قانون کی کلاس میں استاد نے ایک طالب کو کھڑا کر کے اُس کا نام پوچھا اور بغیر کسی وجہ کے اُسے کلاس سے نکل جانے کا کہہ دیا۔ طالبعلم نے وجہ جاننے اور اپنے دفاع میں کئی دلیلیں دینے کی کوشش کی مگر اُستاد نے ایک بھی نہ سنی اور اپنے فیصلے پر مُصِّر رہا۔ طالبعلم شکستہ دلی
سے اورغمزدہ باہر تو نکل گیا مگر وہ اپنے ساتھ ہونے والی زیادتی کو ظلم جیسا سمجھ رہا تھا۔ حیرت باقی طلباء پر تھی جو سر جُھکائے اور خاموش بیٹھے تھے۔
لیکچر دینے کا آغاز کرتے ہوئے استاد نے طلباء سے پوچھا: قانون کیوں وضع کیئے
جاتے ہیں؟ ایک طالب علم نے کھڑے ہوکر کہا: لوگوں کے رویوں پر قابو رکھنے کیلئے۔
دوسرے طالب علم نے کہا: معاشرے پر لاگو کرنے کیلئے۔
تیسرے نے کہا؛ تاکہ کوئی طاقتور کمزور پر زیادتی نہ کر سکے۔
استاد نے کئی ایک جوابات سننے کے بعد
کہا: یہ سب جواباتُ ٹھیک تو ہیں مگر کافی نہیں ہیں۔
ایک طالب علم نے کھڑے ہو کر کہا: تاکہ عدل و انصاف قائم کیا جا سکے۔
استاد نے کہا: جی، بالکل یہی جواب ہے جو میں سننا چاہتا تھا۔ تاکہ عدل کو غالب کیا جا سکے۔
استاد نے پھر پوچھا: لیکن عدل اور انصاف
کا کیا فائدہ ہوتا ہے؟
ایک طالب علم نے جواب دیا: تاکہ لوگوں کے حقوق کی حفاظت کی جا سکے اور کوئی کسی پر ظلم نہ کر سکے۔
اس بار استاد نے ایک توقف کے بعد کہا: اچھا، مجھ سے ڈرے بغیر اور بلا جھجھک میری ایک بات کا جواب دو، کیا میں نے
تمہارے ساتھی طالبعلم کو کلاس روم سے نکال کر کوئی ظلم یا زیادتی کی ہے؟
سارے طلباء نے بیک زبان جواب دیا؛ جی ہاں سر، آپ نے زیادتی کی ہے۔
اس بار استاد نے غصے سے اونچا بولتے ہوئے کہا: ٹھیک ہے کہ ظلم ہوا ہے۔ پھر تم سب
خاموش کیوں بیٹھے رہے؟ کیا فائدہ ایسے قوانین کا جن کے نفاذ کیلئے کسی کے اندر ھمت اور جراءت ہی نہ ہو؟
جب تمہارے ساتھی طالبعلم کے ساتھ زیادتی ہو رہی تھی اور تم اس پر خاموش بیٹھے تھے، اس کا بس ایک ہی مطلب تھا کہ
تم اپنی انسانیت کھوئے بیٹھے تھے۔ اور یاد رکھو جب انسانیت گرتی ہے تو اس کا کوئی بھی نعم البدل نہیں ہوا کرتا۔
اس کے ساتھ ہی استاد نے کمرے سے باہر کھڑے ہوئے
طالب علم کو واپس اندر بلایا، سب کے سامنے اس سے اپنی زیادتی کی معافی مانگی، اور باقی طلباء کی طرف اپنا رخ
کرتے ہوئے کہا: یہی تمہارا آج کا سبق ہے۔ اور جاؤ، جا کر معاشرے میں ایسی نا انصافیاں تلاش کرو اور ان کی اصلاح کیلئے قانون نافذ کرانے کے طریقے سوچو۔
اُردو تحریریں پڑھنے کے لئے دوسرا اکائونٹ فالو کریں 👈 @Pyara_PAK
• • •
Missing some Tweet in this thread? You can try to
force a refresh
ایک شخص نے اپنی مسجد کے پیش امام سے کہا: مولانا میں کل سے مسجد نہیں آؤں گا؟
پیش امام صاحب نے پوچھا: کیا میں سبب جان سکتا ہوں؟
اس نے جواب دیا: ہاں کیوں نہیں! در اصل وجہ یہ ہے کہ جب بھی میں مسجد آتا ہوں تو دیکھتا ہوں کہ
کوئی فون پہ بات کر رہا ہے تو کوئی دعا پڑھتے وقت بھی اپنے میسجز دیکھ رہا ہوتا ہے، کہیں کونے میں غیبت ہو رہی ہوتی ہے تو کوئی محلے کی خبروں پر تبصرہ کر رہا ہوتا ہے وغیرہ وغیرہ
پیش امام صاحب نے وجہ سننے کے بعد کہا: اگر ہو سکے تو مسجد
نہ آنے کا اپنا آخری فیصلہ کرنے سے پہلے ایک عمل کر لیجیے۔
اس نے کہا: بالکل میں تیار ہوں۔
مولانا مسجد سے متصل اپنے حجرے میں گئے اور ایک بھرا ہوا گلاس پانی کا لے کر آئے اور اس شخص سے کہا یہ گلاس ہاتھ میں لیں اور مسجد کے
اس درخت کے کئی نام ہیں جن میں شجر یہو۔۔۔د گونگا درخت یا یہو۔۔۔۔د کا پاسباں درخت عام ہیں
غر۔۔۔۔قد " ایک جنگلی درخت کا نام ہے جو خاردار جھاڑی کی صورت میں ہوتا ہے، مدینہ کا قبرستان جنت البقیع کا اصل نام بقیع الغر۔۔۔۔قد اسی
لیے ہے کہ جس جگہ یہ قبرستان ہے پہلے وہ غر۔۔۔۔قد کی جھاڑیوں کا خطہ تھا۔ جو مدینہ کے اطراف، صحراوں میں پایا جاتا تھا۔ نبی کریم ﷺ
نے اس میدان کو غرقد سے پاک کروادیا تھا۔۔۔۔!!
ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا قیامت قائم نہ ہوگی یہاں تک کہ مسلمان یہو۔۔۔۔دیوں سے جنگ کریں اور مسلمان انہیں قتل کر دیں یہاں تک کہ یہودی پتھر یا درخت کے
عجیب شام تھی ۔مجھے سمجھ نہیں آرہا تھا میں کیا کروں۔۔شادی کی پہلی رات ہی اس نے مجھے کہا تھا کہ مجھے ہاتھ مت لگانا میں کسی اور سے محبت کرتی ہوں ۔تم کچھ بھی کر لو میری محبت نہ حاصل کر پاو گے۔اس کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ میں اٹھا اور وضو کیا اور نماز کے لئے چلا
گیا ۔اور اپنے اللہ سے ذکر کیا ۔یہ کیسا امتحاں ہے ۔مجھے ڈر تھا ،اگر یہ صبح گھر گئی اور واپس نہ آئی تو میری عزت کا کیا ہو گیا ،یہ گھر میں یہ ہی نہ کہہ دے کہ یہ نامرد ہے ۔
اک بار تو سوچا کہ زبردستی کرتا ہوں ،گناہ نہیں میرے نکاح میں ہےمگر دل نہیں مانا
میں نے اس سے بات کرنا چاہی مگر دل نہیں مانا میرا کہ میں اس کی منت کروں میں سو گیا۔اگر اسے کسی اور سے محبت تھی تو نکاح کے لئے ہاں ہی نہ کرتی یا مجھے ہی بتا دیتی میں اس سے رشتہ ختم کر دیتا۔میری زندگی برباد تو نہ ہوتی ۔۔میں
کسی باغ میں ایک کبوتر نے اپنا آشیانہ بنایا ہوا تھا۔ جس میں وہ دن بھر اپنے بچوں کو دانہ چگاتا۔ بچوں کے بال و پر نکل رہے تھے۔ ایک دن کبوتر دانہ چونچ میں دبائے باہر سے آیا تو سارے بچوں نے انہیں تشویش سے بتایا کہ اب ہمارے آشیانے کی بربادی کا
وقت آ گیا ہے۔ آج باغ کا مالک اپنے بیٹے سے کہہ رہا تھا۔
"پھل توڑنے کا زمانہ آ گیا ہے۔ کل میں اپنے دوستوں کو ساتھ لاؤں گا اور ان سے پھل توڑنے کا کام لوں گا۔ خود میں اپنے بازو کی خرابی کی وجہ سے یہ کام نہ کر سکوں گا۔"
کبوتر نے اپنے بچوں کو تسلی دیتے ہوئے کہا۔ " باغ کا مالک کل اپنے دوستوں کے ساتھ نہیں آئے گا۔ فکر کرنے کی کوئی بات نہیں۔"
اور حقیقتاً ایسا ہی ہوا۔ باغ کا مالک دوسرے روز اپنے دوستوں کے ہمراہ پھل
سلیمان بن عبدالملک جو بنی اُمیہ کا بادشاہ تھا،ایک مرتبہ شیخ الحدیث ابو حازمؒ سے دریافت کیا:" اس کی کیا وجہ ہے کہ ہم لوگ دنیا کو پسند اور آخرت کو ناپسند کرتے ہیں؟"
آپ نے برجستہ جواب دیا:
" تم لوگوں نے دنیا
کو آباد کیا اور آخرت کو برباد کیا اس لیے تم لوگ آبادی سے ویرانے کی طرف منتقل ہونے سے گھبراتے ہو۔"
پھر سلیمان نے کہا:
"کاش ہم کو معلوم ہو جاتا کہ آخرت میں ہمارا کیا حال ہے؟"
آپ نے فرمایا:" قرآن پڑھ لو تمہیں معلوم ہو جائے گا۔"
سلیمان نے پوچھا:" کون سی آیت پڑھوں؟"
آپ نے فرمایا:"(ان الابرار لفی نعیم و ان الفجار لفی جحیم)"نیکو کار یقیناً جنت میں ہوں گے اور بدکار یقیناً جہنم میں ہوں گے۔"