عیسائیوں کی عقیدے کی مطابق کسی مرحوم شخصیت کو خراج عقیدت پیش کرنے اور ایصال ثواب پہچانے کیلئے کچھ دیر ’’خاموشی کا روزہ ‘‘ رکھنے سے حضرت مسیح علیہ السلام کی آمد ہوتی ہے جو ان کی اس خاموش عبادت کو قبول کرتے ہوئے
مرحوم شخص کی نجات کا بندوبست کرتے ہیں۔
بے شک یہودیت اور عیسائیت میں عبادت کا یہ طریقہ رائج تھا جس کا ثبوت ہمیں قرآن کریم سے ملتا ہے، جیسے حضرت زکریا اور حضرت مریم علیہم السلام نے خاموشی کا روزہ رکھا تھا۔ جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہے:
’’(زکریا علیہ السلام نے) عرض کیا: اے میرے رب! میرے لئے کوئی نشانی مقرر فرما، فرمایا: تمہارے لئے نشانی یہ ہے کہ تم تین دن تک لوگوں سے سوائے اشارے کے بات نہیں کر سکو گے، اور اپنے رب کو کثرت سے یاد کرو اور شام اور صبح اس کی تسبیح کرتے رہو‘‘ (41) سورة آل عمران
’’(زکریا علیہ السلام نے) عرض کیا: اے میرے رب! میرے لئے کوئی نشانی مقرر فرما، ارشاد ہوا: تمہاری نشانی یہ ہے کہ تم بالکل تندرست ہوتے ہوئے بھی تین رات (دن) لوگوں سے کلام نہ کرسکوگے، (10) سورة مريم
’’سو (اے مریمؑ) تم کھاؤ اور پیو اور (اپنے
فرزند کو دیکھ کر) آنکھیں ٹھنڈی کرو، پھر اگر تم کسی بھی آدمی کو دیکھو تو (اشارے سے) کہہ دینا کہ میں نے (خدائے) رحمان کیلئے (خاموشی کے) روزہ کی نذر مانی ہوئی ہے، سو میں آج کسی انسان سے قطعاً گفتگو نہیں کروں گی‘‘ (26) سورة مريم
اسی طرح مجوسیت
میں آگ کو خدا تصور کرتے ہوئے آگ جلا کر اسکی عبادت کی جاتی ہے۔ ان کے بقول اس طرح ان کا خدا ان پر قہر نازل نہیں کرتا۔ وہ اس کو راضی کرنے اور اس سے خیر چاہنے کیلئے آگ جلا کر اس کی عبادت کرتے ہیں۔
شریعتِ محمدی ﷺ میں پچھلی عبادت ’’خاموشی کا روزہ‘‘ کو ختم کر دیا گیا اور
مجوسیت کی آگ کی پرستش تو ہے ہی شرکیہ و کفریہ طریقہ جس کی دین اسلام میں کوئی گنجائش نہیں ہے۔
دین اسلام نے نماز، ذکر اذکار، روزہ (کھانے پینے وغیرہ سے رُکنا نہ کہ بولنے سے) وغیرہ کو عبادات کے طور پر رائج کیا۔ بے کار بولنے سے چپ رہنے کو افضل تو قرار دیا ہے
لیکن خاموش رہنے کو بذات خود عبادت قرار نہیں دیا۔
جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو کوئی اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہئے کہ اچھی بات کہے ورنہ خاموش رہے‘‘۔ (صحيح البخاري: ٦٤٧٥)
لہذا ’’ایک دو منٹ (معینہ مدت) کیلئے
خاموشی اختیار کرنا (یعنی خاموشی کا روزہ) یہودیت اور عیسائیت کا طریقۂ عبادت ہے جبکہ شمعیں جلانا (آگ کی پوجا) مجوسیوں کی عبادت ہے۔
لبرل اور اشرافیہ طبقہ کسی مرحوم کو خراج عقیدت پیش کرنے اور ایصال ثواب پہچانے کے یہ کفریہ طریقے یعنی
’’خاموشی رہنے اور شمعیں جلانے‘‘ کو پاکستان کے مسلم معاشرے کا حصہ بنانے کیلئے مدتوں سے کوشاں ہیں۔
اور اب کئی سالوں سے سرکاری سطح پر شہدائے کشمیر کو خراج عقیدت اور کشمیر سے یکجہتی کیلئے بھی ان ہی طریقے کو اپنایا جا رہے۔
امید ہے کہ بہت جلد عوام الناس میں اپنے مرحومین کو ایصال ثواب پہنچانے کا یہ بدعات رواج پکڑ لے گا کیونکہ پاکستانی عوام بدعات کو اپنانے میں بہت تیز ہیں اور اس میں بڑی آسانی ہے، نہ ہی صدقات خیرات کیلئے اپنی محنت و مشقت کی کمائی لگانی پڑتی اور نہ دل و زبان سے
کچھ سوچنا اور کہنا پڑتا ہے۔
عوام میں شمعیں جلانے کی بدعت تو پہلے سے ہی ہے اور اب خاموش رہنے کی بدعت بھی رواج پکڑ لے گی۔
للہ! اس عوام پر رحم کیجئے!
