ﮐﮧ ﺍﺳﮯ ﺭﮐﮭﻨﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﮯٔ ﻣﺪیںہ منورہ ﺳﮯ ﺩﻭﺭ ﺍﯾﮏ ﺑﺴﺘﯽ ﺑﺴﺎئی ﮔﯽٔ ﺗﺎ ﮐﮧ ﺷﻮﺭ ﺳﮯ حضور اکرم ﷺ کی بارگاہ کی بے ادبی اور ﻣﺪینہ منورہ ﮐﺎ ﻣﺎﺣﻮﻝ ﺧﺮﺍﺏ ﻧﮧ ﮬﻮ، ﻧﺒﯽ ﷺ ﮐﮯ
ﺍﺩﺏ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ انہیں حکم تھا ﺍﮔﺮ ﮐﺴﯽ
ﮐﭩﮯ ﭘﺘﮭﺮ کو اپنی جگہ بٹھانے کے لئے چوٹ لگانےکی ضرورت پیش آئے تو موٹے کپڑے کو پتھر پر تہ بتہ یعنی کئی بار فولڈ کر کے رکھیں
پھر لکڑی کے ہتھوڑے سے آہستہ آہستہ سے چوٹ لگائیں تاکہ آواز پیدا نہ ہو اور اگر ﺗﺮﻣﯿﻢ ﮐﯽ ﺿﺮﻭﺭﺕ ہو ﺗﻮ ﺍﺳﮯ ﻭﺍﭘﺲ ﺍﺳﯽ ﺑﺴﺘﯽ
ﺑﮭﯿﺠﺎ ﺟﺎئے وہاں اسے کاٹ کر درست کیا جائے
سخاوت کی بہترین مثال
بھائ مجھے تھوڑا سا شہد دے دیں.....مجھے شدید ضرورت ہے ، میری چھوٹی سی بیٹی بیمار ہے.....اس کا علاج شہد سے ممکن ہے ۔*
*افسوس ! میرے پاس اس وقت شہد نہیں ہے.....ویسے شہد آپ کو مل سکتا ہے
.....لیکن آپ کو کچھ دور جانا پڑےگا ، ملک شام سے ایک بڑے تاجر کا تجارتی قافلہ آرہا ہے.....وہ تاجر بہت اچھے انسان ہیں.....مجھے امید ہے ، وہ آپ کی ضرورت کے لیے شہد ضرور دے دیں گے ۔*
*ضرورت مند نے ان کا شکریہ ادا کیا اور شہر سے باہر نکل آیا تاکہ قافلہ وہاں پہنچے
تو تاجر سے شہد کے لیے درخواست کر سکے ۔*
*آخر قافلہ آتا نظر آیا ۔ وہ فوراً اٹھا اور اس کے نزدیک پہنچ گیا ۔ اس قافلے کے امیر کے بارے میں پوچھا ۔ لوگوں نے ایک خوبصورت اور بارونق چہرے والے شخص کی طرف اشارہ کیا ۔ ان کی خدمت میں
منسا موسیٰ کو سب سے زیادہ شہرت اس کے سفرِ حج کی وجہ سے ہوئی جو اس نے 1324ء میں کیا تھا۔ یہ سفر اتنا پرشکوہ تھا کہ اس کی وجہ سے منسا موسیٰ کی شہرت نہ صرف اسلامی دنیا کے ایک بڑے حصے میں پھیل گئی بلکہ تاجروں کے ذریعے یورپ تک اس کا نام پہنچ گیا۔ اس
سفر میں منسا موسیٰ نے اس کثرت سے سونا خرچ کیا کہ مصر میں سونے کی قیمتیں کئی سال تک گری رہیں۔ اس زمانے میں غالباً مغربی افریقا کے اس علاقے میں سونا بہت زیادہ پایا جاتا تھا جہاں منسا موسیٰ کی حکومت تھی۔ حج کے اس سفر میں موسیٰ کے ہمراہ 60 ہزار فوجی اور 12
ہزار غلام تھے جنہوں نے چار چار پاونڈ سونا اٹھا رکھا تھا۔ اس کے علاوہ 80 اونٹوں پر بھی سونا لدا ہوا تھا۔ اندازہ ہے کہ موسیٰ نے 125 ٹن سونا اس سفر میں خرچ کیا۔ اس سفر کے دوران وہ جہاں سے بھی گزرا، غربا اور مساکین کی مدد کرتا رہا اور ہر جمعہ کو ایک نئی مسجد بنواتا رہا۔
یہ 14 سالہ لڑکا، مصطفی حسین، سابق عراقی صدر صدام حسین کا پوتا ھے۔ جو کہ غاصب امریکی فوج کیساتھ آخری لمحے تک لڑتا رھا۔
آپریشن میں حصہ لینے والے امریکی سپاہیوں کے مطابق جب انہوں نے آپریشن شروع کیا تو مصطفی حسین نے ان پر
فائرنگ شروع کی۔اور 400 امریکی فوجیوں کی پیش قدمی اکیلے سر روک دی۔
بچے کے سامنے والد اور چچا کی لاشیں پڑی تھیں۔ اور اس نے سنگل رائفل سے 14 امریکی میرینز ھلاک کئے۔
