا، جو ہر گھر دیکھا جانے والا ایک مقبول شو تھا۔ معلوماتی مقابلے
جیتنے والوں کو اکثر چھوٹے بڑے انعامات ملتے تھے، لیکن عوامی اشتیاق اس وقت بہت بڑھا جب پہلی بار گاڑی کے انعام کا اعلان ہوا۔ اور اس بڑے انعام کے لیے ایک مشکل شرط رکھی گئی کہ جیتنے والے کو لگاتار سات ہفتے ناقابل شکست رہنا پڑے گا۔ کئی مہینوں تک اس کڑے امتحان میں بہت
سے قابل شرکاء نے قسمت آزمائی کی، لیکن کوئی بھی دو ہفتے سے زیادہ مسلسل جیت نہیں سکا۔

حافظ نسیم الدین، ایک نابینا نوجوان تھا۔ ان کے والد کی کراچی کے علاقے کورنگی میں کتابوں کی دکان تھی ۔ بصارت سے
Read 13 tweets
23 Nov
سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ
کی تلوار کا وزن 35 کلو تھا
یہ وہ زمانہ تھا جب لوہا استعمال ہوتا تھا ،بھٹھیاں کم حرارت
کی ہوتیں لوہار کئي دن کی محنت سے تلوار بناتے
سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ اکثر دو تلواریں استعمال فرماتے
ایک داہنے ہاتھ میں ایک بائیں ہاتھ میں ،یعنی ستر کلو
آجکل کے لوگ میں سے شائيد ننانوے فیصد وہ تلوار اٹھا نہ سکیں
مارنا تو درکنار ،پھر جنگ متواتر صبح سے شام تک ہوتی ،سارا دن
اتنا وزن اٹھانا ،اکثر صحابہ کرام رضوان کے بازو شل ہو جاتے
ایک عام مثال سمجھ لیں آجکل لوہا کوٹنے والے ہتھوڑا چھوٹا
پانچ کلو کا ہوتا ہے ،بڑا دس کلو ،جو ہتھوڑا مشین استعمال کرتی
ہے بیس کلو کا ہوتا ہے
سادہ الفاظ میں دو تھیلے آٹے کے ایک ہاتھ میں اٹھا کر اوپر لے جانے
Read 6 tweets

Did Thread Reader help you today?

Support us! We are indie developers!


This site is made by just two indie developers on a laptop doing marketing, support and development! Read more about the story.

Become a Premium Member ($3/month or $30/year) and get exclusive features!

Become Premium

Too expensive? Make a small donation by buying us coffee ($5) or help with server cost ($10)

Donate via Paypal Become our Patreon

Thank you for your support!

Follow Us on Twitter!