4 years ago . I was in ISI torture cell on this day. It was my 🎂 Birthday. There was rough estimate of days and dates as we were kept in solitary with no windows or source of natural light. On 21 (it was just an estimate) , it was just another day and same torture routine.
Same “interrogation”. I could not sleep. I was thinking of my 3 years old son, wife and parents. Tortures does something with your mind. I was unable to recall face of my son or family members. There were just names . Which was quite painful.
Here I am after 4 years. I survived and I will fight till last breathe to ensure that this impunity ends. The violators of constitution and perpetrators of crimes against humanity will be put on trial. That may not happen tomorrow but that day is not too far.
Let me put it on record once again.
I was abducted by Pakistan Army. I was kept in a torture cell maintained by Military Intelligence in Lahore. I was kept in Islamabad in a torture cell maintained by ISI counter terrorism.
My crime was writing and making fun of the power Army and its allies. That did not stop. Rather, that movement got a face. It was an anonymous blog and we actively maintained zero digital foot print. Now it is all open.
I believe it has made me more determined and powerful.
I don’t have to hide anymore. I don’t have to conceal my identity.
Happy Birthday to me and all those victims of Pakistan Army who spent and still spending their Birthdays in torture cells of Pakistan Army.
• • •
Missing some Tweet in this thread? You can try to
force a refresh
طارق فواد ملک کا پرویز مشرف تا قمر باجوہ ہر جرنیل کے گھر آنا جانا ہے۔ اسکا نیب سے مطلوب ہونا معنی نہیں رکھتاز اسکے باوجود پاکستان آتا جاتا رہا۔ سب جرنیلوں کو ملتا رہا۔ براڈ شیٹ ڈیل بھی کروائی۔
طارق فواد ملک کا تعلق غضنفر صادق علی سے تھا۔ دونوں کی کمپنی جی ایس اے سے پہلا لیٹرنیب
کو لکھا گیا تھا۔ بعد میں انہوں نے براڈ شیٹ بنائی۔ غضنفر طارق علی بدنام زمانہ بی سی سی آئی کا حصہ رہ چکا تھا۔ بی سی سی آئی دنیا کا ساتواں بڑا پرائویٹ بینک تھا ۔ مگر منی لانڈرنگ اور ٹیرر فنانسنگ کی وجہ سے بینک کو بند کر دیا گیا۔
غضنفر صادق علی ٹیکسٹائل سے لے کر مالیاتی کمپنیاں تک چلاتا رہا اور سب دیوالیہ کیں۔ کمپنیاں امریکہ ، پانامہ، برطانیہ اور دیگر ٹیکس ہیونز میں تھیں۔ اسکا عالمی منشیات اور سونے کی سمگلنگ نیٹورک میں نام آیا ۔ غضنفر صادق علی پاکستانی فوج کے عالمی منی لانڈرنگ نیٹورک کا حصہ تھا۔
تھریڈ : آپ نے یہ نہیں بتایا کہ کانگو میں پاکستانی فوج عرصہ دراز سے ہے اور جرائم اور سمگلنگ میں ہمیشہ سے ملوث رہی ہے اور جنرل قمر جاوید باجوہ نے بھی دو ہزار سات میں کانگو میں بطور برگیڈ کمانڈر کام کیا ہے۔ طارق فواد ملک نا صرف لیفٹننٹ جنرل نعیم اکبر کا داماد ہے بلکہ
فوج کے عالمی سونے اور دیگر سمگلنگ نیٹورک کا ایک بڑا چہرہ ہے۔ جس کو اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل نے نامزد کیا۔
نا صرف یہ بلکہ پاکستانی فوج کے جنرل باجوہ کی کانگو تعیناتی کے دوران اقوام متحدہ اور تحقیقاتی اداروں نے پاکستانی فوج کےسونےاوراسلحہ کی سمگلنگ ملوث ہونےپر تحقیقات کیں
میں بذات خود بطور ریسرچر بہت عرصہ سے فوج کے عالمی سمگلنگ نیٹورکس پر کام کر رہا ہوں۔ پاکستانی فوج کی افسران کے اسمگلروں سے روابط تو ایک عالمی طور پر مستند سچ ہے۔ اسی نیٹورک میں ہمیشہ سے طارق فواد ملک کا نام آیا ہے ، جس کی وجہ سے میں اس نام سے واقف ہوں۔
نیازی کا والدہ انتقال کینسر کا علاج نا ہونے کی وجہ سے نہیں ہوا تھا۔ سالوں کینسر سے لڑائی کے بعد ہوا تھا۔
اصل فراڈ یہ ہےکہ ماں کینسر سے مر رہی تھی تو یہ لندن میموں کے ساتھ عیاشی کر رہا تھا۔ تاریخ کہتی ہے فون تک پر ماں سے نہیں بات کرتا تھا۔ماں نے مرتے دم فون کیا کہتا کاؤنٹی سیزن ہے
ماں مر گئی۔ جنازہ ہو گیا نہیں آیا۔ میمیں عیاشی اور کرکٹ جاری رکھی۔ پھر واپس آ کر اسی ماں کے نام پر دھندے کا اڈہ کھولا کہ پاکستان میں کوئی کینسر ہسپتال نہیں ہے۔ خاندان کو ارب پتی کر لیا۔
جبکہ اس دور میں بھی اور آج بھی پاکستان میں کینسر کے ہسپتال ہیں۔
بلوچستان میں Center for Nuclear Medicine and Radio Therapy
گلگت بلتستان میں
Gilgit institute of Nuclear Medicine oncology
اسلام آباد میں
Nuclear Medicin, Oncology & Radiotherapy institute
دو پرائویٹ ہیں
شفا انٹرنیشنل اور قائد اعظم ہسپتال
کیا آپ نے یہی دعا اسامہ بن لادن، ملا عمر ، یزید، ممتاز قاتلی، سو بچوں کے قاتل جاوید اقبال، اور باقی نفرت کے پرچارکوں کے لئے بھی کی تھی؟
جو شخص کئی خاندان اجاڑنے والا ہو، بلاسفیمی پر قتل کو مین سٹریم کرنے والا ہو اسکی مغفرت کی سفارش انسانیت سے دغا ہے۔ اس نے جو کیا وہ خود بھگتے۔
اسکا اور خدا کا معاملہ جو بھی ہو ہم نے اسکو زندہ کو معاف کیا نا مردے کو۔ نا کریں گے۔ کیونکہ اگر ریاست اسکو نہیں پکڑ سکی تو اب اسکا وقت حساب ہے نا کہ وہاں بھی انسانیت کے دشمن کی سفارشیں کی جائیں
یہاں بات سخت دل کی نہیں ہے۔ انسانیت کو تقسیم کرنے والا، نفرت کے پرچارک، اور بلاسفیمی پر قتل کی سیاست کرنے والا انسانیت کا مجرم ہے۔ ہم کیسے مجرم کو معاف کر سکتے ہیں؟