400 امریکی میرینز کیساتھ فائرنگ کا یہ
سلسلہ 6 گھنٹے تک جاری رھا۔ آخرکار اسکو شھید کیا۔ جب اندر داخل ھوگئے تو امریکی فوج کو یقین نہیں آرھا تھا کہ وہ تو ایک چھوٹا بچہ تھا اور اس سے بڑی حیرانگی کی بات یہ تھی کہ وہ اکیلا انکے خلاف لڑ رھا تھا۔
نیویارک ٹائمز کے آرٹیکل " مصطفی حسین"
السلام علیکم میرے بھائیوں بہنوں
محکمہ زراعت ملتان میں پرموشن پر
آج میرٹ کی دھجیاں اڑا دیں گیئں
میرے بابا جو کہ اس سنیارٹی لسٹ میں میں پہلے نمبر پر موسٹ ترین سینئر تھے جو کہ پر موشن کا حق ان کا بنتا تھا تھا لیکن کچھ کالی بھیڑیں اس محکمہ زراعت
میں ایسی تھی جنہوں نے میرے بابا کو یہ حق نہیں دیا اور اس لسٹ میں تقریبا بیس لوگ تھے ان میں سے پہلے پانچ لوگوں کو کرنا تھا
لیکن حکام بالا اور افسران کی کی ستم ظریفی دیکھئے
انہوں نے جو بندہ پہلے نمبر پر پر موجود
ہے ہر لحاظ سے ان کی پرموشن نہیں کی اور ایک ایسا بندہ جس کا نمبر اینڈ میں 19 ویں نمبر پر آتا ہے اور اس کی سروس ایک سال بیس دن بنتی ہے جو کہ کہ اس لسٹ میں رول کے مطابق آ ہی نہیں سکتا کیونکہ پرموشن کے لئے تقریبا 3سال کی سروس ہونا ضروری ہے لیکن میرے بابا
کار کا انعام، حافظ نسیم الدین
اور نیلام گھر کا پاکستان !
یہ 1985 کے اوائل کی بات ہے، ٹی وی کا صرف ایک چینل تھا اور اس پہ ہفتہ وار ایک ہی معلوماتی اور تفریحی شو 'نیلام گھر' ہوا کرتا تھا، جو ہر گھر دیکھا جانے والا ایک مقبول شو تھا۔ معلوماتی مقابلے
جیتنے والوں کو اکثر چھوٹے بڑے انعامات ملتے تھے، لیکن عوامی اشتیاق اس وقت بہت بڑھا جب پہلی بار گاڑی کے انعام کا اعلان ہوا۔ اور اس بڑے انعام کے لیے ایک مشکل شرط رکھی گئی کہ جیتنے والے کو لگاتار سات ہفتے ناقابل شکست رہنا پڑے گا۔ کئی مہینوں تک اس کڑے امتحان میں بہت
سے قابل شرکاء نے قسمت آزمائی کی، لیکن کوئی بھی دو ہفتے سے زیادہ مسلسل جیت نہیں سکا۔
حافظ نسیم الدین، ایک نابینا نوجوان تھا۔ ان کے والد کی کراچی کے علاقے کورنگی میں کتابوں کی دکان تھی ۔ بصارت سے
سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ
کی تلوار کا وزن 35 کلو تھا
یہ وہ زمانہ تھا جب لوہا استعمال ہوتا تھا ،بھٹھیاں کم حرارت
کی ہوتیں لوہار کئي دن کی محنت سے تلوار بناتے
سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ اکثر دو تلواریں استعمال فرماتے
ایک داہنے ہاتھ میں ایک بائیں ہاتھ میں ،یعنی ستر کلو
آجکل کے لوگ میں سے شائيد ننانوے فیصد وہ تلوار اٹھا نہ سکیں
مارنا تو درکنار ،پھر جنگ متواتر صبح سے شام تک ہوتی ،سارا دن
اتنا وزن اٹھانا ،اکثر صحابہ کرام رضوان کے بازو شل ہو جاتے
ایک عام مثال سمجھ لیں آجکل لوہا کوٹنے والے ہتھوڑا چھوٹا
پانچ کلو کا ہوتا ہے ،بڑا دس کلو ،جو ہتھوڑا مشین استعمال کرتی
ہے بیس کلو کا ہوتا ہے
سادہ الفاظ میں دو تھیلے آٹے کے ایک ہاتھ میں اٹھا کر اوپر لے جانے