اس کی اکثریت ایسے ہی شرک و بدعات میں ڈوبی ہوئی ہے اور فرقوں میں بٹی ہوئی ہے، اب مزید کہاں تک اس کا بیڑا غرق کریں گے
• • •
Missing some Tweet in this thread? You can try to
force a refresh
عباسیہ حکومت کے آخری دور میں ایک وقت وہ آیا جب مسلمانوں کے دارالخلافہ بغداد ہر دوسرے دن کسی نہ کسی دینی مسئلہ پر *مناظرہ* ہونے لگا
جلد ہی وہ وقت بھی آ گیا جب ایک ساتھ ایک ہی دن بغداد کے الگ الگ چوراہوں پر الگ الگ *مناظرے* ہو رہے تھے.
پہلا *مناظرہ* اس بات پر تھا کہ ایک وقت میں سوئ کی نوک پر کتنے فرشتے بیٹھ سکتے ہیں؟
دوسرا *مناظرہ* اس اہم موضوع پر تھا کہ کوا حلال ہے یا حرام؟
تیسرے *مناظرے* میں یہ تکرار چل رہی تھی کہ مسواک کا شرعی سائز کتنا ہونا
چاہیے؟
ایک گروہ کا کہنا تھا کہ ایک بالشت سے کم نہیں ہونا چاہیے اور دوسرے گروہ کا یہ ماننا تھا کہ ایک بالشت سے چھوٹی مسواک بھی جائز ھے
ابھی یہ ڈیبیٹ( *مناظرہ*) چل ہی رہی تھی کہ ہلاکو خان کی قیادت میں تاتاری
سائنسدان عرصے سے جانتے ہیں کہ نیند کے دوران دماغی سرگرمیاں کافی مختلف ہوتی ہیں مگر 2019 میں پہلی بار یہ دریافت کیا گیا کہ انسان جب سوتے ہیں تو عصبی خلیات خاموش ہوتے ہی خون سے باہر بہہ جاتا ہے اور ایک پانی جیسے سیال کا بہاﺅ شروع ہوجاتا ہے جو
دماغ کی صفائی کرتا ہے۔
بوسٹن یونیورسٹی کی تحقیق میں پہلی بار سائنسدان نیند کے دوران دماغ میں ہونے والے اس عمل کی تصاویر لینے میں کامیاب ہوئے اور انہیں توقع ہے کہ اس سے دماغی امراض کو سمجھنے میں مدد مل
سکے گی۔
کیئر برو اساپئنل فلوئیڈ (سی ایس ایف) نامی یہ سیال ریڑھ کی ہڈی میں پایا جاتا ہے اور اس کے بارے میں مانا جاتا ہے کہ یہ دماغ سے زہریلے مواد کو صاف کرتا ہے جو ڈیمینشیا (بھولنے کی بیماری) کا باعث
ایک چڑیا اور چڑا شاخ پر بیٹھے تھے
دُور سے ایک "انسان" آتا دیکھائی دیا:
چڑیا نے چڑے سے کہا کہ اُڑ جاتے ہیں یہ ھمیں مار دے گا۔
چڑا کہنے لگا کہ بھلی لوک دیکھو ذرا اسکی دستار اور پہناوا، شکل سے شرافت ٹپک رھی ھے یہ ھمیں کیوں مارے گا۔۔۔
جب وہ شخص قریب پہنچا تو تیر کمان نکالے اور نشانہ لے کر چڑے کو مار دیا، چڑیا فریاد لے کر بادشاہ وقت کے پاس حاضر ھو گئی۔ شکاری کو طلب کیا گیا۔ شکاری نے اپنا جرم قبول کر لیا۔۔۔
بادشاہ نے چڑی کو سزا کا اختیار دیا کہ وہ
جو چایے اس شخص کو سزا دے۔ چڑی نے کہا کہ اس کو بول دیا جاۓ کہ
اگر یہ شکاری ھے تو لباس شکاریوں والا پہنے۔۔۔
شرافت کا لبادہ اتار دے۔۔😞😢😢
یہ سبق آموز حکایت نظر سے گزری تو یاد
عیسائی کے سوالات اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی جوابات
ایک دفعہ ایک عیسائی نے چند سوالات لکھ کر حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ کو ارسال کیے آپ رضی اللہ عنہ کو کہا کہ ان سوالات کے جوابات درکار ہیں عیسائی کے سوالات یہ تھے –
1 – ایک ماں کے شکم سے دو بچے پیدا
ہوے اور دونوں ایک ہی وقت ایک ہی دن میں پیدا ہوے پھر ایک ہی روز دونوں کا انتقال ہوا ایک کی عمر سو سال بڑی دوسرے کی عمر سو سال چھوٹی ہے یہ دونوں کون تھے اور ایسا کیونکر ہو سکتا ہے ؟
2 – وہ کونسی زمین ہے جہاں ابتداے
پیدائش سے قیامت تک صرف ایک مرتبہ سورج نکلا اور نہ ہی پہلے کبھی نکلا اور نہ آئندہ کبھی نکلے گا ؟
3 – وہ کونسی قبر ہے جس کا مدفون بھی زندہ تھا اور قبر بھی زندہ تھی اور قبر اپنے مدفون کو سیر کراتی رہی پھر مدفون قبر