کسی باغ میں ایک کبوتر نے اپنا آشیانہ بنایا ہوا تھا۔ جس میں وہ دن بھر اپنے بچوں کو دانہ چگاتا۔ بچوں کے بال و پر نکل رہے تھے۔ ایک دن کبوتر دانہ چونچ میں دبائے باہر سے آیا تو سارے بچوں نے انہیں تشویش سے بتایا کہ اب ہمارے آشیانے کی بربادی کا
وقت آ گیا ہے۔ آج باغ کا مالک اپنے بیٹے سے کہہ رہا تھا۔
"پھل توڑنے کا زمانہ آ گیا ہے۔ کل میں اپنے دوستوں کو ساتھ لاؤں گا اور ان سے پھل توڑنے کا کام لوں گا۔ خود میں اپنے بازو کی خرابی کی وجہ سے یہ کام نہ کر سکوں گا۔"
کبوتر نے اپنے بچوں کو تسلی دیتے ہوئے کہا۔ " باغ کا مالک کل اپنے دوستوں کے ساتھ نہیں آئے گا۔ فکر کرنے کی کوئی بات نہیں۔"
اور حقیقتاً ایسا ہی ہوا۔ باغ کا مالک دوسرے روز اپنے دوستوں کے ہمراہ پھل
توڑنے نہ آیا۔ کئی روز بعد باغ کا مالک اپنے بیٹے کے ساتھ باغ میں آیا اور کہنے لگا۔
"میں اس دن پھل توڑنے نہ آ سکا کیونکہ میرے دوست وعدے کے باوجود نہ آئے لیکن میرے دوبارہ کہنے پر انہوں نے پکا وعدہ کیا ہے کہ کل وہ ضرور آئیں گے اور پھل
توڑنے باغ میں جائیں گے۔"
کبوتر نے یہ بات بچوں کی زبانی سن کر کہا۔ "گھبراؤ نہیں، باغ کا مالک اب بھی پھل توڑنے نہیں آئے گا۔ یہ کل بھی گزر جائے گی۔"
اسی طرح دوسرا روز بھی گزر گیا اور باغ کا مالک اور اس کے دوست باغ نہ آئے۔ آخر
ایک روز باغ کا مالک اپنے بیٹے کے ساتھ پھر باغ میں آیا اور بولا۔
" میرے دوست تو بس نام کے ہمدرد ہیں۔ ہر بار وعدہ کرکے بھی ٹال مٹول کرتے ہیں اور نہیں آتے۔ اب میں نے فیصلہ کیا ہے کہ ان پر بھروسہ کرنے کی بجائے اپنا کام میں خود
کروں گا اور کل باغ سے پھل توڑوں گا۔"
کبوتر نے یہ بات سن کر پریشانی سے کہا۔" بچو! اب ہمیں اپنا ٹھکانہ کہیں اور تلاش کرنا چاہیے۔ باغ کا مالک کل یہاں ضرور آئے گا کیونکہ اس نے دوسروں پر بھروسہ کرنا چھوڑ دیا ہے۔"حاصل کلام:
دوسروں پر بھروسہ ہمیشہ نقصان کا باعث بنتا ہے۔
• • •
Missing some Tweet in this thread? You can try to
force a refresh
عجیب شام تھی ۔مجھے سمجھ نہیں آرہا تھا میں کیا کروں۔۔شادی کی پہلی رات ہی اس نے مجھے کہا تھا کہ مجھے ہاتھ مت لگانا میں کسی اور سے محبت کرتی ہوں ۔تم کچھ بھی کر لو میری محبت نہ حاصل کر پاو گے۔اس کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ میں اٹھا اور وضو کیا اور نماز کے لئے چلا
گیا ۔اور اپنے اللہ سے ذکر کیا ۔یہ کیسا امتحاں ہے ۔مجھے ڈر تھا ،اگر یہ صبح گھر گئی اور واپس نہ آئی تو میری عزت کا کیا ہو گیا ،یہ گھر میں یہ ہی نہ کہہ دے کہ یہ نامرد ہے ۔
اک بار تو سوچا کہ زبردستی کرتا ہوں ،گناہ نہیں میرے نکاح میں ہےمگر دل نہیں مانا
میں نے اس سے بات کرنا چاہی مگر دل نہیں مانا میرا کہ میں اس کی منت کروں میں سو گیا۔اگر اسے کسی اور سے محبت تھی تو نکاح کے لئے ہاں ہی نہ کرتی یا مجھے ہی بتا دیتی میں اس سے رشتہ ختم کر دیتا۔میری زندگی برباد تو نہ ہوتی ۔۔میں
سلیمان بن عبدالملک جو بنی اُمیہ کا بادشاہ تھا،ایک مرتبہ شیخ الحدیث ابو حازمؒ سے دریافت کیا:" اس کی کیا وجہ ہے کہ ہم لوگ دنیا کو پسند اور آخرت کو ناپسند کرتے ہیں؟"
آپ نے برجستہ جواب دیا:
" تم لوگوں نے دنیا
کو آباد کیا اور آخرت کو برباد کیا اس لیے تم لوگ آبادی سے ویرانے کی طرف منتقل ہونے سے گھبراتے ہو۔"
پھر سلیمان نے کہا:
"کاش ہم کو معلوم ہو جاتا کہ آخرت میں ہمارا کیا حال ہے؟"
آپ نے فرمایا:" قرآن پڑھ لو تمہیں معلوم ہو جائے گا۔"
سلیمان نے پوچھا:" کون سی آیت پڑھوں؟"
آپ نے فرمایا:"(ان الابرار لفی نعیم و ان الفجار لفی جحیم)"نیکو کار یقیناً جنت میں ہوں گے اور بدکار یقیناً جہنم میں ہوں گے۔"
سوال: خون دینے کا سب سے بڑا نقصان کیا ہے؟
جوآب: خون دینے کا نقصان کوئی نہیں البتہ
بلکہ بڑا فائدہ ہے کہ ریگولر خون دینے والے
فرد کو دل کے دورے اور کینسر کے چانسس
باقی افراد کے مقابلے میں 95% کم ہوتے
ہیں۔۔یہ
ریسرچ امریکن میڈیکل ایسوسی ایشن کی ہے
سوال: کسی کو خون کا عطیہ دینے کے بعد کتنے دنوں میں خون بن جاتا ہے؟
جواب: خون عطیہ کرنے کے تین دن میں کمی پوری ہو جاتی ہے جبکہ 56 دنوں میں
خون کے مکمل خلیات بن کر تازہ خون رگوں میں دوڑنے لگتا ہے۔۔۔۔
سوال:پرانا خون ذیادہ طاقتور ہوتا ہے یا نیا بننے والا؟
جواب: نیا بننے والا خون پرانے کے بنسبت
ذیادہ فریش اور طاقتور ہوتا ہے۔۔
عیسائیوں کی عقیدے کی مطابق کسی مرحوم شخصیت کو خراج عقیدت پیش کرنے اور ایصال ثواب پہچانے کیلئے کچھ دیر ’’خاموشی کا روزہ ‘‘ رکھنے سے حضرت مسیح علیہ السلام کی آمد ہوتی ہے جو ان کی اس خاموش عبادت کو قبول کرتے ہوئے
مرحوم شخص کی نجات کا بندوبست کرتے ہیں۔
بے شک یہودیت اور عیسائیت میں عبادت کا یہ طریقہ رائج تھا جس کا ثبوت ہمیں قرآن کریم سے ملتا ہے، جیسے حضرت زکریا اور حضرت مریم علیہم السلام نے خاموشی کا روزہ رکھا تھا۔ جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہے:
’’(زکریا علیہ السلام نے) عرض کیا: اے میرے رب! میرے لئے کوئی نشانی مقرر فرما، فرمایا: تمہارے لئے نشانی یہ ہے کہ تم تین دن تک لوگوں سے سوائے اشارے کے بات نہیں کر سکو گے، اور اپنے رب کو کثرت سے یاد کرو اور شام اور صبح اس کی تسبیح کرتے رہو‘‘ (41) سورة آل عمران
عباسیہ حکومت کے آخری دور میں ایک وقت وہ آیا جب مسلمانوں کے دارالخلافہ بغداد ہر دوسرے دن کسی نہ کسی دینی مسئلہ پر *مناظرہ* ہونے لگا
جلد ہی وہ وقت بھی آ گیا جب ایک ساتھ ایک ہی دن بغداد کے الگ الگ چوراہوں پر الگ الگ *مناظرے* ہو رہے تھے.
پہلا *مناظرہ* اس بات پر تھا کہ ایک وقت میں سوئ کی نوک پر کتنے فرشتے بیٹھ سکتے ہیں؟
دوسرا *مناظرہ* اس اہم موضوع پر تھا کہ کوا حلال ہے یا حرام؟
تیسرے *مناظرے* میں یہ تکرار چل رہی تھی کہ مسواک کا شرعی سائز کتنا ہونا
چاہیے؟
ایک گروہ کا کہنا تھا کہ ایک بالشت سے کم نہیں ہونا چاہیے اور دوسرے گروہ کا یہ ماننا تھا کہ ایک بالشت سے چھوٹی مسواک بھی جائز ھے
ابھی یہ ڈیبیٹ( *مناظرہ*) چل ہی رہی تھی کہ ہلاکو خان کی قیادت میں تاتاری